بزم نگارِ ادب پاکستان ایک متحرک ادبی تنظیم ہے‘ خواجہ رضی حیدر

1011

ڈاکٹر نثار احمد نثار
دبستانِ کراچی ادبی حوالوں سے نہایت اہمیت کا حامل ہے جہاں مختلف ادبی ادارے اور تنظیمیں مشاعرے‘ مذاکرے‘ تنقیدی نشستیں اور کتابوں کی تعارفی تقریبات کا اہتمام کر رہی ہیں‘ ادب کی متحرک تنظیموں میں بزمِ نگارِ ادب پاکستان بھی شامل ہے جو کہ تواتر کے ساتھ ادبی محفلیں سجا رہی ہے‘ آج اس تنظیم کے تحت نثار احمد نثار کے تازہ شعری مجموعے ’’آئینوں کے درمیان‘‘ کی تقریب پزیرائی اور مشاعرے کا اہتمام ہے۔ میرے نزدیک یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ایک معتبر شاعر کا مجموعہ کلام منظر عام پر آیا ہے۔ میری ان سے ملاقات محترم رسا چغتائی مرحوم کے گھر ہوئی تھی میں انہیں ان کی کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر‘ ادیب اور محقق خواجہ رضی حیدر نے بزمِ نگارِ ادب پاکستان کی منعقدہ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ادب اور زندگی ساتھ ساتھ چلتے ہیں جب ہم زمینی حقائق سے منہ موڑ لیتے ہیں اور قاری کو سنہرے خواب دکھاتے ہیں تو ادب کی ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔ شاعری کا شعبہ ہر زمانے میں انتہائی اہم ہوتا ہے۔ لوح و قلم کی پرورش میں ریاست بھی حصہ دار ہوتی ہے۔ بزم نگارِ ادب پاکستان کی یہ تقریب معروف شاعر ہ طاہرہ سلیم سوز کی رہائش گاہ پر ترتیب دی گئی تھی جس میں رونق حیات اور پروفیسر شاداب احسانی مہمانان خصوصی‘ اختر سعیدی اور اصغر خان مہمانان اعزازی تھے واحد رازی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ساجدہ سلطانہ نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی جب کہ عشرت حبیب نے نعت رسولؐ پیش کیا۔ اس پروگرام کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ بزمِ نگارِ ادب پاکستان کے روح رواں سخاوت علی نادر نے راقم الحروف کو بتایا کہ وہ میری شعری مجموعے کی تقریب پزیرائی کرنا چاہتے ہیں میں نے انہیں سمجھایا کہ 20 جون 2019ء کو آرٹس کونسل کراچی نے میرے شعری مجموعے ’’آئینوں کے درمیان‘‘ کی تقریب اجراء کا اہتمام کیا تھا جو کہ ایک قابل ذکر پروگرام تھا فی الحال اس حوالے سے مزید پروگرام مناسب نہیں ہے‘ تاہم وہ نہیں مانے میں ان کی محبتوں کا مقروض ہوں اللہ تعالیٰ انہیں خوش رکھے۔ بزم نگارِ ادب کا یہ پروگرام 7 بجے شام شروع ہوا جس کے پہلے حصے میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی اور رونق حیات نے میرے فن و شخصیت پر گفتگو کی جب کہ اختر سعیدی نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔ شاداب احسانی نے کہا کہ وہ راقم الحروف کو ڈاکٹر شاہد الوری کے داماد کی حیثیت سے جانتے تھے ایک دن معلوم ہوا کہ وہ شاعر بھی ہیں‘ میں نے ان کی شاعری پڑھی ہے‘ ان کے یہاں سماجیات نمایاں ہیں‘ ایک اچھے منظر نامے میں ان کی پرداخت ہوئی‘ شاعری میں ان کا اپنا انداز ہے‘ یہ مضبوط نوعیت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے مزید کہا کہ اگر ادب معاشرے کا ترجمان ہے تو قاری کا فقدان کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ قارئینِ کتب کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے‘ یہ ایک لمحہ فکر ہے۔ رونق حیات نے کہا کہ بزمِ نگارِ ادب شہر کی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے نمایاں شناخت رکھتی ہے‘ ثقافت اپنا سفر طے کر رہی ہے شاعری آگے بڑھ رہی ہے۔ صحافت اور شاعری کا تعلق بڑا قدیم ہے۔ انہوں نے راقم الحروف کے بارے میں بھی گفتگو کی اور راغب مراد آبادی صاحب کو بھی خراج عقیدت پیش کیا کہ ہر زمانے میں ان کا نام زندہ رہے گا لیکن ان کے شاگرد آج تک متحد ہو کر میدانِ عمل میں نہیں آئے حالانکہ کراچی میں بھی ان کے کافی شاگرد موجود ہیں۔ اس دور کے بعد مشاعرہ ہوا جس میں خواجہ رضی حیدر‘ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی‘ رونق حیات‘ اختر سعیدی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ اصغر خان‘ عبدالمجید محور‘ وسیم احسن‘ چاند علی‘ شہاب شائق‘ نصیرالدین نصیر‘ عشرت حبیب‘ ہما بیگ‘ یاسر سعید صدیقی‘ سخاوت علی نادر‘ تنویر سخن‘ انیس جعفری‘ سعد الدین سعد‘ طاہرہ سلیم سوز‘ احمد سعید خان‘ ساجدہ سلطانہ اور واحد رازی نے اپنا کلام پیش کیا۔ سخاوت علی نادر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا جب کہ ساجدہ سلطانہ نے کلماتِ تشکر کے ساتھ ساتھ نگارِ ادب کے اغراض و مقاصد بھی بیان کیے۔ اس موقع پر صاحب اعزاز کو شیلڈ پیش کی گئی۔ سلیم ایڈووکیٹ کو اجرک کا تحفہ دیا گیا اور دیگر مسند نشینوں کو بھی تحفے تحائف پیش کیے گئے۔

