جو ہونا تھا بتدریج وہی خوب ہوا

222

انیلہ افضال
۔23 اکتوبر 2000 کے خوشگوار دن سری نگر میں زرقہ اور وسیم کے گھر ایک خوبصورت پھول کھلا۔ جس کا نام اس خوش نصیب جوڑے نے زائرہ رکھا۔ یوں تو ہر بیٹی ہی اپنے ماں باپ کے لیے رب کی رحمت کے دروازے کھلتی ہے اور بہترین پرورش کے عوض میں جنت کی ضامن بنتی ہے مگر زائرہ کی صورت میں تو زرقہ اور وسیم کو مانو رحمتوں کا خزانہ مل گیا ہو۔ بچی جب اسکول جانے کے قابل ہوئی تو شہر کے بہترین ایلیٹ کلاس اسکول ’’سینٹ پال انٹرنیشنل اکیڈمی‘‘ میں داخل کروا دیا گیا۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں رقصاں تھیں۔ ماں ایک بہترین اسکول میں ٹیچر اور باپ سری نگر کی ایک بڑی کمپنی کا مینیجر، شہر کا بہترین اسکول، کھلا ماحول اور کسی بھی قسم کی روک ٹوک سے بے نیاز زائرہ عمر کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے تیرھویں منزل پر پہنچی تو اس کی زندگی میں ایک بڑی تبدیل رونما ہوئی۔
ہوا کچھ یوں کے بھارت کے مشہور ہدایت کار نیتیش تیواڑی نے مشہور پہلوان مہندر سنگھ پھوگاٹ اور اس کی پہلوان بیٹی گیتا پھوگاٹ کی زندگی پر ’’دنگل‘‘ نام سے فلم بنانے کا ارادہ کیا۔ مشہور اداکار عامر خان اس فلم کے پروڈیوسر تھے جو مسٹر پرفیکشنسٹ کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے رول کے لیے ایک پرفیکٹ لڑکی کی تلاش شروع کر دی اور ان کی یہ تلاش سری نگر کی اسی زائرہ وسیم پر جا کر ختم ہوئی۔ لڑکی بھی کافی بولڈ اور پر اعتماد تھی۔ گھر سے کسی قسم کی کوئی روک ٹوک بھی نہ تھی اور ویسے بھی بالی وڈ تو ہر بھارتی کا خواب ہے۔
زائرہ کو گیتا کے رول کے لیے سائن کر لیا گیا۔ فلم 2016 میں ریلیز کردی گئی اور باکس آفس پر چھا گئی اور صرف پندرہ برس کی عمر میں زائرہ سوپر سٹارز کی صف میں آ کھڑی ہوئی۔ کیوں نہ ہوتی اس کی پہلی ہی فلم نے 2000 کروڑ کا بزنس کیا تھا۔ دوسری فلم ’’سیکرٹ سپر سٹار‘‘ نے بھی اگلے ہی برس 2017 میں نو بلین کا موٹا منافع کمایا۔ بالی وڈ انڈسٹری اس ’’آ گئی اور چھا گئی‘‘ سپر سٹار پر مکھیوں کی طرح گرنے لگی اور زائرہ نے تیسری فلم ’’دی سکائے از پنک‘‘ سائن کر لی۔ مئی جون 2019 تک اس فلم کی شوٹنگ بھی مکمل ہو گئی تھی۔
فلمی دنیا کی اس فلمی کہانی میں ٹوئسٹ 30 جون کی صبح 5 بجے رونما ہوا، جب زائرہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ایک بیان ریلیز کیا، ’’پانچ سال قبل میرے ایک فیصلے نے میری زندگی بدل دی تھی اور میں ایک اور فیصلہ کرنے والی ہوں جو یقیناً میرے گزشتہ فیصلے سے بہتر ثابت ہو گا‘‘ اور پھر اگلے کچھ ہی روز میں بھارتی انڈسٹری میں ایک دھماکہ ہوا۔ زائرہ وسیم نے ایک بڑا فیصلہ کیا اور اسے سوشل میڈیا پر نشر بھی کر دیا۔’’ان پانچ برسوں میں بالی وڈ نے مجھے پہچان اور عزت دی مگر اب میں اس انڈسٹری کا حصہ نہیں ہوں کیونکہ میں نے محسوس کیا ہے کہ بالی وڈ انڈسٹری بڑی خاموشی سے مجھے میرے خدا سے دور کر رہی ہے۔ میری زندگی سے برکت ختم ہو گئی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے ایمان پر ڈاکہ زنی کی گئی ہے‘‘۔
یہ کوئی بڑی بات نہ تھی ہر روز ہزاروں لڑکیاں بالی وڈ کا حصہ بنتی ہیں اور ہزاروں اس سے جدا ہو جاتی ہیں مگر بالی وڈ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تو زائرہ وسیم کا انڈسٹری چھوڑے کا اعلان کیوں تہلکہ مچا گیا؟ ایسا کیا ہوا کہ نہ صرف بالی وڈ بلکہ بھارت کے طول وعرض میں ہاہا کار مچ گئی۔ تو صاحب! کسی نے انڈسٹری چھوڑے کی وجہ اپنے ایمان کو نہیں بنایا۔ آج تک کسی نے اپنے رب سے اپنے تعلق کو بچانے کے لیے اپنے کیرئیر کو خیر باد نہیں کہا۔ کسی نے اپنی زندگی سے جاتی ہوئی برکت کا ہاتھ تھامنے کے لیے شہرت اور دولت کو ٹھوکر نہیں ماری۔ سبحان اللہ! اس اٹھارہ سال کی لڑکی نے جب یہ کہا کہ ’’میری زندگی سے برکت ختم ہو رہی تھی‘‘۔
تو یقینا یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ برکت کا تعلق نہ تو دولت سے ہے نہ ہی شہرت سے بلکہ یہ سراسر روح کا تعلق ہے اور یہی بات بھارت میں اٹھنے والے طوفان کا باعث ہے۔ چھوڑنا تھی انڈسٹری تو چپ چاپ چھوڑ جاتی یہ روح، رب، سکون، اطمینان، ایمان اور برکت کو بیچ میں لانے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک زائرہ جائے گی تو کئی اور آجائیں گی لیکن اگر اس اٹھارہ سالہ لڑکی کی دیکھا دیکھی دیگر مسلمان سپر سٹارز کا ایمان بھی جاگ گیا، اگر ان کو بھی برکت کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا اور اگر وہ بھی رب کی جانب سفر کرنے لگے تو پوری کی پوری بالی وڈ انڈسٹری دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گی۔ اس فقط اٹھارہ سال کی لڑکی نے دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ شاباش! زائرہ وسیم!

حصہ