ممتاز و معتبر شاعر لیاقت علی عاصم انتقال کر گئے

462

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ممتاز و معتبر شاعر لیاقت علی عاصم 29 جون 2019ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے‘ ان کی نمازِ جنازہ مسجد قبا سیکٹر 10 نارتھ کراچی میں بعد نماز ظہر ادا کی گئی اور کوکن مسلم ویلفیئر سوسائٹی کے احاطۂ قبرستان میں تدفین ہوئی۔ راقم الحروف نے جن شخصیات کو اس موقع پر وہاں موجود پایا ان میں محمود احمد خاں‘ جاوید صبا‘ شہاب الدین شہاب‘ انور جاوید ہاشمی‘ اجمل سراج‘ احمدامتیاز‘ عادل فریدی‘ مظہر ہانی‘ اقبال خاور‘ رونق حیات‘ راشد نور‘ سلمان صدیقی‘ عقیل عباس جعفری‘ طارق جمیل‘ شکیل احمد خان‘ نعیم چوغلے‘ ڈاکٹر شاہد ضمیر‘ انیس مرچنٹ‘ صبیح الدین رحمانی‘ جاذب ضیائی‘ علی ساحل‘ فرید حسین‘ شبیر نازش‘ حکیم ناصف‘ علی ساحل‘ کشور عدیل جعفری‘ نظر فاطمی‘ م۔م۔ مغل‘ الطاف احمد‘ ضیا شاہد‘ نعیم سمیر‘ سلمان ثروت‘ سیمان نوید‘ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی‘ عارف نظیر‘ دلاور عباسی‘ عباس ممتاز‘ طارق رئیس فروغ‘ وقار زیدی‘ زاہد علی سید اور یوسف عابدی شامل تھے۔ لیاقت علی عاصم کی موت ایک عظیم سانحہ ہے انہوں نے چار ماہ شدید بیماری کی اذیت میں گزارے وہ ایک ایسے موذی بیمار کا شکار ہوئے کہ بہت کم لوگ اس سے بچ پاتے ہیں۔ لیاقت علی عاصم ایک بڑے شاعر اور بلند حوصلہ انسان تھے‘ ان کی بیماری پر سرکاری اور غیر سرکاری ادبی اداروں نے ان کے ساتھ کیا تعاون کیا وہ سب پر روشن ہے۔ لیاقت علی عاصم کے جنازے میں کن اہم ادبی و ثقافتی اداروں کے نمائندے شریک ہوئے یہ بھی سب کے علم میں آچکا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن اداروں کو حکومتی سطح پر قلم کاروں کی اعانت و مدد کرنی چاہیے وہ کب اپنے فرائض مکمل طور پر ادا کریں گے اس سلسلے میں یہ بھی بات قابل ذکر ہے کہ قلم کار قبیلہ ایک پیچ پر جمع نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے کوئی مؤثر تحریک جنم نہیں لے رہی۔ لیاقت علی عاصم نے تمام عمر علم و ادب کی خدمت کی ان کے آٹھ شعری مجموعے سبید گل‘ آنگن میں سمندر‘ رقصِ وصال‘ نشیبِ شہر‘ دل خراشی‘ باغ تو سارا جانے ہے‘ نیش عشق اور میرے کتبے پر اس کا نام لکھو شائع ہوچکے ہیں۔ وہ اردو ڈکشنری بورڈ میں 1980ء سے 2011ء تک اہم پوسٹ پر خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہوئے‘ وہ 8 اگست 1951ء کو کراچی میں پیدا ہوئے اور 29 جون 2019ء کو انتقال کر گئے۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ‘ دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ لیاقت علی عاصم کے چند نمائندہ اشعار:

بسترِ مرگ پر تھی اِک دنیا
مر گئے تم بڑا کمال کیا
٭
خواب تعبیر میں ڈھلتے ہیں یہاں سے آگے
آ نکل جائیں شبِ وہم و گماں سے آگے
اس سفر سے کوئی لوٹا نہیں کس سے پوچھیں
کیسی منزل ہے جہانِ گزاراں سے آگے
٭
حادثے ہو رہے ہیں ہونے دو
میں بہت تھک گیا ہوں سونے دو
٭
خواب میں ہاتھ تھامنے والے
دیکھ بستر سے گر پڑا ہوں میں
٭
دُعا کو بے اثر جانا ہے آخر
بہت جی کر بھی مر جانا ہے آخر
٭
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اُس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں

