۔”تسطیر” ادب کی روشن روایات کا امین

779

نعیم الرحمن
اردو ادب کی روشن روایات کا امین سہ ماہی ’’تسطیر‘‘کا ساتواں شمارہ پوری آب و تاب سے شائع ہوگیا ہے۔ منفرد نظم گو شاعر نصیر احمد ناصرکی زیر ادارت ’’تسطیر‘‘ کا ہر شمارہ خوب سے خوب تر کی جانب گامزن ہے۔ بک کارنر جہلم کے امر شاہد اور گگن شاہد کے انتظام و انصرام نے پرچے کے ظاہری حسن میں بھی چار چاند لگادیے ہیں۔ صوری و معنوی اعتبار سے ممتاز شیخ کا ’’لوح‘‘ اور نصیر احمد ناصرکا ’’تسطیر‘‘ اردو کے صفِ اوّل کے ادبی جرائد بن گئے ہیں۔ بک کارنر جہلم کی زیر نگرانی ’’تسطیر‘‘ کی اشاعت میں باقاعدگی بھی قابلِ ستائش ہے، لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ نصیر احمد ناصر صاحب تین ماہ کے مختصر وقت میں اتنا بہترین مواد فراہم کیسے کرلیتے ہیں! ادب کی ہر صنف کا ایسا شان دار انتخاب کچھ آسان نہیں، جس کے لیے مدیرِ محترم کوکم از کم دگنا مواد پڑھنا پڑتا ہوگا۔ 500 صفحات کے تازہ شمارے کی قیمت 600 روپے انتہائی مناسب ہے، جس کی عمدہ جلد بندی اورکمپیوٹر کتابت نہ صرف پرچے کو قابلِ دید بناتی ہے بلکہ اس میں صفحات سے کہیں زیادہ مواد سما جاتا ہے، جس کے لیے امر شاہد اور گگن شاہد مبارک باد کے مستحق ہیں۔ پھر اشتہارات کے بغیر اس دور میں اتنے خوب صورت پرچے کی مسلسل اشاعت بھی مدیر اور منصرم کی لگن کی عکاس ہے۔
تسطیر کے ہر شمارے کا سرورق نوجوان مصور بناتا ہے۔ تسطیر 7 کا ٹائٹل نیشنل کالج آف آرٹس کی فائنل ائر کی طالبہ سمیعہ سعدنے بنایا ہے، جو بک کارنر جہلم کے روحِ رواں محمد حمید شاہد کی بہو بھی ہیں۔ سمیعہ کو بچپن سے ہی ڈرائنگ کرنے، رنگوں سے کھیلنے اور مٹی کے کھلونے بنانے کا شوق رہا ہے۔ ان کے والد عزیزالرحمن ریڈیو سے وابستہ رہے اور مطالعے کے رسیا ہیں۔ یہی عالم ان کی والدہ کا بھی ہے۔ کتابیں اُن کے سرہانے رہتی ہیں۔ گویا ادب اور فنون کی باتیں سمیعہ کی گھٹی میں پڑی ہیں۔ ان کے بقول آنکھ ایک کینوس کی مانند ہے اور دُنیا کے سارے مناظر اسی پر بنے ہوئے ہیں۔ رنگوں، لکیروں اور کینوس کا استعمال دراصل زندگی کو سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ محمد حمید شاہد کے بیٹے سعد حمید سے شادی کے بعد اب وہ ایسے گھرانے کاحصہ ہیں جس میں علوم وفنون زندگی کی اعلیٰ اقدار سمجھی جاتی ہیں اور اس گھرانے میں ہمیشہ سے موجود ہیں۔ یوں سمیعہ کا رشتہ اپنے فن سے مزید گہرا اور مستحکم ہوگیا ہے۔ پینٹنگ سمیعہ کی زندگی کا اہم حصہ ہے اور وہ کینوس پر، اور کینوس سے باہر پتھروں، لکڑی کے ٹکڑوں، شیشے اورکپڑے پر پینٹنگز کرتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پتھروں پر منی ایچر پینٹ کرنا، گلاس پینٹنگز، پورٹریٹ بنانا اور معدوم ہوتی تہذیب کی علامت پرانی عمارتوں، دروازوں، محرابوں، گلیوں اور چوباروں کو مختلف میڈیمز کے ذریعے فن پاروں میں ڈھالنا، اور وقت اور زندگی کو اس کے ذریعے سمجھنا ان کا بنیادی کام ہے۔ تسطیرکے ٹائٹل کے لیے سمیعہ سعد نے ٹوٹے ہوئے آئینے کو مصور کیا ہے۔ یہ ٹوٹا ہوا آئینہ انسان بھی ہے اور اس انسان کا تصورِ زمان ومکاں بھی۔ گویا آئینے کے ساتھ دونوں ٹوٹے اور بکھرے ہوئے ہیں۔ پسِ ورق پر سمیعہ سعد کی مصوری کے پانچ شاہکار بھی شامل ہیں جن میں ہماری ثقافت کے مختلف رنگ نمایاں ہیں۔
