ادارۂ فکر نو کے زیراہتمام نور احمد میرٹھی کی یاد میں مشاعرہ

486

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ادارۂ فکر نو کراچی ایک اہم ادبی ادارہ ہے جو کہ ہر ماہ تواتر کے ساتھ مشاعرے کرا رہا ہے اس کے علاوہ یہ ادارہ ہر سال خالد علیگ‘ رسا چغتائی اور نور احمد میرٹھی کے لیے ادبی ریفرنس منعقد کراتا ہے اس کے ساتھ ہی مجلس سلام حسین (مشاعرہ) اور نعتیہ مشاعرہ بھی ترتیب دیتا ہے۔ جہانِ حمد کا ایک مشاعرہ اور دبستان وارثیہ کا ایک مشاعرہ بھی ہر سال ہوتا ہے۔ گزشتہ ہفتے اس ادارے نے گورنمنٹ سپریئر کالج شاہ فیصل کالونی کے تعاون سے کالج کے گرائونڈ میں ایک شان دار مشاعرے کا انعقاد کیا۔ رشید اثر نے صدارت کی۔ محمود احمد خان مہمان خصوصی‘ مظہر ہانی اور ظفر محمد خان‘ مہمانانِ اعزازی تھے جبکہ ٹنڈو آدم سے تشریف لائے ہوئے ممتاز شاعر و ماہر تعلیم‘ غلام مصطفی تبسم مہمان توقیری تھے۔ رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ علی کوثر نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ محمد اسماعیل قادری نے نعت رسولؐ پیش کی۔ اس تقریب کے دو حصے تھے پہلے حصے میں نور احمد میرٹھی پر گفتگو کرتے ہوئے مظہر ہانی نے کہا کہ نور احمد میرٹھی محبتوں کے سفیر تھے انہوں نے تمام عمرشعر و سخن اور نثر نگاری کی خدمت کی انہوں نے بے شمار قلم کاروں کو پروموٹ کیا۔ ظفر محمد خان ظفر نے کہا کہ نور احمد میرٹھی سچے عاشق رسول تھے۔ انہوں نے جو کتابیں تخلیق کیں ان میں اذکارِ سخن‘ نورِ سخن‘ بہرزماں بہر‘ تذکرہ شعرائے میرٹھ‘ شخصیاتِ میرٹھ‘ اشاریہ‘ انتخاب اور گلِِ بانگِ وحدت شامل ہیں۔ وہ اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ تھے انہوں نے اس قدر علمی و ادبی کام کیے ہیں کہ انہیں پی ایچ ڈی کی سند ملنی چاہیے تھی لیکن وہ PR کے آدمی نہیں تھے‘ وہ قلندر صفت انسان تھے انہوں نے ادارۂ فکر کی بنیاد رکھی جو کہ آج ایک تناور شجر کی مانند علم دوست شخصیات پر سایہ فگن ہے۔ محمود احمد خان نے کہا کہ نور احمد میرٹھی نے جو کتابیں شائع کی ہیں وہ عوام الناس کے لیے بے حد مفید ہیں ابھی تک ان کی بہت تصنیف و تالیف زیورِطباعت سے محروم ہیں‘ میں اس موقع پر یہ اعلان کرتا ہوں کہ ان کی کتابیں شائع کی جائیں میں اس کام میں ہر ممکن مدد کروں گا۔ انہوں نے مزیدکہا کہ آج ہم نور احمد میرٹھی کی آٹھویں برسی کے اجلاس میں موجود ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں کہ اپنے محسنوں کو یاد رکھنا ایک اچھا عمل ہے اور ادارۂ فکرِ نو تواتر کی ساتھ یہ کام کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ اختر سعیدی نے کہا کہ بھائی نور احمد میرٹھی میرے استاد تھے کہا میں نے ان سے نثر لکھنا سیکھا ہے انہوںنے میرے علاوہ بھی کئی قلم کاروں کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ محمد علی گوہر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کالج کے پرنسپل اور پروفیسر شاہد کمال کے شکر گزار ہیں کہ جن کے تعاون سے آج کا پروگرام ممکن ہوا اس موقع پر سعید الظفر صدیقی کی خدمت میں 8 واں نور احمد یادگاری ایوارڈ پیش کیا گیا۔ سعید الظفر صدیقی کے لیے اختر سعیدی نے کہا کہ وہ شاعر‘ محقق‘ ادیب اور سائنس دان ہیں انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں تاہم سات جلدوں پر مشتمل ’’قرآنی انسائیکلوپیڈیا‘‘ ان کا ایک اہم کارنامہ ہے جو ان کے لیے نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس کتاب کی تقریب اجرا ڈاکٹر قدیر خان کے زیر سرپرستی ہوئی تھی۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمانان خصوصی‘ مہمان توقیری اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں سید آصف رضا رضوی‘ فیروز ناطق خسرو‘ پروفیسر شاہد کمال‘ راشد نور‘ سلیم فوز‘ سراج الدین سراج‘ محمد علی گوہر‘ سلمان صدیقی‘ فیاض علی فیاض‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ عبدالمجید محور‘ مقبول زیدی‘ اسد قریشی‘ سحر تاب رومانی‘ یوسف چشتی‘ احمد سعید خان‘ سخاوت علی نادر‘ حامد علی سید‘ ریحانہ احسان‘ آئرن فرحت‘ رضی عظیم آبادی‘ الحاج نجمی‘ محسن سلیم‘ پروفیسر علی اوسط جعفری‘ جمیل ادیب سید‘ یاسر سعید صدیقی‘ واحد رازی‘ آفتاب عالم قریشی‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر‘ شجاع الزماں خاں‘ وسیم احسن‘ کاشف ہاشمی‘ شائق شہاب اور چاند علی شامل تھے۔

