چچا چھکن

545

(قسط نمبر 2)
اِدھر چچا کو تو معلوم ہی تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ جیسے ہی بھتیجے گھر پہنچے، چچا نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔
مجھے خبر ہے تم لوگ کیوں آئے ہوگے۔ تم نے میرا نہایت تربیت یافتہ اور قیمتی خرگوش ضائع کر دیا ہوگا۔ اب کہو گے لاکھ روپے واپس کرو۔ ارے اگر میں دنیا کے سامنے اس خرگوش کو رکھتا تو نہ جانے کتنے رؤسا لاکھوں میں خریدنے کے لیے تیار ہوجاتے۔ وہ تو میں نے تمہاری چچی کی وجہ سے تمہارے حوالے کر دیا تھا ورنہ میں نے تو اخباری نمائندوں کو بلانے کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ جب ان کے سامنے خرگوش انسانی زبان میں بات کرتا اور سوالات کے جوابات دیتا تو پوری دنیا میں ایک ہنگامہ مچ جاتا۔
چچاچھکن بولے جارہے تھے اور وہ عقل سے کورے بھتیجے جو آئے تو بہت غصے میں تھے، وہ شرمندگی کی وجہ سے سر جھکائے خاموشی سے چچا کی کڑوی کسیلی سننے جا رہے تھے۔
بڑے نے ہمت کرکے کہا کہ چچا خرگوش تو گھر ہی نہیں پہنچا، وہ تو راستے ہی سے غائب ہو گیا تھا۔
ذرا اپنے گھر اور دفتر کا فاصلہ تو دیکھو۔ اتنی جلدی تو کسی انسان کو بھی راستے یاد نہیں ہو سکتے تھے۔ کم از کم ایک ہفتے تو گھر اور دفتر کا راستہ دکھانا تھا۔ چچا نے اتنا کہہ کر بھتیجوں کو وہ سنائیں کہ سارے بھتیجے معافیاں مانگنے لگے۔ دوسری جانب سے چچی نے بھی ایسی خبر لی کہ انھیں اپنے اپنے گھر بھاگتے ہی بنی۔
اسی طرح کافی ماہ گزر گئے۔ ایک دن پوری منصوبہ بندی کی گئی۔ چچی کو سب کچھ اچھے طرح سمجھا دیا گیا۔ گھر میں ایک بار پھر دعوت کا اہتمام ہوا۔ سارے بھتیجے بڑے پیار سے بلائے گئے۔ چچی نے اپنے ہاتھ سے طرح طرح کے خوان تیار کیے۔ بھتیجے بھی چچی کے ہاتھوں کے پکے کھانوں کے دیوانے تھے۔ خوب مزے لے لے کر کھانا کھایا۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو چچی ایک بہت ہی خوبصورت بکری لے کر آئیں۔ کیا بکری تھی۔ کیا اس کی براکت تھی اور کیا اس کا حسن۔ نظر اٹھتی تو گڑ کے ہی رہ جاتی تھی۔ بھتیجوں نے کیا، کسی نے بھی ایسی بکری نہ دیکھی ہوگی۔ بھتیجے یک ٹک اسی کو دیکھے جا رہے تھے۔ اچانک چچا چھکن اٹھے اور بکری کو ایک نازک سے ڈنڈے سے ہلکے ہلکے مارنے لگے۔ وہ ڈنڈے مارتے جاتے بکری مینگنیاں کرتی جاتی۔ ہر مرتبہ مینگنیوں کے ساتھ سونے کی اشرفیاں بھی ساتھ آتی جاتیں۔ اس طرح پوری سو اشرفیاں باہر آئیں۔ چچی ان کو دھوکا دے کر چچا کو دے گئیں۔ ایک تو بکری کا ایسا حسن جو کسی پری کا بھی نہیں ہو سکتا تھا اور دوسری جانب اشرفیاں دینا۔ بھتیجوں کا دل تو ان کی کنپٹیوں میں دھڑکنے لگا۔ چچا سے کہا کہ کیا کمال بکری ہے یہ آپ ہمیں دیدیں۔ چچا نے کہا کہ اشر فیوں کو چھوڑو، یہ تو روز رات کو 100 اشرفیاں دیا ہی کرتی ہے۔ ہر اشرفی ایک تولہ سونے کے برابر وزن کی ہے۔ 100 تولے کا خود ہی حساب لگا لو۔ اگر یہ اشرفیاں نہ بھی دے تب بھی ایسی بکری لاکھوں میں بکے۔ تم نے میرا خرگوش ضائع کردیا تھا، یہ سونا دینے والی بکری بھی مار ڈالوگے میں تو یہ کسی قیمت میں تم کو نہیں دوںگا۔ بھتیجوں نے اصرار کیا تو چچی بولیںِ آپ کا خون ہیں، ایسا جواب تو نہ دیں، البتہ میں اس کا سودا 2 لاکھ سے کم میں نہ کرنے دونگی۔ یہ دو لاکھ بھتیجوں کی نظر میں کیا تھے۔ سب نے پچاس پچاس ہزار نکالے اور چچا کی جھولی میں ڈال دیے۔ چچا نے کہا چلو خیر ہے لیکن یہ بکری تم کل کسی وقت آکر لے جانا۔ بھتیجے خوش ہو گئے۔ چچا نے کیا یہ تھا کہ چارے کے ساتھ بکری کو 100 اشرفیاں کھلا دی تھیں۔ لیکن بھتیجوں کے جانے کے بعد چچا نے بکری کو 100 اشرفیوں کی بجائے 99 اشرفیاں چارے کے ساتھ کھلائیں۔
