زمین کے وارث

692

سیدہ عنبرین عالم
۔’’اور ہم نے نصیحت کی کتاب (تورات) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ میرے نیکو کار بندے ہی زمین کے وارث ہوں گے، عبادت گزار بندوں کے لیے اس میں سمجھنے کی بات ہے۔‘‘ (سورۃ الانبیاء 105۔106)
…٭…
اسداللہ جموں و کشمیر میں رہتا تھا۔ والدین ایک روز کسی کام سے گھر سے نکلے اور پھر چار سال گزر گئے، واپس نہ آئے۔ مجاہدین بتاتے تھے کہ انہیں انڈین آرمی نے گرفتار کرلیا تھا اور کسی خفیہ جگہ تشدد بھی کرتے رہے، کیوں کہ دونوں دو روز کے لیے کسی عزیز کی عیادت کی غرض سے پاکستان ہوکر آئے تھے تو مجرم ٹھیرے۔ اب تو نہ جانے تھے بھی، یا شہیدوں میں نام لکھوا چکے تھے۔ بہرحال اسداللہ 17 سال کی عمر میں ہی اپنی دو چھوٹی بہنوں صالحہ اور ذاکرہ کے لیے باپ کا کردارادا کرنے لگا، خود تو پڑھائی چھوڑ دی اور روزگار کے لیے ایک درزی کے ہاں ملازم ہوگیا‘ لیکن دونوں چھوٹی بہنوں کی تعلیم جاری رکھی۔ اسداللہ بھی رات کوعشا کے بعد مجاہدین کی محفل میں ضرور شرکت کرتا، جہاں قرآن ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھایا جاتا۔ اہم اسلامی کتابیں پڑھنے کو دی جاتیں۔ اسلامی تاریخ، حالاتِ حاضرہ، بین الاقوامی سیاست وغیرہ کے اسباق ہوتے۔ یعنی اسداللہ اسکول نہ جا کر بھی خاصا عاقل و فاضل ہوچکا تھا۔ دن میں مجاہدین کی جسمانی تربیت اور ہتھیاروں کا علم ہوتا تھا۔ فی الحال اسداللہ گھر کی ذمے داریوں کی وجہ سے ان چیزوں میں شرکت نہ کرتا۔ اس کا زیادہ دھیان کپڑوں کی سلائی سیکھنے میں تھا۔ اپنا گھر خاصا بڑا تھا، گھر میں اپنی درزی کی دکان کھولنے کا ارادہ تھا۔ ہڑتالوں، کرفیو اور دن رات احتجاج کے درمیان وہ دو روٹی اپنے اور بہنوں کے لیے کما لیتا تھا۔
رات کے 2 بج گئے تھے، باہر شدید فائرنگ ہورہی تھی، اسداللہ کا بھی دل تڑپ رہا تھا کہ باہر جاکر معزز مجاہدینِ کرام کے ساتھ شامل ہوجائے۔ سب اس کے دوست تھے، روز کے ساتھی تھے جو اللہ رب العزت کی راہ میں جانوں کے نذرانے پیش کررہے تھے اور وہ گھر میں بیٹھا تھا۔ مگر صالحہ اور ذاکرہ دائیں بائیں سے اس سے چمٹی بیٹھی تھیں۔ گھر میں نہ بجلی تھی، نہ پانی، نہ فون اور نہ نیٹ کی سہولت۔ دو دن سے حالات بہت خراب تھے۔ ’’اچھا دو منٹ تو چھوڑو مجھے، میں کچھ کھانے کو تو لائوں‘‘۔ اسداللہ بولا۔
’’نہیں! آپ ہمیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے‘‘۔ دونوں بہنوں نے اور کَس کے پکڑ لیا۔
’’تم لوگ کیا مسلمان نہیں ہو؟ کیا موت اور زندگی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں ہے؟‘‘ وہ جھلاّ کر بولا۔ صالحہ اور ذاکرہ شرمندہ سی ہوکر بھائی سے الگ ہوگئیں، مگر آنکھوں میں خوف تھا۔
