انسانیت کی پہچان

1230

افروز عنایت
اس معاشرے میں ہمیں ہر قسم کے لوگ نظر آتے ہیں۔ کچھ حساس لوگ دوسروں کے درد کو محسوس کرتے ہیں اور ان کی مدد کے لیے آگے بھی بڑھتے ہیں، کچھ کے دل انسانیت سے بالکل کورے، کہ کسی کے درد کا احساس ہی نہیں کرتے، پاس سے گزر جاتے ہیں۔ دینِ اسلام محبتوں کا دین ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹنے کا دین ہے، خلوص و اپنائیت کا دین، رشتوں اور ناتوں کو جوڑے رکھنے کا دین، سبحان اللہ۔ آج کے اس مضمون میں مَیں ایسے ہی ایک خاندان کا ذکر شیئر کروں گی جن کے دل میں انسانیت زندہ ہے۔ اپنے ماں باپ کی خدمت اور ان کا خیال کرنا تو فرض ہے، لیکن ساس سسر کی خدمت، ان کی نگہبانی کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ آج ہمارے معاشرے کی فضائوں میں ایک بداخلاقی اور بے حسی کا یہ جملہ سنا جاتا ہے کہ شوہر کے ماں باپ کے ساتھ رہنا اور ان کی خدمت کرنا بہو کا فرض نہیں… بے شک یہ بہو کا فرض نہیں، لیکن حقوق العباد میں یہ شامل ہے کہ آس پاس رہنے والے بوڑھے خواتین و حضرات خاص طور پر جو عزیز و اقارب بھی ہیں، ان کا خیال رکھنا فرض ہے۔ پڑوس میں تنہا رہنے والے ایک بوڑھے جوڑے سے پڑوسی غافل ہوجائے تو یہ بے حسی ہے، یہ انسانیت کی موت ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ شوہر کے بوڑھے ماں باپ جو آپ کے برابر والے کمرے میں ایک چھت تلے رہتے ہیں ان کا خیال رکھنا آپ کا فرض نہیں! یا ایسے ماں باپ کو ان کے بیٹوں سے علیحدہ کرنا یہ کہہ کر کہ ’’بیوی کا شوہر پر حق ہے کہ وہ اسے علیحدہ گھر لے کر دے‘‘، اور ماں باپ کو اس بڑھاپے میں معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا سراسر ناانصافی ہے۔ بیویوں کو اپنے شوہروں کو اس بڑی آزمائش میں مبتلا کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ لیکن میں اس خاتون کی دل سے قدر کروں گی اور یقینا آپ بھی داد دیں گے جس نے 95 سالہ بوڑھی ساس کی خدمت کرنا فرض سمجھا ہے…
ارم کا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے ہے، باپ اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ ارم کی شادی کے کچھ عرصے بعد والدہ کا انتقال ہوگیا، لیکن وہ ساس کو بھی ماں کا درجہ دیتی۔ بڑا کنبہ ہونے کی وجہ سے تمام جیٹھ الگ الگ مکانوں میں رہتے تھے لیکن ماں سے بے خبر نہ تھے۔ ماں چھوٹے بیٹے یعنی ارم کے شوہر کے ساتھ زیادہ عرصہ رہتی۔ تمام بیٹے اکثر ماں سے نہ صرف ملنے آتے بلکہ اپنے اپنے گھروں میں ماں کو ساتھ لے کر جاتے۔ وقت سدا انسان کو توانا نہیں رکھتا، بڑھاپے کے ساتھ پیچیدگیاں اور بیماریاں بڑھ جاتی ہیں، یہی حال ماں جی کا بھی ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہوگئیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب دوا دارو بھی بس برائے نام اپنا کام دکھاتی ہیں، ایسے ہی بڑھاپے سے ہمارے نبیؐ نے پناہ مانگی ہے۔ بے شک جس کی تکلیف میں نہ صرف انسان خود مبتلا ہوتا ہے بلکہ آس پاس والے بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔
٭…٭…٭
