شریک مطالعہ، مختار مسعود صاحبِ اسلوب نثر نگار

698

نعیم الرحمن
قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد ہندوؤں کی جانب سے ہندوستان کی تقسیم کی مسلسل مخالفت کی جاتی رہی۔ 1946ء میں جب مخلوط حکومت کا قیام ناگزیر ہوا تو سر فیروز خان نون کے مشورے پر مسلمانوں نے وزارتِ خزانہ لی۔ یہ وزارت مطالبۂ پاکستان کوکانگریسی قیادت سے منوانے کے لیے کسی حد تک سودمند ثابت ہوئی۔ لیکن بددلی سے مطالبہ منظور کرنے والوں نے پاکستان کو ناکام اسٹیٹ بنانے کے لیے کیا کچھ کیا، اس بارے میں مختارمسعود نے اشارتاً اس طرح ذکرکیا ہے:
’’1946ء کی عارضی مخلوط حکومت میں لیاقت علی خان وزیرِ مالیات مقرر ہوئے۔ انہوں نے کانگریسی وزارتوں کو روزمرہ کے فرائض کی ادائیگی میں اتنا زچ کیا اور غریبوں کے بجٹ کے نام پر ایسی ٹیکس تجاویز پیش کیںکہ کانگریس اور ہندو سرمایہ دار دونوں نے پاکستان کا مطالبہ مان لیا۔ چونکہ اس آمادگی میں خوش دلی اور فراخ دلی کا شائبہ تک نہ تھا، لہٰذا طے کیا گیا کہ پاکستان کے نام پر ایسا کٹا پھٹا، بے وسائل اور پُر مسائل خطۂ ارض ان کو دے دیا جائے جو آزاد ملک کے طور پر چند ہفتے بھی چلنے کے لائق نہ ہو۔ سرحد میں ریفرنڈم، سلہٹ میں ریفرنڈم، پنجاب کی تقسیم، بنگال کی تقسیم، سندھ میں دوسرا صوبائی الیکشن… سرحدیں ایسی کہ کشمیر میں دراندازی کی جاسکے۔ فیروزپور کی چھاؤنی اور ذخائر حربی سے انہیں محروم کردو۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے حدبندی کمیشن کے صدر سر ریڈکلف کو ناشتے پر بلایا۔ ناشتے کے بعد سر ریڈکلف نے اپنے سیکریٹری سے کہاکہ فیروزپورکو پاکستان سے نکال کر ہندوستان میں شامل کردو۔ اس طرح اسلحہ سازی کا واحد کارخانہ جو پاکستان کو مل رہا تھا، ہاتھ سے جاتا رہا۔‘‘
قیام ِ پاکستان کے بعد قائداعظم اورلیاقت علی خان چند سال میں انتقال کرگئے۔ ان کے بعد ملک کے معماروں اور محسنوں سے جو سلوک روا رکھا گیا، اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے، تو مختار مسعود جیسا حساس انسان ایسے واقعات سے کیونکر لاتعلق رہ سکتا تھا! ڈاکٹر زوار حسین زیدی نے ’’قائداعظم پیپرز‘‘کی تیاری میں جس طرح اپنی پوری زندگی وقف کردی، اور پاکستان کے بارے میں نایاب دستاویزات کو ضائع ہونے سے بچا لیا، اس محسن ِوطن سے پاکستان میں کیا سلوک کیا گیا، ذرا مختارمسعود ہی سے سنیے:
’’انتقال سے چند دن پہلے ڈاکٹر زوار زیدی سرکاری گھر سے بالجبر بے دخل کیے گئے تھے۔ سامان گھر سے نکال کر باہر سڑک پررکھ دیا گیا۔ یہ کیسے بے خبر اور بے درد لوگ تھے جنہوں نے ڈاکٹرصاحب سے وہ سلوک کیا جو نادہندہ مقروض کے خلاف ڈگری جاری ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔ انہیں یہ بھی علم نہ تھاکہ ڈاکٹرصاحب کسی کے قرض دار نہیں تھے بلکہ ملک ان کا مقروض تھا۔
ڈاکٹرزوارکی نصف صدی کی لگن، محنت اور تگ ودوکی بدولت آل انڈیا مسلم لیگ کا ریکارڈ اور قائداعظم محمد علی جناح کے کاغذات نااہل جانشینوں اور ناشناس نسلوں کے ہاتھوں ضائع ہونے سے بچ گئے۔ قائداعظم کے کاغذات کو مرتب کرنے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہوا، اور وہ بیس برس تک بغیر تنخواہ کے کام کرتے رہے۔ حکومت کی طرف سے انہیں صرف رہائش کی سہولت میسر تھی، مگر جس طرح انہیں اس سرکاری گھر سے بے دخل کیا گیا وہ ایک عمر رسیدہ، حساس اور شریف النفس اسکالرکی جان لینے سے کم نہ تھا۔ وہ اس صدمے کی تاب نہ لاسکے۔ ملک کی داغ دار تاریخ میں ایک داغ کا اور اضافہ ہوگیا۔ وہ جنہیں اقتدار اس لیے دیا جاتا ہے کہ حق دار کو حق اور واجب التعظیم کو عزت ملے اُن کی بلاجانے کہ ڈاکٹر زوار نے کن حالات میں انتقال کیا۔ جب 2009ء میں ان کا انتقال ہوا، اُس وقت تک جناح پیپرزکی 14جلدیں شائع ہوچکی تھیں۔ کاش ان کی وصیت پر عمل کیا جاتا اور یہ پندرہ بیس ہزار صفحات قبر میں ان کے سینے پر رکھ دیئے جاتے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے جسم کو کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ مرنے کے بعد نیکیاں بوجھ نہیں ہوتیں۔ وہ تو مرنے والے کا بوجھ اُٹھانے کے کام آتی ہیں۔‘‘۔
حرف ِ شوق کے پہلے مضمون کا اختتام ان الفاظ پرہوتاہے:۔
’’میں نے اپنے عہد کے تین اولڈ بوائزکا انتخاب کرلیا جو مجوزہ معیار پر پورا اترتے تھے: محترم اسلوب احمد انصاری، ڈاکٹر زوار حسین زیدی اور ڈاکٹر مختارالدین احمدآرزو۔ ہم عصر اور ہم طالع۔ اچھے طالب علم اورکامیاب معلم۔ علم سے محبت کرنے والے عالم۔ ان کے علمی کاموں کو پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کی شخصیت کوکسی نے مثالی کہا اورکسی نے قابلِ تقلید نمونہ قرار دیا۔ اگرآنے والی نسلوں کو ایسے لوگ انسپائر نہیں کریں گے تو اورکون کرے گا؟‘‘
کتاب کے دوسرے مضمون ’’سرسید احمد خان کون؟‘‘ میں ایک عظیم مصلحِ قوم کوخراج ِ عقیدت پیش کیا گیا ہے، جس میں سرسید کی تحریروں کو پڑھنے اور سمجھنے کی ترغیب موجود ہے۔ ایک ایسا نابغہ جسے نہ اس کی زندگی میں سمجھا گیا، اور نہ مرنے کے بعد وہ مقام ملا جس کا وہ حقدار تھا۔ مختار مسعود نے کسی حد تک سرسید کا قرض اتارنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس ایک پیرے میں انہوں نے کس خوبی سے سب کچھ روشن کردیا ہے۔ بس سمجھنے والی عقل اور دیکھنے والی نظر ہونی چاہیے:
’’میرا سرسید ایک غیر معمولی آدمی ہے۔ وسیع النظر اور ہمہ صفت موصوف۔ مصلح ، دردمند، بیتاب اور اَن تھک۔ انجمنوں اور اداروں کا بانی اور منتظم ۔ مصنف اورمترجم۔ مفکر اور مؤرخ۔ پرانی عمارتوں کا قدرشناس، نئی عمارتوں کا معمار۔ تعلیم پھیلانے والا، سائنس کو خوش آمدید کہنے والا، صنعت و حرفت کی اہمیت کا قائل۔ توہمات کا دشمن، معقولات کا دوست۔ اپنی جھولی چندے سے بھرنے کا شوق اور اپنے اردگرد اچھے آدمی جمع کرنے کی صلاحیت والا۔ راتوں کو اُٹھ کر مسلمانوں کے زوال پر آنسو بہانے والا۔ دنیاوی ترقی کا خواہاں اور دینی حمیت کی خاطر سیرت پر تحقیق کرنے کے لیے اثاثہ بیچ کر اور گھر رہن رکھ کر سات سمندر پار کا سفرکرنے والا۔ برعظیم کے مسلمانوں کی خاطر جدید انگریزی تعلیم اور انگریز راج بلکہ سامراج کو مفید سمجھتے ہوئے انگریزوں کی حفاظت کی خاطر جان پرکھیل جانے والا۔ انگریز کی سیاست اور طرزِ حکومت کو برعظیم کے لیے ناموزوں اور مسلمانوں کے لیے مہلک قرار دینے والا۔ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس سے سیاسی پارٹی کا کام لینے والا۔ میں تعلیم والے سرسید کے کمالات اور اوصاف میں ایسا کھویا کہ دوسرے سرسید سے تعارف کی دل میں خواہش پیداہوئی نہ زندگی میں کبھی اس کا موقع ملا۔‘‘
