یہ ملاقات اک بہانہ ہے!۔

758

لیجئے جناب خیر سے ہمارے وزیر اعظم عمران خان عسکری قیادت کے ہمراہ دنیا کے “وڈے ترم خان ” ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا کا سہہ روزہ دورہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچ چکے ہیں ۔ اور پاکستان کے لیے روانگی سے پہلے ہی پاکستان میں اپنے چاہنے والوں کو یوم تشکر منانے کا ہدایت نامہ بھی جاری چکے کہ اس ” کامیاب ترین تاریخی دورے ” کی خوشی میں ہوائی اڈے سے لیکر ملک کی تمام سڑکوں پر خوب ناچ گانا کرکے شکرانے کی رسم ادا کی جائے ۔
بے شمار تجزیہ نگار اس تاریخی دورے کے حوالے سے اپنے چینلز پر گفتگو کرتے اور اخبارات میں کالم لکھ کراپنا فرض نبھا رہے ہیں ، ہم نے سوچا جب سب ہی اپنا اپنا فرض نبھا رہے ہیں تو مجھے بھی اپنے حصے کا کام کر ہی لینا چاہیے ۔ چناں چہ لکھنے کا ارادہ باندھ لیا ۔
بے شمار خیالات ایک دوسرے پر امڈے چلے آرہے ہیں ہر خیال چاہتا ہے کہ اسے سب سے پہلے اجاگر کیا جائے ۔ سوچتا ہوں کہ وزیر اعظم کے قومی لباس اور پہناوے کی تعریف کروں ، پھر خیال آتا ہے کہ نہیں ان کے چلنے پھرنے اور باڈ ی لینگوج ( خود اعتمادی ) کی بات کرنا زیادہ بہتر ہوگا پھر اچانک خیال کوندتا ہے کہ خان صاحب کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے صحافی کو سوال کی اجازت نہ دینے کی بات کرنا زیادہ بہتر ہوگا ۔ مگر ہاٹ اشو تو بیس ہزار کے مجمع سے وزیر اعظم کے “خطابنے ” کا ہے کہ جب اس پر لکھنے کا ارادہ کیا تو وزیر اعظم کے خطاب میں سوائے اپوزیشن کو ایک سال کی بیوہ کے کوسنوں اور ” NRO نہیں دوں گا ” کہ کچھ بھی نہ مل سکا ، تو اچانک خیال آیا کہ نہیں سب سے اہم اشو تو یہ ہے کہ ” کشمیر پر امریکی ثا لثی کی پیشکش ” کو ہی موضوع گفتگو بنایا جائے ۔ مگر سچ پوچھیں تو دل یہ کہتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اور امریکی صدر کے تحائف کو موضوع بنایا جائے کہ وہی بات اس دورے کا اصل نچوڑ ہے
آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ ہمارے وزیر اعظم نے امریکی صدر کو سا بق امریکی صدر آئزن آور کی تصویر کا پوٹریٹ تحفے میں دے کر امریکا کو اپنی یادگار دوستی کی تجدید بھرا سفارتی پیغام دینے کی کوشش کی ۔ اس کے جواب میں امریکی صدر نے عمران خان کو کھیلنے وا لا ” بلا ” جو کہ ان کی پارٹی کی شناخت بھی ہے تھما کر بڑے اہتمام کے ساتھ تصویر بھی کھچوائی ۔
یہ جو تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے اس قسم کے دوروں میں ان کی بڑی تاریخی اہمیت ہوتی ہے ، پاکستان کی جانب سے آئزن آور کی تصویر میں جو پیغام درپرد ہ پوشیدہ ہے وہ اس پیا ر بھرے تعلقات کی یاد دلا رہا ہے جو صدر ایوب اور آئزن آور کے مابین پروان چڑھے اور جس کے بعد پاکستان ہمیشہ کے لیے ‘ ماسکو ‘ سے دور ہوتا چلا گیا ۔
جوبی تحفہ تھا کھیلنے کے لیے بلا ! غالبا امریکا یہ پیغا م دینا چاہ رہا ہے کہ
” ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے
جاؤ کھیلو ، یہ لو جھنجھنا !