اسداللہ کو گئے ہوئے 45 منٹ سے زیادہ ہوگئے تھے۔ فائرنگ کی متواتر آوازیں، اندھیرا اور تنہائی ذاکرہ کا دل دہلائے دے رہے تھے۔ صالحہ بڑی ہونے کے ناتے بار بار تسلی دیتی۔ اچانک پیچھے کا دروازہ کھلا، اسداللہ ایک اور ساتھی کے ہمراہ اندر داخل ہوا، ہاتھ میں کچھ لفافے تھے اور پانی کی دو بڑی بوتلیں۔ سلام دعا کے بعد سب کھانے کو بیٹھے۔ کچھ ڈبل روٹی تھی، بسکٹ اور جوس کے دو ڈبے تھے جو صالحہ اور ذاکرہ کو دیے گئے۔ آنے والے ایک نامور مجاہد کمانڈر تھے، محمد شمشیر اللہ نام تھا۔
’’ہاں بھئی بیٹیو! اسداللہ بھائی بتا رہے تھے کہ آپ لوگ بہت ڈرتی ہو، میں نے کہا ایسا کیسے ہوسکتا ہے! صالحہ اور ذاکرہ تو مومن ہیں، مومن تو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔‘‘ شمشیر اللہ بولے۔
’’شمشیر اللہ بھائی! یہ جنگ کتنے بھائی اور کتنے باپ کھائے گی، کچھ حساب بھی ہے؟‘‘ صالحہ نے سوال کیا۔
’’بیٹا! جس دن ہم غلامی قبول کرلیتے ہیں، وندے ماترم گا کر ترنگے کو سلام کرتے ہیں، گائے کو ماتا مان لیتے ہیں، یہ جنگ ختم ہوجائے گی۔ تم کہتی ہو تو ہم ایسا کرلیتے ہیں‘‘۔ شمشیر اللہ نے جواب دیا۔
صالحہ لرز گئی ’’نہیں بھائی! میرا یہ مطلب نہیں تھا، ہم بھلا کیوں کافروں کی غلامی کریں گے!‘‘ وہ بولی۔
شمشیر اللہ مسکرا دیے ’’بیٹا! سورۃ النور میں اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو جسے چاہتے ہیں اپنے نور سے ہدایت دیتے ہیں، یہ میرے رب کا نور ہے کہ ہمیں یہ ہدایت ملی ہے کہ کافروں کے آگے سر نہیں جھکانا ہے۔ مومن کا سر صرف پاک پروردگار کے آگے جھکتا ہے، ورنہ ہندوستان میں کتنے ہی لوگ ہیں جو ہیں تو مسلمان، مگر ہندوئوں کو راضی رکھنے کے لیے اُن جیسا لباس پہنتے ہیں، اُن کے اطوار اپناتے ہیں، اُن کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں، مگر ذرا سی بات پر انہیں کاٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ گجرات کے مسلمانوں نے تو آزادی نہیں مانگی تھی، وہاں کیوں پانچ ہزار گھر جلا دیے گئے؟ کیوں دو ہزار مسلمانوں کو قتل کردیا گیا؟ وہ تو کافروں کے آگے سرنگوں ہوگئے تھے… کیا ہم ان گجراتی مسلمانوں سے بہتر نہیں ہیں؟ کم از کم اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے تو جان دے رہے ہیں۔ کم از کم قیامت کے روز شہید تو کہلائیں گے‘‘۔ انہوں نے سمجھایا۔
ذاکرہ غور سے سن رہی تھی۔ ’’کیا ہم کافروں کے ظلم سے نجات پانے کے لیے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں بیٹا!‘‘ شمشیر اللہ نے اپنی سر کو جنبش دی ’’ہم اس لیے جدوجہد کررہے ہیں کیوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے کافر باپ سے صرف اُن کے کفر کی وجہ سے علیحدگی اختیار کی، کیوں کہ میرے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہم وطن مکے والوں سے صرف اُن کے کفر کی وجہ سے علیحدگی اختیار کی، کیوں کہ قائداعظم اور علامہ اقبال نے کافروں سے اُن کے کفر کی وجہ سے علیحدگی اختیارکی۔ مجھے حکم ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے رستے پر چلوں، مجھے میرے رب کا حکم ہے کہ پیارے محمدؐ کی سنت اپنائوں، اور سنت یہ ہے کہ کافروں سے مکمل علیحدگی اختیار کی جائے، اگر کوئی تعلق باقی ہے تو اس کی ابتدا صلح حدیبیہ سے ہوتی ہے، یعنی مصلحت، اور اختتام غزوۂ بدر سے یعنی فیصلہ کن جنگ‘‘۔ انہوں نے ذاکرہ کو بتایا۔