نزہت عباسی کی کتاب ’’نسخہ ہائے فکر‘‘ کی تعارفی تقریب

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی (ادبی کمیٹی شعر و سخن) کے زیر اہتمام 26 جون 2019ء کو اکبر منظر ہال میں ڈاکٹر نزہب عباسی کی کتاب نسخۂ ہائے فکرکی تعارفی تقریب منعقد ہوئی۔ پروفیسر سحرانصاری نے صدارت کی۔ ظفر محمد خاں ظفر اور پروفیسر ہارون رشید مہمانان خصوصی تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اظہار خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر شکیل احمد‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا‘ پروفیسر اوجِ کمال‘ شائستہ مفتی اور عنبرین حسیب عنبر شامل تھے۔ اس موقع پر سلمان صدیقی نے اپنی نظامت کے جوہر دکھاتے ہوئے بتایا کہ اردو ادب کی ممتاز شاعرہ‘ نقاد اور ماہر تعلیم ڈاکٹر نزہت عباسی 27 جون کو کراچی میں پیدا ہوئیں‘ ان کا تعلق ایک ادبی و علمی گھرانے سے ہے‘ ان کے والد محمد حسین عباسی (ظفر انجمی) صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی زمانہ طالب علمی سے ہی نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں فعال ہیں انہوں نے شاعری کی ابتدا بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھ کر کی انہوں نے متعدد کالجوں کے ادبی رسالوں کی ادارت بھی کی۔ 2005ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’سکوت‘‘ شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ ’’وقت کی دستک‘‘ 2015ء میں منظر عام پر آیا انہوں نے 2011ء میں جناح یونیورسٹی برائے خواتین سے پی ایچ ڈی کی ان کا تحقیقی مقالہ اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجہ‘ انجمن ترقی ٔ اردو نے 2013ء میں شائع کیا ان کی تحقیقی اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ نسخۂ ہائے فکر کی تعارفی تقریب میں آج ہم سب شریک ہیں۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی (ادبی کمیٹی شعر و سخن) کی چیئرپرسن نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ وہ ان تمام لوگوں کی ممنون و شکر گزار ہیں جو آج کی محفل کا حصہ ہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم آرٹس کونسل کے پلیٹ فارم سے احمد شاہ کی سربراہی میں فنون لطیفہ کی تمام شاخوں کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر نزہت عباسی کے بارے میں کہا کہ ان کی علمی و ادبی خدمات قابل ستائش ہیں وہ ایک اچھی شاعرہ ہیں اور تنقیدی بصیرت بھی رکھتی ہیں ان کی کتاب میں 40 مضامین ہیں 33 شخصیات پر لکھے گئے ہیں جب کہ 7 مضامین موضوعاتی ہیں۔ ان تمام مضامین میں ان کی داخلی کیفیت نظر آتی ہے یہ کتاب ان کا جرأت مندانہ قدم ہے ان کی تنقید میں جانب دارانہ رویے نظر نہیں آتے۔ ان کی تحریر میں تضحیک کا کوئی پہلو نہیں ملے گا انہوں نے ہر مضمون بڑے سلیقے سے قلم بند کیا ہے عنبرین حسیب عنبر نے مزید کہا کہ 2018ء میں شاعری کے مجموعے کم شائع ہوئے جب کہ نثری کتابیں زیادہ تعداد میں منظر عام پر آئی ہیں مقام افسوس یہ ہے کہ اب تنقید نگاری کا معیار پست ہوتا جارہا ہے کھری اور سچی باتوں سے لوگ گریزاں ہیں۔ شائستہ مفتی نے کہا کہ ڈاکٹر نزہت عباسی نے جو تحقیقی اور تنقیدی مضامین اس کتاب میں شامل کیے ہیں وہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل احمد خان نے کہا کہ ڈاکٹر نزہت عباسی ایک پُروقار خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین نثر نگار اور عمدہ شاعرہ بھی ہیں۔ اس کتاب میں زیادہ تر مضامین شاعری پر ہیں البتہ سائنسی حوالہ جات پر تحقیقی مضامین نے اس کتاب میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ ڈاکٹر رخسانہ صبا نے کہا کہ ڈاکٹر نزہت عباسی کی تحریر میں موضوعات کا تنوع‘ گیرائی اور گہرائی پائی جاتی ہے یہ کتاب ان کی تنقیدی دانش مندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر اوج کمال نے کہا کہ ڈاکٹر نزہت عباسی نے اس کتاب کے ذریعے کراچی کے تنقید نگاروں میں اپنا نام درج کرایا ہے مجھے امید ہے کہ ان کی ترقی کا سفر جاری رہے گا۔ پروفیسر ہارون رشید نے کہا کہ نزہت ان خواتین میں شامل ہیں کہ جن کا مطالعہ بہت وسیع ہے ان کی کتاب سچی تنقیدی روّیوں کی آئینہ دار ہے ان کے یہاں زبان و بیان کی خوبیاں نظر آتی ہیں انہیں لفظوں کے دروبست پر عبور حاصل ہے بہت سادہ انداز میںبھی یہ اپنا مطمع نظر بیان کردیتی ہیں۔ ظفر محمد خان ظفر نے کہا کہ ڈاکٹر نزہت عباسی نے بڑی محنت و لگن سے قلم قبیلے کا اعتبار حاصل کیا ہے یہ ایک ادبی تنظیم دبستانِ غزل کی صدر ہیں اسی ادارے نے ان کی کتاب شائع کی ہے یہ ایک فعال اور متحرک ادبی شخصیت ہیں۔ یہ کتاب ادبی حلقوں میں اپنی جگہ بنائے گی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی ادبی کمیٹی (شعر و سخن) کی چیئرپرسن ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر کی شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میری کتاب کی تقریب اجراء کا اہتمام کیا انہوں نے تمام حاضرین محفل کا بھی شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر نزہت عباسی کی طرف سے مسند نشینوں کو شیلڈ پیش کی گئی جب کہ حاضرینِ محفل نے نزہت عباسی کو ہار پھول پیش کیے اور اجرک کا تحفہ بھی دیا۔ صاحبِ صدر پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ آج ڈاکٹر نزہت عباسی کا یوم پیدائش ہے اس لیے آج میں انہیں سال گرہ کی مبارک باد کے ساتھ ساتھ کتاب کی تعارفی تقریب کی کامیابی کی مبارک باد بھی پیش کرتا ہوں۔ صاحب صدر نے مختلف زاویوں سے نہایت اہم گفتگو کی انہوں نے کہا کہ لوگ پہلے تعلیمی اداروں سے ادب کی طرف آیا کرتے تھے یونیورسٹی اور کالجز ہی لکھنے پڑھنے والے پیدا کیا کرتے تھے اب یہ روایت تقریباً ختم ہو گئی ہے اس کے ذمے دار اساتذہ ہیں۔ وہ طالب علموں کو ادب سے آگاہ کریں تو صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ نزہت عباسی نے قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہے کہ مختلف لوگوں کو اپنی تحریر میں زندہ کر دیا یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز کی شکل ہے۔