بزمَ تقدیس ادب کراچی کا مشاعرہ

بزمِ تقدیس ادب پاکستان (کراچی) کے زیر اہتمام 14 جولائی 2019ء کو احمد سعید خاں کی رہائش گاہ شادمان ٹائون کراچی میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا‘ سعید الظفر صدیقی نے صدارت کی۔ رونق حیات مہمان خصوصی اور ظہور الاسلام جاوید مہمان اعزازی تھے۔ احمد سعید خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے‘ نعت رسولؐ مقبول کی سعادت عبدالوحید تاج نے حاصل کی۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ آصف رضا رضوی‘ اختر سعیدی‘ چمن زیدی‘ فیاض علی فیاض‘ اوسط جعفری‘ سلیم فوز‘ عبیداللہ ساگر‘ شوکت علی جوہر‘ حامد علی سید‘ عبدالمجید محور‘ سخاوت علی نادر‘ سعد الدین سعد‘ خالد میر‘ صفدر علی انشا‘ اکرام الحق اورنگ‘ سخاوت حسین ناصر‘ یاسر سعید صدیقی‘ شجاع الزماں خاں‘ مطربہ شیخ‘ علی کوثر‘ چاند علی اور دیگر نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ صاحب صدر نے کہا کہ بزمِ تقدیس ادب گزشتہ سات سال سے تواتر کے ساتھ مشاعرے کر رہی ہے جوکہ خوش آئند اقدام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری کے ذریعے ہم معاشرے کی فلاح و بہبود کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ شعرائے کرام معاشرے کا اہم حصہ ہیں ان کے مسائل حل ہونے چاہئیں اس سلسلے میں کوئی بامقصد پلیٹ فارم بنایا جائے اور جو لوگ قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہیں ان کی مدد کی جائے۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ انہوں نے اپنی تنظیم نیاز مندان کراچی کے تحت ایک عالمی کانفرنس منعقد کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ حکومتِ وقت کو یہ احساس ہو جائے کہ اب قلم کار بیدار ہو چکے ہیں‘ وہ اپنے حقوق کی خاطر ہر مشکل سے ٹکرانے کے لیے تیار ہیں۔ ہماری کانفرنس کے نتیجے میں قلم کاروں کے مسائل سامنے آئے‘ ہم نے حکومتی اداروں تک قلم کاروں کی آواز پہنچائی ہے ہماری تحریک میں قلم کاروں کی بھلائی مضمر ہے انہوں نے مزید کہا کہ مشاعروں کے انعقاد سے ادبی ماحول پروان چڑھتا ہے‘ ذہنی آسودگی حاصل ہوگی ہے۔ مہمان اعزازی نے کہا کہ کراچی میں ادبی فضا بحال ہو چکی ہے‘ آج یہ صورت حال ہے کہ ایک ہی دن میںکئی کئی پروگرام ہو رہے ہیں‘ جوان شعرا سامنے آرہے ہیں‘ اس کا مطلب ہے شاعری اگلی نسل تک منتقل ہو رہی ہے۔ جو لوگ مشاعرے یا ادبی پروگرام ترتیب دے رہے ہیں وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر وقار احمد زبیری ہمہ جہت خوبیوں کے مالک تھے‘ پروفیسر ہارون رشید

