جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی

1682

’’انقلاب کا کیڑا‘‘ اور اس قبیل کے تضحیک آمیز الفاظ انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے استعمال ہوتے چلے آرہے ہیں۔ فرعون، نمرود، شداد اور ابوجہل جیسے کرداروں نے ان ذلت آمیز القابات کا استعمال پیغمبروں کے خلاف کیا۔ اس لیے کہ وہ جس طرزِ زندگی و معاشرت کو آئیڈیل سمجھ کر اس پر عمل پیرا تھے، پیغمبروں نے اس کے خلاف تبدیلی اور انقلاب کا علَم بلند کیا تھا۔ دنیا کے ہر غاصب، آمر، ڈکٹیٹر سے لے کر آج کے دور کے سودخور کارپوریٹ سرمایہ دار تک ہمیشہ سب ہر اُس فرد، گروہ اور نظریے سے خائف رہے ہیں جس نے ان کی غاصبانہ بساط الٹنے کے لیے آواز بلند کی ہو۔ فرعون و نمرود کا زمانہ تو مدت ہوئی بیت گیا۔ ان کے لائف اسٹائل کے خلاف انبیاء نے کلمۂ حق سنایا اور نبوتوں کے انقلاب نے سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دیا۔
بادشاہ بھی اب دنیا سے ناپید ہوگئے۔ آخری شاہ ایران تھا جس کی مغرب زدہ معاشرت اور معیشت کو 1979ء میں ایران کے انقلاب نے کچل کر رکھ دیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ چالیس سال سے بدترین معاشی پابندیوں، آٹھ سالہ ایران عراق جنگ، اور دنیا بھر کے انقلاب دشمن دانشوروں کے پروپیگنڈے کے باوجود ایران کی معاشرت اور معیشت انتہائی مضبوط ہے۔ یہ دنیا کے بہترین پرائمری ہیلتھ کیئر سسٹم اور شان دار نظام تعلیم والا ملک ہے، جس کے سو فیصد افراد کو یہ دونوں سہولتیں میسر ہیں۔ اس کی ترقی، جو شاہ کے زمانے میں چند شہروں تک محدود تھی، اب پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ لیکن ہر انقلاب دشمن کی زبان پر ایک ہی بات ہے: ان کی کرنسی کی قیمت دیکھو۔ اس جعلی کرنسی کی قیمت جو سودی معیشت کے عالمی ادارے لگاتے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو پھر ایران سے دگنا خوش حال ملک تو افغانستان کو ہونا چاہیے کہ وہاں کوئی فصل ہوتی ہے اور نہ صنعت و حرفت، مگر وہاں ڈالر صرف 179 افغانی کا ہے۔
بادشاہوں کے اس دنیا سے اُٹھ جانے سے پہلے ہی جدید دنیا کے فرعون صفت سودی سرمایہ داری نظام نے پیش بندی کرلی تھی کہ لوگوں کے ذہنوں سے ’’انقلاب کے کیڑے‘‘ کو کیسے مارنا ہے۔
1694ء میں جب بینک آف انگلینڈ کا چارٹر حاصل کرکے ایک کاغذی جعلی کرنسی چھاپنے کا اختیار حاصل کیا گیا تھا اور ساتھ ہی پہلا سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن بنا تو پھر دنیا کے وسائل پر اب کسی سیزر، مغل یا خاقانِ اعظم کا اختیار ختم ہوگیا، اور اس کی جگہ ایک ایسے گروہ کا قبضہ مستحکم ہوگیا جو اس مصنوعی جعلی کرنسی کے بل بوتے پر کاروبار کرتا ہے، انسانوں کی محنت خرید کر بیچتا اور منافع کماتا ہے۔ اس مافیا کے خلاف پہلا ’’انقلابی کیڑا‘‘ کارل مارکس کی آواز تھی۔ اس نے قدرِ زائد کا نظریہ (Theory of surplus value) پیش کیا۔ اس نے کہا کہ مزدور ایک پائونڈ مالیت کی ریت سے شیشہ بناتا ہے جسے ایک پائونڈ مزدوری دے کر سرمایہ دار اس شیشے کو پچاس پائونڈ میں فروخت کرکے منافع کماتا ہے، کیوں کہ اس نے جعلی کاغذی کرنسی، شیئر مارکیٹ اور بینکاری نظام کے ذریعے صنعتیں لگا کر ایک استحصالی معاشرہ تخلیق کررکھا ہے۔