’’درست…‘‘ صالحہ نے تائید کی ’’ہم جو کچھ قربانیاں دے رہے ہیں، وہ اپنے رب کے عشق میں دے رہے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں اپنے رب کی مدد حاصل نہیں ہے؟ ابراہیم علیہ السلام کے لیے میرا رب آگ کو گلزار کردیتا ہے، مگر جلتے ہوئے کشمیری اسے پکارتے پکارتے تھک جاتے ہیں، کہاں ہے میرا رب؟‘‘ اس نے پوچھا۔
شمشیر اللہ مسکرانے لگے ’’اچھا سوال ہے بیٹی! وہ 70 سال میں ہمیں جھکانے میں ناکام رہے، کیا یہ تائیدِ ایزدی نہیں ہے! سورہ انفال آیت 37 میں اللہ فرماتا ہے کہ اس آزمائش کا مقصد پاک کو ناپاک سے الگ کرنا ہے۔ آزمائش میں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے ناں بیٹا! جو لوگ آزاد ملکوں میں اپنی مرضی کی زندگی جیتے ہیں کیا وہ زخمی نہیں ہوتے؟ کیا وہ نہیں مرتے؟ کیا تمہیں معلوم ہے لاہور میں صرف 2018ء میں 13 لڑکے ون وہیلنگ کرتے ہوئے جان دے بیٹھے۔ کیسی جہالت کی بے فائدہ موت ہے۔ ماشاء اللہ ہمارے کشمیری لڑکے تو اس مقام پر فائز ہیں کہ پورے شعور کے ساتھ ربِ رحمان کے لیے اپنی جانیں نچھاور کررہے ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک مقصد ہے، وہ اپنے فائدے نقصان کو پہچانتے ہیں، وہ ان بچوں سے لاکھ درجے بہتر ہیں جو عقل و شعور سے عاری، ہوس میں اندھے، شیطانی کھیلوں میں جانیں دے رہے ہیں۔ ہم کامیاب ہیں بیٹا! یہ اللہ ہی کی مدد ہے کہ ہم دل کے اندھے نہیں ہے۔ اللہ کا نور ہمیں راستہ دکھاتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’مگر ایسا کیوں ہے کہ شیطانی لوگ اور قومیں ہی اپنے ہاتھ میں طاقت رکھتی ہیں؟‘‘ ذاکرہ نے سوال کیا۔
’’بیٹا! اس کی ایک وجہ تو صاف قرآن میں لکھی ہے کہ کافروں اور شیطان لوگوں کو ان کی چند اچھائیوں کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے، آخرت میں ان کے لیے کچھ نہیں ہے۔ آج کل شیطانی غلبے کا زمانہ ہے۔ ہر شیطانی فرد، شیطانی نظام اور شیطانی قوم فاتح ہے، اور جو بھی رب کا عاشق ہے وہ ذلت اور زوال کا شکار ہے‘‘۔ شمشیر اللہ نے سمجھایا۔
’’پھر اس کا آخر کیا علاج ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی کو کچھ کرنا پڑے گا، ہم تو جانیں دے دے کر تھک چکے‘‘۔ صالحہ نے سوال کیا۔
’’پہلے یہ بتائو کہ کس بات کی جنگ ہے؟‘‘ شمشیر اللہ نے پوچھا۔
