چھوٹی چھوٹی باتیں جو نفس کی چوری بن کر اتنی چھوٹی بھی نہیں رہتیں

590

ڈاکٹر فرح ارشد

میرے بہت اچھے جاننے والوں کے گھر جب شادی جیسی تقریب کا موقع آیا تو انہوں نے مہمانوں کی تقسیم کچھ اس طرح کی کہ پیسے والے صاحبِ ثروت یا اونچے عہدے والے شادی والے دن ہوٹل یا اچھی جگہ پر جہاں اصل شادی کا انتظام تھا، مدعو کیے گئے۔ اور وہ مہمان جو نہ بے چارے صاحبِ ثروت ہیں، نہ اونچے عہدے پر ہیں، اُن کو ایک دن پہلے گھر پر مدعو کرلیا گیا یہ کہہ کر کہ ’’جی ہم نے اپنے قریبی لوگوں کو آج مدعو کیا ہے، درس بھی ہوگا اور کھانا بھی‘‘۔ اس موقع پر میرا سوال یہ ہے کہ یہ تقسیم کرتے وقت کیا ہم نفس کی چوری کے مرتکب نہیں ہوئے؟ اس کا صحیح حل تو یہ ہونا چاہیے کہ ایک ہی جگہ سب کو مدعو کریں اگر آپ اتنی حیثیت رکھتے ہیں، اور اگر نہیں تو پھر جتنی گنجائش ہے اتنے بلائیں، باقی سے معذرت کرلیں۔
دوسری مثال جو میرے مشاہدے میں آئی، یہ تھی کہ اکثر خواتین درس تو بہت اچھے دیتی ہیں، لیکن وہی خواتین اپنے گھروں اور خاندانوں کی عملی زندگی میں اتنی بھیانک ثابت ہوتی ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی ہیں جو بڑے جذب کے عالم میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی باتیں اور اُن پر عمل کی ترغیب دے رہی ہوتی ہیں۔ میرا سوال پھر وہی کہ کیا یہ نفس کی چوری سے بچ گئیں؟ یہ تو اور زیادہ پکڑ میں آگئیں کہ علم رکھتے ہوئے گناہ پر جمی ہوئی ہیں۔ اگر اپنی رشتے داریوں اور تعلقات میں خدا کا خوف ملحوظ نہ رکھا تو دین داری کس کام کی؟
تیسری مثال تحفے کے سلسلے میں ہے کہ جب بات اپنے صاحبِ ثروت قریبی عزیزوں کی آئی، یا ایسے لوگوں کی جن سے آئندہ ہمیں کچھ فوائد ملنے کی توقع ہے تو ہم نے بہترین تحفے کا انتخاب کیا، اور جب بات اپنے کسی غریب یا متوسط رشتے دار کی آئی جس سے آئندہ بھی کوئی فائدہ متوقع نہیں تو ہم نے جلدی سے منگل بازار سے ہی لے کر کوئی چیز پکڑا کر اپنی جان چھڑائی۔ میرا سوال پھر وہی کہ کیا ہم نفس کی چوری سے بچ گئے؟
معاشرہ کہاں سے درست ہوسکتا ہے جب ہماری اکائی ہی بگڑی ہوئی ہو۔ یہ وقت ہے فرد پر محنت کرنے کا۔ افراد درست ہوں گے تو معاشرہ خودبخود درست ہوجائے گا۔ درس ہم ضرور دیں، لیکن درس دیتے وقت یہ دھیان رہے کہ کہہ تو میں دوسروں کو رہی ہوں لیکن اتار اپنے اندر رہی ہوں۔ جو باتیں ہم درس میں کہہ کر یا سن کر آتے ہیں انہیں اپنی زندگی میں لانے کی ایمان داری سے کوشش کریں۔ اور اس میں زیادہ زور میں اُن لوگوں پر دوں گی جو گھر میں بڑے کی حیثیت رکھتے ہیں اور زیادہ ان کی چلتی ہے۔ ان کا راہِ راست پر آنا بے حد ضروری ہے۔ وہ راہِ راست پر آجائیں تو باقی لوگ خودبخود سکون اور درستی کی طرف آجائیں گے۔ اگر گھر میں آپ کو ایک بڑے کی حیثیت مل گئی ہے تو نعوذباللہ خدا بننے کی کوشش نہ کریں، اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کریں، اور کوئی بھی بات کرتے وقت یہ ذہن نشین رہے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ ہر معاملے میں اپنا جائزہ لیں کہ یہ میں خالص اللہ کے حکم کے مطابق کررہی ہوں یا اس میں نفس کی چوری شامل ہے، اور اس ضمن میں کسی معاملے کو بھی چھوٹا یا غیر اہم نہ سمجھیں۔

حصہ