پوری دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہ تھا جس کے بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں، افسانہ نگاروں، علما، دانش وروں اور سیاست دانوں کے دماغ میں اس مارکسسٹ انقلاب کا کیڑا نہ پیدا ہوا ہو۔ برصغیر میں فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، احمد ندیم قاسمی، سجاد ظہیر، اخترالایمان، ظہیر کاشمیری، حسرت موہانی، مولانا عبیداللہ سندھی، نہرو… غرض شاید ہی کوئی نام ایسا ہو جو اس سرمایہ دارانہ طرزِ معاشرت و معیشت کے خلاف انقلابی آواز سے متاثر نہ ہوا ہو۔ ویت نام سے انگولا، چلی سے ہنڈراس، اور چیکو سلواکیہ سے یوگوسلاویہ تک، دنیا میں بڑی سے بڑی آزادی کی جنگیں اور تبدیلی کے ہیرو اسی ’’انقلاب کے کیڑے‘‘ سے متاثر تھے۔
1917ء میں اسی تصورِ انقلاب نے زارِ روس کے تخت کو تاراج کیا اور کسان و مزدور کا بالشویک انقلاب برپا کردیا۔ ایک ایسا سوویت یونین دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوا جو سودی سرمایہ دارانہ نظام سے الگ تھلگ تھا۔ اس کا آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور کاغذی کرنسی سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہ دنیا میں کاروبار کرتے تو بازار سے سونا یا ڈالر خریدتے لیکن اپنے ’’روبل‘‘ کو اس سے منسلک نہ کرتے۔ پورے ملک میں سودی معیشت نہ تھی اور نہ ہی کوئی سرمایہ دار تھا جو غریب کی دو پائونڈ کی محنت کو پچاس پائونڈ میں بیچ کر راک فیلر بن جائے۔ دنیا کا ہر بڑا ادیب، خواہ وہ سارتر ہو یا پابلو نردرا، برٹرینڈ رسل ہو یا ایذرا پونڈ، سب کے سب اس انقلابی نظریے کے خوشہ چیں تھے۔ ان کے دماغوں میں بھی یہ کیڑا مسلسل کلبلاتا رہا اور وہ سب اپنے اپنے ملکوں پر قابض اس سودی کارپوریٹ سرمایہ دارانہ قبضے سے نجات کی جدوجہد بھی کرتے رہے۔ ان کے دماغ کا یہ ’’انقلابی کیڑا‘‘ ان کے معاشرے میں ہمیشہ ان کے لیے احترام کا باعث بنا رہا۔
آج کے جدید فرعون صفت کارپوریٹ سسٹم کے کرتا دھرتا یہ تصور کرتے ہیں کہ جب تک پوری دنیا میں ’’نظریے کی موت‘‘ نہیں ہوجاتی اُس وقت تک ان کا دنیا پر بالادستی کا خواب مکمل نہیں ہوسکتا اور ان کی لوٹ مار کا ڈیزائن پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس انقلابی کیڑے کو مارنے کے لیے کارپوریٹ سرمایہ دارانہ نظام نے مغربی ممالک کی ایک چکا چوند بستی سجائی ہے۔ یہ بستی دنیا بھر کی لوٹ مار سے آباد کی گئی ہے۔ فرانس، برطانیہ اور دیگر نوآبادیاتی طاقتوں کی لوٹ مار تو تاریخ کی گواہی کے ساتھ موجود ہے، لیکن اس کے علاوہ دنیا کے غریب ممالک کے چور اور لٹیرے حکمرانوں کی دولت کو پناہ دے کر یورپ نے اپنے شہروں کو پُررونق بنایا ہے۔