بزمِ یاران سخن کراچی کے تحت حمایت علی شاعر کے لیے تعزیتی ریفرنس اور مشاعرہ

۔16 جولائی 2016ء کو یہ خبر عام ہوئی کہ کینیڈا میں مقیم حمایت علی شاعر انتقال کر گئے اس حوالے سے کراچی میں متعدد پروگرام منعقد ہوئے جس میں حمایت علی شاعر کے فن اور شخصیت پر گفتگو کی گئی اسی تناظر میں بزمِ یارانِ سخن کراچی نے حمایت علی شاعر کے لیے تعزیتی اجلاس منعقد کیا جس میں انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سلطان صدیقی نے کہا کہ حمایت علی شاعر 14 جولائی 1926ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے‘ انہیں 2002 تک عالمی سطح کے 25 ایوارڈز ملے جب کہ سب سے پہلے انہیں 1959 میں ان کے مجموعہ کلام ’’آگ میں پھول‘‘ پر صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہوں نے صحافت اور تعلیم و تدریس کے شعبوں میں اپنی زندگی گزاری ان کی مطبوعہ کتب میں آگ میں پھول‘ دودِ چراغ محفل‘ مٹی کا قرض‘ تشنگی کا سفر‘ ہارون کی آواز‘ حرف حرف روشنی‘ عقیدت کا سفر‘ آئینہ در آئینہ‘ تجھ کو معلوم نہیں‘ کلیاتِ شاعر‘ حمایت علی شاعر کے ڈرامے شامل ہیں جب کہ ان کے نثری مجموعوں میں شیخ ایاز‘ شخص و عکس‘ کھلتے کنول سے لوگ شامل ہیں اس کے علاوہ انہوں نے متعدد کتابوں کے تراجم بھی کیے۔ انہوں نے بھرپور زندگی گزاری اور ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی اور نام کمایا‘ وہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے انہوں نے زندگی بھر صداقتوں کا ساتھ نبھایا۔ وہ ہمہ جہت شخصیت تھے۔ شاعری سے فلم سازی تک ہر میدان میں انہیں عزت و شہرت ملی‘ ان کے بے شمار اشعار زبان زدِعام ہیں۔ ان کے انتقال سے ہم ایک عظیم انسان سے محروم ہوگئے۔ سعیدالظفر صدیقی نے کہا حمایت علی شاعر ایک عہد ساز شخصیت تھے انہوں نے اردو زبان و ادب کو چار چاند لگائے وہ ایک علمی وادبی گھرانے کے سرخیل تھے‘ ان کا اپنا ڈکشن تھا وہ اس دنیا سے چلے گئے لیکن ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ توقیر اے خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ حمایت علی شاعر دنیائے ادب کا سرمایہ تھے‘ وہ ایک سچے اور کھرے انسان تھے۔ ان کی شاعری زندگی سے جڑے ہوئے مناظر کی عکاس تھی‘ ان کی نثری کتابیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ ظہورالاسلام جاوید نے کہا کہ حمایت علی شاعر اپنی ذات میں انجمن تھے اس طرح کے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں‘ وہ آخری دم تک ادب کی خدمت میں مصروف رہے۔ انہوں نے شاعری میں بے شمار تجربات کیے اور ہر تجربہ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ تعزیتی اجلاس کے بعد مشاعرے کا دور شروع ہوا جس کی صدارت سعیدالظفر صدیقی نے کی۔ توقیر اے خان ایڈووکیٹ مہمان خصوصی اور ظہورالاسلام جاوید مہمان اعزازی تھے‘ یاسر سعید صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ نظیر فاطمی نے تلاوتِ کلام کی سعادت کے ساتھ ساتھ نعت رسولؐ بھی پیش کی۔ اس مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ رونق حیات‘ اختر سعیدی‘ فیاض علی فیاض‘ سلمان صدیقی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ ڈاکٹر خورشید‘ عبدالمجید محور‘ خالد میر‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ شاعر علی شاعر‘ حامد علی سید‘ سعدالدین سعد‘ مقبول زیدی‘ احمدسعید خان‘ سخاوت علی نادر‘ اقبال ہاشمانی‘ گل انور‘ وقار زیدی‘ الحاج نجمی‘ نظر فاطمی‘ شاہدہ عروج‘ نصیرالدین نصیر‘ تنویر سخن‘ صفدر علی انشا‘ واحد رازی‘ ساجدہ سلطانہ‘ حجاب فاطمہ‘ چاند علی‘ مہر جمالی اور شائق شہاب نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ ڈاکٹر خورشید نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ بزمِ یاران سخن کراچی طویل عرصے سے ادب کی خدمت میں مصروف ہے‘ ہمPMA ہائوس کی انتظامیہ کے ممنون و شکر گزار ہیں جن کے تعاون سے ہم ہر ماہ PMA ہائوس میں ادبی پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے لیے یہ مشکل کام ہے کہ ہم ہر مشاعرے میں پورے شہر کے شعرا کو دعوتِ کلام دیں لہٰذا ہم نے یہ طے کیا ہے کہ ہم ہر مہینے بیس‘ پچیس شعرا بلالیںگے اور ہر مہینے نئی فہرست مرتب کریں گے تاکہ تمام شعرا باری باری اپنا کلام سنا سکیں۔ انہوںنے تمام شعرا کی پابندیٔ وقت کے ساتھ شرکت کو سراہا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ سلمان صدیقی نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔

غلام مصطفی تبسم کے اعزاز میں شعری نشست

غلام مصطفی تبسم شاعر‘ ادیب اور ماہر تعلیم ہیں‘ ٹنڈو آدم میں مقیم یہ ہمہ جہت شخصیت شعر و سخن کی دنیا میں ایک معتبر نام ہے۔ انہوں نے ٹنڈو آدم میں کئی شان دار مشاعرے منعقد کیے ان کے کریڈٹ پر کل سندھ مشاعرے بھی ہیں‘ یہ پچھلے دنوں کراچی آئے تو ان کے اعزاز میں کئی تنظیموں نے پروگرام ترتیب دیے تاہم گزشتہ اتوار اختر سعیدی نے اپنے گھر پر ظہرانے کے ساتھ ایک شعر نشست منعقد کی جس میں رشید خان نے نظامت کی۔ ضیا الحسن ضیا کی صدارت میں ہونے والی اس شعری نشست میں جن شعرا نے کلام سنایا ان میں ضیا الحسن ضیا‘ غلام مصطفی تبسم‘ اختر سعیدی‘ آفتاب عالم‘ محمد علی گوہر‘ رشید خان رشید‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ شمع انصاری‘ حسین ایوبی‘ انورانصاری‘ نسیم السحر‘ ماہ جبیں‘ عشرت رومانی‘ علی کوثر‘ شاداب اختر‘ تبسم زیدی اور عاشق شوکی شامل تھے۔ صاحبِ اعزاز غلام مصطفی تبسم نے کہا کہ اختر سعیدی میرے دوست ہیں‘ انہوں نے اردو ادب کی بہت خدمت کی ہے۔ یہ استاد شاعر ہیں‘ انہوں نے کئی لوگوں کو شاعری میں پروموٹ کیا‘ یہ جب تک جنگ سے وابستہ رہے ہر شاعر کا کلا م چھاپا۔ ان دنوں فیس بک پر ان کا کالم ہر اتوار کو آتا ہے جس میں یہ بہت سے ادبی معاملات پر ہماری رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کے واقعات و حالات سے بھی پردہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دبستان کراچی میں بہت اچھی شاعری ہو رہی ہے‘ جب سے یہاں امن وامان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے ادبی تقریبات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس شہر کے ادبی ادارے اردو کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہیں اس وقت نوجوان شعرا بھی بہت اچھا کہہ رہے ہیں امید ہے کہ اردو کی ترقی کا سفر جاری رہے گا اردو اب عالمی زبان کے طور پر سامنے آئی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں اب اردو پہنچ چکی ہے ہمارے ملک میں عدالتی فیصلے کے باوصف ابھی تک اردو سرکاری زبان نہیں بن پائی کیوں کہ اس کی راہ میں بیورو کریسی مزاحمت کر رہی ہے حالانکہ اردو کا کسی بھی علاقائی زبان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ علاقائی زبانوں کی ترقی میں اردو زبان کی ترقی مضمر ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے جب کہ سندھی ہمارے صوبے کی زبان ہے‘ دونوں زبان کی ترقی ہمارے صوبے کے لیے فائدہ مند ہے۔ اختر سعیدی نے کہا کہ آج کے مشاعرے کے صاحبِ اعزاز اس حوالے سے بھی ادب میں اپنا نام کما رہے ہیں کہ ان کی تصانیف نے اہل ادب کو نئی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا فی زمانہ ہر شخص پریشان ہے‘ قلم کاروں کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں جن حکومتی اداروں کو ادب کی فلاح و بہبود کے لیے نامزد کیاگیا ہے ان سے بھی قلم کاروں کو خاص مدد نہیںمل رہی دوسری بات یہ ہے کہ ادیب و شعرا ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو پارہے‘ مختلف انجمن کام تو کر رہی ہیں لیکن ہر ایک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا کوئی لائحہ عمل طے کریں اور جولوگ قلم کاروں کے مسائل کے حل کے لیے کام کر رہے ہیں ان سے تعاون کریں۔

حصہ