زندگی نام ہے اِک حسیں تعمیر کا

300

مہر سلطانہ صدیقی
قاسم کی شادی کو صرف دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ اس کی ملازمت چھوٹ گئی… اس کے کاندھوں پر یہ خوب صورت ذمہ داری ابھی نئی نئی ہی تھی… ابھی تو وہ اس کا عادی ہی ہوا تھا کہ ملازمت کی مصیبت پڑ گئی۔ بہرحال قاسم کی شریکِ حیات نازو جہاں حسین و سلیقہ شعار تھی وہیں بہترین اخلاق و کردار کی بھی مالک تھی۔ توکل، صبر و شکر اس کی شخصیت کا خاصا تھا۔ جب قاسم نے اُس کو یہ خبر سنائی تو اُس نے واویلا کرنے کے بجائے شوہر کو تسلی دی اور کہا کہ اللہ اپنے خاص بندوں کو ہی آزماتا ہے، اور ویسے بھی ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’جو سچے مسلمان ہوتے ہیں اُن پر ہر چالیس دن بعد کوئی نہ کوئی مصیبت آتی ہے‘‘۔
حالانکہ جب قاسم یہ خبر سن کر لوٹ رہا تھا تو بے حد افسردہ، مایوس اور پریشان تھا۔ اس کو بار بار اپنی نئی نویلی دلہن کا خیال آرہا تھا کہ نہ جانے وہ اپنے دل میں کتنے ارمان لے کر میرے گھر آئی ہے، اور اب کیا سوچے گی اور کیا رویہ اختیار کرے گی؟ کیا مجھے چھوڑ کر میکے میں بیٹھ جائے گی؟ لیکن گھر آنے کے بعد اور نازو سے بات کرنے کے بعد اس کا سارا خوف اور پریشانی دور ہوگئی تھی اور وہ پُرسکون ہوگیا تھا۔ اس صورتِ حال میں قاسم کا ذہن مثبت انداز میں تیزی سے چلنا شروع ہوگیا تھا۔
وہ صبح نوکری کی تلاش میں نکل جاتا اور باقی آدھا دن رات تک اپنے دوست کے اسٹور پر کام کرنے لگا، اور اتنا بڑا ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کے باوجود بھی قاسم اور نازو کی زندگی سکون و سلامتی کے ساتھ رواں دواں تھی۔
ایک روز قاسم اسٹور سے آیا تو بہت تھکا ہوا اور سست تھا، آتے ہی بیڈ روم میں چلا گیا اور جاکر چپ چاپ لیٹ گیا۔ نازو اُس کے لیے گرم گرم کھانا لگا چکی تھی کہ وہ فریش ہوکر کھانا کھانے آجائے… لیکن جب کافی دیر تک بھی قاسم نہیں آیا تو نازو بیڈ روم میں آگئی۔ قاسم تکیہ میں منہ دیے لیٹا تھا۔ نازو بہت حیران ہوئی اور قاسم پہ جھکتے ہوئے اس کے چہرے سے تکیہ ہٹایا تو قاسم کے چہرے پر مایوسی اور کرب تھا۔
اس نے پلکیں جھپکاتے ہوئے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’نازو میں بہت تھکا ہوا ہوں، مجھے کچھ دیر کے لیے تنہا چھوڑ دو۔‘‘
قاسم کے الفاظ سن کر نازو کے دل کو دھکا سا لگا، کیوں کہ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ نازو چپ چاپ قاسم سے دور ہوگئی۔ چند منٹ تک کمرے کے اندر اس کی چوڑیوں کی کھنک قاسم کے کانوں میں جلترنگ بجاتی رہی۔ پھر وہ لائونج میں آگئی۔ اس کا دل بھر آیا تھا۔ جب کہ ڈائننگ ٹیبل پر کھانا بھی ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ وہ زیرلب بڑبڑائی ’’میں نے تو سوچا تھا شوہر کے استقبال کے بعد کھانا وغیرہ کھا کر سکون سے عشا کی نماز پڑھوں گی… لیکن جناب کا تو موڈ ہی ٹھیک نہیں۔ یقینا مجھے تو اپنے رب کو راضی کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ جب رب راضی ہوتا ہی تو سب کچھ ٹھیک اور سیدھا ہوجاتا ہے۔‘‘
نازو نماز پڑھ کر دعا مانگ رہی تھی کہ اس کو اپنے پیچھے بھاری قدموں کی آواز سنائی دی، اور اس کے دل نے گواہی دی کہ جو اپنے اللہ پر بھروسا کرتا ہے وہ اس پر اس کی قوت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ دعا کے بعد وہ جائے نماز تہہ کرنے لگی تو سامنے قاسم پشیمان کھڑا تھا۔ اس نے قریب آتے ہوئے پوچھا ’’تم نے کھانا کھا لیا؟‘‘
