موت کی یاد

1398

ڈاکٹر ظفر الاسلام اصلاحی
آخری قسط
۔(الحج۲۲:۷، یٰس۳۶:۵۱، الانفطار۸۲:۴،العادیات۱۰۰:۹، التکاثر۱۰۲:۲)، تاکہ وہ مزید عبرت و نصیحت حاصل کرے، اپنے احوال کو درست کرلے اور نیکیاں کمانے میں مسابقت کرے ۔ ان آیات میں سے ایک نہایت سبق آموز اور انسان کو غفلت سے بیدار کرنے والی آیت سورۃ الانفطار کی آیت۴-۵ہے: وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ۝۴ۙ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ۝۵ۭ اور یاد کرو اس وقت کو]جب قبریں کھول دی جائیں گی، [ اور]ہر شخص کو اس کا اگلا پچھلا کیا دھرا معلوم ہوجائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ موت کی یاد ، دوبارہ زندہ کیے جانے کا تصور ،اللہ رب العزت کے حضور حاضری اور اعمال کے لیے باز پرس کا احساس اور اس کا یقین انسان کو نیک عمل کی راہ پر ڈالتا ہے، اور بظاہر بعض مشکل عبادات کو بخوشی بجا لانے کے لیے تیار کرتا ہے اور اسے غلط حرکتوں ،گناہوں اور بد دیانتی،بدعنوانی اور فریب دہی وغیرہ سے دُور رکھتا ہے ۔ ان حقائق کو خود قرآن نے متعدد مقامات پر بیان کیا ہے اور انسان کو انھیں صدقِ دل سے قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ بات بخوبی معروف ہے کہ فرض عبادات میں نماز سب سے اہم و افضل ہے۔ پورے اصول وآداب اور وقت کی پابندی کے ساتھ روزانہ پانچ بار اس کی بجا آوری ایک امرِ مشکل ہے،لیکن یہ عمل ان لوگوں کے لیے ذرا بھی مشکل و گراں نہیں جو موت کے بعد دوبار زندہ کیے جانے اور اللہ رب العزت کے حضور حاضری میں یقین رکھتے ہیں۔ جیسا کہ یہ نکتہ سورئہ بقرہ میں واضح کیا گیا ہے: وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ وَاِنَّہَا لَكَبِيْرَۃٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ۝۴۵ۙ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۴۶ ( البقرہ ۲:۴۵-۴۶)صبر اور نماز سے مدد لو،بے شک یہ ایک مشکل کام ہے،لیکن ان لوگوں کے لیے مشکل نہیں جو اللہ کی طرف جھکنے والے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ آخر کا ر وہ [ایک نہ ایک دن] اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور اس کی طرف پلٹ کر جانےوالے ہیں ۔ اسی طرح ناپ تول میں کمی یا لین دین میں بددیانتی کرنے والوں کو اس قبیح عمل یا گناہ کے کام کے بڑ ے تباہ کن انجام سے متنبہ کرتے ہوئے انھیں اس طور پر خبر دار کیا گیا ہے:
اَلَا يَظُنُّ اُولٰۗىِٕكَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ۝۴ۙ لِيَوْمٍ عَظِيْمٍ۝۵ۙ يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۶ۭ (المطفّفین۸۳:۴-۶)کیا انھیں یہ خیال نہیں کہ ایک بڑے دن (یعنی یوم ِقیامت) انھیں دوبارہ اٹھایا جائے گا اور یہ وہ دن ہوگا جب لوگ رب العالمین کے رُوبرو دست بستہ کھڑے ہوں گے۔ یعنی اگر ان میں یہ احساس بیدار ہوجائے کہ انھیں اللہ کے حضور حاضر ہوکر اپنے عمل کا حساب دینا ہے تو وہ بد دیانتی اور گناہ کے دوسرے کاموں کے قریب جانے کی ہمت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہے کہ نفسانی خواہشات انسان کو غلط کاموں پر ابھارتی ہیں جو انجام کے اعتبار سے اس کے لیے مہلک ثابت ہوتے ہیں، لیکن جو لوگ یومِ جزا اللہ رب العزت کے سامنے کھڑے ہونے سے خوف ر کھتے ہیں وہ ان خواہشات کے پیچھے نہیں چلتے،بلکہ ان کو کنٹرول میں رکھتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں وہ اللہ کی نافرمانی اور گناہ کے کامو ں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ یہی حقیقت اس آیت سے سامنے آتی ہے: وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰى۝۴۰ۙ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِيَ الْمَاْوٰى۝۴۱ (النازعات ۷۹:۴۰-۴۱ ) اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تو بلاشبہہ جنت اس کا ٹھکانا ہوگا۔ lخوف اور اُمید کے درمیان زندگی: آخر میں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ موت کی تذکیر اور قیامت و آخرت کے واقعات یاد دلانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یا معاشرتی و معاشی زندگی کی مصروفیات کو تیاگ کر بس موت اور قبر کی زندگی کو یاد کرتا رہے او ر قیامت و آخرت کا وِرد کرتا رہے ۔ درحقیقت ان سب باتوں کو یاد دلانے سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے اور روز مرہ زندگی کے مشاغل جاری رکھتے ہوئے اُخروی زندگی کی تیاری سے غافل نہ رہے اور فکرِ آخرت سے اس کا دل و دماغ خالی نہ ہوجائے ،یعنی وہ جس شعبۂ حیات سے منسلک رہے یا جن مصروفیات سے وابستہ ہو، ان میں احکامِ الٰہی و تعلیمات نبویؐ کو یاد رکھے اور انھی کے مطابق شب وروز گزار ے،تاکہ اسے ابدی زندگی میں سکون و اطمینان نصیب ہو۔ در اصل قرآن و سنت کی نظر میں مومن سے مطلوب یہ ہے کہ وہ دنیوی زندگی میں موت،قبر ،قیامت ، حضورِرب حاضری اور حساب و کتاب کا تصور تازہ رکھے اور بازپُرس کے احساس سے دل کو معمور رکھے ، تاکہ اس کے اثر سے فرائض و حقوق کو ادا کرتا رہے، نیکیاں کماتا رہے اورگناہوں سے بچتا رہے۔ مزید یہ کہ یہ سب کرتے ہوئے وہ اللہ رب العزت کے فضل و کرم کا طلب گار اور اس کے بے پایاں رحم و کرم کا امید وار رہے اور ناامیدی کو پاس نہ آنے دے۔یہ آیات اہلِ ایمان کو یہی پیغام دے رہی ہیں: اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ وَاَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۹۸ (المائدہ ۵:۹۸) جان لو کہ بے شک اللہ عذاب دینے میں بڑا سخت ہے اور بے شک ا للہ بہت مغفرت کرنے والا اور بہت رحم فرما نے والا ہے۔ نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۝۴۹ۙ وَاَنَّ عَذَابِيْ ہُوَالْعَذَابُ الْاَلِيْمُ۝۵۰ (الحجر۱۵: ۴۹-۵۰) (اے نبیؐ ) میرے بندوں کو خبر دار کر دیجیے کہ میں بے شک بہت معاف کرنے والا ہوں اور یہ (بھی بتا دیجیے) کہ میرا عذاب بڑا دردناک ہے۔ مزید یہ کہ قرآن نے اہلِ ایمان کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ اللہ رب العزت کی حمد و تسبیح اور عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور خوف و رجا کے ساتھ اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں (السجدۃ۳۲:۱۶)۔ حقیقت یہ کہ مومن کی زندگی اِن دونوں کیفیات ( خوف و رجا) کے درمیان گزرتی ہے ۔ وہ اسی حالت میں رہتے ہوئے شب وروز بسر کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ ربّ کریم کے یہاں سے بلاوا آجاتا ہے اور وہ اس عارضی مستقر سے رخصت ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بھی پیش نظر رہے کہ اگر کوئی دنیوی زندگی میں موت،قیامت و آخرت کو یاد کرکے اللہ رب العزت کا خوف دل و دماغ میں سما لے گا تو نامعلوم کتنے خوف سے نجات پائے گا اور ابدی زندگی میں اسے ایسی اطمینان بھری کیفیت نصیب ہوگی کہ جس میں نہ غم ہوگا،نہ رنج ، نہ کوئی تشویش ہوگی،نہ گھبراہٹ کا گزر ہوگا۔ متعدد آیات میںیہ خوش خبری ایمان و عملِ صالح سے مزین زندگی گزارنے والوں کو سنائی گئی ہے۔(البقرہ ۲: ۳۸،۶۲، ۲۶۲،۲۷۴، المائدہ۵:۶۹،الانعام۶:۴۸، الاعراف ۷: ۴۹، الاحقاف ۴۶ :۱۳) واقعہ یہ کہ اس عارضی زندگی میں اگر کوئی موت کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے اوپر طاری کرلے اور صراط مستقیم اختیار کرکے دائمی زندگی میں ہر طرح کے خوف و غم سے نجات پاجائے تو یہ گھاٹے کا نہیں، بلکہ سراسر نفع کا سودا ہوگا۔ اس کے برخلاف جو لوگ موت اور اس کے بعد کے مراحل کو بھلا کر تکذیب وانکار اوراللہ اور اُس کے بندوں کے حقوق کی پامالی کی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں،آخر کا ر اس کے انجامِ بد سے دوچار ہوں گے اور عذابِ جہنم میں گرفتار ہوجائیں گے۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ لوگ یہ اعتراف کریں گے کہ یہ ان کی بہت بڑی بھول تھی،ورنہ انھیں آج یہ برے دن دیکھنے نہ پڑتے۔ حقیقت یہ کہ یہ بے وقت کا اعتراف اور پچھلی زندگی کی غفلتوں کی یادیں ان کے کچھ کام نہ آئیں گی۔ یہ آیتِ کریمہ آخرت کی مناظر کشی کرتے ہوئے اسی حقیقت سے پردہ اٹھا رہی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے: فِيْ جَنّٰتٍ۝۰ۣۭۛ يَتَسَاۗءَلُوْنَ۝۴۰ۙ عَنِ الْمُجْرِمِيْنَ۝۴۱ۙ مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ۝۴۲ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۝۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۝۴۴ۙ وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِيْنَ۝۴۵ۙ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ۝۴۶ۙ حَتّٰٓي اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ۝۴۷ۭ ( المدّثّر ۷۴:۴۰-۴۷) جو جنت میں ہوں گے وہ مجرموں سے پوچھیں گے،تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اور حق بات کے خلاف باتیں بنانے والوں کے خلاف ہم بھی باتیں بنانے لگے تھے اور روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے،یہاں تک کہ یقینی چیز(موت) ہمارے پاس آدھمکی ۔ مختصر یہ کہ موت اور اس کے بعد کے مراحل کو یاد کرنے میں ہم سب کے لیے عبرت و نصیحت ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں موت اور اس کے بعد کے مراحل کو باربار یاددلانا محض براے یاد دہانی نہیں، بلکہ براے عبرت ہے۔ متعلقہ آیات و ا حاد یث کے مطابق ان سے عبرت پذیری ہمارے لیے انتہائی نفع بخش ہے، لہٰذا اس سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ ان سب سے مقصود موت وحیات کے خالق و مالک کی یاد کی طرف متوجہ کرنا،اس کے حقوق یاد دلانااور اپنی اصلاح کی فکر کرنا ،اس لیے کہ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کب،کس مقام پر اور کس طریقے سے اس کی زندگی کا سلسلہ تمام ہوجائے ، اور روزِ جزا اللہ رب العزت کے سامنے حاضری کے لیے تیاری نہ ہونے کی صورت میں کفِ افسوس ملنا پڑے یا وقت موعود کو مؤخر کرنے کی تمنا کرنی پڑے، جب کہ قرآن کا صاف اعلان ہے کہ انسان کی یہ تمنا پوری ہونے والی نہیں۔(الاعراف۷: ۵۳؛ المومنون ۲۳:۹۹-۱۰۰،۱۰۷-۱۰۸،المنافقون ۶۳:۱۰۔۱۱) در اصل انسان کو موت اور بعد کے احوال کی یاد دلا کر یہ سبق دینا ہے کہ آخری وقت کے آنے سے پہلے وہ اپنے آپ کو تیار کرلے اور اس گھڑی کے آنے سے پہلے پہلے نصیحت حاصل کرلے اور اپنی اصلاح کر لے کہ جب موت سامنے ہونے یا قیامت برپا ہونے اور اعمال نامہ ملنے پر وہ نصیحت پکڑے گا اور نیک عمل کرنے کی کچھ مہلت چاہے گا تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس کا وقت نکل چکا ہوگا۔ ارشاد الٰہی ہے: يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَہُ الذِّكْرٰى۝۲۳ۭ (الفجر ۸۹:۲۳ ) اس دن انسان کی سمجھ میں آجائے گا اور اس وقت سمجھ میں آنے سے کیا حاصل ہوگا۔ حدیث میں اس شخص کو دانش مند کہا گیا ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کر تا رہے ( الکیّس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت) ۔۱۹ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقائق کو سمجھنے ،انھیں دل ودماغ میں نقش کرنے اوران کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے، اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی۔ حواشی و مراجع ۱- معارف القرآن، مکتبۂ مصطفائیہ،دیو بند، بدون تاریخ، ۱؍۹۳ ۲- شاہ ولی اللہ دہلوی، الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، اردو ترجمہ:رشید احمد انصاری، مکتبہ برہان، دہلی،بدونِ تاریخ،ص ۴۔۵، ۲۶۔۲۷ ۳- سنن ابن ماجہ ،باب الزہد،باب ذکر الموت ، حدیث:۴۲۵۶ ۴- جامع ترمذی، ابواب الزہد، باب ما جاء فی فظاعۃ القبر وانّہ اوّل منازل الآخرۃ ۵- دارا شکوہ، سفینۃ الاولیاء، ترجمہ:محمد وارث کابلی، صابری بک ڈپو، دیوبند،ص ۱۵۴ ۶- بخاری،کتاب الجنائز، باب الامر باتباع الجنائز ۷- بخاری، کتاب الجنائز، باب فضل اتباع الجنازۃ ۸- بخاری، کتاب الجنائز،باب الصلوٰۃ علی القبر بعد ما یدفن ۹- سنن ابن ماجہ، ابواب الجنائز،باب ماجاء فی زیارۃ القبور ۱۰- جامع ترمذی، ابواب الجنائز، باب ما یقول الرجل اذا دخل المقابر،حدیث: ۱۰۰۹ ۱۱- مسلم، ،کتاب الجنائز،باب ما یقول عند دخول القبور والدعاء لاہلہا، حدیث: ۱۶۷۱ ۱۲- سنن ابن ماجہ، ابواب الزہد ،باب ذکر القبر والبلیٰ ۱۳- جامع ترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ ۱۴- محمود احمد ظفر،نقشِ ممات، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد،ص۱۶۱ ۱۵- نقشِ ممات،ص ۱۴۸ ۱۶- جامع ترمذی،ابواب صفۃ القیامۃ[باب حدیث اکثروا من ذکر ھاذم اللّذات] ۱۷۔ بخاری، کتاب الرقاق،باب سکرات الموت ، حدیث:۶۱۵۹ ۱۸۔ نقشِ ممات،ص ۱۵۸ ۱۹- سنن ابن ماجہ ،ابواب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ

حصہ