۔’’شاہکار‘‘ اور ’’زندہ کتابیں‘‘۔

942

نعیم الرحمن
(گزشتہ سے پیوستہ)
امریکا میں مقیم بھارتی افسانہ نگار اورشاعرہ صوفیہ انجم تاج کی خودنوشت ’’یادوں کی دستک‘‘ فیصل آبادکے مثال پبلشرنے اپنے روایتی انداز اور آب وتاب سے شائع کی ہے۔ دوسوچھپن صفحات اور اٹھائیس صفحات پر رنگین اور بلیک اینڈ وائٹ تصاویر سے مزین کتاب کی قیمت پانچ سو روپے انتہائی مناسب ہے۔ بھارت کے مشہور ادیب اورشاعر ڈاکٹرستیہ پال آنندکتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:’’صوفیہ انجم تاج اس کتاب کو لکھتے ہوئے بیک وقت دو دنیاؤں میں سانس لیتی ہیں۔ کوئی کارِ دیگر ممکن ہی نہیں تھا۔ جب لاشعورکی برقی رو شعور پر اپنا دبیز پردہ ڈال کر اسے یوں ڈھک دیتی ہے کہ یہ تمیزکرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ماضی کیا ہے اور حال کیا ہے۔ دونوں میں کہاں تفاوت ہے اورکہاں مطابقت۔ ان کے اپنے الفاظ میں تخلیقی قوت کی کارکردگی میں یہ ایک عجیب کیفیت ہے۔‘‘
کلیم عاجز کا صوفیہ کی تحریروں کے بارے میں کہنا ہے کہ ’’گاؤں کی فضا، پھولوں کی نکہت، رنگ، امنگ، آواز، موسیقی، تان کی پکار، ملہار سب چلے گئے۔ داغؔ اور میرؔکی غزلوں پر جھومنے والے اب کہاں! اب یہ جائیں تو کہاں جائیں! آؤ، بیچاری ایک دُکھیاری ہے اسی کے دل میں سما جاؤ۔ اس کے قلم کو حرکت دو اور اپنی تصویریں بنواؤ۔ اس کے لبوں کو جنبش دو اور اپنے نغمے گنگناؤ۔ صوفیہ انجم تاج کی کہانیوں، غزلوں اور نظموں میں یہی سرمایہ مختلف رنگ وآہنگ، بناؤ سنگھار اور سجاوٹ سے ملتا ہے۔ یہ ایسا سرمایہ ہے کہ جب تک یہ نیلا آسمان سرپر ہے اور دودھیالی زمین قدموں کے نیچے ہے، یہ ہوائیں اور چاند تارے ہیں… یہ کہانیاں کبھی بھی نہ بھلائی جائیں گی۔‘‘
بھارت کے نامورادیب وشاعرشمس الرحمن فاروقی نے صوفیہ انجم تاج کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے:’’یادیں ہم سب کی شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں، لیکن یادوں کو الفاظ اور تصویر کی شکل دے دینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے، اور فرض کیجیے کہ انہیں الفاظ کی شکل دے بھی دی جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ الفاظ دوسروں کے لیے بھی دلچسپی یا گرمی کے حامل ہوں گے؟ یادیں اتنی شخصی اور ذاتی چیزیں ہیں کہ ایک تو ان کا فنی اظہار بہت مشکل ہے، اور پھر یہ کہ ہم میں سے زیادہ ترلوگوں کی داخلی زندگی کسی ایسی گہرائی یا رنگارنگی کی حامل نہیں ہوتی کہ ہمارے حافظے کے محفوظ نہاں خانوں میں سے باہر نکالی جائے تو بھی دلکش اور توجہ انگیز رہ سکے۔ یہ سب باتیں ایک طرف، لیکن ایک سوال یہ