جنیوا وہ شہر ہے جس کی فی کس آمدنی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اس کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ غریب دنیا کے لٹیرے حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی چوری کی گئی دولت ہے۔ 1913ء میں جنیوا کے بینکوں کے لیے یہ قانون منظور ہوا کہ وہ اپنے کھاتے دنیا میں کسی کو نہیں دکھائیں گے۔ اس کے بعد 1934ء میں اسے پورے سوئٹزر لینڈ پر نافذ کردیا گیا۔ جرمنی کے یہودیوں نے سب سے پہلے اپنا سونا وہاں رکھا اور وہ سونا ہضم کرلیا گیا، اور آج بھی اسرائیل کی حکومت وصولی کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔ پھر مارکوس اور پنوشے سے لے کر ہمارے حکمران بے نظیر اور زرداری تک ہر ملک کے حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت کو وہاں پناہ ملتی گئی۔ جنیوا سے اگر یہ لوٹی ہوئی دولت نکال لی جائے تو اس کے پاس شہر میں صفائی کرنے کے لیے بھی پیسے نہ بچیں۔ اسی قانون پر لندن اور پیرس میں بھی عمل شروع ہوا اور نوازشریف کی دولت کو ٹھکانہ مل گیا۔
دنیا کی پینتالیس ہزار بڑی کارپوریشنیں دنیا بھر سے دولت سمیٹ کر یورپ کے ملکوں میں لے کر آتی ہیں۔ غریب ملکوں میں فیکٹریاں لگا کر مزدوروں کو سستی اجرت پر بھرتی کرکے، ان کی بنائی گئی مصنوعات کو دنیا میں بیچ کر جو منافع کمایا جاتا ہے اسے یورپ کی چکاچوند پر خرچ کیا جاتا ہے، اور اس چکاچوند میں سب سے اہم چیز رات کی زندگی (Night life) ہے، جنسی آزادی ہے، چہل پہل ہے، تفریح کا سامان ہے۔ جو منافع غریب ملکوں کے مزدوروں کے استحصال سے ملتا ہے اُس سے اپنے شہریوں کو زیادہ تنخواہ، انشورنس اور دیگر سہولیات سے مالامال کیا جاتا ہے۔ ان مغربی شہروں میں جب غریب ممالک کا ادیب، شاعر، دانشور یاترا کے لیے جاتا ہے تو حیران و ششدر رہ جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے بس یہی دنیا ہے جو بظاہر نظر آرہی ہے۔ اُسے بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ اس چکاچوند کے پیچھے کا منظر کتنا کریہہ ہے۔ لاکھوں لاوارث والدین ہیں جو اولڈ ایج ہوم میں پڑے ہیں، لاکھوں عورتیں اسمگل ہوکر مساج پارلر کے نام پر یہاں لائی گئی ہیں، خاندانی نظام کی تباہی ہے، رشتوں کا زوال ہے، ہر دوسرے منٹ جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہوئی عورت ہے، منشیات کی لت میں ذلت کی زندگی گزارتے لاکھوں نوجوان ہیں۔ لیکن غریب ملکوں کا ادیب، شاعر، دانش ور چند دن یہاں کی چکاچوند میں گزار کر واپس لوٹتا ہے تو سفرنامے تحریر کرتا ہے، کالم لکھتا ہے، شاعری کرتا ہے اور انقلاب کے داعی تمام بڑے ادیبوں، شاعروں، مصنفوں اور دانش وروں کے افکار پر لعنت بھیجتا ہے، انہیں پاگل قرار دیتا ہے، جذباتی گردانتا ہے۔ اس کے نزدیک ہر غاصب کے خلاف لکھنے والے کے دماغ میں انقلاب کا کیڑا ہوتا ہے۔

حصہ