ماں کا بٹوارہ

935

افروز عنایت
یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ایسے واقعات اکثر و بیشتر نہ سہی لیکن ہمارے معاشرے میں نظر آتے ہیں، جنہیں دیکھ کر نہایت افسوس ہوتا ہے۔ ماں باپ، جن کا حقوق العباد میں سب سے اوّل درجہ رکھا گیا، جن پر ایک نظر محبت کی ڈالنے سے ’’حج‘‘ کا ثواب حاصل ہوتا ہے، جن کو راضی کرنے سے رب العزت کی رضا حاصل ہوتی ہے، لیکن افسوس کچھ بے قدرے… اپنی آخرت سے بے خبر… ماں باپ کے ساتھ ایسا سلوک کر بیٹھتے ہیں جس کی بدولت ان کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجاتی ہیں۔ اللہ رب العزت تمام اولادوں کو اپنے ماں باپ کی اطاعت و فرماں برداری اور خدمت کرنے کی توفیق عطا کرے۔
رضیہ بیگم کے شوہر کا انتقال ہوا تو ابھی دونوں بیٹے تعلیم حاصل کررہے تھے۔ خدا کا شکر چھت اپنی تھی، لیکن شوہر کی پینشن گزارے اور بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے ناکافی تھی، لہٰذا انہوں نے خود بھی ملازمت کرنے کا ارادہ کیا۔ شادی سے پہلے وہ کچھ عرصے اسکول میں استانی کے فرائض انجام دے چکی تھیں، اس طرح بہت زیادہ آسودگی تو حاصل نہ تھی، لیکن بہت سے لوگوں سے اچھی گزر بسر ہورہی تھی۔ شوہر کے آفس سے ملنے والے فنڈ کو بھی رضیہ بیگم نے ضائع ہونے کے ڈر سے نئے مکان کی خریداری میں لگادیا، بلکہ رقم کم ہونے پر اپنے تمام زیورات بھی بیچ کر مکان میں لگا دیے، تاکہ دونوں بچے جب شادی کے قابل ہوجائیں تو انہیں بیوی بچوں کے ساتھ اس چھوٹے مکان میں تکلیف نہ ہو، اور بڑے مکان میں سب ساتھ مل جل کر اکٹھے رہیں گے۔ اس طرح رضیہ بیگم کا بڑھاپا بھی دونوں بچوں کے ساتھ عزت سے گزر جائے گا… بڑا بیٹا تعلیم سے فارغ ہوا تو ایک جگہ اسے مناسب روزگار مل گیا۔ گھر کی آمدنی میں کشادگی ہوئی تو بیٹوں نے ماں سے کہا کہ اب آپ آرام سے گھر بیٹھ جائیں، آپ نے تمام زندگی ہم بھائیوں کے لیے وقف کردی ہے۔ رضیہ بیگم نے بھی یہی مناسب سمجھا۔ اور ویسے بھی اب انہیں بیٹے کے لیے دلہن ڈھونڈنی تھی، ان کی تگ و دو کامیاب ہوگئی اور گھر میں دلہن کے آنے سے رونق بھی ہوگئی۔ ثانیہ مناسب پڑھی لکھی لڑکی تھی، اسے گھر گرہستی سے دلچسپی بھی تھی، لہٰذا دونوں ساس بہو مل جل کر گھر کو چلانے لگیں۔ رضیہ نے شکر ادا کیا کہ مشکل وقت گزر گیا، اب وہ زندگی کے بقیہ دن اپنے پوتوں اور پوتیوں کے ساتھ سُکھ سے گزاریں گی۔ رضیہ بیگم خود بھی ایک سگھڑ عورت تھیں، بہو کے ساتھ گھر کا آدھے سے زیادہ کام خود نمٹا لیتیں۔ بیٹے منع کرتے لیکن وہ کہتیں کہ بہو بچوں میں بھی مصروف ہوتی ہے، اس لیے اُس کا ساتھ دے رہی ہوں۔ انسان سوچتا کچھ ہے، اور ہو کچھ جاتا ہے۔ یہی حال اس گھرانے کے ساتھ بھی ہوا۔ چھوٹے بیٹے کے لیے رضیہ بیگم نے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بہو تلاش کی، کہ زیادہ پڑھی لکھی لڑکی گھر میں آئے گی تو گھر کو مزید سنوارے گی، جیٹھانی اور میرے ساتھ اس کے خوشگوار تعلقات استوار ہوں گے تو گھر کا ماحول مزید خوشگوار ہوجائے گا… رضیہ بیگم کی سوچ کچھ غلط بھی نہ تھی، لیکن علم کی ڈگریوں کے ساتھ تعلیم اور علم کا ’’اثر‘‘ ہونا بھی لازمی ہے، ورنہ صرف کاغذی ڈگریاں کس کام کی…! شہلا نے گھر میں قدم رکھا تو اسے احساس ہوا کہ اس مشترکہ خاندان میں تو میں پس جائوں گی، میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی ہوں، یہاں چولہا ہانڈی میں اپنے آپ کو ضائع کردوں! اسی سوچ نے اس کے ذہن میں بگاڑ پیدا کیا، رہی سہی کسر اُس کی ماں نے پوری کردی کہ تم اپنی جیٹھانی کے مقابلے میں نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو بلکہ اُس سے زیادہ اعلیٰ خاندان سے تمہارا تعلق ہے۔ اس خیال نے شہلا کو گھرداری سے نہ صرف دور کردیا بلکہ ماحول میں بھی بگاڑ پیدا ہوگیا۔ اب ثانیہ اور رضیہ بیگم پہلے کی طرح گھرداری میں لگی رہتیں۔ ثانیہ نے رضیہ بیگم سے شکایت کی کہ یہ تو ناانصافی ہے۔ رضیہ بیگم نے اُسے تسلی دی کہ نئی نئی دلہن ہے، آہستہ آہستہ سب معاملات درست ہوجائیں گے۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ ساس کے کہنے سے کبھی کبھار شہلا جیٹھانی کا ہاتھ تو بٹانے لگی لیکن ساس سے چڑ گئی۔ وہ اپنی جیٹھانی کو بھی ساس کے خلاف بھڑکانے لگی کہ دونوں بیٹوں کو قبضے میں کر رکھا ہے، آفس سے آتے ہی ماں کا دم بھرتے ہیں، فرصت ملتی ہے تو ہماری طرف آتے ہیں۔ اس طرح کی زہریلی گفتگو ثانیہ کے کانوں میں پڑنے لگی تو وہ بھی ساس سے دور ہوتی گئی۔ پہلے وہ ساس کا بہت خیال رکھتی تھی، اب وہ رُکھائی سے ساس کے ساتھ بات چیت کرتی۔ رضیہ بیگم ایک پڑھی لکھی سمجھ دار خاتون تھیں، انہوں نے اس بات کو بہت محسوس کیا، لیکن مصلحتاً خاموش رہیں۔ گھر کے ماحول میں کشیدگی میں مزید اضافہ اُس وقت ہوا جب طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے شہلا نے بستر پکڑ لیا، حالانکہ رضیہ بیگم اُس وقت پہلے سے بھی زیادہ ثانیہ کا ہاتھ بٹانے لگیں، لیکن جو زہر شہلا نے ثانیہ کے دل میں ڈالا تھا اس نے اپنا اثر دکھایا، وہ نہ صرف ساس بلکہ دیورانی کے خلاف بھی ہو گئی۔ آئے دن دونوں بہوئوں میں معمولی معمولی باتوں پر تُو تُو میں میں ہونے لگی۔ وہ گھر جہاں سکون تھا، اب ہر وقت یا تو لڑائی جھگڑا رہنے لگا، یا ’’سناٹا‘‘ تھا۔ رضیہ بیگم نے دونوں کو الگ الگ بٹھا کر سمجھانے کی کوشش کی لیکن… کچھ حاصل نہ ہوا۔