آئیے اب چلتے ہیں اصل موضوع کی جانب کہ

‘ یہ ملاقات اک بہانہ ہے !۔
پیار کا سلسلہ پرانا ہے ”
اور اگرچہ یہ محض ایک فلمی گیت ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک مصرعہ پاکستان امریکا تعلقات کی پوری کہانی کو سمجھنے کے لیے کافی ہے
پاکستان امریکا تعلقات کی ابتداء 1950 سے ہوئی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے مابین یہ داستان عشق و محبت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ساتھ تاریخی U۔ Turns سے بھی مزین ہے ۔
پیار کی کہانی کی ابتداء پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان سے ہوتی ہے جو اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین کی دعوت پر خاتون اول بیگم رعنا لیاقت علی خان کے ہمراہ 3 مئی کو ‘ ماسکو ‘ کی دہلیز کو لات مار کرواشنگٹن پہنچے۔
صدر ٹرومین نے اس دورے کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو واشنگٹن لانے کے لیے اپنا خصوصی طیارہ ’’دی انڈی پینڈنس‘‘ لندن بھیجا۔ واشنگٹن پہنچنے پر صدر ٹرومین نے اپنی کابینہ کے تمام ارکان کے ہمراہ واشنگٹن کے ہوائی اڈے پر ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
اسی دورے سے پاکستان امریکی تعلقات کی کچی ڈوری میں بندھ گیا ۔
امریکی صدر ہیری ٹرومین سے قائد ملت خان لیاقت علی خان کو ہر قیمت پر ‘ماسکو ‘ سے دور رہنے کی قیمت ” پاک امریکا اٹوٹ انگ “، بہت بڑی مالی امداد ، فوجی اور اقتصادی شعبوں میں معاہدوں کی صورت میں ادا کی اس دورے میں امریکی صدر جناب ہیری ٹرومین نے پاکستانی وزیراعظم کو یقین دلایا کہ انہوں نے ماسکو کو نظر انداز کرتے ہوئے قبلہ واشنگٹن کی جانب کرکے “ہماری لازوال دوستی ” کو فوقیت دی ، اب امریکا کا فرض ہے کہ وہ پاکستان جیسی نوزائیدہ مملکت کو زندگی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھا نے کے لیے پوری توانائی اور بھرپور معاونت فراہم کرے ۔ اور پھر ایسا ہی ہوا آنے والے دنوں میں امریکی صدر آئزن ہاور نے پاکستان کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے امداد حاصل کرنے میں پاکستان کی بھرپور مدد کی ۔
لیکن ابھی بات یہیں روک لیتے ہیں اور لیاقت علی خان شہید ملت کا تذکرہ کرتے ہیں کہجب امریکی صدر صدر ٹرومین نے پاکستان سے اس وفاداری کی قیمت اس طرح مانگنی چاہی کہ پاکستان اپنی دوستی اور پڑوسی ملک ہونے کے ناتے سے ایران سے یہ بات منوائے کہ ایران تیل نکا لنے کے تمام ٹھیکے امریکی کمپنیوں کو دے دے گا ۔
اور جب لیاقت علی خان سے امریکی صدر نے اس خواہش نما ” ڈکٹیشن ” کا بار بار اصرار کیا تو لیاقت علی خان نے غصے میں آکر امریکی صدر کا فون یہ کہہ کر کاٹ دیا کہ “پاکستان اپنے پڑوسی ملک سے دوستی کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھائے گا ۔ اور یہ کہ ایرانی حکومت اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے ” اس کے ساتھ ہی اپنے پرسنل سکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ اب امریکی صدر کی کوئی کال وصول نہ کرے ۔
اگلے دن نوابزادہ لیاقت علی خان نے پاکستان میں موجود امریکی طیاروں کو چوبیس گھنٹوں میں پاکستان کے اڈے خالی کرنے کا حکم جاری کردیا
صدر ٹرومین نے دھمکی دی کہ ہم پاکستان کو اس بے وفائی کا مزا ضرور چکھائیں گے ”