مسلمانوں کو جدید انگریزی تعلیم کے لیے سرسید کی کاوشوں سے قبل ہندوستان میں مسلمانوں کی حالتِ زارکی نقشہ کشی کے لیے مختارمسعود نے نامور مؤرخ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹرکی کتاب سے دو جملے پیش کیے ہیں:
’’مؤرخ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹرکے دو جملے مسلمانوں کے زوال اور کس مپرسی کی منہ بولتی تصویر پیش کرتے ہیں۔
ایک سو ستّر سال پہلے ایک خاندانی مسلمان کا نادار ہونا ناممکن تھا۔ آج 1871ء میں اس کا خوش حال ہونا ناممکن ہے۔
سال 1871ء میں (صدرمقام کلکتہ میں) کوئی سرکاری دفتر ایسا نہ تھا جہاں کسی مسلمان کو یہ امید ہوکہ وہ قلی، قاصد، سیاہی کی دوات بھرنے والے یا قلم تراش سے بہتر درجے کی ملازمت حاصل کرسکتا ہو۔‘‘
ہندوستان پر لگ بھگ ایک ہزار سال حکومت کرنے والے مسلمانوں کو علم سے دوری نے جو نقصان پہنچایا، اور ہندوؤں نے انگریزی تعلیم حاصل کرکے جو فوائد حاصل کیے، اس کے بارے میں مختار مسعود لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں کے سوادِ اعظم نے جدید مغربی تعلیم کو قابلِ توجہ نہ سمجھا، بلکہ مخالفت کے لیے اسے ایک اہم موضوع اور محاذ کا درجہ دیا گیا۔ علما میں سے لے دے کر صرف شاہ عبدالعزیز ہی تھے جنہوں نے جدید تعلیم کے حق میں آواز بلند کی۔ یہ ایک تنہا آواز تھی اور وہ بھی ایسے شخص کی جس کے نامور اور غیر معمولی صلاحیتوں والے والدِ محترم کو قرآن مجیدکے فارسی ترجمے اوردیباچے کی وجہ سے جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔ ہندوؤں نے اپنے تحفظات کے باوجود انگریزی تعلیم پر پوری توجہ دی اور اس کا بہت فائدہ اٹھایا۔ ہنٹر کہتا ہے کہ انگریزی تعلیم نے صدیوں سے سوئے ہوئے ہندوؤں کوخوابِ غفلت سے جگادیا۔ان لوگوں کو جو ایک عرصے سے جمود اور بے حسی کا شکار تھے، قومی زندگی کے اعلیٰ مقاصد اور اقدارکی پاسداری کے لیے متحرک کردیا۔ یہ تبدیلی مسلمانوں کی روایت، ضرورت اور مذہب کے تقاضوں کے سراسر خلاف قرار دی گئی۔ جدید تعلیم کا ہندوؤں کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جن کی شناخت ان کا صوبہ ہوا کرتا تھا وہ ایک قوم بن گئے، اور اپنی شناخت ملک اور وطن کے حوالے سے کرنے لگے۔ انڈین نیشنلزم ایک طرح سے براہِ راست انگریزی تعلیم کا ثمر ہے۔ مسلمانوں نے انیسویں صدی کے پہلے پچاس سال پدرم سلطان بود کے نشے میں گنوائے۔ اس کے بعد غدرکا سارا الزام اپنے سر لے لیا۔ ایک زوال پذیر اورکم حوصلہ قوم نے جس نظامِ تعلیم کی مخالفت کی اُس کے اختیار کرنے کی بدولت اکثریت کی قوت اور اقلیت کی ناتوانی کے درمیان جو فاصلہ تھا، وہ اتنا بڑھ گیاکہ درمند مسلمانوں کو اسپین یاد آنے لگا۔
’’آرسی موجمدار نے ’’تاریخِ آزادی‘‘ میں لکھا ہے کہ جب سرسید نے مغربی تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی تحریک کا آغاز کیا، اُس وقت برعظیم میں مسلمان گریجویٹ صرف چھبیس تھے اور ہندو گریجویٹ 1652تھے۔ تاراچند کی ’’داستانِ آزادی‘‘ کے مطابق 1845ء میں برطانوی ہند کے سرکاری تعلیمی اداروں میں 17350طالب علم پڑھتے تھے۔ ان میں سے 13699ہندو، 1636مسلمان، 236 عیسائی اور 1789 دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔1861ء میں کلکتہ یونیورسٹی کے انٹرنس کے امتحان میں کامیاب ہونے والے طلبہ میں 722 ہندو اورصرف26 مسلمان تھے۔ اُسی سال بی اے کے امتحان میں صرف 39 امیدوارشریک ہوئے۔کامیاب ہونے والے 13 طلبہ میں 11 ہندو، ایک عیسائی اور ایک مسلمان تھا۔‘‘