آج بھی زور زور سے چیخ و پکار کی آواز سن کر رضیہ بیگم کمرے سے باہر نکلیں تو ایک دنگل کا منظر تھا۔ شہلا چیخ رہی تھی کہ اس کے نالائق بدتمیز بچوں کے شور سے میرا بیٹا بے چین ہوگیا ہے، اس کی نیند خراب ہوگئی ہے۔ دوسری طرف ثانیہ بھی دو دو ہاتھ کرنے کے لیے تیار تھی کہ میرے بچوں کا اِس گھر پر پہلا حق ہے، یہ بچے یہیں کے ہیں، اسی طرح کھیلتے کودتے رہیں گے۔
رضیہ بیگم نے بڑی مشکل سے دونوں کو ٹھنڈا کیا، لیکن یہ لڑائی آخری نہ تھی، اب تو روز بچوں کے معاملے پر دونوں خواتین آپے سے باہر ہوجاتیں۔ شوہروں کے گھر میں داخل ہوتے ہی دونوں ہی شوہروں کے کان بھرتیں۔ آخر دونوں بھائیوں کے دل میں بھی ایک دوسرے کے لیے بغض پیدا ہوگیا۔ رضیہ بیگم پچھتانے لگیں کہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ بہو لائی تھی کہ… یہاں تو بازی ہی پلٹ گئی۔ لیکن رضیہ بیگم نے ہار نہیں مانی، ایک کوشش اور کی کہ شہلا زیادہ پڑھی لکھی ہے، اسے سمجھائوں، شاید معاملہ کچھ بہتر ہوجائے۔ لیکن سمجھانے پر شہلا ساس سے اور زیادہ چڑ گئی۔
……٭٭٭……
دونوں طرف سے لگائی ہوئی آگ نے شعلے بھڑکا دیے۔ آس پاس والوں کو بھنک پڑی تو لوگ مختلف چہ میگوئیاں کرنے لگے۔
آخر ایسے حالات کا جو انجام ہوتا ہے یہاں بھی وہی ہوا۔ ماں سے دونوں بیٹوں نے مطالبہ کیا کہ ہم دونوں ایک چھت تلے اکٹھے نہیں رہ سکتے، مزید حالات بگڑنے سے پہلے گھر کا بٹوارہ ہوجائے تو بہتر ہے… وہ ماں جس نے اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ اکٹھے زندگی کے باقی دن گزارنے کے خواب دیکھے تھے وہ سارے خواب چکنا چور ہوگئے، وہ ٹوٹ کے بکھر گئی، لیکن بے بس تھی۔ گھر کے اندر لڑائی جھگڑے بڑھتے بڑھتے آپس میں نفرتوں کے الائو جلا رہے تھے جس کی وجہ سے رضیہ بیگم کے اپنے دن و رات بھی اذیت میں گزر رہے تھے۔ دل پر پتھر رکھ کر انہوں نے وہ مکان جو اُن کی اور شوہر کی تمام زندگی کی پونجی تھی، بیچ کر بچوں کو رقم تھما دی۔ دونوں نے اپنی اپنی پسند کے مطابق گھر لے لیے۔ اب مسئلہ تھا رضیہ بیگم کا… مکان کا بٹوارہ تو آسانی سے ہوگیا، ماں کا بٹوارہ کیسے ہو…! دونوں بیٹوں کی بیویاں نہیں چاہتی تھیں کہ اس بڑھیا کا بوجھ وہ سنبھالیں۔ آخر بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے دونوں بہوئوں نے مجبوراً اس فیصلے کو قبول کیا کہ رضیہ بیگم ایک ہفتے ایک بیٹے کے پاس رہیں گی اور دوسرے ہفتے دوسرے بیٹے کے ساتھ…
اس واقعے میں قصور کس کا ہے؟ بیٹوں کا، یا رضیہ بیگم کا اپنا، کہ جو پڑھی لکھی بہو گھر میں لائیں؟ یا اُن کی قسمت کا کہ پے در پے آزمائشوں کا شکار تھیں…؟
قصور جس کا بھی تھا لیکن اذیت کا شکار اب رضیہ بیگم تھیں۔

حصہ