بھتیجوں نے اپنے تئیں فارمولا وہی رکھا۔ سب سے پہلے بڑا بھائی بکری کو رکھے گا پھر علی بالترتیب بڑے سے چھوٹا۔ اس فارمولے کے تحت بڑے بھائی نے بکری پر وہی عمل دہرانا شروع کیا جو چچا نے کیا تھا۔ کمر پر چھڑی کو ہلکے ہلکے مارتا اور بکری مینگنیوں کے ساتھ اشرفیاں دیتی جاتی۔ جب 99 اشرفیوں کے بعد 100 ویں اشرفی نہیں آئی تو اس نے بکری کی زوردار پٹائی کی مگر اس کے پیٹ میں اشرفی ہوتی تو باہر آتی۔ پھر اس نے سوچا کہ ایک اشرفی کم ہونے کی کیا بات ہے اس لیے جانے دینا چاہیے۔ اس نے بکری کو مارنا بند کیا۔ اگلے دن جب اس سے چھوٹا بھائی آیا اور احوال پوچھا تو اس نے کہا کہ بکری کمال کی ہے بس ایک اشرفی کم دی ہے۔ چھوٹے بھائی نے کہا کہ خیر ہے، ایک اشرفی کے کم ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ وہ بکری کو اپنے ساتھ لے گیا۔ پھر اس نے بکری کے ساتھ وہی عمل کیا لیکن اس کے پیٹ میں کوئی اشرفی ہوتی تو باہر آتی۔ اس کے حصے میں صرف میگنیاں ہی آئیں۔ اس نے غصے میں بکری کی اتنی زور سے پٹائی کی کہ بکری بیچاری جان ہی سے گئی۔ بس پھر کیا تھا، اس نے تمام بھائیوں کو جمع کر لیا کہ دیکھو چچا نے ان کے ساتھ پھر دھوکا کیا ہے۔ بڑے بھائی نے کہا کہ بکری نے اس کے گھر میں تو 99 اشرفیاں دی تھیں اب نا معلوم یہ دھوکا ہے یا پھر ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔ چلو چچا کے پاس چلتے ہیں اور ان کے سامنے سارا ماجرا رکھتے ہیں۔ ویسے تو سب ہی بہت غصے میں تھے لیکن کیونکہ بڑے بھائی کو 99 اشرفیاں اور وہ بھی خالص سونے والی مل چکی تھیں اس لیے وہ کسی حد تک جز بز تھا اور اپنے تئیں وہ دوبارہ اشرفیاں نہ دینے میں اپنے سے چھوٹے بھائی کی کوئی غلطی سمجھ رہا تھا۔ شاید اسی غلط فہمی کو پیدا کرنے کے لیے چچا چھکن نے بکری کو 99 اشرفیاں کھلا دی تھیں کہ بھائیوں میں کچھ نہ کچھ اختلاف ہو جائے جس میں وہ کامیاب نظر آ رہے تھے۔
اِدھر چچا اور چچی منتظر تھے کہ بھتیجے کسی بھی وقت ان کے گھر پر چڑھائی کر سکتے ہیں اور ان پر آفت توڑ سکتے ہیں اسی لیے وہ بات کا جواب دینے کے لیے ذہنی طور پر تیار بیٹھے تھے۔
جونہی انھوں نے دھول اڑاتی بھتیجوں کی گاڑیوں کو دور سے آتے دیکھا وہ ذہنی طور پر تیار ہوگئے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ جیسے ہی بھتیجے گاڑیوں سے باہر آئے چچا اور چچی فوراً ہی ان پر چڑھ دوڑے۔ تم نے ہماری دنیا کی حسین اور قیمتی ترین بکری کو ماردیا ہوگا۔ ایسی بکری تو چراغ لے کر ڈھونڈو تو دنیا بھر میں نہ ملے۔ تم سب یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ خود تو برباد ہوئے ہمیں بھی تباہ و برباد کر دیا۔ یہ باتیں اور نہ جانے کتنے بکنے ایک ہی سانس میں دے ڈالے۔ چچا اور چچی روتے بھی جاتے اور بھتیجوں کو پھٹکارتے بھی جاتے۔ بھتیجے سنانے اور بکنے دینے انھیں آئے تھے اور سننی ان سے پڑ گئی۔ اب ان کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ فریاد کریں، چیخیں چلائیں یا احتجاج کریں یا چچا چچی کی سنیں۔ ماحول کچھ ساز گار ہوا تو چچا چچی نے روتے ہوئے پوچھا کہ کچھ بتاؤ تو سہی کہ ہماری حسین ترین اور قیمتی بکری کے ساتھ تم نے کیا کیا۔ بڑا بھائی کیونکہ شش و پنج میں پڑا تھا اور اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے بکری کو شرفیاں دیتے دیکھا تھا اس لیے اس کے لہجے میں وہ تلخی نہیں تھی تو باقی بھتیجوں کے لہجوں میں تھی۔ اس نے کہا چچا، بات یہ ہے کہ آپ سے بکری لیجانے کے بعد میں نے آپ ہی کے انداز میں اس کی کمر پر جب ہلکے ہلکے ڈنڈے لگائے تو وہ اشرفیاں دیتی چلی گئی لیکن معلوم نہیں کیوں اس نے 100 کی بجائے 99 اشرفیاں دیں جس پر میں نے اسے کافی زور سے مارا لیکن اس نے 99 اشرفیوں کے بعد کوئی بھی اشر فی نہ دی۔ بس اس کا یہ کہنا تھا کہ چچا اور چچی نے تو رو رو کر آسمان اور سر پر اٹھالیا۔ ارے بھئی زور سے مارنے کی کیا ضرورت تھی۔ جہاں اس نے 99 اشرفیاں دی تھیں 1 اور بھی دیدیتی۔ کچھ انتظار تو کر لیتے یا مجھ سے مشورہ کر لیتے۔ ارے ایک اشرفی نے پیٹ میں پھنس جانے کی وجہ سے اس کی آنتوں میں سراخ کر دیئے ہونگے۔ مارڈالی ہماری بکری، حسین اور قیمتی بکری۔ اتنا کہہ کر چچا تو چپ ہو رہے، چچی چچا پر ڈنڈا لے کر چڑھ دوڑیں، کم بخت میں نے تجھے سمجھایا تھا کہ میرے جہیز میں آئی اس بکری کو اپنے بیوقوف اور جاہل بھتیجوں کو ہر گز نہیں دینا۔ تیری ہمت کیسے ہوئی ان کے ہاتھوں فروخت کرنے کی۔ یہ کہہ کر جو ان پر لٹھ برسانے شروع کیے تو بھتیجوں نے چاہا کہ وہ بیچ بچاؤ کرائیں۔ ان کی اس کوشش کا نتیجے یہ نکلا کہ ہر ایک کو کرارے کرارے لٹھ کھانے پڑے۔ یہ صورت حال دیکھتے ہوئے بھتیجوں نے وہاں سے فرار ہوجانے میں ہی عافیت جانی اور وہ اٹھ کر اس تیزی سے بھاگے کہ پیچھے مڑ کر یہ بھی نہ دیکھ سکے کہ چچا اور چچی اپنی اس کامیاب اداکاری پر ایک دوسرے سے گلے مل کر کس طرح جشن فتح منارہے ہیں۔ ایک جانب تو یہ خفت اور دوسری جانب گھر پہنچ کر بھائیوں اور بھائیوں کے درمیان تو تو میں میں ہوئی وہ منظر بھی دیدنی تھا۔ ان کی بیویوں نے بڑی مشکل سے ان سب کے درمیان جھگڑا ختم کرایا ورنہ حالات تو قتل و غارت گری کی جانب بڑھتے محسوس ہو رہے تھے۔
چچا چھکن بھتیجوں کے باپ کے سگے اور بڑے بھائی ضرور تھے۔ چھوٹے بھائی کی شادی ایک بہت امیر زادے کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ وہ خود بھی بہت قابل اور ذہین تھے اس لیے ان کے سسر نے ان کو اپنی جائیدادوں کا وارث بنا دیا تھا۔ چچا چھکن کو نہ تو پڑھائی لکھائی کا شوق تھا اور نہ ہی ان کی شادی امیرزادی سے ہوئی تھی اس لیے اپنے بڑے بھائی سے وہ دنیوی لحاظ سے بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ ان کی بیوی اپنے بڑے بھائی کی بیوی یعنی بھابی کی کزن تھی۔ اوسط درجے کا گھرانا تھا اس لیے اپنے ساتھ کچھ بہت جہیز نہیں لائی تھی۔ حسد کی ماری بھی تھی اس لیے اپنے جیٹھ یعنی اپنے شوہر کے بڑے بھائی سے حسد بھی رکھتی تھی اسی لیے اس نے اپنے شوہر کے دل میں اپنے سگے بھتیجوں کی جانب سے نفرت بھی بٹھا دی تھی۔ جیٹھ اور جیٹھانی کے انتقال کے بعد اب وہ اپنے شوہر کے بھتجوں کو بھی راہ سے ہٹانے کا منصوبے بناتی رہتی تھی کہ ان کے بعد اس کے شوہر کو جائیداد کا بڑا حصہ مل سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بھتیجوں کو بیوقوف بناکر ان سے بڑی بڑی رقمیں اینٹھنے کی ترکیبیں سوچا کرتی تھی اور چچا بھی اس کے بنائے منصوبوں اور ترکیبوں پر اس طرح عمل کیا کرتے تھے کہ کوئی یہ بات جان ہی نہیں سکتا تھا کہ ان سارے غلط کاموں میں چچی کا دماغ کام کر رہا ہوگا۔
(جاری ہے)

حصہ