تب نازو نے اداسی سے کہا ’’میں نے کبھی آپ کے بغیر کھانا کھایا ہے؟‘‘
قاسم نے مسکرا کر کہا ’’تم کھانا گرم کرو، میں ہاتھ منہ دھو کر آتا ہوں۔‘‘ اور کچھ ہی دیر بعد دونوں خوشی خوشی کھانا کھا رہے تھے۔ قاسم کے چہرے پر خوش گوار مسکراہٹ تھی اور وہ مزیدار کھانا پکانے پر نازو کی تعریف کررہا تھا، اور نازو ہشاش بشاش نظر آنے لگی تھی۔
باتوں باتوں میں نازو نے کہا ’’آپ یہ نہیں بتائیں گے کہ جب آپ آئے تھے تو اتنے اداس کیوں تھے؟‘‘
قاسم نے ٹالنے کی کوشش کی تو نازو نے اصرار نہ کیا، تب وہ کہنے لگا ’’میں نے اور راشد نے ایک ساتھ ہی تعلیم حاصل کی ہے، بلکہ میں تعلیم میں اُس سے زیادہ لائق تھا، لیکن وہ تو اتنے بڑے اسٹور کا مالک بن گیا اور میں محض بے روزگار۔ میری فرسٹ ڈویژن بھی میرے کچھ کام نہ آئی۔ اپنی حیثیت کا احساس شدت سے ہونے لگا۔‘‘
نازو نے اس کی بات سن کر دردمندی سے کہا ’’آپ کی بات اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہے، لیکن میں نے اس سے بھی اچھی بات پڑھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’دین کے معاملے میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھو، جب کہ دنیا کے معاملے میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو‘‘۔ یہی راحت و سکون کا راستہ ہے۔ اللہ چاہے گا تو ہمارے حالات بھی بدل جائیں گے، آپ کو بہت جلد جاب مل جائے گی۔‘‘ نازو کی باتوں سے قاسم کو کافی تسلی ہوئی اور وہ کسی قدر پُرسکون ہوگیا۔
قاسم بہت محنتی اور ایمان دار آدمی تھا، اسی لیے وہ صبح میں نوکری تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ باقی وقت راشد کی دکان پر بڑی محنت اور ایمان داری کے ساتھ اپنی ذمے داری نبھا رہا تھا، وہ ایک ایک پیسے کا حساب رکھتا، اور کوئی گھپلا نہیں ہونے دیتا تھا۔ راشد نے اس بات کو محسوس کرلیا تھا کہ جب سے قاسم اسٹور پر آیا ہے اشیا کی سیل میں اضافہ ہورہا ہے، اس لیے دوسرے ماہ کی تنخواہ دیتے ہوئے راشد نے قاسم کو الائونس بھی دیا۔ یوں کئی ماہ خاموشی سے گزر گئے۔
بالآخر قاسم کی کوششیں رنگ لائیں اور اس کو جاب مل گئی۔ جب قاسم نے راشد کو یہ خبر سنائی تو وہ چپ سا ہوگیا، کیوں کہ قاسم نے اس کو بتادیا تھا کہ اس مہینے کو پورا کرکے میں اسٹور کی ملازمت چھوڑ دوں گا۔
قاسم کو گورنمنٹ آفس میں جاب مل گئی تھی، وہ آفس میں بالکل نیا اور اجنبی تھا۔ دیانت داری اور ایمان داری اس کے مزاج کا حصہ تھی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ہنس مکھ اور خوش مزاج بھی تھا، اس لیے جلد ہی اس کے چند دوست بن گئے تھے۔
ایک دن اس کے ساتھی کلرک نے اسے باہر چل کر لنچ کی پیشکش کی تو قاسم نے حیران ہوتے ہوئے کہا ’’لنچ تو ہم روز گھر سے لاتے ہیں، پھر باہر کا کھانا کھانے اور پیسے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
کلرک ساتھی نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا ’’ہم پیسے کب خرچ کررہے ہیں، وہ تو کوئی اور کرے گا… اور باہر کے کھانے کے تو مزے ہی اور ہیں۔‘‘ قاسم نے ساتھی کلرک کی بات پر چونکتے ہوئے کہا ’’یعنی…؟‘‘
’’ارے یار ہمارے ایک دوست ہیں، انہوں نے دعوت کردی ہے۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا، تو قاسم نے سوچتے ہوئے سوال کیا ’’کہیں یہ وہی دوست تو نہیں جو کتنے ہی دن سے تمہارے پاس چکر کاٹ رہے تھے؟‘‘