بھی ہے کہ اگر یادوں کو مرتب اور منظم طور پر پیش کیا جانا ہے تو پھرخودنوشت ہی کیوں نہ لکھ دی جائے؟ یادوں کو خودنوشت میں بدلنے سے محفوظ رکھنے کا کام آسان نہیں۔ یہ ایساہی مشکل کام ہے جیسا یادوں کو تخلیقی نثر یا نظم کا روپ دے کر اس طرح پیش کرناکہ وہ دوسروں کے لیے بھی بامعنی ہوسکیں۔ گزشتہ چند برس میں ایک نئی صورت بھی سامنے آئی ہے۔ ہمارے کئی اہلِ قلم تلاشِ معاش میں یا کسی اور مجبوری کی بنا پر نسبتاً نوعمری کے زمانے میں اپنا ملک چھوڑکر غیر ملکوں میں بس گئے ہیں۔ ایسے لکھنے والوں کے لیے چھوڑی ہوئی منزلوں کی یاد محبت اور رفاقت کے گلابی رنگوں کے پردوں کے پیچھے سے جھانکتی ہے اور انہیں گھرکی ہر وہ چیز جوگھر میں چھوٹ گئی، رنگین اور بامعنی نظر آنے لگتی ہے۔ ایسے میں زمانی اور مکانی فاصلے کی بنا پر پیدا ہونے والی محبت یادوں کے حقائق پر حاوی ہوجاتی ہے۔ صوفیہ انجم تاج نے نوعمری میں اپنا وطن چھوڑا اور امریکا میں بس گئیں۔ جیساکہ میں نے ابھی کہا، ایسا تو بہتوں کے ساتھ ہوا ہوگا، لیکن صوفیہ انجم تاج کی اس کتاب ’’یادوں کی دستک‘‘ میں چھوڑی ہوئی منزلوں کے رنگ خود یادنویس کی شخصیت کی خوشبو کا لباس پہن کر سامنے آئے ہیں، اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کے وطن صوبہ بہار کے شمالی علاقے میں یوپی جانے والی زبان کا ترنم اور اس کاآہنگ، اس کی لطافت اور اس کی شیرینی جگہ جگہ مکالموں میں اور خود بیانیہ میں چمک جاتی ہے۔ اس بیانیہ میں بعض شخصیتیں ایسی ہیں جن سے ہم واقف ہیں، یعنی وہ ملک کی سیاسی یا ادبی زندگی میں کسی مقام کی مالک ہیں، لیکن زیادہ تر شخصیتیں ایسی ہیں جو بیانیہ نگارکے لیے تو اہم ہیں لیکن وہ بیانیہ نگار کی زندگی کی دھڑکن بن کرکتاب کے صفحے صفحے پرجلوہ نما ہیں۔ صوفیہ انجم تاج ہمارے شکریے کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی یادوں کے پردے میں ایک پوری زندگی اور ایک پوری تہذیب بیان کردی ہے۔‘‘
اردو میں خواتین کی آپ بیتیاں بہت کم لکھی گئی ہیں، جن میں قرۃ العین حیدرکی ’’کارِ جہاں درازہے ‘‘، نثارعزیزبٹ کی ’’گئے دنوں کا سراغ ‘‘، ش فرخ کی ’’جینے کا جرم‘‘، عطیہ داؤد کی ’’آئینے کے سامنے‘‘، شاعرہ اورکالم نگارکشورناہیدکی ’’مٹھی بھر یادیں‘‘، سیاسی کارکن فرخندہ بخاری کی ’’یہ بازی عشق کی بازی ہے‘‘، مشہور شاعرہ ادا جعفری کی ’’جورہی سو بے خبری رہی‘‘، صحافی شمیم اخترکی ’’دل میںچبھے کانٹے‘‘، سعیدہ بانو احمد کی ’’ڈگر سے ہٹ کر‘‘، مسزخلیق انجم کی ’’کہاں کہاں سے گزرگئے‘‘، بیگم اخترحسین رائے پوری کی ستر سال کی عمر میں لکھی ’’ہم سفر‘‘، بھوپال کی شہزادی کی آپ بیتی’’عابدہ سلطان ‘‘، اورشوکت کیفی کی’’یاد کی رہ گزر‘‘ شامل ہیں۔ ان میں صوفیہ انجم تاج کی ’’یادوں کی دستک‘‘ ایک اچھا اضافہ ہے۔