اور پھر اس انکار کی پاداش میں جو کچھ بھی ہوا وہ سیاہ باب بن کر تاریخ میں موجود ہے ،کہ کس طرح قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان ” قائد ملت سے شہید ملت ” بنا دئیے گئے ۔لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی تاریخ کے پْراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے اور حد یہ کہ اس کی پاکستانی حکومت آج تک تحقیقاتی رپورٹ نہیں پیش کرسکی ۔ اور ہر وہ کردار شہید کردیا گیا جس نے اصل قاتل کا کھوج لگایا ۔
ایک اور امریکی صدر جان ایف کینڈی اور ایوب خان کے تعلقات کے حوالے سے بہت بات ہوتی ہے اور ایک ساربان کا چرچا بھی اب تک لوگ نہیں بھولے ہیں ۔ ان دونوں صدور کے تعلقات بہت ذاتی نوعیت کے ہوچکے تھے
جب ایوب خان امریکا کے سرکاری دورے پر گئے تو کینڈی خود اینڈریوز ایئرفورس بیس پر انہیں خوش آمدید کہنے کیلیے موجود تھے۔
پھر جب 1965ء میں17روزہ پاک بھارت جنگ میں مدد کے لیے سویت یونین کا دورہ کیا تب امریکا شدید ناراض ہوا،دراصل ایوب خان نے بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری سے ملاقات اور باہمی امن کے معاہدے کے لیے سوویت یونین کے شہر تاشقند کا دورہ کیا تھا۔ 1970ء میں صدر یحییٰ نے امریکا اور چین کے مابین پہلی بار رابطے میں ایک پل کا کردار ادا کیا تھا اور دنیا اس بات سے بے خبر تھی کہ ہنری کیسنجر نے کب اور کیسے بیجنگ کا خفیہ تاریخی سفر کر کے چینی قیادت کے ساتھ دست دوستی بڑھایا تھا۔
یحییٰ اور جنرل نیازی کے دور میں مشرقی پاکستان کی جنگ اور خانہ جنگی کی تمام رپورٹس امریکا کے توسط سے ہمیں ملتی رہیں ، مگر امریکی بحری بیڑہ آخر تک ہماری مدد کو نہیں پہنچ سکا ۔
ایک تو امریکا کا یہ پتا نہیں چل پاتا کہ وہ کب آپ سے ناراض ہو جائے،بھٹو اورجنرل ضیا الحق کے ساتھ تو یہی معاملہ ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات مثالی نہیں رہے۔ امریکا کا خیال تھا کہ بھٹو پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے پر بضد ہیں اسی لیے کیسنجر نے لاہور ایئرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں بھٹو کو براہ راست دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ایٹم بم بنانے کی ضد نہ تو انہیں عبرت کی تصویر بنا دیا جائے گا۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب 5جولائی1977 کی شب جنرل ضیاء الحق ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے فرمان پر دستخط کر رہے تھے، امریکا کے سفیر ان کے سامنے بیٹھے تھے۔
1979ء میں روس کی افغانستان میں آمد کے ساتھ ہی امریکا نے پاکستان پر نوازشا ت کی بارش کردی کون سی ایسی چیز تھی جو ہماری خواہش کے جواب میں پوری نہیں ہوتی تھی۔
دو برس بعد جنرل ضیا ء الحق دسمبر 1982 میں تین روزہ سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے۔ اس وقت کے امریکی صدر سے ملاقاتوں میں پاکستان کا مجوزہ جوہری پروگرام سر فہرست رہا۔ اس دوران وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں دونوں صدور کے درمیان پہلے 20 منٹ تک تنہا ملاقات ہوئی جس کے بعد دونوں جانب سے وفود بھی ملاقات میں شامل ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ملاقات میں صدر ریگن نے صدر ضیاء الحق کو بتایا کہ پاکستان کے مجوزہ جوہری پروگرام کی وجہ سے انہیں پاکستان کے لیے 3.2 ارب ڈالر کے اقتصادی اور فوجی امداد کے پیکج کو کانگریس سے منظور کرانے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ صدر ریگن نے افغانستان پر سوویت حملے کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کی خاطر اس امدادی پیکیج کی پیشکش کی تھی۔