فرض کریں اگر۔۔۔

671

عربی سے ترجمہ
سچی کہانی ایک ایسے شخص کی، جس نے نماز پڑھنے والے ایک شخص سے دریافت کیا کہ کیا ہوگا اگر مرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوکہ نہ ہی جنت و جہنم کا وجود ہے، نہ ہی کوئی سزا اور جزا ہے، پھر تم کیا کروگے؟
…٭…
2007ء کی بات ہے، لندن کے ایک عربی ریسٹورنٹ میں ہم لوگ مغرب کی نماز سے تھوڑی دیر پہلے ڈنر کے لیے داخل ہوئے۔ ہم لوگ ہوٹل میں بیٹھے اور ویٹر آرڈر لینے کے لیے آگیا۔ میں نے مہمانوں سے چند منٹ کے لیے اجازت طلب کی اور پھر واپس آگیا۔ اتنے میں مہمانوں میں سے ایک شخص نے سوال کیا: ’’ڈاکٹر صاحب آپ کہاں گئے تھے؟ آپ نے تو بڑی تاخیر کردی، کہاں تھے؟‘‘
میں نے کہا: ’’میں معذرت خواہ ہوں، دراصل میں نماز پڑھ رہا تھا۔‘‘
اس نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’آپ اب تک نماز پڑھتے ہیں؟ میرے بھائی آپ تو قدامت پسند ہیں۔‘‘
میں نے بھی مسکراتے ہوئے پوچھا: ’’قدامت پسند؟ وہ کیوں؟ کیا اللہ تعالیٰ صرف عربی ممالک میں ہے، لندن میں نہیں ہے؟‘‘
اُس نے کہا: ’’ڈاکٹر صاحب میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں، اور یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنی جس کشادہ ظرفی کے لیے معروف ہیں، اسی کشادہ قلبی سے مجھے تھوڑا سا برداشت کریں گے۔‘‘
میں نے کہا: ’’جی مجھے تو بڑی خوشی ہوگی، لیکن میری ایک شرط ہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’جی فرمائیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’اپنے سوالات مکمل کرلینے کے بعد تمہیں ہار یا جیت کا اعتراف کرنا پڑے گا، ٹھیک ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے، مجھے منظور ہے اور یہ رہا میرا وعدہ۔‘‘
میں نے کہا :’’چلو بحث شروع کرتے ہیں… فرمائیں۔‘‘
اس نے کہا: ’’آپ کب سے نماز پڑھ رہے ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’سات سال کی عمر سے میں نے اس کو سیکھنا شروع کیا اور نو سال کی عمر میں پختہ کرلیا، تب سے اب تک کبھی نماز نہیں چھوڑی اور آئندہ بھی ان شاء اللہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے۔ مرنے کے بعد اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ نہ جنت و جہنم کا وجود ہے، نہ ہی کوئی جزا وسزا ہے پھر آپ کیا کروگے؟‘‘
میں نے کہا: ’’تم سے کیے گئے عہد کے مطابق پوری کشادہ قلبی سے تمہارے سوالات کا آخر تک جواب دوں گا۔ فرض کریں نہ ہی جنت وجہنم کا وجود ہوگا نہ ہی کوئی جزا وسزا ہوگی تو میں ہرگز بھی کچھ نہ کروں گا، اس لیے کہ دراصل میرا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا ’’الٰہی میں نے تیرے عذاب کے خوف اور جنت کی آرزو میں تیری عبادت نہیں کی ہے، بلکہ میں نے اس لیے تیری عبادت کی ہے کیوں کہ تُو عبادت کے لائق ہے۔‘‘
اس نے کہا : ’’اور آپ کی وہ نمازیں جو دسیوں سال سے آپ پابندی کے ساتھ پڑھتے آرہے ہیں، پھر آپ کو معلوم ہو کہ نمازی اور بے نمازی دونوں برابر ہیں، جہنم نام کی کوئی چیز نہیں ہے، پھر کیا کریں گے؟‘‘
