ہری جھنڈی اور لالٹین۔۔۔ وہی پرانا پاکستان؟۔

560

زاہد عباس
نیا پاکستان کیا بنا، ہر چیز نئی نکور ہوگئی۔ سبزیاں، گوشت، آٹا، چینی، دالوں سمیت تمام اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی نئی ہوگئیں، ڈالر نئی اسپیڈ سے اڑان بھرنے لگا، ملک کی معاشی ابتری پر نئے انداز میں تاویلیں دی جانے لگیں، پرانے لوگ نئے ملبوسات پہن کر پہلے سے مکمل منصوبوں کا افتتاح نئے سرے سے کرنے لگے۔ جب سب کچھ نیا ہورہا ہو تو ریلوے بھلا کیسے پرانی رہ سکتی تھی! سو اس محکمے نے بھی نئے پاکستان میں قدم کچھ اس طرح رکھا کہ ساری ٹرینوں کی ٹائمنگ ’’نئی‘‘ ہوگئی۔ جو ٹرین شام 4 بجے چلتی تھی وہ 8بجے رات چلنے لگی۔ اسی طرح 5،6 اور 7بجے روانہ ہونے والی ٹرینیں بالترتیب10،11اور رات 12بجے اپنی منزلِ مقصود کی جانب روانہ ہونے لگیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان ٹرینوں کے اوقات میں تبدیلی خان صاحب کے تبدیلی کے نعروں سے متاثر ہوکر آئی، بلکہ ٹرینوں کی روانگی میں یہ تبدیلی تو آٹھویں مرتبہ وزارت کا قلمدان سنبھالنے والے ملک کے اہل ترین اور تجربہ کار سیاست دان شیخ رشید احمد کی بہترین کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس کا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ شیخ صاحب کی وزارت کے دوران محکمہ ریلوے نے کامیابی کے جو جھنڈے گاڑے، 11 جولائی کا حادثہ ان میں ایک نیا اضافہ ہے۔
تفصیلات کے مطابق 11 جولائی صبح 4 بجے کے قریب لاہور سے کوئٹہ جانے والی نان اسٹاپ مسافر ٹرین اکبر بگٹی ایکسپریس صادق آباد کے قریب ولہار نامی لوکل ریلوے اسٹیشن پر کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی، جس کے باعث ٹرین کا انجن مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور 3 سے 4 بوگیاں پٹری سے اتر گئیں، 6 سے 7 بوگیاں شدید متاثر ہوئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق اس حادثے کے نتیجے میں 24 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ کئی زخمیوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ مسافروں کا کہنا ہے کہ حادثہ صبح 4 بجے کے قریب پیش آیا جب ٹرین میں سوار بیشتر مسافر سورہے تھے۔ گاڑی کو حادثہ کانٹا تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے پیش آیا ہے، اسٹیشن والے اپنی ڈیوٹی سے غافل تھے۔ ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت بوگیوں سے نکلنا پڑا۔ حادثہ پیش آنے کے خاصی دیر بعد ریسکیو ٹیم جائے وقوع پر پہنچی۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ٹرین حادثہ سگنل سسٹم کی خرابی کے باعث پیش آیا۔ موجودہ حکومت کے دور، خصوصاً شیخ صاحب کی وزارت کے دوران یہ پہلا حادثہ نہیں، بلکہ رواں برس ریلوے کے 14سنگین حادثات، جبکہ پٹری سے اترنے کے 65 واقعات بھی ہوچکے ہیں۔ سنگین حادثات میں 8 حادثات آگ لگنے کے بھی ہیں۔ یوں اب تک ہونے والے چھوٹے بڑے حادثات کی تعداد 79 ہوگئی ہے۔
ایسے ہی ایک حادثے کا چشم دید گواہ میرا کزن عبدالسمیع بھی ہے، جو پچھلے ماہ لاہور سے کراچی آنے کے لیے وقتِ مقررہ پر اسٹیشن تو پہنچ گیا لیکن گاڑی لیٹ ہونے کی وجہ سے اُسے خاصی دیر بلکہ کئی گھنٹے تک لاہور سٹی اسٹیشن پر ہی بیٹھنا پڑا۔ اب اس کی قسمت کہیں یا نظامِ ریلوے، وہ تقریباً 5گھنٹے پلیٹ فارم پر اکڑوں بیٹھنے کی مشقت کے بعد گاڑی میں تو سوار ہوگیا، لیکن آنے والے صبر آزما امتحان سے اُسے بھلا کون بچا سکتا تھا! دورانِ سفر اُسے اطلاع ملی کہ جناح ایکسپریس حیدرآباد ریلوے اسٹیشن کے قریب کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی ہے اور اس حادثے کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں، حادثے کے بعد جناح ایکسپریس کی کئی بوگیا ں پٹری سے اتر گئی ہیں جس کی وجہ سے ریلوے ٹریک بند کردیا گیا ہے۔ عبدالسمیع چونکہ ابھی حیدرآباد اسٹیشن سے خاصی دور تھا اس لیے اس حادثے کے نتیجے میں ملنے والی سفری پریشانی سے بے خبرتھا، اُسے یقین تھا کہ وہ جب تک حیدرآباد اسٹیشن کے قریب پہنچے گا، ’’نئے پاکستان‘‘ میں نافذ نئے نظام ریلوے کے تحت ٹریک مکمل طور پر بحال کیا جاچکا ہوگا۔ لیکن حیدرآباد پہنچنے سے قبل گاڑی رکتے ہی اُسے یقین ہوگیا کہ وہ اب بھی پرانے ہی پاکستان میں موجود ہے۔ اسی مقام پر ایک کے بعد دوسری، پھر تیسری ٹرین رکتے دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ ٹرین میں گرمی اور حبس کی وجہ سے بلبلاتے بچوں کی چیخیں تھیں، گاڑی میں پانی تھا نہ بجلی، جبکہ گاڑی سے باہر پوری آب وتاب کے ساتھ چمکتا سورج آگ برسا رہا تھا۔ گاڑی اب چلے کہ تب… بس اسی سوچ میں گم ہزاروں مسافر کئی گھنٹے ٹرین کی روانگی کا انتظار کرتے رہے، مگر وہ نہ چلی۔ یوں کئی گھنٹے خون جلانے کے بعد عبدالسمیع رات گئے کراچی کینٹ پہنچا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، چند دن کراچی میں گزارنے کے بعد لاہور واپسی کے لیے اس نے بزنس ایکسپریس میں بکنگ کروالی۔ اپنی جانب سے بہترین گاڑی کا انتخاب کرنے والا عبدالسمیع شاید یہ بات بھول بیٹھا تھا کہ سجاوٹ کے اعتبار سے گاڑی اچھی ہو یا بری، تیزرو ہو یا تیزگام… سب کے لیے انگریز کے دور میں بچھایا گیا ایک ہی ٹریک ہے۔ خیر، جس دن عبدالسمیع کو کراچی سے واپس لاہور جانا تھا میں اُسے رخصت کرنے کے لیے کینٹ اسٹیشن تک چلا گیا، جہاں وقتِ مقررہ پر روانہ ہونے والی بزنس ایکسپریس کا نام ونشان تک نہ تھا۔ گاڑی پورے 3 گھنٹے لیٹ تھی، یعنی ایک ہفتہ قبل حیدرآباد کے قریب ہونے والے حادثے کے اثرات اب تک موجود تھے۔ ہمارے یہاں 3گھنٹے کا مطلب تین گھنٹے نہیں ہوتا، یہ6،7 اور 8گھنٹے بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے میں بھی اپنے کزن کے ساتھ اسٹیشن پر ہی بیٹھا رہا۔ آخر جس کا ڈر تھا وہی ہوا، یعنی میرا خدشہ درست ثابت ہوا۔ ایک دو نہیں بلکہ پورے چار گھنٹے کے بعد گاڑی پلیٹ فارم نمبر 1پر آلگی۔ میں خاصی دیر تک کراچی کینٹ پر موجود رہا، اس دوران میرے دفتر جانے کا ٹائم بھی قریب آچکا تھا، اس لیے گاڑی کا دیدار کرتے ہی میں وہاں سے نکل پڑا۔ یوں کراچی سے لاہور کے لیے روانہ ہونے والی بزنس ایکسپریس اگلے دن رات لاہور پہنچی۔ ظاہر ہے جو گاڑی پہلے ہی 4سے6گھنٹے لیٹ چلی ہو اُس کا منزلِ مقصود پر مقررہ وقت پر پہنچنا ممکن نہیں۔
ایک زمانہ تھا جب ریلوے کا سفر انتہائی آرام دہ اور محفوظ ہوا کرتا تھا۔ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے زیادہ تر لوگ ٹرین کے سفر کو ہی ترجیح دیا کرتے تھے۔ ہم بھی ہر سال جون جولائی کی چھٹیاں گزارنے کے لیے لاہور ٹرین میں ہی جایا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں ریل کے سفر کے دوران مسافر خاصے محظوظ ہوا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ سب کچھ بدل گیا، ایسی ’’تبدیلی‘‘ آئی کہ تعمیری تبدیلی کے دعویدار، اداروں میں اصلاحات لانے کے بجائے خود ہی تبدیل ہوگئے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جب پاکستان آزاد ہوا تو انگریز نے گیارہ ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا ہوا تھا۔ جب سے یہ محکمہ پاکستانیوں کے ہتھے چڑھا انہوں نے ریلوے کے کئی روٹ بند کردئیے، کراچی لوکل ٹرین ختم ہوگئی، مین لائن پر بیسیوں اسٹیشن متروک کردئیے گئے۔ انگریز دور میں بچھائی گئی گیارہ ہزار کلومیٹر ریلوے لائن میں سے دو ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک بیچ کھایاگیا۔ اب پاکستان کے پاس صرف نو ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک بچا ہے، جسے خدا اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ پشاور تا لنڈی کوتل، پشاور تا بنوں، نوشہرہ تا مردان، اندرون پنجاب اور اندرون سندھ چلنے والی ٹرینیں بند ہوچکی ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں کی عمارتیں عدم توجہی کے باعث تباہ حال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ کئی اسٹیشنوں پر قبضہ مافیا نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ دیہی علاقوں میں قائم ریلوے اسٹیشنوں پر جانور تک باندھے جاتے ہیں۔ جیسے میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ترقی کے اِس دور میں جہاں دنیا زیرزمین ریلوے سے اوورہیڈ ریلوے تک جا پہنچی ہے، بلکہ اپنے شہریوں کو بُلٹ ٹرین جیسی کامیاب سفری سہولت دے رہی ہے، ہم 70 سال گزارنے کے باوجود بھی پرانے اور بوسیدہ نظام کے تحت ہی ریلوے چلا رہے ہیں۔ آج جاپان اور دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں چھ سو کلومیٹر کی رفتار سے ٹرینیں چلائی جارہی ہیں، جبکہ ہم 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک بھی نہیں پہنچ سکے۔ ہمارے گارڈ آج بھی سیٹی بجاکر، سبز اور لال جھنڈی دکھاکر، اور رات میں لالٹین دکھاکر گاڑیاں رکواتے اور چلواتے ہیں۔ ہم آج بھی ٹرینوں کے پہیّے ہتھوڑا مار گروپ کی طرح چیک کررہے ہیں۔ ریلوے ٹریک انسپکشن کے لیے بھی وہی سو سال پرانا ٹھیلا استعمال کررہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں پاکستان ریلوے کی یہ حالت کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔ اس پر ہمارے حکمرانوں کی جانب سے عوام کو سہولیات دینے کے دعوے کرنا بے حسی نہیں تو اور کیا ہے! ایک سال میں ٹرینوں کے بڑھتے حادثات کی وجہ سے محکمہ ریلوے کا تباہی کے دہانے پر پہنچنا شیخ صاحب کی صلاحیتوں کی قلعی کھول رہا ہے، جبکہ اس بدحال محکمے کی ترقی کے دعوے ان کی زبانی سن کر کہا جاسکتا ہے کہ وہ ریلوے پر بہت ’’گہری نظر‘‘ رکھتے ہیں۔ موصوف فرماتے ہیں: ریلوے اب منافع بخش ادارہ بن گیا ہے، فقط 8 ماہ میں ہی ریلوے نے 43 ارب روپے آمدنی کمائی وغیرہ وغیرہ… جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ریلوے کے کل اخراجات 72 ارب روپے ہیں اور محکمہ ریلوے تقریباً 29 ارب روپے خسارہ برداشت کررہا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شیخ رشید کے ہاتھوں افتتاح ہونے والی 10میں سے6 ٹرینیں بھی نقصان میں جارہی ہیں جن میں دھابیجی ایکسپریس، موہنجوداڑوایکسپریس، روہی پسنجر ٹرین، تھل میانوالی ایکسپریس، شاہ لطیف ایکسپریس، فیصل آباد نان اسٹاپ ٹرین، اور راولپنڈی ایکسپریس شامل ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے استعفیٰ مانگنے والے 8 مرتبہ وزارت جبکہ دوسری مرتبہ محکمہ ریلوے کا قلمدان سنبھالنے والے تجربہ کار سیاست دان شیخ رشید احمد کی کارکردگی کا بھی نوٹس لیں، وگرنہ عوام یہ سوچنے میں حق بہ جانب ہوں گے کہ جب تجربہ کار وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی کارکردگی کا یہ حال ہے تو اسمبلیوں میں نئے نئے آنے والے ناتجربہ کاروں اور دیارِ غیر سے اکٹھے کیے گئے وزیروں، مشیروں اور ترجمانوں سے بہتری کی کیا امید کی جاسکتی ہے!۔

حصہ