اسداللہ نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا ’’یہ جنگ انسان کے بارے میں ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا نائب بننے کے لائق ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان کو نائب بنانا چاہتا ہے، اس لیے انسان کی اصلاح کی خاطر پیغمبر بھیجتا ہے، اور شیطان انسان سے یہ منصب چھیننا چاہتا ہے، اس لیے اسے بے مقصد زندگی کی طرف لے جاتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’بالکل صحیح…‘‘ شمشیر اللہ نے اثبات میں سر ہلایا ’’اب دیکھا جائے تو سارا کھیل تو انسان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر انسان چاہے گا تو غلبہ پا لے گا۔ حال یہ ہے کہ صرف امت ِ مسلمہ بھی اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار نہیں، تو پھر دنیا بھی تباہ ہوگی، انسان بھی تباہ ہوں گے اور شیطان فاتح ہوگا‘‘۔ شمشیر اللہ کا خیال تھا کہ صالحہ کے ذہن میں جو سوال پیدا ہورہا ہے اس کا جواب ملنا چاہیے ورنہ وہ غلط رجحانات کی طرف راغب ہوجائے گی۔
اسداللہ کچھ دیر سوچتے رہے پھر بولے ’’ اس کا جواب ہے سورۃ الانبیاء آیت 105۔106 ’’زمین کے وارث آخرکار اللہ کے عاشق ہی ہوں گے‘‘، یعنی اللہ کے چاہنے والے۔‘‘
’’بالکل صحیح…‘‘ شمشیر اللہ بولے ’’دیکھو بیٹا! اللہ تعالیٰ نے جنت سے نکال کر آدمؑ کو زمین پر بھیجا، امتحان یہ تھا کہ زمین کو جنت بنادو تو واپس جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ اب بتائو ہم سے کیا غلطی ہوئی؟‘‘
اسداللہ پھر گہری سوچ میں غرق ہوگیا ’’جنت کا مطلب سچ، محبت، ایمانداری، بھائی چارہ، اللہ تعالیٰ کے آگے سرنگوں ہونا، اللہ تعالیٰ کا نظام وغیرہ۔ یہ چیزیں رائج کرکے دنیا کو جنت بنانا تھا، اور انسان نے جنت کی آسائشات کو دنیا میں سہل الحصول بنادیا، لہٰذا نسلِ انسانی تباہ ہوگئی‘‘۔ وہ بولا۔
’’ہاں ہم نے الٹ مطلب نکالا، فطرت کے خلاف طرزِ زندگی اپنا لیا۔ زمین میں جنت کی آسائشیں رائج کرنا دراصل فطرت سے جنگ ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہی اللہ کا نظام نافذ کرکے زمین کو جنت بنائیں گے، اصل جنت… یعنی نہ بھوک، نہ فکر، نہ جرم نہ بیماری… اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے ہاتھ میں زمامِِ اقتدار ہونا ضروری ہے، ایسا ہوگا تو زمین جنت بنے گی، تو ہی انسان امتحان میں کامیاب کہلائے گا اور نائب بنے گا۔ آخری جیت اللہ تعالیٰ ہی کی ہوگی‘‘۔ انہوں نے بتایا۔
’’یعنی ایک روز کشمیر پر مسلمان اقتدار حاصل کریں گے اور تمام دنیا پر بھی اسلام نافذ ہوگا۔ لیکن یہ تو صرف اُس وقت ممکن ہے جب انسانوں کی اکثریت اللہ کی فرمانبردار ہو‘‘۔ صالحہ نے کہا۔
