نوجوان اور محنت

1039

عبد الرزاق صالح
انسانی زندگی میں جو دور سب سے زیادہ امنگوں، آرزؤں، تمناؤں اور رنگینیوں سے بھرپور ہوتا ہے، وہ جوانی ہے۔ زندگی کے تمام ادوار میں جوانی کا دور ہر اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس مرحلے میں انسان کی جسمانی قوت اور ذہنی صلاحیت و ہمت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ جوانی میں وقت بہت قیمتی ہوتا ہے۔
قیامت کے دن کیے جانے والے پانچ سوالوں میں سے ایک اہم سوال یہ بھی ہوگا کہ، ’’جوانی کہاں صرف کی؟‘‘ اس لیے اس کی اس اہمیت کی قدر کرتے ہوئے شریعت مطہرہ کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے گزاریں۔ جوانی کے قیمتی لمحات انمول ہوتے ہیں، قوت و توانائی میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اس لیے کامیابی کے کسی بھی امیدوار کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ جوانی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزارے۔ نوجوان کو اپنی زندگی میں عقل و جذبات کے درمیان توازن قائم رکھنے کی ضرورت ہے اور اپنے اندر احساس ذمے داری پیدا کرے۔ نوجوانوں میں احساس ذمے داری ہی معاشرے کی ترقی میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ باکردار اور بہتر تعلیم و تربیت سے آراستہ نوجون ہی قوم و ملت کی ترقی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ تبدیلی کے رنگوں میں اپنی محنت، خلوص، جوانی اور قربانی سے جدت و ندرت و جستجو کے رنگ بھرنے والے نوجوان ہیں۔ علامہ اقبال کبھی نوجوانوں کو شاہین سے تشبیہ دیتے ہیں، تو کبھی مرد مومن کی صورت میں دیکھتے ہیں اور اپنی تمام توقعات ان سے وابستہ رکھتے ہیں۔

جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاہینوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے

نوجوان کی قوت و کردار کی اہمیت کو دنیا کا ہر معاشرہ تسلیم کرتا ہے۔ یہی نوجوان جب جذبے سے سرشار ہو کر، کسی مقصد کے حصول کے لیے یکسو ہو جاتے ہیں تو ایسے محیر العقول کارنامے وقوع پزیر ہوتے ہیں کہ دنیا ششدر رہ جاتی ہے۔
دنیا کی تمام کامیاب تحریکوں کے پیچھے بھی انہی نوجوانوں کی قوت کار فرما نظر آتی ہے، جو اپنے گرم لہو کا نذرانہ پیش کر کے قوموں کی زندگی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ آج کے نوجوانوں کو دشمنان اسلام سے مکر و فریب کا سامنا ہے۔ ان کو راہ راست سے بھٹکانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا جارہا ہے۔ حق و باطل کے فرق کو مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔ مسلم نوجوان کی شخصیت کو نابود، مستقبل ضائع اور جوانی تباہ کرنے کی کوشش جا رہی ہے۔
اس صورت حال میں طریقہ نجات یہ ہے کہ نفسیاتی تربیت قرآن کریم کے ذریعے ہو۔ دل کو ایمانی غذا دی جائے۔ نیک لوگوں کی صحبت کو غنیمت جان کر اختیار کیا جائے۔ ان حالات میں آج کے نوجوان کو اپنی سستی اور غفلت کی اوڑھی ہوئی چادر کو اتار کر کوسوں دور پھینک کر آگے بڑھنا ہوگا اور وہ محنت کرنا ہوگی جو محنت اس نوجوان کو دنیا اور آخرت میں کمیابی سے ہمکنار کر سکے۔
محنت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو دنیا میں بھی باعزت بناتی ہے تو اللہ رب العزت کے ہاں بھی اس بندے کو محبوب بناتی ہے۔ اس لیے نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ خود محنت کر کے اپنی ضروریات کو بھی پورا کرے تو ساتھ ساتھ مخلوق خدا کی خدمت کا فریضہ بھی سر انجام دیتا رہے۔
اے نوجوانو! دوسروں پر بوجھ نہ بنو بلکہ اپنے ہاتھ سے خدمت کر کے آگے بڑھنے کی ہمت اور حوصلہ پیدا کرو کیوں کہ دوسروں پر بوجھ بننا یا کسی سے مانگنا یہ ایک معیوب عمل ہے۔ جس سے ہر حال میں بچنے کی کوشش کریں۔ اس ضمن میں اسلامی حوالے سے دو واقعات عرض کر دیتا ہوں۔
ایک واقعہ ہے حضرت داؤد علیہ السلام کا کہتے ہیں، ’’حضرت داؤد علیہ السلام اپنے دور حکومت میں سادہ لباس پہن کر مختلف جگہ جاتے اور لوگوں سے معلوم کرتے کہ اس ملک کا بادشاہ کیسا ہے؟ ایک روز کسی نوجوان سے ملاقات ہوئی، اس سے وہی سوال کیا۔ اس نے جواب دیا: بادشاہ بہت عمدہ ہے لیکن اس میں ایک کمزوری ہے کہ وہ بیت المال سے وظیفہ لیتا ہے (اگرچہ وہ جائز ہے) جب کہ اللہ تعالیٰ کو وہ بندہ زیادہ پسند ہے، جو اپنے ہاتھ کی محنت و کمائی سے کھائے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو فوراً احساس ہوا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے کوئی ایسا کام سکھا دیجیے، جس کے ذریعے میں روزی حاصل کر سکوں اور مسلمانوں کے بیت المال سے بے نیاز ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے ذرہ سازی کی صنعت عطا فرمائی اور معجزانہ طور پر لوہے کو ان کے ہاتھ میں موم کی طرح بنا دیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام خالی اوقات میں زرہ بنا کر بازار میں فروخت کرتے اور اس طرح اپنی اور اہل و عیال کی روزی حاصل کرتے تھے‘‘۔
دوسرا واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کا ہے کہ ’’ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک سائل نے سوال کیا، آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے؟ سائل نے عرض کیا: جی ایک جلا کٹا ٹاٹ کا ٹکڑا ہے، جو اوڑھنے بچھانے کے کام آتا ہے اور ایک پیالا ہے جو سالن اور پانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، حتیٰ کہ سر دھونے کے لیے بھی اسی کو استعمال کرتا ہوں، کیوں کہ اور کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: دونوں چیزیں لے آؤ۔ وہ لایا، تو آپؐ نے حاضرین مجلس سے فرمایا: ان کا کوئی خریدار ہے؟ کسی نے ایک درہم قیمت لگائی، دوسرے نے دو درہم، آپ نے دو درہم میں فروخت کر کے سائل کو دونوں درہم دے کر فرمایا: ایک درہم میں کھانے پینے کا سامان لا کر گھر پہنچاؤ دوسرے درہم کی کلہاڑی لاؤ۔ وہ کلہاڑی لایا تو آپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے لگاکر اس کو دی کہ جنگل سے لکڑی کاٹ کر لاؤ اور بازار میں فروخت کرو اور پندرہ دن سے پہلے ادھر مت آنا۔ ان پندرہ دنوں میں اس شخص نے دس درہم کمائے، گھر میں خوش حالی نظر آنے لگی۔ ایک روز صاف کپڑے پہنے دربار نبوی میں حاضر ہوئے تو آپ ؐ نے مسرت آمیز لہجے میں فرمایا: کہو کیا حال ہے؟ موجودہ حالت بہتر اور باعزت ہے کہ پہلی حالت بہتر تھی؟ کہ دنیا میں غربت کی وجہ سے ذلیل اور آخرت میں بھیک مانگنے کی وجہ سے ذلیل‘‘۔ ان دو واقعات سے یہ معلوم اور طے ہو گیا کہ دنیا میں باعزت رہنے اور آخرت میں کامیابی یعنی نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے محنت۔ دنیا کی کامیابیوں سے لے کر آخرت کی نجات تک یہ اٹل اصول ہے۔
تو اے میری قوم کے نوجوانو! ذرا ہمت و حوصلے اور مستقل مزاجی کے ساتھ اس محنت کی شاہراہ پر گامزن ہوجاؤ تو دنیا کی ہر کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔

حصہ