تسطیر کا آغاز صیبز اعوان کی عمدہ حمدیہ نظم ’’آگہی‘‘ سے کیا گیا ہے، جس کا ہر لفظ سوچ کے نئے در کھولتا ہے۔
تنویر قاضی کی طویل نعتیہ نظم بھی احساس کی لو کو چھیڑتی ہے، جس کے بعد خاور اعجاز کا جلیل عالی کی حمد و نعت اور منقبت و سلام پر ایک بھرپور اور طویل مضمون شامل ہے۔ خاور اعجاز نے منفرد شاعر جلیل عالی کے فن خصوصاً حمدیہ، نعتیہ اور منقبتی کلام کا بہت خوب صورت تجزیہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’اردو کے قدیم ترین دواوین کی ابتدا میں حمد و نعت سے آغاز ہوکر آج کے جدید ترین شعرا تک سبھی نے اگر اپنے مجموعہ ہائے کلام کی ابتدا حمد و نعت اور منقبت و سلام سے نہیں بھی کی تو شاید ہی کوئی شاعر ایسا ہو جس نے ان اصناف کی شمولیت سے اپنے مجموعۂ کلام کو منور نہ کیا ہو۔ ہر شاعر کے ہاں ایک نئی بوقلمونی اور قلبی واردات کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ جلیل عالی کے ہاں بھی حمد و نعت اور منقبت و سلام کے وسیلے سے خدا، اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے عقیدت و محبت کا اظہار اُن کے جذبہ ایمانی کی ترجمانی کرتا ہے۔‘‘
یہ پورا مضمون انتہائی معلومات افزا ہونے کے ساتھ دل چسپ اور قابلِ مطالعہ بھی ہے۔ مہمان اداریہ ڈاکٹر اقبال آفاقی نے ’’مابعد جدیدیت اور ادبی تنقید‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی نے اہم موضوع کو بہت خوبی اور عام فہم انداز سے بیان کیا ہے۔
’’لمس ِ رفتہ‘‘ کے زیر عنوان شمس الرحمن فاروقی نے مضمون کشمیری لال ذاکر، جس کی تحریر ’’کم از گلشن کشمیر نہیں‘‘ میں بھارت کے اہم اور منفرد افسانہ اور ناول نگار کے بارے میں خامہ فرسائی کی ہے۔ ناصر بغدادی نے حال ہی میں انتقال کرنے والے معروف مترجم محمد عمر میمن پر ’’چراغ سب کے بجھیں گے‘‘ کے نام سے مضمون لکھا ہے، جب کہ تنویر قاضی نے ’’چراگاہ چپ سادھ لیتی ہے‘‘ کے عنوان سے اپنے ابا جی کی یادوں کو تازہ کیا ہے۔ یہ نظم والدین کے حوالے سے ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کے مضمون سے کشمیری لال ذاکر کے بارے میں کئی نئی باتوں کا علم ہوا۔ جیسے ہم حسینی برہمن کا اکثرسنتے ہیں لیکن ان کے بارے میں یا توکوئی علم نہیں، یا بہت کم معلومات ہیں۔ فاروقی صاحب نے انکشاف کیا کہ ذاکر صاحب بھی حسینی برہمن تھے۔ لکھتے ہیں کہ ’’کشمیری لال، جس شخص کا نام یہ ہو وہ کس قدر دل چسپ، دل کو کس قدر موہ لینے والا ہوگا۔ اور ذاکر بھی کیا عمدہ تخلص یا نام تھا۔ ان لوگوں کا ذکر کرنے والا جن پر اس نے افسانے لکھے ہوں گے؟ یا ان مناظر کا ذکر کرنے والا جو کشمیر یا پنجاب میں اس کی نظر سے گزرے ہوں گے؟ اپنے دل کا دکھڑا سنانے والا یا انقلاب اور سماجی تبدیلی کا ذکر کرنے والا؟ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ ذاکرصاحب موہیال برہمن تھے یعنی وہ جنہیں حسینی برہمن بھی کہا جاتا ہے۔ جب مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو خیال آیا کہ تخلص ’’ذاکر‘‘ اختیار کرنے میں شاید اس حسینیت کا بھی حصہ ہو جو انہیں ورثے میں ملی تھی۔ اس حسینیت میں ذکرِ حسین کے ساتھ ساتھ وہ حق گوئی اور بے باکی بھی شامل تھی جس کی مثال امام حسین ؓنے قائم کی تھی۔ میں نے ذاکرصاحب کو ہمیشہ بے باک اور حق گو پایا۔ ان کا رسوخ دور دور تک اور بڑے لوگوں تک تھا، خاص کر ہریانہ میں تو انہیں خاص وقعت حاصل تھی۔ لیکن میں نے کبھی دیکھا نہ سنا کہ ذاکر صاحب نے اپنے اثر رسوخ کو کسی غلط کام کے لیے استعمال کیا ہو۔‘‘
محمد عمر میمن دورِ حاضر کے بہت باکمال مترجم تھے۔ انہوں نے دنیا بھرکی زبانوں کے ادب سے اردو قارئین کو روشناس کرایا، ساتھ ہی اردو ادب کے انگریزی تراجم بھی کیے۔ عمرمیمن نامور عالم دین اور دانش ور علامہ عبدالعزیز میمن کے صاحبزادے تھے۔ ناصر بغدادی اور محمد عمر میمن کی دوستی کا آغاز 1958ء میں ہوا جب وہ اسلامیہ کالج میں زیر تعلیم تھے، اور عمر میمن اسلامیہ کالج سے فارغ ہوکر کراچی یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔ 2015ء میں ناصر بغدادی بھی انٹاریو (کینیڈا) منتقل ہوگئے جہاں دوستی کی تجدید ہوگئی۔ نصف صدی سے زائد کے اس تعلق کے بعد محمد عمر میمن کے بارے میں منفرد افسانہ نگار ناصر بغدادی سے بہترکون لکھ سکتا ہے! بلاشبہ عمر میمن کا انتقال اردو ادب کا ایسا خلا ہے جو شاید کبھی پُرنہ ہوسکے۔
’’مکالمہ اور مخاطبہ‘‘ میں عمر فرحت نے پروفیسر عتیق اللہ سے خاصی عمدہ اور کارآمد گفتگو کی ہے، جس سے قاری کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب کہ مہک تنویر نے نامور ادیب اور افسانہ نگار محمد حمید شاہد سے طویل اور دل چسپ مکالمہ کیا ہے۔ حمید شاہد صاحب نے ایک دل چسپ بات کہی ہے ’’معاشرے میں مسائل کی اصل جڑ ثقافتی رنگا رنگی کو تسلیم نہ کرنا ہے۔‘‘ دنیا کے یک رنگ ہونے سے یہ رہنے کے قابل کہاں رہے گی! اس کا حُسن ہی اس تنوع میں ہے۔ دانش وروں کی یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ انسانی وجود ایک سانچے اور شکنجے جیسا ہے، مگر انسانی فطرت اس سانچے کی قید کو قبول کرنے سے انکاری رہی ہے، وہ اس قید خانے سے باہر جست لگاتی ہے۔ محض ایک بار نہیں، اس اسیری سے رہائی کی جدوجہد اور بے قراری مسلسل ہے۔ انسان جانوروں، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کی طرح یا پھر پودوں اور درختوں جیسا نامیاتی یا مادی وجود نہیں ہے۔