جمیل ادیب سید کے شعری مجموعہ’’اگر‘‘ کی تعارفی تقریب اور مشاعرہ

۔24 جون 2019ء کو سلمان عزمی کی رہائش گاہ پر بزم نگارِ ادب پاکستان کے زیر اہتمام جمیل ادیب سید کے شعری مجموعہ ’’اگر‘‘ کی تعارفی تقریب و مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ صدارت کی مسند پر اعجاز رحمانی تشریف فرما تھے۔ رونق حیات مہمان خصوصی تھے جب کہ آصف رضا رضوی اور اختر مہمانان خصوصی کی نشستوں پر رونق افروز تھے۔ ساجدہ سلطانہ نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اطہر عباس نے حمد باری تعالیٰ پیش کی۔ واحد رازی نے نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی سعادت حاصل کی۔ پروگرام کے فارمیٹ کے مطابق جمیل ادیب سید کے فن اور شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے سخاوت علی نادر نے کہا کہ جمیل ادیب سید ایک کہنہ مشق شاعر و ادیب ہیں‘ ان کے افسانوں کا مجموعہ زیر طبع ہے ان کی غزلوں کی کتاب اردو ادب میں گراںقدر اضافہ ہے‘ سخاوت علی نادر نے جمیل ادیب سید کو منظوم خراج تحسین بھی پیش کیا۔ رونق حیات نے کہا کہ جمیل ادیب سید معتبر شعرا میں شامل ہیں اگرچہ میں وقت کی کمی کے باعث جمیل ادیب سید کے شعری مجموعہ کا مکمل طور پر مطالعہ نہیں کرسکا تاہم چند غزلیں پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ان کے یہاں شعری محاسن پائے جاتے ہیں‘ ان کا لب و لہجہ عامیانہ نہیں ہے ان کی شاعری ان کے داخلی اور معاشرتی کرب کا آئینہ ہے۔ انہوں نے معاشرہ کے کرتا دھرتائوں کو پکارا ہے کہ وہ سامنے آئیں اور معاشرتی ناہمواریوں کا خاتمہ کریں۔ رونق حیات نے اس موقع پر یہ اعلان بھی کیا کہ وہ اپنی تنظیم نیاز مندانِ کراچی کے تحت جمیل ادیب سید کے شعری مجموعے کی تعارفی تقریب منعقد کریں گے۔ انہوں نے بزم نگار ادب کے بارے میں کہا کہ یہ ادارہ بڑی لگن اور تندہی کے ساتھ ادبی پروگرام ترتیب دے رہا ہے انہوں نے قلم کاروں کو متحد کرنے کی کوشش کی ہے دیکھنا یہ ہے کہ قلم کار کب خوابِ غفلت سے بیدار ہوں گے۔ اس موقع پر بزم نگارِادب کی طرف سے مسند نشینانِ ذی وقار کی خدمت میں تحفے تحائف پیش کیے گئے جب کہ جمیل ادیب سید کو شیلڈ پیش کی گئی۔صاحب اعزاز جمیل ادیب سید نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور بزم نگار ادب کے لیے بھی کلماتِ تشکر پیش کیے انہوں نے اپنا کلام سنا کر سامعین سے داد وصول کی اس پروگرام کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس میں صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اورتقریب کی نظامت کار کے علاوہ سید فیاض علی فیاض‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ عبدالمجید محور‘ یوسف چشتی‘ سعدالدین سعد‘ احمد سعید خان‘ جمیل ادیب سید‘ سخاوت علی نادر‘ چاند علی‘ محمد علی زیدی‘ سلمان عزمی‘ واحد رازی‘ طاہرہ سلیم سوز‘ شائق شہاب‘ وقار زیدی‘ نصیر احمد نصیر‘ تنویر سخن اور دیگر شعرا نے اپنا کلام پیش کیا آخر میں تمام شرکائے محفل کو عشائیہ پیش کیا۔ سخاوت علی نادر نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ اردو زبان و ادب ترقی کی منازل طے کرے ہم اپنی تنظیم کے ذریعے کراچی کے تمام علاقوں میں ادبی تقاریب منعقد کر رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ادبی مشاغل سے جڑ جائیں جو لوگ ہمارے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں ہم ان کے ممنون و شکر گزار ہیں۔

لیاقت علی عاصم کی نذر

عقیل عباس جعفری

ہیرے موتی جیسے سچے شعر کہے تھے
جیسا خود تھا، اس نے ویسے شعر کہے تھے
جو لفظوں میں ڈھالے تھے روداد تھی اس کی
جتنے شعر کہے تھے اپنے شعر کہے تھے
ایک اک شعر ترازو ہو جاتا تھا دل میں
کہنے کو تو سیدھے سادے شعر کہے تھے
جو سنتا تھا اپنا شعر سمجھتا تھا وہ
اس نے ایسے سچے سچے شعر کہے تھے
جس دنیا کے خواب بنے اُس کی آنکھوں نے
اِس دنیا میں اُس دنیا کے شعر کہے تھے
’’چودہ برس کی عمر میں پہلا شعر کہا تھا‘‘
اور پھر پچپن سال اچھوتے شعر کہے تھے
ثروت، عزم، جمال، حسنین اور عاصم سب نے
ایک ہی جیسے تیکھے تیکھے شعر کہے تھے

حصہ