شروع میں تو پھر بھی کچھ عرصہ دوسرے بیٹے ماں کو زبردستی اپنے پاس لے جاتے اور دل و جان سے خدمت کرتے، لیکن ماں جی کی اس طرح آنے جانے میں تکلیف بڑھ جاتی، لہٰذا انہیں ارم کے پاس ہی رہنے دیا گیا۔ ارم اور اس کے شوہر نے اپنی ماں کو ایک بوجھ تصور نہیں کیا بلکہ دونوں میاں بیوی نے ان کی خدمت کی ذمہ داری خوش اسلوبی سے سنبھالی۔ 95 سالہ ماں جی آج بستر پر ہیں، ان کی مثال ایک بچے کی سی ہے جس کی تمام ذمہ داری، کھلانا پلانا، کپڑے بدلنا، صفائی کرنا، نہلانا دھلانا ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے، اسی طرح ارم اپنی ساس کو ایک ماں کی طرح سنبھال رہی ہے۔ ماں جی کی بڑی بیٹی نے مجھے بتایا کہ ہم بہنیں بھی اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے ماں کو زیادہ وقت نہیں دے پا رہی ہیں، لیکن آفرین ہے ارم پر کہ وہ سگی بیٹی سے زیادہ ساس کا خیال رکھ رہی ہے۔
٭…٭…٭
ارم آج کے دور میں تمام بہو بیٹیوں کے لیے ایک مثال ہے، جو اس فریضے کو خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے رب کے یہاں بڑا اجر ہے۔ میرا یہ تجزیہ ہے کہ ایسے لوگوں کی اللہ تبارک وتعالیٰ دنیا کی مشکلات و تکالیف بھی دور کرتا ہے۔ میں اپنے آس پاس ایسے کئی لوگوں کو جانتی ہوں جو اس قسم کا اچھا برتائو نہ صرف اپنے آس پاس والوں کے ساتھ کرتے ہیں بلکہ برے لوگوں کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، یہ بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ اس سلسلے میں ایک خاتون نے بتایا کہ میری ساس کا میرے ساتھ بہت برا برتائو تھا، یہاں تک کہ ہم دونوں میاں بیوی کو گھر سے بھی نکال دیا، لیکن میں نے کبھی ساس سے نفرت نہیں کی، نہ اُن کے لیے کبھی برا سوچا، بلکہ ہمیشہ اُن کی عزت کی۔ بیٹا اُن سے خاصا بدظن ہوچکا تھا، اسے بھی ماں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی ترغیب دی۔ اس طرح مثبت سوچ و عمل سے اس کے اپنی ساس سے اچھے تعلقات پیدا ہوگئے۔ اللہ نے اس کی اِس مثبت سوچ و عمل کی وجہ سے اِس دنیا میں بھی اس کی مشکلات دور کردیں۔ میں ان سطور کے توسط سے بچیوں سے التماس کروں گی کہ ساس سسر کے ساتھ خوبصورت تعلقات روا رکھیں، اگر بزرگ ہونے کی حیثیت سے وہ آپ کی اصلاح کے لیے کچھ کہتے ہیں تو برا ماننے کے بجائے اپنی اصلاح کریں، اگر وہ زیادتی بھی کررہے ہیں تو درگزر کا معاملہ روا رکھیں۔ اس طرح گھر کا ماحول خوشگوار رہتا ہے۔ مائیں بھی تو اپنی بیٹیوں کی اصلاح کے لیے ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی ہیں، اگر ان کی ڈانٹ سہہ سکتی ہیں، تو یہ بھی آپ کے شوہر کے ماں باپ ہیں۔ ویسے بھی رشتے ناتوں میں خوبصورت تعلقات قائم کرنے کے لیے درگزر، نرمی، خوش خلقی نہایت اہم جزو ہیں، اور تینوں خوبیاں ’’انسانیت‘‘ کی علامت ہیں۔ انسانیت سے خالی انسان، انسان نہیں ہوتا… جو دوسروں کے ساتھ انسانیت کا برتائو روا رکھتے ہیں، دوسروں کے لیے چھائوں بنتے ہیں، رب کریم انہیں ہمیشہ چھائوں میں رکھتا ہے۔ مائیں اس سلسلے میں بچیوں کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھیں اور بچیوں کو خود بھی اس چیز کا احساس ہونا چاہیے کہ جس گھر میں جا رہی ہیں وہاں ضروری نہیں کہ سب آپ کی منشا کے مطابق ہو، یا ماں باپ کے گھر جیسا آرام ہو۔ لہٰذا نئے ماحول میں اپنے آپ کو ڈھالنا ہوگا۔ سسرال میں رہنے والے تمام افراد کو اپنا سمجھ کر اُن کے دکھ درد کا نہ صرف احساس کرنا ضروری امر ہے، بلکہ بوقت ضرورت ان کی خدمت اور مدد کرنا بھی ضروری امر ہے۔ انہی خوبیوں کی بنا پر ایک مکان گھر بن سکتا ہے۔

حصہ