ڈاکٹر وقار احمد زبیری ہمہ جہت خوبیوں کے مالک تھے‘ وہ ممتاز ماہ تعلیم‘ سائنس دان‘ محقق‘ مترجم‘ ادیب اور مصنف تھے۔ وقار زبیری بلاشبہ ایک نابغۂ روزگار اور عہد ساز شخصیت تھے۔ نرم خو‘ دھیمہ لہجہ اور اسم بامسمیٰ‘ باوقار انداز تکلم‘ ہر ملاقاتی کو اپنا گرویدہ بنانے کا ہنر رکھتے تھے۔ کم گوئی‘ مختصر بیانیہ‘ مگر مدلل پیرایہ ان کی پہچان تھی۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے جمعیت الفلاح اسلامی تہذیبی مرکز کراچی میں ممتاز ماہر تعلیم و دانشور‘ نائب صدر جمعیت الفلاح پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد زبیری کی یاد میں تعزیتی اجلاس سے خطاب میں کیا۔ مقررین میں ممتاز ماہر تعلیم و دانشور پروفیسر ہارون رشید‘ پروفیسر ڈکٹر محمد اسحاق منصوری‘ پروفیسر بدرالدجیٰ خان‘ قیصر خان‘ صدر جمعیت الفلاح سعد زبیری‘ صاحبزادہ وقار احمد زبیری‘ پروفیسر شاہین حبیب‘ ممتاز شاعر و سماجی کارکن الحاج نجمی‘ ممتاز کالم نویس سعید احمد صدیقی‘ ممتاز مذہبی اسکالر پیر محمد طالب چوہدری شامل تھے۔ ممتاز شاعر نظر فاطمی نے ممتاز ماہر تعلیم و سابق پرنسپل اردو سائنس کالج پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی کا مقالہ پڑھا۔ پروفیسر ہارون رشید نے کہا کہ ڈاکٹر وقار زبیری بے باک اور نڈر تھے‘ جب تعلیمی اداروں کو نیشنلائزڈ کیا جارہا تھا تو وہ اس کے خلاف چلنے والی تحریک کے فعال رہنما تھے اور کھل کر اس کے خلاف بات کرتے تھے‘ وہ اپنی بات دلیل کے ساتھ کرتے‘ کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ ڈاکٹر اسحاق منصوری نے کہا کہ ڈاکٹر وقار زبیری کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے‘ وہ بڑی علمی شخصیت تھے‘ اس کے باوجود سادگی اور انکساری ان کی زندگی کا خاصا رہی۔ پروفیسر بدرالدجیٰ خان نے کہا کہ وہ ہماری ہر طرح رہنمائی کرتے تھے میں نے ان سے کبھی کوئی ناپسندیدہ اور ناشائستہ جملہ نہیں سنا۔ صدر جمعیت الفلاح قیصر خان نے کہا کہ ڈاکٹر وقار زبیری کی رحلت ہمارے لیے بہت بڑا سانحہ ہے۔ جمعیت الفلاح اپنے سرپرست اور رہنما سے محروم ہو گئی ہے۔ سعد زبیری نے کہا کہ میرے والد بڑے صابر اور شاکر تھے‘ ان کی تعلیم و تربیت ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اس موقع پر پروفیسر عنایت علی خان‘ اطہر ہاشمی‘ جلیس سلاسل‘ راشد عزیز‘ محمود عزیز اور دیگر اہل علم و دانش اور سماجی شخصیات موجود تھیں۔

