شعر و ادب کی دنیا میں فائدہ یا نقصان

605

کامران نفیس
شعر و ادب کی دنیا میں فائدہ یا نقصان کسے کہا جاتا ہے؟ کوئی شاعر، افسانہ نگار یا کسی اور صنف پر طبع آزمائی کرنے والا فرد کامیاب یا ناکام کیونکر کہلایا جاسکتا ہے؟ آج کے عہد میں جب مارکیٹنگ اور برانڈنگ کے نت نئے طریقے بازار میں آ چکے ہیں تو یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ کچھ “اہل فن” یہ جدید طریقے آزمانے میں زور شور سے اپنی تمام توانائیاں صرف کیے ہوئے ہیں۔۔۔ گروپنگ، لابنگ، شعری فرقہ بندی تو ہمیشہ سے ہی رہی ہے لیکن موجودہ دور میں جب سوشل میڈیا طاقتور ہو چلا ہے تو اب یہ سب کچھ نئے انداز میں کسی اور ہی طریقے سے کیا جا رہا ہے، اس صورت حال سے ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوا ہے اور وہ یہ کہ لوگ کتاب خریدنے سے باز آ چکے ہیں اور شعر پڑھنے کی خاطر انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں لہذا ایک ایسا جینوئن شاعر جو اپنی برانڈنگ اور مارکیٹنگ نہیں کر پاتا وہ براہ راست اپنا عمدہ شعر سامع تک پہنچانے سے قاصر رہتا ہے جبکہ انتہائی کمزور شعر کہنے والا شاعر اپنا انتہائی گھٹیا شعر بھی ہزاروں لوگوں تک پہنچا دیتا ہے۔ایسے شعراء اپنی شاعری اور مشاعروں کی وڈیوز جن میں وہ کھڑے ہوکر لہک لہک کر، رقص کرتے ہوئے تحت للفظ میں شاعری کرتے ہوئے خود کو مشہور کرواتے ہیں، اور حیرت اس وقت ہوتی ہے جب انہی شعراء کو بین الاقوامی مشاعروں میں طلب کیا جاتا ہے صرف اس بناء پر کہ وہ سوشل میڈیا پر خاصے مقبول ہوچکے ہیں۔۔۔۔ ان سب کے دوران شاعری کہیں پیچھے رہ جاتی ہے، اور متشاعر قسم کے افراد آگے آجاتے ہیں۔ قارئین زرا غور کریں تو فی زمانہ ان کو ایسا کچھ ہی ہوتا نظر آئے گا۔ اس کے بعد دوسرا اہم اور سنجیدہ مسئلہ آج کل اپنے جوبن پر ہے جس کا تعلق خالص ادب پرور احباب یا ادبی حلقوں سے ہے، اور وہ اپنے عہد کے قابل اور بڑے شعراء کو ان کی زندگی میں نظرانداز کرنے کا ہے۔ جینوئن اور اہم ترین شعراء کو ان کی زندگی ہی میں بعض احباب اپنی تنگ نظری، ادبی تعصب اور جعلی تفاخر کے باعث ایک کونے تک محدود کر دیتے ہیں۔۔ گروپنگ اور لابنگ کے ذریعے ان لوگوں کو اوپر لایا جاتا ہے جو یا تو مالی منفعت کا باعث بنتے ہیں یا پھر کسی ایسے ادارے سے وابستہ ہوتے ہیں جو ان احباب کو کسی طور فائدہ پہنچا سکیں۔۔ پھر ایسی ہی شخصیات کسی انجمن یا بزم سے منسلک ہوکر اپنی توصیف کے سلسلے کو آگے بڑھاتی ہیں۔ میں قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ گزشتہ ہفتے ہمارے شہر اور اردو زبان کے ایک اہم شاعر جناب لیاقت علی عاصم کا انتقال ہوا، لیاقت علی عاصم سے کون واقف نہیں، دنیائے شعر و ادب کا شاید ہی کوئی سنجیدہ طالب علم ہو جس نے لیاقت علی عاصم کو پڑھا یا سنا نہ ہو، کراچی میں رہتے ہوئے چالیس برس تک شعر کہنا اور مسلسل سنجیدگی سے فقط غزل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھنا کوئی معمولی بات نہیں۔ لیاقت علی عاصم کی اس کے سوا اور کچھ پہچان ہی نہیں کہ وہ فقط شاعر تھے اور سر تا پا شاعر تھے۔ وہ ان معدودے پاکستانی شعراء میں سے تھے جن کو جگجیت سنگھ نے گایا، پاکستان کے شعری منظر نامے پر لیاقت علی عاصم آج کے عہد کا انتہائی معتبر نام تھے، جنہوں نے اردو شاعری کو وقار بخشا، آپ کے سات شعری مجموعوں پر مبنی کلیات “یکجان” اور انتقال سے ایک ہفتے پہلے آنے والا آٹھواں شعری مجموعہ ” میرے کتبے پہ اس کا نام لکھو” اردو شاعری میں ایک گراںقدر اضافہ ہے، جس پر آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے لیاقت علی عاصم کے ساتھ ان کی زندگی میں انصاف کیا؟ کیا ہم نے ان کو وہ اہمیت دی جس کے وہ حقدار تھے؟ وہ فقیر منش انسان جو مشاعروں سے دور رہا کرتا تھا اکثر ان لوگوں کی صدارت میں بھی خاموشی سے شعر سنا کر چلا آتا تھا جو اس نہ صرف عمر میں کم بلکہ شاعری میں بھی کہیں کم تر ہوا کرتے تھے۔۔۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ مارکیٹنگ اور برانڈنگ کے اس دور میں جب بہت سے ایسے شاعر جنہیں مصرعہ کہنے کا ڈھنگ نہ آتا ہو وہ لیاقت علی عاصم پر کس طرح سبقت حاصل کر بیٹھے؟ کیا “ادب کے بیوروکریٹس” نے کبھی اس طرف سوچنا یا دیکھنا گوارہ کیا کہ گروپنگ کا حصہ بن کر وہ صرف ایک بڑے شاعر کو اس کا حق نہیں دیتے بلکہ اردو شاعری کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔۔۔!!! جس کا نقصان صرف اور صرف زبان۔ کو پہنچتا ہے۔ آج لیاقت علی عاصم ہم میں موجود نہیں۔۔۔ میں آپ کو اگلے چند ماہ کا منظر نامہ دکھلا دیتا ہوں۔۔۔ اب جگہ جگہ لیاقت علی عاصم کی یاد میں کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے گا، تعزیتی ریفرینسز میں “صدارت” ہوگی اور احباب “مہمان خصوصی” بن کر لیاقت علی عاصم پر “طبع آزمائی” کریں گے۔ ایک آدھ بیاد عاصم کا کوئی مشاعرہ ہوگا۔۔۔ اور پھر ان سارے پروگراموں کو اپنی برانڈنگ کیمپین کا حصہ بنا کر فیس بک اور واٹس ایپ پر تصاویر اور تحریروں کی صورت میں بھرمار کردی جائے۔۔۔ اللہ اللہ خیر سلا۔۔۔۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کچھ احباب یہ استدال پیش کریں گے کہ بھئی کام تو اچھا ہی ہو رہا ہے نا، اب بھی عاصم کو یاد ہی کیا جا رہا ہے۔ لوگ جب کچھ کر ہی رہے ہیں پھر کاہے کی تنقید۔۔۔ فلاں فلاں۔۔۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ آپ اچھا کام کر رہے ہیں اور لیاقت علی عاصم کو یاد کرنا ایک خوش گوار عمل ہے، جو ان کی زندگی میں اگر نہ ہوسکا تو ان کی موت کے بعد ۔۔۔ کسی طور تو ہوا۔۔۔ لیکن۔۔ جناب اس سے سبق کیا حاصل ہوتا ہے؟ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ “ادبی بقراط” اس سے یہ سبق حاصل کرسکیں کہ جو قدآور شعراء ہمارے درمیان موجود ہیں اور ادبی گروپنگ اور فرقہ بندی سے دور صرف اپنے گھر کے ہو بیٹھے ہیں۔۔۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان کو ان کی زندگی میں ہی سراہا جائے۔۔۔۔ ان کو ان کی زندگی میں ہی خراج تحسین پیش کیا جائے۔۔۔ کیونکہ خراج تحسین تو پیش ہی زندہ کو کیا جاتا ہے۔۔۔ جناب انور شعور، جناب نصیر ترابی، جناب اسد محمد خان، جناب شکیل عادل زادہ، جناب سلیم کوثر، جناب خورشید رضوی اور بہت سے نام الحمدللہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔۔ یہ احباب کسی گروپنگ کا حصہ نہیں، اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے کشت ِشعر و ادب کی آبیاری میں مصروف ہیں، میں درخواست کروں گا ادب کے بڑے بڑے اداروں پر فائز طاقت ور شخصیات سے، صدارت اور مہمان خصوصی کے منصب پر فائز ہونے کا شوق رکھنے والے بڑے بڑے “شعراء اور ادباء” سے کہ جناب آج یہ لوگ حیات ہیں، ان کو ان کی زندگی میں ہی خراج تحسین پیش کریں، ان کے شعر کے محاسن ان کی زندگی میں ان کے سامنے بیان کریں، تاکہ ان کے چہروں کی خوشی ہم دیکھ سکیں۔۔ یہ ہمارے اور ہماری زبان کے محسنین ہیں۔۔۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جامعات کے طالبعلموں کو ان شخصیات پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کی راہ دکھائی جائے۔۔۔ کاش ہمارے اداروں میں جس طرح بیرون ملک مقیم شعراء کو بلا کر ستائشی پروگرام کیے جاتے ہیں، اسی طرح ان شخصیات پر بھی تقاریر کی جائیں۔۔ جو اول حق دار ہیں۔۔اور پھر سوشل میڈیا پر اس کو پھرپور اور بہترین انداز میں پیش کیا جائے۔۔۔ تاکہ ہماری نوجوان نسل تک ان شخصیات کا کام پہنچے۔۔۔ ۔ کاش ہم یہ سب کرکے ان کا کچھ قرض اتار سکیں۔۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ مجھے یقین ہے کہ ناممکن تو ہرگز نہیں۔۔۔ شعر و ادب کی دنیا میں فائدہ یا نقصان کسے کہا جاتا ہے؟ صاحب فن کی زندگی میں ہی اسے سراہنا اس کی قدر کرنا۔۔۔۔یقینا یہی زبان و ادب کے لیے فائدہ مند ہے۔۔۔ اگر ایسا ہوسکے۔

حصہ