تیس مار خاں

1034

بچو! آپ یہ ضرور سوچتے ہونگے کہ جب بھی میں کہانی سنانے کے لیے بیٹھتا ہوں ہمیشہ آغاز میں اپنے بڑی بہن جو اب اللہ تعالیٰ کے پاس جاچکی ہیں، ان کا حوالہ کیوں دیتا ہوں۔ میری بہن تھیں ہی ایسی۔ بہن ہو یا امی ہوں یا نانی دادی، اللہ نے سارے بچوں کو دی ہوئی ہوتی ہیں اور ان کی محبت اور پیار کو بھلانا بھی کسی کے بس میں نہیں لیکن مجھے جتنا پیار اپنی بہن سے ملا وہ کم کم بچوں کو ہی ملا ہوگا جس کا سب سے بڑا ثبوت اتنی بے شمار کہانیوں کو سنانا ہے۔ کیا کسی بچے کو اس کی نانی، دادی، اماں یا باجی نے اتنی ڈھیر ساری کہانیاں اتنے پیارسے سنائی ہونگی کہ اس کا ایک ایک لفظ دل و دماغ میں یوں نقش ہوجائے جیسے پتھر پر کوئی کندہ کاری کر دیتا ہو اور ایسا انمٹ بن جائے جیسے پتھر پر کھنچی لکیر۔ ظاہر ہے ایسا اس لیے ہی ہوا ہوگا کہ میری باجی نے جو کہانی بھی مجھے سنائی ہوگی وہ دل کی اتنی گہرائیوں میں ڈوب کر سنائی ہوگی کہ ان کی سنائی کہانیوں کا ایک ایک حرف لوح ذہن پر انمٹ نقش چھوڑتا چلاگیا ہوگا اور میں آج بھی ان کہانیوں کو آپ کے سامنے اس انداز میں سنارہا ہوتا ہوں جیسے میں اپنی باجی کے پہلو میں بیٹھا ہوں اور میں نہیں میری باجی آپ سب کو اپنی آواز میں یہ کہانیاں سنا رہی ہوں۔ آج مجھے ان کی سنائی ہوئی ایک اور کہانی یاد آرہی ہے اور میرے دل کو اس وقت تک اطمینان نہیں ہوگا جب تک وہ کہانی میں آپ کو سنا نہیں دیتا۔
بچو! ایک ہوتے تھے “تیس مار خاں”۔ نہایت کام چور، کاہل، سست اور نکھٹو۔عرف عام میں ایسے لوگوں کو ہڈحرام بھی کہاجاتا ہے۔ شادی شدہ تھے لیکن پھر بھی کسی قسم کی کوئی محنت مزدوری کرنے کی لیے تیار نہیں تھے۔ عورتوں کی طرح گھر میں نہ صرف پڑے رہتے تھے بلکہ گھروالوں کی لیے درد سر بھی بنے رہتے تھے۔ گھر سے باہر نکلنا تو در کنار، اگر ان کو فراغت کی ضرورت محسوس نہ ہوتی تو وہ واش روم تک چل کر جانا گوارا نہیں کرتے۔ بستر پر پڑے رہنا، وہیں کھانا کھا لینا اور وہیں سے گھر والوں کو روکتے، ٹوکتے اور لڑتے جھگڑتے رہنا جیسے ان کی فطرت میں داخل ہوکر رہ گیا تھا۔ گھر والے، خصوصاً ان کی بیوی تو ان سے بہت ہی عاجز آچکی تھی اور اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ کسی بہانے وہ ان کا قصہ ہی تمام کرکے اس مستقل اذیت سے نجات حاصل کرلے۔ ساری سستیوں، کاہلیوں اور ہڈحرامیوں کے باوجود وہ اپنے آپ کو “تیس مار خاں” کہلانا بہت پسند کرتے تھے۔ تیس مارخاں کا مطلب کسی کا بہت بہادر ہونا ہوتا ہے جبکہ وہ اندر سے اتنے بزدل اور ڈرپوک تھے کہ کوئی خشک پتا بھی ہوا میں اڑتا ہوا دیکھ لیتے تو اسے کوئی خطرناک کیڑا سمجھ کر دہشت کے مارے اپنی اماں سے لپٹ جایا کرتے تھے البتہ مکھیاں مارنا ان کا محبوب مشغلہ تھا اور ہر روز وہ گن کر “تیس” مکھیاں ضرور مارا کرتے تھے اور اسی “بہادری” پر وہ اپنے آپ کو تیس مارخاں کہہ کر بہت ہی خوش ہوا کرتے تھے۔