مشہور افسانہ، ناول اور سفرنامہ نگار سلمیٰ اعوان اس بار اپنے اسپین کے سفرنامے کے ساتھ تسطیر میں موجود ہیں۔ سلمیٰ اعوان کی نئی کتاب بہت عرصے سے نہیں آئی۔ ’’سفر اسپین‘‘ ایک اور اچھی تحریر ہے۔ عرفان شہود اپنے منفرد سفرنامچوں کے ساتھ اس شمارے میں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے مختصر اور منفرد سفرنامچوں کے لیے پاکستان ہی کے مختلف خطوں کا انتخاب کیا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ اپنے اخباری کالموں میں لاہور کی گمشدہ عمارتوں اور تعمیرات سے اپنے باکمال اسلوب میں ان دنوں قارئین کو متعارف کرا رہے ہیں۔ اسی طرح عرفان شہود سفرنامچوں کے ذریعے پاکستان کے پوشیدہ گوشوں کو ہمارے سامنے لا رہے ہیں۔ اس شمارے میں ان کے پانچ سفرنامچے شامل ہیں جن میں ’’قلعہ ہڑند کی خون آلود فصیل‘‘، ’’ٹلہ جوگیاں کا سیلانی‘‘، ’’سندھو ساگر سادھو بیلا کا حیرت کدہ‘‘، ’’گردوارہ مخدوم پور پہوڑاں‘‘ اور ’’رامائن کے تین کردار سیتا، رام اور لکشمن‘‘ شامل ہیں، اور جن کے عنوانات ہی قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لیتے ہیں۔ ٹلہ جوگیاں سے دل چسپی مستنصر حسین تارڑ کے آخری ناول ’’منطق الطیر جدید‘‘ نے بڑھا دی ہے۔
تسطیرمیں اس بار افسانوں کا حصہ 117 صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں 20 افسانہ نگاروں کی تخلیقات کو جگہ دی گئی ہے، جن میں نوجوان قلم کار سینئرزکے دوش بہ دوش عمدہ افسانوں کے ساتھ موجود ہیں۔ اہم افسانوں میں سینئر افسانہ نگار رشید امجد ’’ایک اداس دن‘‘ کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ محمود احمد قاضی ’’پنجرہ‘‘ اور منفرد ناول اور افسانہ نگار محمد الیاس ’’رکھیل‘‘ جیسی تحریر لے کر آئے ہیں۔ بھارت کے صفِ اوّل کے افسانہ نگار مشرف عالم ذوقی کا افسانہ ’’پری خانہ اور شطرنج کی بازی‘‘ بھی دل کو چُھو لینے والی تحریر ہے۔ طارق بلوچ صحرائی کا ’’لمس‘‘ اور فارس مغل کا ’’دہشت گرد‘‘ بھی اس شمارے کے بہترین افسانوں میں شامل ہیں۔ دیگر افسانے بھی اپنے موضوع اور اسلوب کے مطابق قابلِ مطالعہ ہیں۔
دور جدید مائیکروف یا افسانچوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ مختصر افسانوں کی اس صنف کو مبشرزیدی کی 100 لفظوں کی کہانیوں نے بہت مقبول بنایا ہے ۔ اس حصے میں تنویر الطاف، سارہ احمد، کشف بلوچ اور فاطمہ عثمان کی تحریریں شامل ہیں اور سب دل چسپ ہیں۔
تسطیر کا نظم و نثری نظم کا حصہ ہر بار بہت بھرپور ہوتا ہے، کیوں کہ اس کے مدیر نصیر احمد ناصر اردو نظم کے بہترین شاعر ہیں۔ نظم گو شاعرعلی محمد فرشی کا خوب صورت ادبی جریدہ ’’سمبل‘‘ بند ہوچکا ہے۔ تسطیر 7کا حصہ نظم 84 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 49 شعرا کی 118 تخلیقات کو شامل کیا گیا ہے، جو ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ابتدا سدا بہار گلزار کی نظموں سے ہوئی ہے جن کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ افتخار بخاری، سلیم شہزاد، پروین طاہر، شہزاد نیر، قاسم یعقوب کی نظمیں بھی سوچ کے در وا کرتی ہیں۔ یہ حصہ حسب ِ معمول بہت شان دار ہے۔
