یوٹیوبر کی دنیا

666

دوسرا اور آخری حصہ
یو ٹیوب کی نئی دنیا میں خوش آمدید ۔ سابقہ قسط میں ہم نے یو ٹیوب کے قیام ، اس کا کچھ تاریخی پس منظر ،کام کا طریقہ کار بھی بتایا تھا ۔ ساتھ ہی پاکستان میں کچھ مقبول یو ٹیوب چینلز کا بھی بتایا تھا۔ اصل میں بات ساری پیسے کی ہے۔ جب سے یو ٹیوب نے ڈالروں سے اپنے تعلق کو جوڑا ہے تب سے ہر طرف ڈالر ہی ڈالر کاچرچا ہے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی اس سے اور کئی تانے بانے جڑے ہیں ۔یو ٹیوب نے اپنے آپ کو سماجی میڈیا پلیٹ فارم جیسی شکل دینا شروع کی تو اس کی اثرانگیزی اور بڑھ گئی۔کرکٹ ورلڈکپ کے دوران اگر آپ نے کوئی میچ یو ٹیوب پر لائیو دیکھنے کی کو شش کی ہوگی تو آپ کو یقیناً تجربہ ہوا ہوگا کہ اول تو لائیو ویڈیواسٹریم باآسانی دستیاب نہیں تھی، رائٹس کی وجہ سے تاہم سیکڑوں یو ٹیوب چینلز پر لوگ لمحہ لمحہ آڈیوکمنٹری،لائیو اسکور گرافکس کی صورت دکھا کر لوگوں کو سائڈ میں تبصروں میں شامل کیے ہوئے تھے۔اس کے علاوہ بھی اگرآپ کوئی یو ٹیوب لائیو چینل چلائیں توسائڈ میں چیٹ بار بہت کچھ سمجھا دے گی۔یو ٹیوب نے ویڈیو اپ لوڈنگ کے ساتھ لائیو یعنی براہ راست نشریات کی سہولت فراہم کر کے انقلابی پیش رفت کر ڈالی ۔یہ لائیو اسٹریمگ موبائل کے ذریعے یا کسی ویب کیم یاانکوڈر سروس کے ذریعہ بھی ممکن ہو جاتا ہے ۔بات یہی نہیں بلکہ یو ٹیوب اور گوگل کے اشتراک سے ڈیٹا کا ایک ایسا AIآرٹیفیشل انٹیلیجینس نظام بنا ہے کہ جو بہت خطرناک بھی ہے ۔اسکے لیے یو ٹیوب نے Parental CONTROLکا فیچر متعارف کرایا ہے ،جو نہایت اہم ہے ۔ڈیٹا کے اشتراک کے تناظر میں کیا احتیاطی تدابیر کی جائیں اسے بہت اچھے انداز سے سمجھایا ہے ہمارے عزیز دوست سہیل بلخی نے ۔ وہ اس تناظر میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ بات انتہائی خطرناک ہے کہ 12 سال سے کم عمر بچوں کے ہاتھ میں موبائل تھما دیا جائے کہ یو ٹیوب دیکھو۔
یو ٹیوب کو خوب اندازہ ہے کہ بڑوں والا نارمل یو ٹیوب بارہ سال سے کم عمر بچوں کے ذہن و دماغ میں کیا طوفان اٹھا سکتا ہے اور انکی شخصیت پر اسکے کیا منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیئے یوٹیوب نے “یو ٹیوب فور کڈز” YTkidsلاؤنچ کیا ہے۔والدین یہ ایپ انسٹال کرکے اپنے بارہ سال سے کم عمر بچوں کی عمروں کے مطابق یہ ایپ سیٹ اپ کرتے ہیں۔ایپ والدین سے بچے کا نام اور عمر پوچھ کر اسی عمر سے مطابقت رکھنے والے کونٹینٹ اور سروسز سیٹ کرکے ایک یا ایک سے زائد پروفائل بنا دیتا یے۔