ادبی تنظیم دراک کے تحت تعزیتی اجلاس‘ تنقیدی نشست اور مشاعرہ

766

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ادبی تنظیم دراک کسی تعارف کی محتاج نہیں‘ یہ ادارہ ہر ماہ کے آخری ہفتے تنقیدی نشست اور مشاعرے کا اہتمام کرتا ہے‘ اس تنظیم کے روح روں سلمان صدیقی ہیں جو کہ ٹی وی اینکر‘ نقاد اور نظامت کار ہونے کے علاوہ دو شعری مجموعوں کے خالق بھی ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے اپنی تنظیم کے تحت میٹرو پولیس گرلز کالج گلبرگ ٹائون کراچی میں لیاقت علی عاصم کے لیے تعزیتی اجلاس‘ تنقیدی نشست اور مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں سلمان صدیقی نے کہا کہ لیاقت علی عاصم کی وفات ایک سانحۂ عظیم ہے‘ ہم ایک اچھے قلم کار سے محروم ہو گئے ہیں۔ حجاب عباسی نے کہا کہ لیاقت علی عاصم اپنی صلاحیتوں‘ خوبیوں اور خوش اخلاقی کے سبب ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ سید فیاض علی نے کہا کہ لیاقت علی عاصم ایک ہمہ جہت شخصیت تھے انہوں نے اردو ڈکشنری بورڈ میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ان کا شمار معتبر شعرا میں ہوتا تھا۔ نجیب عمر نے کہا کہ لیاقت علی عاصم کے بہت سے اشعار حالت سفر میں ہیں‘ وہ سہل ممتنع کے ماہر تھے‘ وہ جب کے اسٹیج پر آتے تھے تو سامعین ان سے فرمائش کرکے بہت سا کلام سنتے تھے۔ حامد علی سید نے کہاکہ لیاقت علی عاصم کو شاعری اور مصوری پر عبور حاصل تھا انہوں نے دونوں شعبوں میں نام کمایا۔ احمد سلیم صدیقی نے کہا کہ لیاقت علی عاصم جذبات و محسوسات کے مصور تھے وہ اپنے تجربات و مشاہدات کو شاعری اور مصوری میں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کرتے رہے جس کے سبب وہ بہت مقبول شاعر بن گئے۔ آصف مالک نے کہا کہ لیاقت علی عاصم ان کے پسندیدہ شاعروں میں شامل تھے‘ ان کے اشعار پڑھ کر ذہن و دل کے دریچے کھلتے ہیں۔ انجلا ہمیش نے لیاقت علی عاصم کے شعری اظہار میں تسلسل کے ساتھ معیاری کلام پیش کرتے رہنے کو بہت اہم قرار دیا۔ احمد سعید خان نے کہا کہ لیاقت علی عاصم نے غزلوں کو ایک نئے اسلوب میں ڈھالا ہے۔ لیاقت علی عاصم کے فن اور شخصیت پر گفتگو کرنے والوں میں سلیم عکاس‘ صفدر علی انشاء‘ احمد سعید فیض آبادی اور سید شائق شہاب بھی شامل تھے۔ تعزیتی ریفرنس کے بعد تنقیدی نشست و مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس کی صدارت آصف مالک نے کی۔ احمد سلیم صدیقی مہمان خصوصی تھے‘ سلیمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس مرحلے پر نجیب عمر کا افسانہ ’’آتش و آہن‘‘ حسب روایت تخلیق کار کا نام بتائے بغیر میزبانِ مشاعرہ سلمان صدیقی نے پڑھ کر سنایا۔ افسانے پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے سلیم عکاس نے اسے ایک کامیاب افسانہ قرار دیا ان کے نزدیک اس افسانے کے کرداروں پر افسانہ نگار نے محنت کی ہے‘ یہ افسانہ درسی کتب میں شامل کرنے کے لائق ہے۔ انجلا ہمیش نے کہا کہ وہ اس بیانیے کی تاریخی حقیقت سے واقف تو نہیں ہیں مگر یہ ایک اچھی کہانی ہے اور اس سے لکھنے والے کی اپروج کا اندازہ ہوتا ہے۔ احمد سعید فیض آبادی کا خیال تھا کہ عہد مغلیہ میں جو کچھ ہوا تھا اس افسانے میں وہی چیزیں بیان کی گئی ہیں یہ ایک مکمل افسانہ ہے۔ حامد علی سید نے کہا کہ برصغیر پاک و ہند کے تاریخی واقعات پر مبنی یہ ایک عمدہ افسانہ ہے۔ محمد جنید نے اس افسانے کو جنگ اور محبت کی متضاد کیفیات میں لکھا گیا افسانہ قرار دیا۔ سید فیاض علی نے کہا کہ یہ افسانہ نہیں ہے کسی تاریخی ناول کا کوئی باب نظر آتا ہے۔ عبدالرزاق نے کہا کہ یہ افسان پُر تاثیر ہے۔ صفدر علی انشا نے کہا کہ اس افسانے میں کرداروں کے گرد کہانی گھومتی ہے یہ ایک اچھا افسانہ ہے۔ زاہد حسین نے افسانے کو تاریخ کا ایک پیرا گراف قرار دیا اور کہا کہ اس میں کوئی افسانوی عنصر نہیں ہے۔ حجاب عباسی نے کہا کہ یہ افسانہ ایک تاریخی دستاویز ہے اس کو پڑھ کر ہمارے ذہن میں ماضی کے بہت سے واقعات تازہ ہو جاتے ہیں۔ شائق شہاب نے کہا کہ تاریخ نویسی اور چیز ہے اور افسانہ نگاری ایک علیحدہ باب ہے‘ آپ اس افسانے کو تاریخی دستاویز کیونکر قرار دے سکتے ہیں۔ احمد سلیم صدیقی نے کہا کہ افسانے میں لفظیات کا استعمال اچھا ہے‘ یہ ایک اچھے آہنگ کا افسانہ ہے جس میں ماضی کی معلومات اور واقعات کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ آصف مالک نے کہا کہ یہ افسانہ بتا رہا ہے کہ تخلیق کار ایک پختہ ذہن کا مالک ہے‘ یہ تہذیب و تمدن کے عروج و زوال کا افسانہ ہے۔ افسانے کے بعد احمد سعید خان کی غزل برائے تنقید پیش کی گئی جس پر حامد علی سید نے کہا کہ اس غزل کا مطلع اچھا ہے لیکن وہ کچھ اشعار کی تہہ تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ شائق شہاب نے غزل کو بہت کامیاب قرار دیا۔ نجیب عمر نے غزل کے چھ اشعار میں سے صرف دو اشعار کو بہت اچھا قرار دیا۔ فیاض علی نے غزل کو سہل ممتنع کی ایک کامیاب غزل قرار دیا۔ سلیم عکاس‘ نظر فاطمی‘ شامی شمسی‘ زاہد حسین‘ احمد سعید فیض آبادی کے نزدیک یہ غزل درمیانی درجے کی غزل قرار پائی۔ احمد سلیم صدیقی نے غزل کی تعریف کی اور دوسرے شعر کو بہت عمدہ قرار دیا۔ آصف مالک نے بھی غزل پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ غزل اور افسانے پر بحث و مباحث کے بعد شعری دور کا آغاز ہوا جس میں سید فیاض‘ حجاب عباسی‘ احمد سعید فیض آبادی‘ نجیب عمر‘ زاہد حسین‘ سلمان صدیقی‘ حامد علی سید‘ انجلا ہمیش‘ نظر فاطمی‘ احمد سعید خان‘ صفدر علی انشا‘ سلیم عکاس‘ رازق عزیز‘ شائق شہاب اور خالد احمد نے کلام پیش کیا۔ پروگرام کے اختتام پر سلمان صدیقی نے کلمات تشکر ادا کیے۔ انہوں نے کہا کہ مشاعروں کی ضرورت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں یہ ایک ایسا ادرہ ہے جو کہ ہر زمانے میں تفریح طبع کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کی ترقی میں حصہ دار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت ادبی پروگرام منعقد کر رہی ہیں وہ قابل مبارک باد ہیں کیوں کہ حکومتی سطح پر اردو ادب کے فروغ کے لیے قائم کردہ ادارے اپنے فرائض سے انصاف نہیں کر رہے۔

اکادمی ادبیات کراچی کے زیراہتمام مذاکرہ اور مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو علاقائی زبانوں کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی قومی زبان اردو کے لیے بھی سرگرم عمل ہیں‘ وہ اپنے دفتر میں ہر بدھ کو مذاکرہ اور مشاعرے کا اہتمام کرتے ہیں‘ وہ غیر ممالک میں مقیم شعرا کی پزیرائی و حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ جب کوئی قلم کار پاکستان آتا ہے تو سومرو صاحب ان کے اعزاز میں محفل سجاتے ہیں۔ گزشتہ بدھ کو انہوں نے معروف افسانہ نگار سوبھوگیان چندانی کی یاد میں خصوصی لیکچر اور مشاعرے کا اہتمام کیا۔ دو حصوںپر مشتمل اس پروگرام کی صدارت آسٹریلیا سے آئے ہوئے شاعر و افسانہ نگار اشرف شاد نے کی۔ معروف شاعرہ صبیحہ خان (جو کہ کینیڈا سے آئی ہیں) مہمان خصوصی تھیں جب کہ معروف شاعرہ حمیرا دعا (ملتان سے آئی ہیں) مہمان اعزازی تھیں۔ قادر بخش سومرو نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صاحب صدر نے کہا کہ سوبھو گیان کو سندھی‘ بنگالی‘ ہندی‘ فارسی اور اردو زبان کے کلاسیکل اور جدید ادب پر دسترس حاصل تھی‘ روسی‘ انگریزی اور فرانسیسی ادب کے بھی دلدادہ تھے‘ وہ انقلابِ فرانس سے بہت متاثر تھے‘ وہ مغرب و مشرق میں جاری مختلف تہذیبی اور ادبی رویوں پر بات کرتے تھے‘ ان کے افسانے زندگی کے عکاس ہیں‘ ان کی نثر نگاری ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے معاشرتی ناہمواریوں کو بے نقاب کیا وہ امن و آشتی کے پیغامبر تھے۔ صبیحہ خان نے کہا کہ سوبھو گیانی چندانی روشن خیال پاکستان اور خوش حال پاکستان چاہتے تھے وہ عوامی جدوجہد کے فلسفے پر یقین رکھتے تھے ان کے نزدیک جمہوریت ایک بہترین طرزِ سیاست تھی‘ وہ تعصب کے خلاف تھے ان کے نزدیک سارے انسان برابر تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ عوام کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ریاست کی اہم ذمے داری ہے‘ ادب کے معاملے میں ان کا قول ہے کہ ادب برائے زندگی ہے زمینی حقائق سے روگردانی ادب کی موت ہے۔ وہ سچے انسان تھے‘ انہوں نے کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ حمیرا دعا نے کہا کہ سوبھوگیان چندانی ایک زمانہ ساز آدمی تھے‘ ان کا انتقال ادب کا نقصان ہے‘ وہ ایک عظیم لکھاری تھے‘ ان کا شمار جدید سندھی ادب کے معماروں میں ہوتا ہے‘ انہوں نے کئی نسلوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا وہ قلم کاروں کو اصلاح معاشرہ کا ذمے دار سمجھتے تھے‘ ان کی ترقی پسندانہ رویوں نے زندگی کونئی تحریک دی۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ ان کا ادارہ ادیبوں‘ شاعروں اور فنونِ لطیفہ کی تمام شاخوں کی ترویج و اشاعت کے لیے قائم کیا گیا ہے ہمارے منشور میں شامل ہے کہ ہم قلم کاروں کے مسائل بھی حل کریں‘ ہماری کوشش ہے کہ ہم دستیاب وسائل کے اندر لوگوں کی مدد کریں ہم اس سلسلے میں کس حد تک کامیاب ہیں اس کا فیصلہ آپ کریں گے۔انہوںنے مزید کہا کہ سوبھوگیان چندانی نے پاکستان قائم ہونے کے بعد سندھ کے طول و عرض میں اردو اور سندھی زبانوں کے فروغ کے لیے قائم شدہ اداروں کی سرپرستی اور راہنمائی کی جس کی وجہ سے سندھ میں مخلوط لسانی معاشرہ عمل میںآیا ان کے اس اقدام کو اردو بولنے والوں میں بہت سراہا گیا۔ وہ سوشلزم کی تاریخ و فلسفے سے آگاہ تھے لیکن وہ روسی یا چینی فلاسفرز کے نظریات پر مکمل ہم آہنگی کے خلاف تھے وہ اسٹالن اور لینن کی پالیسیوںسے متاثر نہیں تھے وہ ادب کے معاملے میں غیر جانب داری کا مظاہرہ کرتے تھے وہ اپنی آنکھ سے جو کچھ دیکھتے اس کو عوام تک تحریری شکل میں پیش کر دیتے تھے۔ ان کے افسانوں میں زندگی رواں دواں ہے وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے‘ ان کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس پروگرام کے دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا جس میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ سید علی‘ اوسط جعفری‘ عرفان علی عابدی‘ ہما بیگ‘ عشرت حبیب‘ امت الحی وفا‘ ڈاکٹر شبانہ زیدی‘ ارجمند خواجہ‘ فرح دیبا‘ طارق مسعود‘ محمد رفیق مغل ایڈووکیٹ‘ اصغر خان اصغر‘ شجاع الزماں‘ تنویر حسین سخن‘ دلشاد احمد دہلوی‘ الحاج نجمی اور عاشق شوکی نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

