ظلم کا انجام

1574

علشبا عثمان
موسم بدل رہا تھا جنگل کے سارے جانور نئے موسم کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ چڑیا بی بچوں کے لیے نیا گھونسلہ بنانے کے لیے روئی، پتے، تنکے جیسی چیزیں جمع کررہی تھی، بندر میاں درختوں کا ایک جھنڈ ڈھونڈ رہے تھے جس میں بہت سارے کیلے لگے ہوں تاکہ بندر میاں جب چاہیں ہاتھوں ہاتھ کیلے توڑ کر کھا سکیں بکری بہن بھی اپنے اور اپنے میمنے کے لیے بڑے بڑے پتوں والے پودے ڈھونڈ رہی تھیں۔
سورج ڈھلنے لگا تو سب جانور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ صبح ہوتے ہی پورے جنگل میں شیر کی آواز گونجنے لگی۔ ’’پیارے بچو! جہاں اتنے اچھے اچھے اور مل جل کر رہنے ہوالے جانور ہوں وہاں ایک ظالم جانور بھی تو ہوتا ہے جو ان شریف جانوروں پر ظلم کرتا ہے اور اس کہانی کا ظالم جانور شیر ہے‘‘۔
جیسے ہی جانور اپنے گھروں سے باہر آئے تو کچھ ایسا معلوم ہوا کہ شیر ایک بار پھر اپنی بھوک مٹانے کے لیے کسی معصوم کا شکار کرنے آیا ہے اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس بار شیر ہرن بھائی کا شکار کرے گا، کیوں کہ جیسے ہی سارے جانور باہر آئے تو شیر نے سب سے پہلے ہرن کی طرف دیکھا اور ڈھاڑنے لگا۔ شیر نے ہرن پر حملہ کیا اور اس کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر تمام جانور خوف زدہ ہو گئے ایک دو دن تو جنگل میں سناٹا رہا مگر تیسرے روز سب جانور پھر اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔
’’اور ادھر شیر پھر سوچنے لگا کہ اب کس کا شکار کروں۔‘‘ سب جانوروں نے حفاظتی اقدامات کر لیے ہیںچڑیا بی نے اونچے سے درخت پر اپنا بڑا اور مضبوط سا گھونسلہ بنا لیا تھا اور اپنے بچوں کے ساتھ آرام کر رہی تھیں، بندر میاں نے بھی درختوں کا ایک بڑا سا جھنڈ ڈھونڈ لیا تھا اور خرگوش بھائی نے بھی اپنے بل کے ارد گرد پتھر رکھ کر ان پر بڑے بڑے پتے جما دیے تھے۔ بہت دنوں کی سخت محنت کے بعد اب سب جانور اپنے اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے۔
دوپہر کا وقت تھا اور سب جانوروں کے بچے خوشی خوشی کھیل کود رہے تھے، تھوڑی ہی دیر میں سورج ڈھلنے لگا تو سب بچے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
رات کے وقت جب سب جانور گہری نیند لے رہے تھے تو درخت زور زور سے ہلنا شروع ہو گئے، آسمان پر بجلی کڑکنے لگی اچانک تیز بارش شروع ہو گئی اور طوفانی ہوائیں چلنے لگیں، لگ رہا تھا کہ کوئی بڑا طوفان آنے والا ہے اس شور سے چڑیا بی کی آنکھ کھل گئی کیوں کہ اس کا درخت بھی ہل رہا تھا۔ چڑیا بی سوچنے لگیں کہ اگر ان کا درخت بھی گر گیا تو کیا ہوگا۔ بارش کی آواز سے شیر کی آنکھ کھل گئی اور شیر کو بھوک لگی۔ شیر نے سوچا کہ میں صبح جنگل میں جاکر اپنی بھوک مٹا لوں گا۔
صبح ہو گئی، سب جانور اپنے اپنے گھروں سے نکلے تو دیکھا کہ پوری رات طوفانی بارش کے بعد پورا جنگل پانی سے جل تھل تھا ہر طرف پانی بھرا ہوا تھا اور کچھ درخت تو گر گئے تھے چڑیا بی کی کسی بات پر خرگوش بھائی نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا تو اس کی آواز سے شیر باہر آگیا۔ سب شیر کو دیکھ کر اپنے اپنے گھروں میں بھاگ گئے مگر خرگوش بھائی شیر کی آمد سے لا علم تھے اس لیے وہ اپنی جگہ جمے رہے۔ شیر نے اس کو اپنے پنجوں میں دبوچا اور چیر پھاڑ کر رکھ دیا اور اپنی بھوک مٹانے کے بعد اپنے کچھار کر طرف چل دیا۔
سب جانور جمع ہو گئے اور خرگوش کی موت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے شیر سے نجات کے لیے سوچنے لگے کہ اس سے کیسے نجات حاصل ہو۔ بندر نے کہا کہ شکاریوں کا ایک گروپ آیا ہوا ہے جو آئندہ چند روز میں یہاں آئے گا انہیں شیر کی تلاش ہے یہ بات قریبی جنگل میں رہائش پذیر میرے دوست نے بتائی ہے۔
اچھا تو میری ترکیب یہ ہے کہ ’’جب وہ شکار کرتے ساتھ والی بستی میں آئیں گے تو ہم ان سے دور ایک جانور کو بٹھائیں گے اسی میں خطرہ تو ہے مگر کیا کریں قربانی تو دینی پڑے گی پھر شیر بھی وہیں رہتا ہے وہ بھی جب جانور کو دیکھے گا تو اس کو شکار کرنے کی کوشش کرے گا اور مجھے پتا ہے کہ وہ اتنا بھوکا ہے کہ اپنا شکار چھوڑے گا نہیں اتنے میں شکاری آجائیں گے تو میں جانور کو درختوں پر کھینچ لوں گا اور شکاری شیر کو دیکھ کر اس کو اپنے جال میںقید کرلیں گے۔ پھر بندر میاں نے سوال کیا کہ شکار کون بنے گا‘‘ اس بات پر بکری بہن نے کہا کہ ’’یہ کام میرا میمنا کرے گا‘‘۔ سب نے بندر میاں کو اس ترکیب پر شاباشی دی اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے رات ہوئی کسی کو بھی چین کی نیند نہ آئی سب جانور بے چینی سے آنے والے کل کا انتظار کررہے تھے کہ کب جانوروں پر سے شیر کا ظلم ختم ہو گا۔
صبح ہو گئی، سب اپنے اپنے گھروں سے نکل کر اس جگہ پر پہنچے بکری نے اپنے ننھے میمنے کو دعائیں پڑھ کر نشانہ پر بٹھا دیا تھوڑی دیر بعد شکاریوں کی بندوق اور شیر کے ڈھاڑنے کی آواز آنے لگی سب مختلف جگہوں پر چھپ گئے اور بندر میاں درخت پر بیٹھ گئے۔ جب شیر نے میمنے کو دیکھا تو اس کی طرف بڑھنے لگا اور شکاری بھی شیر کی تلاش میں آگے بڑھنے لگے جیسے ہی شیر نے میمنے پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو بندر میاں نے میمنے کو درخت پر کھینچ لیا شکاریوں نے شیر کو دیکھ کر اپنا جال کھینچا اور اس کو قابو کرنے کی کوشش کی شیر نے جال سے آزاد ہونے کی بہت کوشش کی مگر وہ ناکام ہو گیا اور شکاری اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ ’’جس کی وجہ سے جنگل امن و سکون کا گہوارہ بن گیا‘‘۔

حصہ