میں نے کہا: ’’مجھے اس پر بھی کچھ پچھتاوا نہیں ہوگا، کیوں کہ ان نمازوں کو ادا کرنے میں مجھے صرف چند منٹ ہی لگتے ہیں، چنانچہ میں انھیں جسمانی ورزش سمجھوں گا۔‘‘
اس نے کہا: ’’اور روزہ، خصوصاً لندن میں، کیوں کہ یہاں روزے کا دورانیہ ایک دن میں 18گھنٹے سے بھی تجاوز کرجاتا ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’میں اسے روحانی ورزش سمجھوں گا، کیوں کہ وہ میری روح اور نفس کے لیے اعلیٰ طرز کی ورزش ہے، اسی طرح اس کے اندر صحت سے جڑے بہت سارے فوائد بھی ہیں، جو میری زندگی ہی میں مجھے مل چکے ہیں، اور کئی بین الاقوامی غیر اسلامی اداروں کا بھی یہ ماننا ہے کہ کچھ وقفے تک کھانا پینا بند کرنا جسم کے لیے بہت مفید اور نفع بخش ہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’آپ نے کبھی شراب پی ہے؟‘‘
میں نے کہا : ’’میں نے اس کو کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا۔‘‘
اس نے تعجب سے کہا: ’’کبھی نہیں!‘‘
میں نے کہا: ’’کبھی نہیں۔‘‘
اس نے کہا: ’’اس زندگی میں اپنے آپ کو شراب نوشی کی لذت اور اس کے خمار کے سرور سے محرومی کے بارے میں کیا کہیں گے اگر آپ کے لیے وہی ظاہر ہوا جو میں نے فرض کیا ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’شراب کے اندر نفع سے زیادہ نقصان ہے اور میں سمجھوں گا کہ میں نے اپنے آپ کو اس نقصان دہ چیز سے بچالیا ہے اور اپنے نفس کو اس سے دور رکھا ہے، چنانچہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو شراب کی وجہ سے بیمار ہوگئے اور کتنے ہی ایسے ہیں جنھوں نے شراب کی وجہ سے اپنا گھر بار، مال و اسباب سب تباہ وبرباد کرلیا ہے۔ اسی طرح غیر اسلامی اداروں کی عالمی رپورٹ کو دیکھنے سے بھی یہ پتا چلتا ہے کہ وہ بھی شراب کے اثرات اور اس کو لگا تار پینے کے انجام سے متنبہ کرتی ہے۔‘‘
اس نے کہا : ’’حج وعمرہ کا سفر جب موت کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ ہی موجود نہیں ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’میں عہد کے مطابق چلوں گا اور پوری کشادہ ظرفی سے تمہارے سوالات کا جواب دوں گا۔ میں حج وعمرہ کے سفر کو ایک خوب صورت تفریحی سفر سے تعبیر کروں گا جس کے اندر میں نے حد درجے کی فرحت و شادمانی محسوس کی، اور اپنی روح کو آلائشوں سے پاک و صاف کیا، جس طرح تم نے اپنے اس سفر کے لیے کیا ہے تاکہ تم ایک اچھا وقت گزار سکو اور اپنے عمل کے بوجھ اور معمولاتِ زندگی کی تھکان کو دور کرکے اپنی روح کو تازگی فراہم کرسکو۔‘‘
وہ میرے چہرے کو کچھ دیر تک خاموشی سے دیکھتا رہا، پھر گویا ہوا: ’’آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میرے سوالات کو بڑی کشادہ قلبی کے ساتھ برداشت کیا۔ میرے سوالات ختم ہوئے اور میں آپ کے سامنے اپنی ہار تسلیم کرتا ہوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’تمہارا کیا خیال ہے، تمہارے ہار تسلیم کرنے کے بعد میرے دل کی کیا کیفیت ہوگی؟‘‘
اس نے کہا: ’’یقینا آپ بہت خوش ہوں گے۔‘‘