اگر چھ سالہ بچے کو فون پر یو ٹیوب کھول کر دینا ہے تو اسکے نام سے جو پروفائل آپ نے بنایا یے اسے کھول کر تھما دیں اور دس سالہ بچہ جب استعمال کرے تو اسکے پروفائل والا یو ٹیوب فور کڈز کھول کر تھما دیں۔ نہ یہ ڈر کہ بچے کو بڑی عمر والے اشتہارات نظر آئیں گے نہ کوئی مواد ، نہ ہی یہ ڈر کہ وہ کچھ اپنی عمر سے بڑے لوگوں کی کوئی چیز سرچ کرکے دیکھ سکتا ہے۔بچوں سے بچپنا اور معصومیت مت چھیننے کی کوشش کریں۔کمپیوٹر اور موبائل کے پیرنٹل کنٹرول فیچر کو سمجھنے اور سمجھنے کے بعد استعمال بھی کیجیے۔بچے آپکے کھلونے نہیں۔آپکی ذمہ داری ہیں۔
جب میں ایک اسکول سے وابستہ تھا تو کسی سے سنا تھا کہ بچوں کو جتنا نقصان والدین پہنچا سکتے اور پہنچاتے بھی ہیں دوسرے چاہیں بھی تو نہیں پہنچا سکتے ؟آج کل جب بچوں کے ہاتھوں میں موبائل ڈیوائسز، لیپ ٹاپ وائی فائی کنکشن کے ساتھ دیکھتا ہوں جس پر پیرنٹل کنٹرول زیرو ہوتا ہے تو یہ بات یاد آتی ہے۔والدین جاننا بھی نہیں چاہتے کہ کیا کچھ سیفٹی اور سائبر نینی جیسے فیچر ونڈوز اور موبائل پر پہلے ہی سے موجود یا بہت کم قیمت پر دستیاب ہیں۔بعض والدین تو فلسفیانہ اور دانشورانہ انداز میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بچوں کو نیکی اور بدی کی باؤنڈری لائن سمجھا دی ہے یا یہ کہ انکے بچے غیر معمولی قسم کے فرشتہ صفت ہیں۔مگر جان لیں کمپیوٹر تو ایک مشین ہی ہے ذرا سی ٹائپنگ میں ایک حرف غلط ہوجائے انگلی پھسل جائے یا آٹو ٹائپنگ آن ہو تو بندہ لکھنا کچھ چاہتا ہے اور لکھا کچھ آجاتا ہے۔کہاں کسی کے بس میں ہے کہ ٹائپنگ کی غلطی نہ ہو؟ بچے آپ کو پیارے ہیں تو تھوڑا وقت یہ سیکھنے میں لگایئے کہ آپ کب کب اور کہاں کہاں اپنے ہی بچے کو اپنی نادانی سے بھر پور نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں
اور اپنے گھر میں سانپ بچھو کے داخل ہونے والے سارے سوراخ بند کر انکی حفاظت کی بھر پور کوششیں کیجیئے۔‘‘
چلیے اسی تناظر میں تھوڑی خشک ،مگر بہت کام کی دلچسپ اور تحقیق شدہ باتیں بتاتے ہیں ۔ڈاکٹر ویرو نیکا اسٹوئیلوا (Veronika STOILOVA)بلغاریہ کی ایک یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی استاد ہیں ۔YOU TUBE EFFECT AND ITS IMPACT ON GLOBAL POLITICSکے عنوان پر انہوں نے ایک تحقیقی مقالہ 2016میں لکھا ۔
اس مقالے میں انہوں نے اپنی تحقیق کے بعد اس بات کا اقرار کیا کہ یو ٹیوب بھی… جی ہاں ۔یو ٹیوب، محض ایک ویڈیو اپ لوڈنگ سائٹ بھی عالمی سیاسی عمل پر اثر انداز ہو جاتی ہے ۔
YouTube also affects the political process in the world in ways that go beyond the ordinary video sharing.