سرسید کی خدمات کو یادکرتے اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مختارمسعود کہتے ہیں:
’’آج سرسیدکی خدمات کا جائزہ اس زمانے کے سیاق وسباق میں لیں تو دو باتیں بڑی نمایاں نظرآتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ سرسید نے برِعظیم کے مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کے اسباب کے بارے میں ایک طویل مدت تک بڑی سنجیدگی سے غور کیا۔ زوال کا غم کھانا اپنی جگہ، مگر اس کے سدِباب کی فکر کرنا ایک روگ لگا لینے کی طرح تھا۔ اس سلسلے میں سرسید نے بڑی زحمت اٹھائی۔ اس زمانے کی واحد سپر پاور کا مطالعاتی دورہ کیا تاکہ اس کی کامیابی کا راز جان سکے اور اس طرح بالواسطہ اپنے زوال کے اسباب تک پہنچ سکے۔ اس تحقیق کا حاصل یہ تھاکہ برِعظیم کے مسلمان علم کے حصول میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ جب تک وہ جہالت اور توہمات سے پیچھا نہیں چھڑاتے اُس وقت تک ان کا مستقبل تاریک رہے گا۔ دوسری بات، جب ایک عمر تیاری میں صرف کرنے کے بعد سرسید نے جدید تعلیم کو برِعظیم کے مسلمانوں میں عام کرنے کے منصوبے پر عمل شروع کیا اُس وقت اس کے لیے حالات انتہائی ناسازگار تھے۔ سرسید کے حوصلے اور ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ اس نے ان دشواریوں کی کوئی پروا نہ کی، جو ہر سطح (مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی) پر موجود تھیں۔‘‘
سرسید احمد خان کی کس کس طرح مخالفت اور حوصلہ شکنی کی گئی۔ خصوصاً علمائے کرام نے جوکردار ادا کیا، اور ان پر کفر کے فتوے لگائے، لیکن ان کے عزم کو متزلزل نہ کرسکے۔ یہ پیرا دیکھیے۔
’’زاہد چودھری نے اپنی کتاب ’’سرسید احمد خان‘‘ میں لکھا ہے:
’’جمال الدین افغانی نے بھی سرسید احمد خان اور دِلّی کے رفقا کے خلاف اپنے کفر کے فتووں اور مضامین میں بڑی ناشائستہ بلکہ غلیظ زبان استعمال کی۔ اگرچہ اس ملا کو بوجوہ عالمِ اسلام میں بالعموم اور برصغیر میں بالخصوص خاصی شہرت حاصل ہے، لیکن اگر اس کی تحریروں کو عقیدت سے ذرا بالاتر ہوکر دیکھا جائے تو اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگتی کہ اس ملا کے علم ودانش اور عقل وفکرکا معیار دوسرے قدامت پسند ملاؤں سے کوئی زیادہ بلند نہیں تھا۔‘‘
’’دوسری بار سرسید کی تحریریں جمع ہوگئیں تو میں نے ان کو سر تا سر پڑھنا شروع کیا۔ سرسید کے ذہن کی رسائی، دلچسپیوں کے دائرے کی وسعت، اور فکرکی بے کرانی نے ایک بار پھر مجھے بہت حیران کیا۔ یہ کیسا عجیب وغریب شخص ہے ذرا فرصت ملی تو43 بادشاہوں کا حال ایک نقشے کی صورت مرتب کیا اور اس کا نام ’’جام ِ جم‘‘ رکھا۔ بادشاہوں کے ذکر سے فارغ ہونے کے بعد روزگار کی تلاش کرنے والوں کا خیال آیا اور اس نے ایک خلاصہ قوانین دیوانی متعلقہ منصفی چھاپ دیا۔ بہت سے لوگ اقرار کرتے ہیں کہ اس کی مدد سے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور منصف کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ اس کے بعد وہ چند مذہبی رسائل لکھنے میں مصروف ہوگیا۔ جونہی اس طرف سے فارغ ہوا تو آثارِقدیمہ نے دامنِ دل کو کھینچا اور اس نے ’’آثارالصنادید‘‘ لکھی اور چھاپ دی۔