ایک طویل جنگ کے بعد جب روسی، افغانستان سے واپس گئے تو امریکا جنگ کا تمام ملبہ یہیں چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ پہلے کارٹر اور پھر رونالڈ ریگن نے اس جنگ کے دوران پاکستان کی فراخ دلانہ امداد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بعد میں جنیوا معاہدے کے بعد امریکا ضیاء الحق کا دشمن بن گیا۔ ان کے طیارے کا حادثہ اسی کشمکش کا نتیجہ تھا۔ پاکستان اور امریکا کے مابین اس وقت تعلقات میں سخت کھنچاؤ پیدا ہوا جب صدر کلنٹن کی بار بار درخواست کے باوجود نوازشریف نے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں جیسے کو تیسا کے مصداق دھماکے کر ڈالے۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں اس وقت ایک نیا موڑ آیا جب 11/9 کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو نشانہ بنایا گیا۔ کئی ہزار افراد آناً فاناً جان سے گئے۔ اس کے انتقام میں امریکی بدمست ہاتھی کی طرح افغانستان پر چڑھ دوڑے۔ اس سے پہلے طویل جنگ کے بعد امریکا، عراق پر قبضہ کر چکا تھا۔
مگر پھر ایک فریق نے اوجھڑی کیمپ میں تمام میزائل جلا کر رکھ کر دے تو دوسرے دوست نے اپنا دست تعاون کھینچ لیا ۔ اور پھر مشرف کے دور میں تو ہم پتھر کے دور میں بھیجے جانے لگے تھے۔
اصل بات جو ہے وہ یہ کہ افغانستان اور کشمیر یہ دو لالی پاپ ہیں جو ہمیشہ ہمارے اور امریکا تعلقات کی بنیاد بنے رہیں گے ۔
اگر امریکا پاکستان کو کوئی اہمیت دے رہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ افغانستان سے باعزت با ھر نکلنے کا راستہ ہے ۔ اور پھر ہندوستان اور پاکستان کو آپس میں ہمیشہ کے لیے بھنبھوڑنے کے لیے ” کشمیر ” کا معاملہ ہما رے گلے میں ڈالا گیا ہے ۔
آئے کچھ بات کرتے ہیں امریکی پیشکش کا ، ہمارے ایک دوست نے اچھی بات کہی وہ اس معاملے پر کہتے ہیں کہ” کشمیر پر امریکی ثالثی اور بندر کا انصاف”۔۔۔۔
دو بلیوں کو ایک لڈو ملا۔۔منصفانہ تقسیم کے لیے بندر کے پاس لے گئیں۔۔بندر نے لڈو توڑا تو دو چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔۔۔برابر کرنے کے لیے بڑے ٹکڑے میں سے تھوڑا سا توڑا۔۔اور ٹوٹا ہوا ٹکڑا اپنے منہ میں ڈال لیا۔۔اب بڑا والا ٹکڑا زرا زیادہ چھوٹا ہوگیا تو دوسرے والے ٹکڑے میں سے کچھ توڑا اور ٹوٹا ہوا اپنے منہ میں ڈال لیا غرض لڈو برابر کرنے کی کوشش میں پورا لڈو بندر ہی کے منہ میں چلا گیا۔۔۔ اور بلیاں منہ دیکھتی رہ گئیں۔۔۔۔۔
امریکا کی ثالثی اور انصاف ہم نے روس کے نکلنے کے بعد افغانستان میں دیکھا۔۔پھر یہ ثالثی فلسطین میں دیکھ رھے ھیں جہاں
بیت المقدس کو ہی اسرائیل کے حوالے کردیا۔۔۔۔۔۔امریکی ثالثی اور اس کا انصاف بہت سے اور اسلامی ملکوں میں اپنا رنگ دکھا رھا ھے۔۔شام، مصر، یمن، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، عراق، تیونس، غرض کونسا اسلامی ملک ہے جہاں امریکا نے نظر کرم کی ہو اور وہ بربادی سے بچ گیا ہو۔۔۔
چلتے چلتے ایک وضاحت اور
کشمیر کا ایشو عمران خان نے نہں اٹھایا
یہ سارا قصہ جیو /جنگ کے صحافی عظیم میاں کے سوال پر اٹھا ہے
انہوں نے براہ راست سوال کردیا
لوگ یہ سمجھے تھے کے پہلے کی طرح صرف ایک سوال ہوگا
مگر میڈیا کو گالی دینے والے ٹرمپ نان اسٹاپ بولتے چلے گے
اور یہ سوال جواب چالیس منٹ چلتے رہے
ورنہ اس دورے کے شروع میں کہیں بھی کشمیر نہیں تھا

حصہ