ساتھی کلرک نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا ’’یار بس بھی کرو، چلو بس اب چلو…‘‘
قاسم نے معذرت کرتے ہوئے کہا ’’یار نہیں، بازار کا کھانا کھانے کی مجھے عادت نہیں، باہر کا کھانا مجھے نقصان کرے گا۔‘‘
قاسم اپنی جاب سے بہت مطمئن تھا اور ابھی اس نے اسٹور پر کام کرنا ختم نہیں کیا تھا، اسی لیے وہ زیادہ مصروف رہنے لگا تھا۔
مہینے کے اختتام پر قاسم نے راشد کو اطلاع دی کہ وہ کل سے دکان آنا چھوڑ دے گا۔ راشد نے اداس ہوتے ہوئے کہا ’’پلیز قاسم ایسا مت کرو۔‘‘ تو قاسم نے خوش مزاجی سے کہا ’’یار میں تو گھن چکر بن کر رہ گیا ہوں، صبح الٹا سیدھا ناشتا کرکے جلدی آفس کے لیے نکلتا ہوں، پھر آفس سے ہی یہاں آجاتا ہوں۔ کتنے دن سے تو بیگم سے بات نہیں ہوئی۔‘‘
راشد نے خوشامد سے کہا ’’ہاں ہاں تم کو بیگم سے بات کرنے کا بھی موقع مل جایا کرے گا، ایسا کرتے ہیں تمہارے ورکنگ آورز کم کردیتے ہیں، اب تم کو میں سپروائزر کی ذمے داری دینا چاہتا ہوں تاکہ تم ورکرز کی نگرانی بھی کرو اور حساب کتاب بھی سنبھالو، کیوں کہ اب تک مجھے تم جیسا امانت دار انسان کوئی دوسرا نہیں ملا۔‘‘ قاسم نے راشد کی بات کو فکرمندی سے سنتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے میں سوچ کر جواب دوں گا۔‘‘
اسٹور سے گھر لوٹتے ہوئے قاسم بے حد مسرور اور خوش تھا، وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا، کیوں کہ اس کے خیال کے مطابق اب اسٹور کی ذمہ داری کا بوجھ آج کے بعد اس کے کاندھے سے ہٹ جانے والا تھا، اس کی کوئی مجبوری نہیں تھی کہ وہ ضرور اسٹور کی ذمہ داری اٹھائے، اب وہ بے روزگار نہیں تھا۔ وہ خوشی خوشی وہاں سے نکلا، مہینے بھر کی محنت کی کمائی اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے مٹھائی کی دکان سے مٹھائی خریدی، پھر نازو کے لیے گجرے خریدے۔ جب وہ گھر پہنچا تو نازو استقبال کے لیے موجود تھی۔ دونوں ہی بے حد خوش نظر آرہے تھے۔ قاسم نے نازو کے ہاتھوں میں گجرے پہناتے ہوئے کہا ’’خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہماری مشکل آسان کردی اور اپنی رحمت کے دروازے کھول دیے اور مجھے سرکاری ملازمت مل گئی۔‘‘ پھر اس نے نازو کا منہ میٹھا کرایا۔
نازو نے شرماتے ہوئے کہا ’’واقعی ہمارا رب ہم پر بے حد مہربان ہے، آپ کے لیے ایک اور خوش خبری بھی ہے، شکر ہے کہ آج آپ جلدی آگئے اور اب بات کرنے کا موقع بھی مل گیا۔‘‘
قاسم نے الجھے ہوئے لہجے میں پوچھا ’’کیا ہم روز نہیں ملتے؟‘‘ نازو نے شرماتے ہوئے کہا ’’ملتے تو ہیں لیکن زیادہ بات کب ہوتی ہے!‘‘
قاسم نے پیار سے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا ’’نازو تم کیا کہنا چاہتی ہو؟‘‘
نازو نے شرماتے ہوئے جواب دیا ’’قاسم ہمارا رب ہم دونوں پر تمدن کی زیبائش اور خاندان کی آبیاری کی بھاری ذمہ داری ڈالنا چاہتا ہے۔‘‘ قاسم نے مسحور ہوتے کہا ’’میں باپ بننے والا ہوں!‘‘
اور پھر قاسم نے تشکر کے ساتھ سوچا: میرا رب ہم پر کتنا مہربان ہے، وہ ہم کو بھی رزق دینے والا ہے اور ہماری اولاد کو بھی۔ اور اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ اسٹور کی جاب بھی برقرار رکھے گا۔ آج کا دن اس کے لیے بہت اچھا ثابت ہوا تھا۔ پھر زندگی کی سب سے بڑی خوش خبری اسے ملی تھی کہ رب اس پر مہربان تھا اور اس کو اولاد کا تحفہ دینا چاہتا تھا۔

حصہ