سرسید کی تحریک کا تحریک ِ پاکستان پر اثر واضح ہے۔ اور مختارمسعود نے اسے بخوبی واضح کیا ہے کہ سرسید کے انتقال کے صرف بیالیس برس بعد قراردادِ پاکستان کی صورت ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کردیا گیا۔ اور اس قرارداد کے پیش ہونے کے صرف سات برس بعد پاکستان وجود میں آگیا:
’’وقت کی تیزرفتاری حیران کن تھی۔ مسلم ہند کو اس تیز رفتاری کا درس سرسید کے نظامِ تعلیم نے دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی طور پر وقت سرسید کو پیچھے چھوڑ گیا۔ ان کے انتقال کو بیالیس برس ہوچلے تھے۔ اس عرصے میں برِعظیم کے مسلمان آئینی سیاسی تحفظات کی ساری امکانی صورتوں پر غورکرنے کے بعد انہیں مسترد کرچکے تھے۔ بالآخر ان کی وہ سیاسی جماعت جوسرسید کی قائم کی ہوئی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے بطن سے پیداہوئی تھی، اس نتیجے پر پہنچی کہ برِعظیم بہت وسیع ہے۔آبادی بہت زیادہ ہے۔ نسل، زبان اورمذہب کا فرق بہت نمایاں ہے۔ مختلف قومیں آباد ہیں جن میں سے دو ایسی ہیں جو رقبے اورآبادی کے لحاظ سے اپنی اپنی حکومت بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان حالات میں یہ بہتر ہوگا کہ جہاں ہندو اکثریت ہے وہاں کا اقتدارِاعلیٰ ان کے پاس ہو، اور جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں کی حاکمیت انہیں منتقل کی جائے۔‘‘
حرفِ شوق کا تیسرا مضمون’’باعث ِ تحریر‘‘ ہے، جسے کسی حد تک مختار مسعود کی آپ بیتی بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ مضمون میں انہوں نے اپنی تعلیم، سول سروس میں شامل ہونے اور ادب کی دنیا میں قدم رکھنے کا احوال بیان کیا ہے۔ اس مضمون کے کئی چشم کشا حصے ہیں۔ صدرایوب خان نے پاکستان کی بیوروکریسی کوکس طرح تباہ کیا، اس پیراگراف سے واضح ہے:
’’صدر ایوب خان نے ایک تقریباتی ڈنر میں جہاں مَیں بھی موجود تھا، تقریر کرتے ہوئے کہا: یہ کیسی سول سروس ہے جس میں داخل ہونے کا دروازہ ہے مگراخراج کا کوئی راستہ نہیں۔ بس ایک بار آگئے اور ہمیشہ کے لیے آگئے۔ میں نے دیکھا کہ ایوب خاں کی اس رائے کو سن کر دائیں بائیں بیٹھے ہوئے آئی سی ایس افسر بجھ سے گئے۔ جونیئر افسر بھی بے مزہ ہوئے۔ یہ کیسا صدر ہے کہ سول اور فوجی ملازمت کے فرق کو نظرانداز کررہا ہے۔ سول سروس سے آئینی اور قانونی تحفظ واپس لینے کا مطلب یہ کہ آئندہ ملک کو محنت اور مہارت سے کام کرنے والے غیر جانب دار، بے غرض اور بے خوف کارکنوں کی جگہ سیاست، خوشامد اور رشوت سے کام لینے والا عیار اور مکار عملہ میسر آئے گا۔ چند دنوں بعد مارشل لا کے تحت حکم نامہ جاری ہوا۔ ایوب خان نے اخراج کا دروازہ کھولنے کی خاطر وہ فصیل ہی گرا دی جو حکومت کی کارکردگی اور سرکاری فیصلوں کو سیاسی اغراض اور شخصی مصلحتوں سے جدا کرتی اور محفوظ رکھتی تھی۔ پیشہ ور قصیدہ گو نے کہا: سول سروس کا قلعہ فتح کرنا تاریخی کارنامہ ہے، تاریخ میں یہ واقعہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ یہ کسی نے نہیں سوچاکہ اس فصیل کے ڈھے جانے کے بعد لوگ کتنے غیرمحفوظ ہوجائیں گے اور ملک گڈگورننس سے کتنی دور چلا جائے گا۔ ہرکس وناکس اُن بے اصول، بددیانت اور ایذا پسند صاحبانِ اقتدار کے رحم وکرم پر ہوگا جو رحم وکرم کے معنی اور جہاں بانی کے اصولوں سے بالکل ناواقف ہوں گے۔‘‘

میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو ترے ذہن میں آتا کیا ہے

شہزاد احمد

حصہ