معروف شاعرہ نور شمع نور کا شعری مجموعہ ’’دستکِ امکاں‘‘ شائع ہوگیا

کینیڈا میں مقیم پاکستانی نژاد معروف شاعرہ نور شمع نور کراچی میں پیدا ہوئیں‘ طویل عرصے تک درس و تدریس سے وابستہ رہیں‘ ان کا تعلق علمی گھرانے سے ہے‘ انہوں نے نو عمری میں لکھنا شروع کر دیا تھا ان کی کہانیاں روزنامہ انجام کے بچوں کے صفحے پر امداد نظامی کی زیر ادارت شائع ہوتی رہیں۔ انہوں نے پروفیسر وحیدہ نسیم کی سرپرستی میں شعر و سخن کی محفلیں سجائیں۔ روزنامہ جنگ کے صفحہء طلباء میں نثار احمد زبیری کے زمانے میں ایک سال کالم نگاری کی انہوں نے جامعہ کراچی سے علم کیمیا میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی زندگی کا ایک اہم واقعہ کراچی سے کینیڈا ہجرت ہے جس نے ان کی شاعری پر گہرا اثر ڈالا۔ اپنی مانوس فضائوں سے دوری نے داخلی اور ذاتی احساسات کو اجتماعیت کے کرب میں تبدیل کردیا۔ ان نئے احساسات کا اظہار نور شمع کے یہاں جا بجا ملتا ہے ان کی شاعری کے دو مجموعے منظر عام پر آئے ہیں دستِ امکان اور دستکِ امکاں‘ ان کا دوسرا مجموعہ دستکِ امکاں جون 2019ء میں منصۂ شہود پرآیا جس کا انتساب انہوں نے اپنے شوہر راشد حسین راشد کے نام کیا ہے۔ مسلم شمیم ایڈووکیٹ‘ کلیم عاجز (بھارت)‘ پروفیسر علیم اللہ حالی (بھارت) اور پروفیسر ڈاکٹر سید سرور حسین کے تبصرے شامل ہیں‘ یہ کتاب 200 صفحات پر مشتمل ہے جس میں ایک حمد‘ ایک نعت‘ 20 نظمیں اور 64 غزلیں شامل ہیں۔ مسلم شمیم ایڈووکیٹ نے لکھا ہے کہ نور شمع نور کا تخلیقی سفر نصف صدی پر محیط ہے تاہم ان کا شعری ارتقاء کا سفر جاری ہے‘ یہ پاکستان کی شاعرات کے قبیلے میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں کہ انہوں نے یہ مقام بڑی محنت و لگن کے بعد حاصل کیا ہے یہ صوبہ بہار (بھارت) کی ایک نامور علمی و ادبی شخصیت پروفیسر نجم الہدیٰ کی نواسی ہیں یہ انسانی رشتوں کی پاسداری کی قائل ہیں ان کے اشعار میں اس بات کے اشارے ملتے ہیں دوسروں کے دکھ درد سمیٹ کر محبتیں تقسیم کی جائیں‘ مثبت شاعری کی جائے اور معاشرتی ناہمواریوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان کی نظمیں زندگی کی عکاس ہیں جن میں تنوع اور کثیر الجہتی کی جلوہ سامانیاں نظر آتی ہیں ان کا اپنا لہجہ ہے ان کا اپنا ڈکشن ہے جو انہیں دوسری شاعرات سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کی بصیرت اور بصارت میں ادبی مشاہدات کا بہت عمل دخل ہے ان کے یہاں غمِ ذات کے ساتھ ساتھ غمِ حیات کا جمالیاتی اظہار بھی پایا جاتا ہے۔ کلیم عاجز نے لکھا ہے کہ نور شمع نور کا ذوق سخن بالکل طبعی اور وہبی ہے اور شاعری ان کے اندر موجزن ہے جو خود بخود نوکِ قلم پر رواں ہو جاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت عمدہ تراکیب تراشتی ہیں خوب سے خوب تر استعارے اور تشبیہات استعمال کرتی ہیں کہ قاری دنگ رہ جاتا ہے۔ ان کی شاعری رنگینی اور پُرکاری کی مثالی شاعری ہے۔ پروفیسر علیم اللہ حالی لکھتے ہیں کہ نور شمع نور اپنے ماحول سے تخلیقی تحرک حاصل کرنے میں آزاد اور خود کفیل ہیں ان کی شاعری میں بجا طور پر نسائی محسوسات موجود ہیں انہیں الفاظ پر مکمل دسترس و قدرت حاصل ہے ان کی متعدد نظمیں ایسی ہیں جو کہ احتسابی ارتکاز کی عمدہ مثالیں ہیں جن سے ان کی فنی صلاحیت کا اظہار ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سید سرور حسین لکھتے ہیں کہ نور شمع نور کی شاعری میں جہاںِ زمانے کے انحلال اور انحطاط پر نوحہ سرائی ہے وہاں سوزِ دروں کا کرب‘ دل گرفتہ استعارات اور تشبیہات کا جامہ پہن کر نور شمع نور کی شاعری میں گہری معنویت پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں احساسات و جذبات کے ابلتے ہوئے طوفان کو الفاظ کے وضع و ترکیب سے سبک خرامی عطا کرکے اپنے کمالِ فن کا جو مظاہرہ کیا ہے اس سے ان کی فکری اور شعری دسترس کا اندازہ ہوتا ہے۔

حصہ