وہ کہتی ہیں کہ یو ٹیوب کی اثر اندازی فی زمانہ اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ فی زمانہ ہر شخص کی ہاتھ میں سیل فون اور دیگر ویڈیو ریکارڈنگ ڈیوائسز خبر یا معلومات پہنچانے کا اہم ذریعہ بن چکی ہیں جنہیں یو ٹیوب پر لگا کر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں با آسانی پہنچا دیتا ہے ۔پھر یہ کہ دیکھنے والوں کی تعداد کے مطابق رقم بھی دیتا ہے تو ویڈیو ڈالنے والا اس کو مزید پھیلانے کے لیے ہر ممکن ذرائع خود استعمال کرتا ہے ۔اب ا سکے لیے اُسے کسی ٹی وی چینل کی محتاجی نہیں ہوتی ، ہر اسمارٹ موبائل فون والا خود ایک بریکنگ نیوز چینل بن چکا ہے ، جس خبر کو جیسے چاہتا ہے پھیلا دیتا ہے ۔یو ٹیوب نے اپنے استعمال کنندگان کو ایک مزاحیہ کلپ سے لے کر سیاسی ویڈیو پیغامات یا خفیہ ریکارڈڈ کلپس تک ہر قسم کے پیغام کو بھرپور طریقہ سے پھیلانے کی پوری سہولت کاری فراہم کی ہوئی ہے ۔
YouTube has made a huge impact on a variety of different aspects ranging from the presidential election (for example The United States presidential election), global politics issues, security threats, etc. Thanks to the peer-to-peer platforms and videosharing technology people all around the world can witness many hidden activities and see the results of some decisions taken by different country leaders and governments. What YouTube has given people is a wide video platform through which they can show the world the reality of situations that may not be broadcast onthe news or may be intentionally hidden by the government.
گویااس تحقیق نے بھی یہ بتایا کہ امریکی الیکشن پر بھی یوٹیوب کی ویڈیوز نے اثر ڈالے ،صرف امریکی الیکشن نہیں بلکہ عالمی سیاسی حالات بھی ، ساتھ ہی دیگر ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارمز بھی اس ضمن میں شامل ہیں جن کی بدولت دنیا بہت سارے وہ چھپے ہوئے معاملات جان سکی جو اُن سے پوشیدہ تھے۔ان کا کہنا ہے کہ یو ٹیوب کی ویڈیوز پر کئی ممالک نے پابندی بھی لگائی ۔ پاکستان میں ناموس رسالت ﷺ کے تناظر میں ، ایران نے بھی انٹر نیٹ اسپیڈ میں کمی کر کے ویدیو اسٹریمنگ کنٹرول کرنے کی کوشش کی، چین نے بھی کچھ حکومت مخالف واقعات کی تصاویر شیئر ہونے پر پورے چین کو ایسی سخت پابندی سے گزارا۔یہ بات ضرور ہے کہ یو ٹیوب پر ویڈیو کے سچ جھوٹ کی تصدیقی عمل کا کوئی طریقہ کار نہیں، البتہ کاپی رائٹ ایکٹ پر نہایت سختی سے عمل کیا جاتا ہے ۔ کسی کی ویڈیو کوئی استعمال کرے یا میوزک استعمال کرے بغیر اجازت پھر یو ٹیوب خوب خبر لیتا ہے ۔ان کے مطابق یو ٹیوب کو کئی دہشت گرد تنظیموں نے عالمی میڈیا کو اپنے موقف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے افراد کار کو تربیت دینے اور ان کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں بھی استعمال کیا۔کئی ویڈیوز ایسی سامنے آئیں جن میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو دکھایا گیا۔کچھ محققین نے اسے ’یو ٹیو ب وار ‘بھی قرار دیا۔
یہ بھی درست ہے کہ یو ٹیوب اس وقت ’فروغ علم‘، درس و تدریس کے لیے سب سے بڑا موثر پلیٹ فارم ہے۔آپ کو دنیا کی کوئی زبان سیکھنی ہو۔کوئی مسئلہ حل کرنا ہو حتیٰ کہ گھر کی وائرنگ کرنی ہو یا گاڑی کا مسئلہ حل کرنا ہو اس میں سب موجود ہے۔یہی نہیں پڑوسی ملک بھارت میں الیکشن 2014کے تناظرمیں امرتسر یونیورسٹی کے دو ڈاکٹرز نے یو ٹیوب پر چلائے گئے سیاسی اشتہارات کے مواد پراس عنوان سے تحقیق کی کہ
A Content Analysis of YouTube Political Advertisements: Evidence from Indian Parliamentary Elections
ان کے مطابق یو ٹیوب ایک مقبول ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ہے جسے سیاسی جماعتیں ووٹر کے مزاج اور عمل میں تبدیلی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ان کے مطابق2014کے بھارتی انتخابات کو پہلے Social Media Basedالیکشن کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں 92یو ٹیوب اشتہارات جنہیں انڈین نیشنل کانگریس اور55سیاسی اشتہارات جو کہ BJPنے جاری کیے کوانہوں نے اپنی تحقیق کے لیے منتخب کیا اور ان کے مواد کا تجزیہ کیا۔یہی نہیں بلکہ وائس آف امریکہ نے اروند گپتا (بی جے پی ،سوشل میڈیا الیکشن مہم کے ہیڈ )کی زبانی بھی یہی رپورٹ کیا کہ بی جے پی کی کامیابی میں سب سے اہم حقیقت سوشل میڈیا مہم تھی۔
He said social media affected 30 to 40 percent of the overall seats, a number he said could go up to 60 percent by the 2019 general elections. In many constituencies, social media was amongst the top three communication tools, overtaking traditional methods such as advertisements.