میں نے کہا: ’’ہرگز نہیں، بلکہ اس کے بالکل برعکس میں بہت دکھی ہوں۔‘‘
اس نے تعجب سے کہا: ’’دکھی کیوں ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’اب تم سے سوال کرنے کی میری باری ہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’فرمائیں ۔‘‘
میں نے کہا: ’’تمہاری طرح میرے پاس ڈھیر سارے سوالات نہیں ہیں، صرف ایک ہی سوال ہے وہ بھی بہت سادہ اور آسان۔‘‘
اس نے کہا: ’’وہ کیا؟‘‘
میں نے کہا: ’’میں نے تمہارے سامنے واضح کردیا ہے کہ تمہارے مفروضے کے واضح ہونے کے بعد بھی میں کسی طرح کے گھاٹے میں نہیں ہوں اور نہ ہی اس میں میرا کسی قسم کا نقصان ہے۔ لیکن میرا وہ ایک آسان سوال یہ ہے کہ تمہارا اُس وقت کیا ہوگا اگر حالات تمہارے مفروضے کے برعکس ظاہر ہوئے، یعنی موت کے بعد تمہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ بھی موجود ہے، جنت و جہنم بھی ہے، سزا وجزا بھی ہے اور قرآن کے اندر بیان کیے گئے سارے مشاہدات و مناظر بھی ہیں، پھر تم اُس وقت کیا کروگے؟‘‘
وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خاموشی کے ساتھ دیر تک دیکھتا رہا۔ اور پھر ویٹر نے ہماری میز پر کھانا رکھتے ہوئے ہماری خاموشی کو توڑا۔
میں نے اس سے کہا: ’’مجھے ابھی جواب نہیں چاہیے، کھانا حاضر ہے، ہم کھانا کھائیں اور جب تمہارا جواب تیار ہوجائے تو براہ مہربانی مجھے خبر کردینا۔‘‘
ہم کھانے سے فارغ ہوئے اور مجھے اس نے کوئی جواب نہیں دیا، میں نے بھی اس وقت اُس کو جواب کے لیے کوئی تکلیف نہیں دی۔ ہم بہت ہی سادگی کے ساتھ جدا ہوگئے۔
ایک مہینہ گزرنے کے بعد اس نے مجھ سے رابطہ کیا اور اسی ریسٹورنٹ میں ملاقات کا مطالبہ کیا۔
ریسٹورنٹ میں ہماری ملاقات ہوئی۔ ہم نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا کہ اچانک اس نے میرے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا اور پھر مجھے اپنی بانہوں میں پکڑ کر رونے لگا۔
میں نے اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر رکھا اور پوچھا: ’’کیا بات ہے، تم رو کیوں رہے ہو؟‘‘
اس نے کہا: ’’میں یہاں آپ کا شکریہ ادا کرنے اور اپنے جواب سے آپ کو باخبر کرنے کے لیے آیا ہوں۔ بیس سال سے بھی زیادہ عرصے تک نماز سے دور رہنے کے بعد اب میں نماز پڑھنے لگا ہوں۔ آپ کے جملوں کی صدائے بازگشت میرے ذہن و دماغ میں بلا توقف گونجتی ہی رہی، اور میں نیند کی لذت سے محروم ہوتا رہا۔ آپ نے میرے دل ودماغ اور جسم میں آتش فشاں چھوڑ دیا تھا، اور وہ میرے اندر اثر کرگیا۔ مجھے احساس ہونے لگا کہ جیسے میں کوئی اور انسان ہوں اور ایک نئی روح میرے جسم کے اندر حرکت کررہی ہے، ایک بے مثال قلبی سکون بھی محسوس کررہا ہوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’ہوسکتا ہے جب تمہاری بصارت نے تمہارا ساتھ چھوڑ دیا ہو تب ان جملوں نے تمہاری بصیرت کو بیدار کردیا ہو۔‘‘
اس نے کہا: ’’بالکل ایسا ہی ہے۔ یقینا جب میری بصارت نے میرا ساتھ چھوڑ دیا تو ان جملوں نے میری بصیرت کو بیدار کردیا۔ میرے پیارے بھائی تہِ دل سے آپ کا شکریہ۔‘‘

حصہ