نہیں ہے تنگ یہ دنیا، محنت کشوں کے لیے

380

عبدالرزاق صالح
اللہ رب العزت نے جب سے حضرت انسان کو اس دنیا میں بھیجا ہے، تو اس کو یہاں زندگی گزارنے کے مواقع بھی میسر فرمائے ہیں۔ انسان کو زندگی گزارنے اور اپنے بدن کو باقی رکھنے کے لیے بنیادی طور جن چیزوں کی ضرورت پڑنی تھی، وہ بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمادیں۔ انسان کو اس دنیا میں زندگی کی بقا کے لیے صرف تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ کھانے کی، پہننے کی اور گھر کی۔ کھانا غذا ہے، پہننا لباس ہے اور گھر وہ ہے کہ گرمی سردی اور ہلاکت کے اسباب سے اس کو محفوظ رکھے۔ تو آدمی کو دنیا میںزندگی بسر کرنے کے لیے بنیادی طور پر ان تین چیزوں کی ضرورت ہے بلکہ یہی تین چیزیں خود دنیا کی اصل ہیں۔ جن کے لیے انسان مارا مارا پھرتا ہے۔
اب ان چیزوں یعنی ضروریات زندگی کے حصول کے مواقع بھی اللہ رب العزت نے تمام انسانوں کے لیے یکساں طور پر میسر فرمائے ہیں، یعنی یہ نہیں کہ کوئی مسلمان ہے تو اس دنیا میں اپنی زندگی گزارنے کے لیے ان مواقع سے فائدہ اٹھائے اور کوئی غیر مسلم نہیں یا کوئی امیر فائدہ حاصل کرے اور کوئی غریب نہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ رب العزت نے اس دنیا میں تمام انسانوں کے لیے محنت کر کے اپنا اپنا رزق حاصل کرنے کے مواقع یکساں طور پر رکھے ہیں۔
محنت کا میدان وسیع ہے۔ اس میں اگر کوئی امیر محنت کر کے ترقی کرتا ہے، تو وہیں ایک غریب یا غریب کا بچہ بھی محنت کر کے ترقی کے زینے چڑھ سکتا ہے۔ ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ تاریخ کی اکثر کامیابیاں معمولی حالات کے اندر سے ہی برآمد ہوتی ہیں۔ تاریخ بھری پڑی ہے کہ بڑا انسان بننے کے لیے بڑا بچہ یا بڑے کا بچہ ہونا ضروری نہیں۔ معمولی سی حیثیت سے آغاز کر کے بڑی سی کامیابیاں سمیٹی جا سکتی ہیں۔شرط یہ ہے کہ محنت کی جائے اور حالات سے مایوس ہوکر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا نہیں چاہیے کیونکہ یہ دنیا کا وسیع میدان تمہارے ہی لیے تو ہے۔ اس وسیع میدان میں ہمیں محنت کے لیے کوئی نہ کوئی کام کرنا پڑے گا، پھر کام کرنے کے لیے بہت سارے مواقع ہیں۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پیشوں کے بارے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں کام ان کے شان کے خلاف ہے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو بھوک اور افلاس سے تنگ آکر در بدر بھیک مانگنا گوارا کر لیتے ہیں لیکن کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ اسلام سے پہلے عربوں میں کام کرنے اور کام کو حقیر سمجھنے کی ذہنیت عام تھی۔اسلام نے آکر دنیا والوں کو آگاہ کیا کہ روزی کو حاصل کرنے کے لیے اگر چھوٹے سے چھوٹا پیشہ اختیار کرنا پڑے تو اس میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ تو ہو سکتا ہے کہ پیشہ ور اچھے ہوں یا برے ہوں۔ کوئی پیشہ خواہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ سمجھا جائے، اگر اس سے رزق حلال حاصل ہوتا ہے تو وہ برا نہیں ہو سکتا۔
آپؐ نے مختلف مواقع پر فرمایا ہے کہ، ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی رسی لے کر جنگل جائے، لکڑی کاٹے اور اسے اپنی پیٹھ پر لاد کر بازار میں فروخت کردے تو یہ اس کے لیے در بہ در ٹھوکریں کھانے سے بہتر ہے۔ کسی آدمی نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے زیادہ لذیذ کھانا نہیں کھایا ہوگا‘‘۔
رزق حلال کے لیے محنت کرنا سنت انبیاء کرام علیھم السلام ہے۔ اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے کام کرتے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام زرہ ساز تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بالترتیب کاشت کاری، بڑھئی، درزی اور بکریاں چرانے کا کام کرتے تھے۔
آج کل عجیب چلن ہے کہ لوگ خصوصاً ہٹے کٹے نوجوان یا تو اعلیٰ نوکری کے خواہاں ہوتے ہیں یا پھر بھیک مانگتے ہیں اور طرح طرح کے جرائم کے ذریعے حرام مال کما کر عیاشی کرتے ہیں یا پھر اپنا قیمتی وقت موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر بے کار کاموں میں ضائع کر رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کام اور محنت و مشقت طلب ملازمت کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
نوجوانوں کو صرف نوکری نہیں بلکہ کام تلاش کرنا چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے کاموں مثلاً سبزی منڈی میں کام کرنے، کتابوں اور تسبیحات کا اسٹال لگانے، کپڑے سلائی کرنے، موبائل کا کھوکھا لگانے، کمپیوٹر پر کمپوزنگ کرنے اور فوٹو اسٹیٹ مشین رکھنے میں بھلا کیا حرج ہے؟ بڑے مبارک ہیں وہ ہاتھ جو رزق حلال کی تلاش میں زخمی ہوتے ہیں۔ بہت اچھے ہیں وہ لوگ جو چھوٹے موٹے کام کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ جرائم نہیں کرتے، مشکوک مال نہیں کھاتے، کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے، نہ ہی دوسروں کے آسرے بیٹھے رہتے ہیں۔
اگر انسان محنت کرے، حلال اور پاکیزہ روزی دینے والے کام میں شرم وعار محسوس نہ کرے بلکہ حصول رزق حلال کو عین عبادت سمجھے تو لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ ہزاروں غریب افراد خوش حال ہوسکتے ہیں۔ذرا سی توجہ اور محنت درکار ہوتی ہے۔ مستقل مزاجی کے ساتھ محنت اور بے لوث خدمت دو ایسے کام ہیں جو انسان کو کامیابی اور ترقی کی دہلیز تک پہنچا دیتے ہیں۔علاوہ اس کے ان موجودہ حالات میں تو، آدمی کو محنت کرنا ہی پڑے گی ورنہ ہماری حکومت جو غریب کو غریب تر یا سرے سے ختم کرنے اور عوام کو مہنگائی کے اس دلدل میں اتار کر ذہنی مریض بنانے کے راستے پر گامزن ہوچکی ہے۔ جس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے، وہ ہے محنت، محنت اور محنت۔تو اٹھیے! اور ان مشکلات حالات کا مقابلہ کیجیے اور کسی بھی شعبے میں محنت کر کے اپنی زندگی کو مجبوری سے گزارنے کے بجائے، پرسکون ماحول میں گزارنے کے لیے اپنے آپ کو اس محنت کے زیور سے آراستہ کر کے ایک فعال اور ذمے دار شہری ہونے کا ثبوت دیں، ورنہ ان حکومتوں سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔

حصہ