کامیابی کا راز

660

ناصر محمود بیگ
وہ جولائی کی ایک گرم دوپہر تھی۔ یونیورسٹی کی بس میں سوار تمام مسافر اپنے اپنے شعبوں کے ماہر اور اعلٰی دماغ کے مالک تھے مگر گرمی سے سب کا برا حال تھا۔ کوئی حکومت کو کوس رہا تھا تو کسی کی زبان پر لوگوں کے شکوے اور شکایتیںجاری تھیں۔ ہاں اگر گاڑی میں کوئی پر سکون نظر آرہا تھا تو وہ تھا صرف بس کا ڈرائیور۔ جو بہت خوشی اور اطمینان سے گاڑی چلا رہا تھا۔ بس میں سوار ایک ماہر نفسیات ڈینیل گولمین یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ ان مشاہدات کی بنیاد پراس نے دنیا کو ذہانت کی ایک نئی قسم ’’جذباتی ذہانت‘‘ سے متعارف کروایا۔
ڈینیل گولمین نے 1995؁ میں یہ تصور پیش کیا کہ انسان کی کامیابی کے لیے دماغی ذہانت سے زیادہ جذباتی ذہانت اہم ہوتی ہے۔ اس نے یہ آئیڈیا اس بس ڈرائیور سے لیا جو بس میں سوار دیگر اسکالرز اور پروفیسرز جتنا ذہین تو نہ تھا مگر اس کا اپنے جذبات پر کنٹرول سب سے اچھا تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں دو دعوے کیے۔ پہلا یہ کہ کسی شخص کی کامیابی میں اس کے’’IQ‘‘ (دماغی ذہانت) کا کردار صرف پندرہ سے بیس فیصد جب کہ اس کے ’’EQ‘‘ (جذباتی ذہانت) کا کردار اسی سے پچاسی فیصد ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ دماغی ذہانت کے برعکس جذباتی ذہانت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ڈینیل گولمین نے جذباتی ذہانت کو بہتر بنانے کے چار طریقے یا مراحل بھی بتائے۔
1۔ اپنی ذات سے آگاہی یا خود شناسی: حضرت علی ؓ کا قول ہے ’’جس نے اپنے آپ کو پہچانا گویا اس نے اپنے رب کو پہچانا‘‘۔ اپنے جذبات کے دریا کو سمت سمت میں بہانے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی خوبیوں اور خامیوںکا درست علم ہونا چاہیے۔ آپ کو کس بات پر غصہ آتا ہے، کونسی چیز آپ کو خوش کرتی ہے، کس بات پر آپ افسردہ ہوتے ہو۔ کن کن موقعوں پر آپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور کہا ں کہاں آپ کو کامیابی ملی۔ اپنے آپ کو جاننے کے لیے ان سوالوں کے جوابات تلاش کیجیے اور اپنی ڈائری پر یہ معلومات لکھتے جائیں۔ پھر ایک وقت آئے گا جب آپ اپنی ذات کو کافی حد تک جان چکے ہوں گے، یہ پہلا مرحلہ خود شناسی کہلاتا ہے۔
2۔ اپنی ذات کی تنظیم کی صلاحیت: انسان کو اپنی ذات کا ادراک ہو جائے، اپنی خامیوں اور خوبیوںکا علم ہو جائے تو یہ اس کی بہت بڑی خوش قسمتی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جب کسی شخص پر اللہ کا کرم ہوتا ہے تو اس کو اپنے عیب نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جس کو اپنی برائیاں نظر آنا شروع ہو جائیںپھر وہ اپنی اصلاح کی بھی کوشش کرتا ہے۔ اگر ہم دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ میں بدلائو لانا ہوگا۔ جو ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں، دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کریں۔ کبھی کسی دوسرے کے محتاج نہ بنیںبلکہ اپنی خداداد صلاحیتوں پر بھروسہ کریں۔ زندگی کے تجربات سے ہمیشہ کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔ کبھی کسی بات کو حتمی نہ سمجھیں، ہمیشہ تبدیلی کی گنجائش رکھیں۔ دن یا رات میں ایک وقت ضرور رکھیں جو خالص آپ کی اپنی ذات کے لیے ہو، جس میں اپنے آپ سے گفتگو کریں، اپنے آپ سے سوال جواب کریں اور اپنے اچھے کاموں کو یاد کریں اور برے کاموں پر اپنا محاسبہ کریں۔ اپنے احساسات، جذبات، خواہشات اور عادات کو ایک بڑے مقصد کے لیے ایک خاص سمت میں لگا دینا ذات کی تنظیم کہلاتا ہے۔ اس کو سادہ انداز میں سمجھنے کے لیے واصف علی واصف ؒ کا ایک قول ملاحظہ فرمائیں: ’’غصہ بڑے انسان کو بنا جاتا ہے اور چھوٹے انسان کو کھا جاتا ہے‘‘۔ یعنی جذبات کو دبانے سے یہ لاوے کی شکل اختیارکر لیتے ہیں اور پھرکسی اور طرف نکل کر نقصان کرتے ہیں جب کہ ان کو درست سمت میں لگانے سے انسان کے وقار میں اضافہ ہوتاہے۔
