یہ کروں گا! وہ کروں گا!۔

602

زاہد عباس
’’بہت ہوگیا، اب سب کو ٹیکس ادا کرنا پڑے گا، کسی کو نہیں چھوڑیں گے، ایف بی آر میں اصلاحات لائیں گے، ٹیکس ریونیو دگنا یعنی 4000 ارب سے 8000 ارب کریں گے، 50لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے، ملک کی دولت لوٹنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، چوروں سے ایک ایک پیسہ وصول کریں گے، کمیشن اور کک بیک کے پیسوں سے بیرونِ ملک بنائی جانے والی جائدادوں اور بے نامی اثاثوں کو ضبط کیا جائے گا، ترقی کی شرح کو تیزی سے بڑھاوا دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، اسٹاک مارکیٹ کو معاشی ماہرین کی مشاورت سے دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹ کے برابر لائیں گے، شرح نمو بہتر، جبکہ گردشی قرضے ختم کریں گے، بے روزگار نوجوانوں کو روزگار، اور چھوٹے کاروباری طبقے کو کاروبار کرنے کے لیے آسان شرائط پر قرضے دیے جائیں گے، ملک میں یکساں تعلیمی نظام کے نفاذ کے ساتھ ساتھ صحت اور زراعت کے شعبوں میں بھی خصوصی توجہ دی جائے گی، غریب اور امیر کے لیے ایک قانون ہوگا، سب کو اپنے کیے کی سزا بھگتنی پڑے گی، طبقاتی تفریق کا خاتمہ کرکے تمام شہریوں کو انصاف کے حصول کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں گے، عوام کو بہترین سفری سہولت کی فراہمی سمیت ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پورے ملک میں کروڑوں درخت لگائے جائیں گے، عوام کو سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ اور آمرانہ سوچ رکھنے والے سیاسی شعبدہ بازوں کے چنگل سے آزاد کروائیں گے، جمہوریت کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کریں گے، کسی کی بھی سفارش پر این آر او نہیں دیں گے۔‘‘
یہ کسی جلسے میں کی جانے والی تقریر نہیں، اور نہ ہی ملک میں انتخابات ہورہے ہیں جن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوئی امیدوار یا کسی جماعت کی جانب سے چوروں، ڈاکوئوں، ملک کا پیسہ لوٹنے والوں اور کرپشن میں ملوث اداروں کو للکار کر ووٹ حاصل کرنے کے لیے سبز باغ دکھائے جارہے ہیں، بلکہ یہ بڑھکیں تو موجودہ حکومت کی جانب سے ماری جارہی ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کی جانب سے ٹیکس وصول کریں گے، چوروں کو پکڑیں گے، ایسا کیا جائے گا، کسی کو نہیں چھوڑیں گے، ملک کو کرپشن سے پاک کریں گے وغیرہ وغیرہ جیسے جملے بولنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو اب تک اس بات کا یقین نہیں کہ ملک میں ان کی جماعت کی حکومت آچکی ہے، اور جنابِ عمران خان خود وزیراعظم پاکستان ہیں۔ وہ اب بھی کسی اپوزیشن لیڈر کی طرح ہر بات پر ’’…گے‘‘ کی گردان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
موجودہ حکمرانوں کی جانب سے عوام کو دی جانے والی سہولتوں کی قلعی تو پہلے ہی کھل چکی تھی، رہی سہی کسر آئی ایم ایف سے درآمد شدہ درجنوں معاشی ماہرین نے عوام پر ناجائز ٹیکس لگا کر پوری کردی۔ نیا پاکستان بنانے کے دعوے کرنے والوں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ ان کا یہ اقدام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے تو کجا، ایک عام شہری کے لیے بھی زہرِ قاتل ثابت ہوگا۔ جہاں مہنگائی اور غربت کے ستائے مجبور عوام پہلے ہی خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوں، وہاں ٹیکسوں کے نام سے مانگا جانے والا بھتہ عوام کو تنگ آمد بجنگ آمد تک لے جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے جس کے گھر دو وقت کی روٹی نہ ہو وہ اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتا، اسے اپنے گھرانے کی زندگیاں زیادہ عزیز ہوتی ہیں۔ ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہی ملک دشمن قوتیں غربت اور افلاس سے تنگ لوگوں کو چند سکوں کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن اس قسم کے کئی واقعات ہمیں سننے اور دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ ایک طرف اشیائے خورونوش پر حکومت کی جانب سے ٹیکس لگائے جارہے ہیں، تو دوسری طرف عوام پر ٹیکس ادا نہ کرنے جیسے بھونڈے الزامات لگا کر اپنے ہی ملک کے شہریوں کو دنیا بھر کے سامنے ٹیکس چور ثابت کیا جا رہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے ہر شہری کو نہ چاہتے ہوئے بھی زبردستی بھتے کی صورت میں ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، جبکہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ٹیکس آمدنی پر وصول کیے جاتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ٹیکس نیٹ میں آنے والے اشخاص صاحبِ حیثیت ہیں یا نہیں۔ جن لوگوں کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہ ہو، یعنی جو لوگ بے روزگار ہوں، یا جن کی سالانہ آمدن انتہائی کم ہو، ایسے لوگوں کے لیے وہاں کی حکومتوں کی جانب سے مختلف فنڈز رکھے جاتے ہیں، مثلاً ایسے لوگوں کو بے روزگاری الاؤنس سمیت دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں اس بات کی کوئی تمیز نہیں رکھی جاتی کہ ٹیکس ادا کرنے والے کی آمدنی اُس کی ضروریات کو پورا کرپا رہی ہے یا نہیں؟ یا کہیں وہ خود مستحق تو نہیں؟ لیکن پھر بھی حکومت ملکی وقومی ضروریات کو پورا کرنے کے نام پر انتہائی بھونڈے طریقوں کے ذریعے عوام الناس سے مختلف ٹیکس وصول کرنے پر تلی ہوئی ہے، مثلاً انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، دولت ٹیکس، سیلزٹیکس، ایکسائز ٹیکس وغیرہ وغیرہ۔ بظاہر کچھ ٹیکس صنعت کاروں اور تاجروں سے وصول کیے جاتے ہیں، لیکن ان کا اصل بوجھ عام آدمی پر ہی پڑتا ہے، جس کی وجہ سے عوام الناس کا عرصۂ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے اور معاشرہ معاشی طور پر تباہی و بربادی کی طرف بڑھ رہاہے۔ پاکستان میں اس وقت آبادی کا ایک تہائی حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جنہیں دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں ہے۔ ایسی صورت میں جب کھانے کے لالے پڑے ہوں، کوئی مزید ٹیکس کیا دے گا! یعنی پاکستان میں پہلے ہی سارے کا سارا ٹیکس غریب عوام کا خون نچوڑ کر نکالا جاتا ہے۔ مثلاً صابن اورماچس کی تیلی پر ٹیکس، تعلیم پر ٹیکس، صحت پر ٹیکس، انصاف کے حصول کے لیے خریدے گئے اسٹامپ پیپر پر ٹیکس، شادی کروانے پر ٹیکس، مرنے پر ٹیکس، کفن کے کپڑے پر ٹیکس، قبر پر ٹیکس، حج اور عمرہ کرنے پر ٹیکس، چھت رکھنے پر ٹیکس، اپنے پیسوں سے ٹی وی خرید کر دیکھنے پر ماہوار ٹیکس، پانی پینے پر ٹیکس، نہا کر پانی بہانے پر ٹیکس، کسی بھی سڑک پر سفر کریں تو راہداری یا ٹول ٹیکس، کوئی گاڑی خریدے تو کئی گنا ٹیکس، بچوں کو تعلیم دلوانے پر ٹیکس، بازار سے اشیائے خورونوش کی خریداری پر ٹیکس، بجلی اورگیس کے بلوں کی رقم میں شامل مختلف ناموں سے درجنوں ٹیکس… ٹیکس در ٹیکس کے چکر میں پڑ کر اگر بیمار پڑ جاؤ تو اپنا علاج نجی اسپتال میں کروانے اور ادویہ کی اصل قیمت سے زیادہ ٹیکس۔ اتنے ٹیکس ادا کرنے کے بعد بھی ہم سے ہی مزید ٹیکس وصول کرنے کی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں، ہم کس بات کا اور کون سا ٹیکس دیں؟ کیا اس بات کا کہ ہم پر حکومت کی جائے؟ ہمیں سوچنے سمجھنے سے عاری کیا جائے؟ کیا ہم اس بات کا ٹیکس دیں کہ ہم پر مزید ٹیکس لگانے کے طریقے سوچے جاسکیں؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنے ہی پیسے اگر بینک میں رکھیں اور ان کو نکلوائیں تو اس پر بھی ٹیکس ادا کریں! پاکستان میں اس وقت 45 سے زائد ٹیکس ہیں جو غریب عوام سے بھتے کی صورت وصول کیے جاتے ہیں، ماضی کی حکومتوں کی بات چھوڑئیے، خان صاحب تو ریاست مدینہ طرز کی حکومت بنارہے ہیں، کیا انہیں خبر نہیں کہ ریاست مدینہ میں جب کسی اجتماعی ضرورت کے لیے پیسہ جمع کرنے کی ضرورت پیش آتی تو اس مقصد کے لیے ریاست کی طرف سے اپیل کی جاتی تھی، جس پر مسلمان دل کھول کر اپنی جمع پونجی لٹا دیتے تھے، مگر ایسے حالات میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ کے مسلمان شہریوں پر زکوٰۃ کے سوا کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا، بلکہ ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مسلمانوں سے اپنی مقدور بھر اعانت کرنے کی اپیل کی۔ اس صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہمیں یہی رہنمائی ملتی ہے کہ ریاست اپنے مسلمان شہریوں سے مالی اعانت کی اپیل کرے۔ ہاں غیر مسلموں سے ٹیکس وصول کرنے کی تاریخ ضرور ملتی ہے۔ اب موجودہ حکومت خود ہی بتادے کہ وہ 22کروڑ پاکستانیوں کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے؟ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے والوں کے سامنے جب یہ حقائق ہوں کہ وہاں رہنے والے مسلمانوں سے ریاست سوائے زکوٰۃ کے کسی بھی قسم کا کوئی دوسرا ٹیکس وصول نہیں کرتی تھی بلکہ اس کے لیے لوگوں سے اپیل کی جاتی تھی، یا جائز ذرائع سے پیسہ اکٹھا کیا جاتا تھا تو پھر وہ عملی طور پر کیوں اس راستے کا انتخاب نہیں کرتے؟ غریبوں پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے بجائے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں سے مالی مدد مانگے سے کیوں کتراتے ہیں؟ کیوں ایسے ذرائع تلاش نہیں کیے جاتے جن سے اربوں روپے کا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ ہمارا ملک قدرتی طور پر مالامال ہے، خدا نے اسے بڑے ذخائر سے نوازا ہے، ان ذخائر کی تلاش اپنی جگہ، اگر حکومت صرف چرم قربانی اکٹھی کرلے تو اس سے قومی خزانے میں اربوں روپے کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے کوئی معمولی ذریعہ نہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے سال عیدالاضحی پر تقریباً 30 لاکھ بڑے اور اتنے ہی چھوٹے جانوروں کی قربانی ہوئی، جن میں گائے کی تعداد 23 لاکھ، بھینس کی قربانی کم ہوتی ہے اس لیے 3 لاکھ، اونٹ 5 ہزار، 30 لاکھ سے زائد بکرے، 3 لاکھ دنبے قربان کیے گئے، جبکہ پچھلے سال اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جون 2018ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان سے چمڑے کی برآمدات ایک ارب ڈالر رہیں، جس میں سے خام چمڑے کی برآمدات 35 کروڑ ڈالر تھی۔ ان اعداد وشمار کی روشنی میں یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت اگر صرف رفاہی اداروں اور دینی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر سارے پاکستان سے چند برسوں کے لیے چرمِ قربانی اپنی تحویل میں لے لے تو اس سے خاطر خواہ نتائج برآمد کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح ذبح خانوں میں ذبح ہونے والے جانوروں کا خون اور آلائشیں جنہیں قبضہ مافیا نے طاقت کے بل پر اپنی ملکیت بنا رکھا ہے، کو بھی تحویل میں لینے سے قومی خزانے میں ایک خطیر رقم کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان بھر میں قائم مختلف کمپنیوں سے ہر ماہ کچرے کی صورت نکالے جانے والے مال کی مالیت بھی کروڑوں روپے سے کم نہیں ہوتی، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے ذرائع آمدن پر سنجیدگی سے غور کرے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے اقدامات کرنے سے ہی ملک کی گرتی ہوئی معاشی صورت حال اور غربت و بے روزگاری جسے بڑے مسائل سے خاصی حد تک نمٹا جاسکتا ہے۔

حصہ