’’ہاں! ایسا ضرور ہوگا، ابھی ہمیں حالات بہت خراب نظر آرہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ممکن ہوتا نظر نہیں آرہا، یہ بالکل وہی حالت ہے جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ کی زندگی میں تھی۔ نہ کوئی راستہ نظر آتا تھا نہ امید، مگر اللہ کے وعدوں پر یقین ایک بھی مومن کا متزلزل نہ ہوا۔ آج ہمیں بھی یقین کا مکمل مظاہرہ کرنا ہے اور اللہ ہماری بھی ویسے ہی مدد فرمائے گا جیسے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی تھی، بس ایمان و عمل اعلیٰ ترین درجے میں رہے‘‘۔ شمشیر اللہ بولے۔
’’مگر ہمارا امتحان تو بہت سخت ہے‘‘۔ ذاکرہ نے کہا۔
اسداللہ اور شمشیر اللہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ’’ہاں بیٹا! ہمارا امتحان بہت سخت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حق و باطل کی جنگ جاری ہے جو کہ اپنے آخری مراحل میں ہے۔ قیامت آنے والی ہے، فیصلہ ہونے والا ہے، شیطان کو معلوم ہے کہ اس کی شکست قریب ہے، اس لیے وہ اپنا سارا زور لگا رہا ہے۔ امتحان بہت کٹھن ہے، مجھے اس سے انکار نہیں، لیکن کیا ہم شکست قبول کرلیں؟‘‘ شمشیر اللہ نے پوچھا۔
اسداللہ نے بہنوں کی طرف دیکھا اور کہا ’’یہ تمام سختیاں ایک پھونک کے مترادف ہیں، اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ میں فرماتا ہے کہ اللہ کا نور پھونکوں سے نہیں بجھایا جاسکے گا، یہ نور پورا ہوکر رہے گا، چاہے کافروں کو کتنا بھی برا لگے‘‘۔ انہوں نے سمجھایا۔
صالحہ مسکرانے لگی ’’بہت خوب صورت باتیں کرتے ہیں آپ لوگ، لیکن اگر والدین کو گم ہوئے چار سال ہوگئے ہوں، چار دن سے گھر میں کھانا نہ پکا ہو، اور فائرنگ کی صورت میں موت ہر وقت سر پر لٹک رہی ہو تو یہ خوب صورت باتیں دل لبھانے میں ناکام رہتی ہیں‘‘۔ اس نے تلخ لہجے میں کہا۔
اسداللہ خشمگیں نظروں سے بہن کو دیکھنے لگا، ابھی ڈانٹنے ہی والا تھا کہ شمشیر اللہ نے اسے روک دیا۔ ’’میری بیٹی! مومن کے لیے دنیا قید خانہ ہے، مومن دنیا کو خوش گوار بنانے کے لیے نہیں جیتا، ہمارا مطمح نظر صرف آخرت ہے، وہ ہے اصل زندگی۔ فرعون، عاد، نمرود… یہ سب کتنے طاقتور تھے، مگر آخرکار ہار گئے۔ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ باطل مٹ جانے کے لیے ہے، اس لیے یاد رکھو کہ مایوسی کفر ہے، میرا رب ضرور کوئی سبیل پیدا کرے گا، اور نہ کرے تو بھی ہم اُس کی رضا میں راضی ہیں۔ بیٹا! حالات بدلنا تو ہمارے اختیار میں ہے نہیں، کم از کم الٹی سیدھی باتیں کرکے اپنا اجر تو ضائع نہ کرو، میرے رب کا وعدہ ہے کہ زمین کے مالک آخرکار مومنین ہوں گے، چاہے زیادہ وقت لگے، لیکن میرے رب کا وعدہ ضرور پورا ہوکر رہے گا۔ بیٹا! شیطان کے بہکاوے میں مت آنا‘‘۔ انہوں نے صالحہ کو سمجھایا۔
صالحہ نے اثبات میں سر ہلایا ’’درست فرمایا آپ نے۔ اللہ ہمیں بلال حبشیؓ جیسا صبر اور ایمان عطا فرمائے، کافروں پر فتح عطا فرمائے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے‘‘۔ اس نے دُعا کی۔
’’آمین…‘‘ اسداللہ، شمشیراللہ اور ذاکرہ نے کہا۔

حصہ