گھر والے ان سے بہت ہی عاجز آچکے تھے اور ہر روز انھیں نکھٹو، کاہل اور حرام خوری کے طعنے دیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ بھی یہ سب طعنے سن سن کر جوش میں آگئے اور اپنی بیگم کو حکم دیا کہ وہ ان کی لیے روٹیاں اور کھانا تیار کرکے دے کیونکہ اب انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ واقعی تیس مارخاں بن کر رہیں گے۔ وہ بادشاہ کے دربار میں جائیں گے اور جاکر اپنی تیس مار خانی کا مظاہرہ کرکے سب کی زبانوں پر تالا لگا کر ہی دم لیں گے۔ سارے گھر والے ان کے اس فیصلے پر بڑے حیران ہوئے۔ تیس مار خاں کی اماں نے بہو کو حکم دیا کہ وہ ان کے بیٹے تیس مارخاں کی لیے روٹیوں اور ہانڈی کا انتظام کرے تاکہ ان کا بیٹا روزی روزگار کی لیے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہو سکے۔ بیوی تو ایک طویل عرصے سے موقع کی تلاش میں تھی کیونکہ وہ ایک بے کار شخص کے ساتھ زندگی کے دن رات بہت اذیت میں گزار رہی تھی اور اس حد تک عاجز آچکی تھی کہ وہ ان کی زندگی تک کی دشمن بن چکی تھی۔ اس نے بھی ایک فیصلہ کر لیا لیکن اس فیصلے کی ہوا تک کسی کو نہ لگنے دی۔ تیس مارخاں ایک تو نہایت بیکار انسان تھے اور دوسری جانب وہ ایک وقت میں تیس روٹیوں سے کم کھایا ہی نہیں کرتے تھے اس لحاظ سے ایک دن میں وہ گن کر 90 روٹیاں توڑا کرتے تھے اور اس پر ڈکار تک نہیں لیا کرتے تھے۔ بیوی اٹھی اور اس نے تیس مار خاں کی لیے گن کر تیس روٹیاں تیار کیں اور اسی لحاظ سے سالن تیار کرکے اس کا ایک بہت بڑا پوٹلا تیار کرکے اپنے شوہر تیس مار خاں کے حوالے کیا۔ تیس مار خاں زندگی میں پہلی بار بہت تسلی سے نہائے، سب سے اچھے کپڑے زیب تن کئے اور گھر والوں سے گلے مل کر بادشاہ کے دربار کی لیے روانہ ہو گئے۔ گھر اور دارالحکومت کے درمیان ایک نہایت ویران جنگل پڑتا تھا۔ بے شک اس میں خطرناک درندے تو نہیں ہوا کرتے تھے لیکن کہیں کہیں بندر ضرور پائے جاتے تھے۔ خود رو جھاڑیوں کے درمیان اکا دکا درخت بھی تھے جس کی گھنی چھاؤں میں مسافر آرام کر لیا کرتے تھے۔ ابھی تیس مارخاں کچھ ہی دور چلے ہونگے کہ انھیں تھکن کا احساس ہونے لگا۔ کیونکہ چلنے پھرنے کے عادی نہیں تھے اس لیے سوچا کیوں نہ کسی گھنے درخت کی چھاؤں تلے کچھ دیر سستا لیا جائے چانچہ جونہی انھیں ایک درخت نظر آیا تیز تیز قدم بڑھاتے وہاں جا پہنچے اور سر پر لدا روٹیوں اور سالن کا گٹھر ایک جانب رکھ کر جونہی کمر سیدھی کی، انھیں اونگ آ گئی۔ ذرا ہی دیر اونگے ہونگے کہ انھیں ایسا لگا جیسے درخت کی ساری شاخیں زور زور سے ہل رہی ہوں۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ درخت کی ساری ڈالیاں اتنی زور سے ہل رہی ہیں جیسے آندھی آ گئی ہو جبکہ فضا میں شدید حبس تھا اور آس پاس کی جھاڑیوں میں لگا پتا بھی نہیں ہل رہا تھا۔ بات یہ تھی کہ اس درخت پر شریر بندروں کا قبضہ تھا اور درجنوں بندر شرارت میں پورے درخت کو ہلائے دے رہے تھے لیکن خوف و دہشت کی وجہ سے تیس ماراں یہ سب نہ دیکھ سکے، اپنا روٹیوں اور سالن کا گٹھر اٹھا کر سر پر دھرا اور بھوت بھوت کہہ کر وہاں سے ایسی دوڑ لگائی کہ پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا۔ بھوت بھوت کہتے جاتے اور سرپٹ دوڑے جاتے۔ ابھی وہ چند گز دور ہی گئے ہونگے کہ وہاں سے ڈاکوؤں کے ایک گروہ کا گزر ہوا۔ ڈاکوؤں نے دیکھا کہ ایک شخص سر پر ایک بڑا سارا گٹھر اٹھائے چیختا چلاتا دوڑا چلا جارہا ہے تو وہ اس کو بھی کوئی بڑا چور سمجھے جو سر پر قیمتی سامان چرانے کے بعد کسی بستی والوں سے ڈر کر بھاگا چلا جارہا ہے۔ ڈاکوؤں کے سردار نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ جاؤ اور اسے پکڑ کر ہمارے سامنے پیش کرو۔ یہ سن کر چار ڈاکو گھڑوں پر سوار ہوکر تیس مارخاں کی جانب لپکے اور اور آناً فاناً انھوں نے تیس مارخاں کو جا لیا۔ تیس مار خاں اپنے سامنے ہتھیاربردار ڈاکوؤں کو دیکھ کر اپنی ببتا بھول گئے اور تھر تھر کانپنے لگے کیونکہ ڈاکوؤں کی چمکتی تلواریں اور لہراتے خنجروں نے جیسے ان کی روح قبض کر کے رکھ دی تھی۔ ڈاکوؤں نے ان کو گرفتا کیا اور ان کو گٹھڑی سمیت اپنے سردار کے پاس لے گئے۔ ڈاکوؤں کے سردار کا چوڑا چکلا سینہ اور ہیبتناک آنکھیں دیکھ کر ان کا دم ہی نکل کر رہ گیا۔ ڈاکوؤں کے سردار نے لاکھ پوچھا کہ وہ کون ہے اور گٹٹھر میں کس کا سونا چاندی لیکر بھاگا جارہا ہے لیکن ان کے حلق میں جیسے کانٹے پڑ کر رہ گئے تھے اور سوائے تھوک نگلنے کے وہ کسی سوال کا جواب دے ہی نہیں پائے۔ سردار نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ گٹٹھر کھولا جائے۔ جب گٹٹھر کھولا گیا تو اس میں صرف روٹیاں اور سالن کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔ سردار کو بہت حیرت ہوئی۔ روٹیاں گنی گئیں تو وہ پوری تیس تھیں اور ڈاکوؤں کے گروہ کی تعداد بھی سردار سمیت تیس ہی تھی۔ سردار نے کہا کہ اس وقت شدید بھوک لگی ہے اس لیے سب ایک ایک روٹی لے لیں اور سالن کو ایک بہت بڑے تھال میں انڈیل لیں۔ کھانا کھا نے کے بعد باقی سوالات اس چور سے کریں گے۔ تیس مارخاں کو ایک جانب بٹھا دیا گیا اور سب ڈاکو ایک ایک روٹی نکال کر کھانے لگے۔ اِدھر سب کی ایک ایک روٹی ختم ہوئی اْدھر ڈاکو ایک ایک کرکے زمین پر گر گر کر تڑپنے لگے۔ روٹیوں میں بہت سریع الاثر زہر تیس مار خاں کی بیوی نے اس لیے ملایا تھا کہ وہ تیس مارخاں سے نجات چاہتی تھی لیکن وہ سریع الاثر زہر ڈاکوؤں کی ہلاکت کا سبب بن گیا۔ تیس مارخاں یہ سارا منظر نہایت حیرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ سستی اور کاہلی اپنی جگہ لیکن وہ اب عقل سے اتنے پیدل بھی نہیں تھے کہ سارا ماجرہ سمجھ نہ سکیں۔ جب سب ڈاکو تڑپ تڑپ کر ٹھنڈے ہو گئے تو وہ اہنی جگہ سے اٹھے۔ ایک ڈاکو کا تیز دھار خنجر ہاتھ میں پکڑا اور سب کی ناکیں کاٹ کاٹ کر ایک بڑی چادر میں جمع کرنے لگے۔ جب تیس کے تیس ڈاکوؤں کی ناکیں کاٹ لیں تو سب کو ایک غار میں جمع کیا، ان کے ہتھیار بھی غار میں ڈالے اور غار کا منہ اچھی طرح بند کرکے بہت اکڑتے ہوئے بادشاہ کے دربار کی جانب چل پڑے۔
بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ کوئی عجیب سا آدمی آپ سے ملنا چاہتا ہے ہے۔ اس کے پاس ایک بڑا سا پوٹلہ ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس پوٹلے کو وہ آپ ہی کے سامنے کھولے گا۔ باد شاہ نے کہا کہ اسے ہمارے سامنے پیش کیا جائے لیکن محافظوں کو پوری طرح ہوشیار بھی رہنا چاہیے کیونکہ کیا معلوم اس کے پوٹلے میں کیا ہو۔ تیس مارخاں بہت اکڑتے ہوئے دربار میں حاضر ہوئے اور پوٹلہ اپنے پیروں کے پاس رکھ لیا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ کہو کیا فریاد ہے۔ تیس مارخاں نے کہا کہ حضور فلاں جنگل میں ڈاکوؤں کا بسیرا تھا انھوں نے مجھے گھیر لیا لیکن میں نے تنہا ان سب کو ہلاک کر دیا ہے۔ بادشاہ اور درباریوں نے تیس مارخاں کی کہانی کو کچھ یوں سنا جیسے کسی چھوٹے منھ سے بڑی بات نکل جایا کرتی ہے کیونکہ ڈاکوؤں کا یہ ٹولہ پورے دارالحکومت کی لیے ایک وبال جان بنا ہوا تھا اور بادشاہ کے سپاہی سوائے اپنی جانیں گوانے کے اب تک کچھ بھی نہ کر سکے تھے۔ ڈاکو بہت بہادر اور خونخوار تھے۔ باد شاہ کو ان کی تعداد بھی معلوم تھی لیکن جب بھی ان کے خلاف کارروائی کی لیے سپاہی بھیجے جاتے ان کی لاشیں ہی واپس آیا کرتی تھیں اس لیے باد شاہ یا درباری تیس مار خاں کی بات پر کیسے یقین کر سکتے تھے۔ باد شاہ نے ازراہ مذاق تیس مارخاں سے پوچھا کہ اچھا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ ان کی تعداد کتنی تھی؟۔ تیس مار خاں نے کہا جی، بادشاہ سلامت، ان کی تعداد تیس تھی اور میں نے وہ تیس کے تیس ہلاک کر دیئے۔ باد شاہ اور درباری پہلی بار تیس مار خاں کا جواب سن کر چونکے کیونکہ ڈاکوؤں کی صحیح تعداد کا بادشاہ یا بادشاہ کے درباریوں کے علاوہ کسی کو کوئی علم نہیں تھا۔
(جاری ہے)

حصہ