یہی بات پاکستان کے الیکشن و سیاسی منظر نامے کہ لیے بھی کہی جا سکتی ہے ۔ اہل پاکستان نے تو یہ بات2013سے محسوس کی جو اب شدت کے ساتھ سامنے آچکی ہے ۔آئے دن مختلف ویڈیوز کی ریلیز ہو اور اس کے بعد ایک سیاسی شور اور ہلچل کا آغازہو جاتا ہے ۔
امریکہ میں 2012میں واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے پروفیسر ٹریوس کی اپنے معاونین کے ساتھ Political Advertising in the 21st Century: The Influence of the YouTube Ad
کے موضوع پر کی گئی تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ یو ٹیوب نے الیکشن نتائج پر اثرات مرتب کیے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یو ٹیوب اپنے تیزی سے بڑھتے ہوئے ناظرین کے سبب سیاسی جماعتوں کے کمیونیکیشن ماہرین کی توجہ کا مرکز بنا ۔
2007کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ 72فیصد نیٹ امیدواران اور28فیصد ہاؤس امیدواران نے نومبر2006 الیکشن سے قبل اپنے یو ٹیوب چینلز بنائے ۔2008کے تمام صدارتی امیدواران کے اپنے یوٹیوب چینلز تھے جن پر نمایاں تعداد میں ویڈیوز ڈالی جاتی رہیں۔2008میں اوباما کی مہم میں 1900اشتہارات ڈالے گئے ۔
بات تفصیلی ہے اس لیے جاری رہے گی جاتے جاتے ایک اور تحقیق کا حوالہ دیے دیتا ہوں ۔برطانیہ میں رائل سوسائٹی برائے پبلک ہیلتھ نے سوشل میڈیا کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیقی کوشش کی جسے انہوں نے ’اسٹیٹس آف مائنڈ‘ کے نام سے جاری کیا۔ اس تحقیق میں انہوں نے 14سے 24سالہ 1500برطانوی نوجوانوں کے ساتھ تفصیلی سروے کیا ۔ اس تحقیق کے نتیجہ میں ان کے سامنے ایک تصویر سامنے آئی کہ کس طرح دیگر سماجی میڈیا پلیٹ فارمز انسانی ذہن پر اثرا نداز ہوتے ہیں اس میں مثبت و منفی پہلوؤں کو بھی زیر تفتیش لایا گیا۔ منفی پہلوؤں میں تشویش، ڈپریشن، دباؤ، تناؤ، نیند کی بے ترتیبی، تنہائی، فومو(Fear of Missing Out-FOMO)ٖ و دیگرعوارض شامل تھے۔ اس تحقیق کی روشنی میں انسانی دماغی صحت کے لیے جو بدترین سماجی میڈیا پلیٹ فارم تھے ان میں سر فہرست ’انسٹا گرام‘ اور دوسرے نمبر پر ’ فیس بک‘ تھا۔مگر اہم بات یہ ہے کہ Awareness, Self expression, Community buildingجیسی کیٹگری میں مثبت رحجانات سامنے آئے جبکہ ڈپریشن، تنہائی ، تشویش کی کیفیات میں کمی محسو س کی گئی جبکہ نیند کی بے ترتیبی اس کی سر فہرست خرابی تھی۔

حصہ