بزم شعر و سخن کا عید ملن مشاعرہ

اردو کی ترویج و اشاعت میں مشاعروں کا بہت اہم کردار ہے۔ نثر کے مقابلے میں شاعری زیادہ اپیل کرتی ہے نثر کا دائرہ محدود ہوتا ہے جب کہ غزل کا ہر شعر مکمل مضمون کا احاطہ کرتا ہے۔ ان خیالات کاا ظہار پروفیسر سحر انصاری نے بزمِ شعر و سخن کے زیر اہتمام ہونے والے عید ملن مشاعرے میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اصناف سخن میں غزل کو بہت اہمیت حاصل ہے اور غزل میں ہر قسم کے مضامین سمونے کی گنجائش ہے۔ غزل ہر زمانے میں لکھی جاتی رہی ہے تاہم افسانے کے ساتھ ساتھ غزل کے مضامین بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں روایتی غزل کے علاوہ اب جدید لب و لہجے میں غزل لکھی جارہی ہے۔ کراچی میں تواتر کے ساتھ بہاریہ مشاعرے ہو رہے ہیں لیکن مشاعروں سے سامعین غائب ہوتے جارہے ہیں تاہم بزم شعر و سخن کے ہر مشاعرے میں قابل ذکر سامعین موجود ہوتے ہیں‘ ان کے پروگراموں میں سخن فہم سامعین بھی آتے ہیں آج بھی سامعین نے ہر اچھے شعر پر کھل کر داد دی ہے۔ یہ ایک اچھا سلسلہ ہے یہ روایت قائم رہنی چاہیے۔ اس مشاعرعے کے مہمانان خصوصی فیروز ناطق خسرو‘ تاجدار عادل اور اجمل سراج تھے۔ پنجاب سے تشریف لانے والے شاعر و ادیب پروفیسر ظہیر قندیل مہمان اعزازی تھے جب کہ سیمان نوید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمانان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے کلام سنایا ان میں اقبال خاور‘ سحرتاب رومانی‘ وقار زیدی‘ ایاز شائق‘ اسد قریشی‘ یاسر سعید صدیقی‘ خالد میر‘ عطا محمد تبسم‘ نورالدین نور اور عبدالرحمن مومن شامل تھے۔ بزم شعر و سخن کے صدر طارق جمیل نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ وہ اپنی تنظیم کے پلیٹ فارم سے اردو زبان و ادب کی ترقی کے مصروف عمل ہیں ہم کتاب کلچر کا فروغ چاہتے ہیں اس مقصد کے لیے آج ہم نے رعایتی قیمت پر چند شعرا کے شعری مجموعے سامعین کے لیے پیش کیے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ لوگ شعری مجموعے خرید کر قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کریں مقامِ افسوس ہے کہ ہمارے یہاں شاعر اپنے پلے سے رقم خرچ کرکے اپنا شعری مجموعہ تحفتاً لوگوں میں بانٹ رہا ہوتا ہے یہ طریقہ تبدیل ہونا چاہیے مغربی ممالک میں رائٹرز کو بہت اچھی رائلٹی ملتی ہے وہاں کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوتے ہیں‘ وہاں کتب بینی زوال پزیر نہیں ہے حالانکہ انہیں جدید ترین الیکٹرانک میڈیا دستیاب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بحیثیت ایک قوم ہمیں چاہیے کہ ہم علم وآگاہی میں آگے بڑھیں‘ اپنے ملک کا نام روشن کریں‘ اپنے بچوں کو انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو بھی پڑھائیں کیوں کہ اردو ہماری پہچان ہے‘ اس زبان کی ترقی سے ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

حصہ