’’نقد و نظر‘‘ کے زیر عنوان اس شمارے میں 12 مضامین شامل ہیں جن میں سے ہر مضمون قابلِ مطالعہ اور دل چسپ ہے۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی نے ممتاز مفتی کے مشہور زمانہ سوانحی ناول ’’علی پورکا ایلی‘‘ پر قلم اٹھایا ہے اور نصف صدی پہلے لکھے گئے ناول کا بہت عمدگی سے تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’علی پورکا ایلی بظاہرکسی تصورِ جہاں سے عاری سرگزشت ہے۔ یہ سرگزشت کسی منطق، سچ، منزلِ مقصود کا تعاقب نظر آتی ہے، نہ ہی کسی چوتھی کھونٹ کی تلاش یا کسی اجتماعی آدرش کی تجلیل اس کا موضوع ہے۔ اس میں کہانی ہے لیکن پلاٹ کا سراغ دور دور تک نہیں ملتا۔ اس میں ایک ہی مسئلہ درپیش ہے… ایلی کی ذات کا وجودی بحران۔ اس کا کیتھارسس۔ احساسِ کمتری سے نجات۔ یہ ایک منجدھار میں پھنسے ہوئے شخص کی کہانی ہے جو کنارے تک پہنچنے کی جدوجہد کررہا ہے۔ اس کی جدوجہد کو فرائیڈین کیس ہسٹری کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ ایک طویل بیانیہ ہے جو ناول نہیں لیکن ناول میں اس وجہ سے منقلب ہوگیا کہ اس کی زبان، ٹریٹمنٹ اورنقطۂ عروج جدید نفسیاتی افسانے، ناول اور ڈرامے کی شفافیت لیے ہوئے ہیں۔ اس میں فرد کی سوچ، دیکھنے، محسوس کرنے اور ردعمل کی صورتوں کو دکھانے کا انداز جدید فکشن کے عین مطابق ہے۔ مفتی صاحب کو اظہار اور بیان پر کمال عبور حاصل ہے۔ پوری مہارت سے نفسیاتی مسائل کی گرہیں کھولتے چلے جاتے ہیں۔ یہی خصوصیت ان کی تحریروں کو قوت بخشتی ہے۔ علی پورکا ایلی اس کی بہترین مثال ہے۔‘‘
ناصر بغدادی کا ’’بریخت کا اوّلین ڈراما‘‘ پر لکھا مضمون بھی بہت شان دار ہے، جبکہ مشہور شاعر جلیل عالی کا مضمون ’’تنقیدی تھیوری اور تفہیم غالب‘‘ اس شمارے کا سب سے عمدہ مضمون ہے۔ عرفان جاوید نے پہلے افسانے اور پھرخاکہ نگاری میں اپنا لوہا منوایا۔ اب ’’خمارِ گندم، جندر کا تاثراتی مطالعہ‘‘ کے ساتھ تنقید کی دنیا میں بھی قدم رکھ دیا۔ اختر رضا سلیمی نے ’’جاگے ہیں خواب سے‘‘، اور’’جندر‘‘ دو بہترین ناول لکھے ہیں۔ جندر کا تاثراتی مطالعہ دل چسپی سے پڑھا جائے گا۔
فکر و فلسفہ میں ظفر سپل نے ہیگل پر شان دارمضمون لکھا ہے۔ فلسفہ پر ظفر سپل کا نام ہی عمدہ تحریر کی ضمانت ہے۔ ان کا سادہ اسلوب عام قاری کے لیے بھی قابلِ فہم ہوتا ہے۔ فارینہ الماس فلسفہ کے لیے نیا نام ہے لیکن ان کی تحریر ’’محبت اور علم، ایک نیو کلیئس کے دو جوہر‘‘ ان کے روشن مستقبل کی نوید سناتی ہے۔ کرن صدیقی نے شاعر، دانشور، ماہر تعلیم اور کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی پر اچھا مضمون لکھا ہے۔ تسطیرکا تراجم کا حصہ بھی بھرپور ہے۔ حصہ غزل کے لیے 24 صفحات مختص کیے گئے ہیں، جس میں 35 شعراء کی 49 غزلیں شامل ہیں۔ ظفر اقبال، جلیل عالی جیسے اساتذہ کے دوش بہ دوش نئے غزل گو شعرا کا کلام بھی مدیر کے عمدہ انتخاب کا نتیجہ ہے۔ محمد عارف نے مشہور مزاح گو شاعر اور عمدہ کالم نگار خالد مسعود خان کا خاکہ ’’خانہ بدوش‘‘ کے نام سے لکھا ہے۔ ملکوں ملکوں پھرنے والے خالد مسعود خان کے خاکے کا عنوان اس سے بہتر نہیں ہوسکتا تھا۔
غرض تسطیر 7 حسب ِ سابق ایک بہترین ادبی گُل دستہ ہے جس کی تمام تحریریں قابلِ مطالعہ، معلومات افزا اور دل چسپ ہیں، جس کے لیے مدیر نصیر احمد ناصر اور منصرم امر شاہد اور گگن شاہد کو بھرپور مبارک باد پیش ہے۔

حصہ