3۔ دوسروں سے ہم دلی اور دل جوئی کرنا: اپنی ذات کی تنظیم کے بعد پھرتیسرا مرحلہ آتا ہے دوسروں کی دل جوئی کا۔ ڈینیل گولمین اس بارے کہتا ہے: ’’سچی ہمدردی یہ نہیں کہ آپ کو دوسروں کے درد کا احساس ہو بلکہ اس درد کو دور کرنے کی تدبیر بھی کیجیے‘‘۔ ہم دلی اور دل جوئی سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسرے کی جگہ رکھ کر سوچے۔ دوسروں کے درد کو محسوس کرنے کی کوشش کرے۔ یہ ہے تو بہت مشکل کام مگرایسا سوچنے سے ہمارے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہو سکتے ہیںکیوں کہ ہماری زیادہ تر ترجیحات اور توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں۔ ہمارے لیے کیا موزوں ہے، ہمارے جذبات کیا کہہ رہے ہیں لیکن اگر ہم اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے احساسات اور جذبات کا بھی خیال رکھنا شروع کر دیں تو یہ خوبی ہمیں دوسروں سے ممتاز کر دے گی۔ جذباتی طور پر ذہین لوگوں میں یہ صفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی کامیاب اور نامور لوگ گزرے ہیں ان سب میں یہ عادت مشترک تھی کہ وہ اپنے سے جڑے لوگوں کے جذبات کو سمجھتے تھے اوران کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔
4۔ لوگوں سے بہتر تعلقات قائم کرنا: جذباتی ذہانت حاصل کرنے کے لیے اپنے جذبات کو سمجھنا، اپنے جذبات کو صحیح سمت میں لگانا اور پھر دوسروں کے جذبات سمجھنا اور سمجھ کر ان سے بہتر تعلقات استوار کرنا بھی اہم مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔ جذباتی طور پر ذہین لوگ دوسروں سے بات چیت کرنا، اٹھنا بیٹھنا اور اچھے تعلق قائم کرنا بھی جانتے ہیں۔ اسے’’سماجی ذہانت‘‘ کہا جاتا ہے۔ جس طرح دولت اور شہرت کمائی جاتی ہے اس طرح ہمیں عزت بھی کمانی پڑتی ہے۔ اگر آپ دوسروں سے اچھا تعلق قائم کرنا نہیں جانتے تو پھر آ پ کبھی بھی اچھے منتظم، اچھے استاد یا اچھے تاجر نہیں بن سکتے، چاہے آپ جتنا مرضی تعلیم یافتہ اور اپنے فن میں ماہر کیوں نہ ہوں۔ سماجی ذہانت سیکھنے کے لیے معروف مصنف ڈیل گانیگی کی کتب سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
ا نسان اس کائنات کی سب سے ذہین مخلوق ہے اور ذہانت کی بہت سی اقسام اس وقت دریافت ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ’’جذباتی ذہانت‘‘ ایک اہم قسم ہے۔ انسان دنیا میں اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ ماں کا اپنے بچے کو پیار سے بوسہ دینا، آدمی کا غصے میں چیخنا چلانا اور بچوں کا بڑوں کے خوف سے چھپ جانا، جذبات کا اظہار ہی تو ہے۔ جذبات تو انسان کے اندر چھپی ہوئی توانائی ہے جو کہیں نہ کہیں نکلنے کے لیے بے چین رہتی ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان جذبات کو آزاد چھوڑنے کے بجائے ان سے مثبت کام لینا سیکھیں۔ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کس جذبے کو کہاں استعمال کرنا بہتر ہے اور کہاں نقصان دہ ہے۔ زند گی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کا مثبت ردعمل دینا سیکھیے، یوں جذبات فائدہ دینے لگتے ہیں۔ شخصیت میں اعتماد آتا ہے اور زندگی کے مسائل سے نپٹنا آسان سے آسان تر ہوتا جاتاہے۔

حصہ