راشداشرف صاحب نے ’’چند باتیں‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اردو زبان میں خواتین کی خودنوشت آپ بیتیاں کم تعداد میں ہیں۔ اور ان میں ایسی آپ بیتیاں تو خال خال ہی ہیں جو دلچسپ کہلانے کے قابل ہوں۔ زیرنظر خودنوشت زبان وبیان اوردلچسپی کے اعتبار سے بلاشبہ ایک اہم آپ بیتی ہے۔ صوفیہ صاحبہ ادیبہ ہونے کے ساتھ ایک اچھی شاعرہ بھی ہیں۔ ان کے اندازِ تحریر میں زبان کی چاشنی کا لطف بھی ملتا ہے اور شاعرہ ہونے کے سبب بات کہنے کا سلیقہ بھی۔ مجھے خوشی ہے کہ انجم صاحبہ کی یہ کتاب زندہ کتابیں کے تحت شائع ہورہی ہے۔آپ کو آپ بیتی کے اندازِ تحریر میں یاس کی ایک کیفیت ملے گی۔ تیزی سے امتدادِ زمانہ کی نذر ہوتا ہمارا معاشرہ، گزرے کل اورآج میں ایک لرزا دینے والا فرق، معاشرتی اقدارکی زوال پذیری… ان تمام کیفیات کا تقابلی جائزہ کس عمدگی سے انجم صاحبہ نے اس کتاب میں پیش کیا ہے۔ یقینا آپ بھی دورانِ مطالعہ اسی کیفیت سے دوچار ہوں گے‘‘۔ مقصد الٰہ آبادی نے انجم تاج اور ان کے فن کے بارے میں اظہارِخیال کچھ یوں کیا ہے: ’’انجم تاج کو سب سے پہلے میں نے ایک شاعرہ کی حیثیت سے دیکھا، پھر ایک مصورہ کی حیثیت سے، اور اب ایک مضمون نگارکی حیثیت سے دیکھ رہا ہوں، گویا انہوں نے تین قسطوں میں اپنے آپ کو مجھ سے روشناس کرایا، لیکن عجیب اتفاق ہے کہ تینوں حیثیتوں میں ان کی شخصیت میں کہیں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا۔ وہی نسوانی جذبات کی مؤثر ادائیگی، وہی اندازِ بیان کی شستگی و شائستگی، وہی پرانی قدروںکی پاسداری ہر چیز، ہر تخلیق میں کارفرما نظر آئے گی۔ ان نگارشات سے کوئی شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ اپنے ماضی سے ایک لمحے کے لیے بھی دور نہیں ہوتیں، یا یوں کہیے کہ ہونا نہیں چاہتیں۔ ان کی خوشی، ان کا اصل سرمایہ ہی ان کے ماضی کی خوش گوار یادیں ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی پینٹنگز جو میں نے دیکھیں، جو شعر میں نے سنے، یا جو بھی مضمون میں نے پڑھا، سب میں ہندوستان کے کسی دورافتادہ گاؤں کی تازہ ہوا کے جھونکے محسوس ہوئے، مٹی کی سوندھی خوشبو آئی، اور بے نام معصوم رشتوں کی پُرخلوص اپنائیت اور یگانگت کی جھلک دکھلائی دی۔‘‘
سادہ اور پُراثر اسلوب میں صوفیہ انجم تاج نے اپنی یادوں میں قارئین کو شریک کیا ہے۔ روزمرہ کے واقعات، خاندان، احباب، دوستوں اور زندگی میں ملنے جلنے والوں کا تذکرہ بھرپور محبت کے ساتھ کیاگیاہے، جس میں کئی کردار ہمیں اردگرد نظر آتے ہیں۔ ایک عام خاتون کی خودنوشت میں اپنی زندگی کی بھی جھلک نظرآتی ہے۔ خصوصاً دورِجدید میں کئی ملکوں میں پھیلے ہوئے ایک ہی گھرانے کے افراد کا برسوں ایک دوسرے سے دور رہنا تو اب عام بات ہے۔ ان تمام کتب کی اشاعت پر راشد اشرف کو بھرپور مبارک باد پیش ہے۔

غزلیں

کامران نفیس

ساکت ہے بدن خواب کی لذت سے گزر کر
حیرت میں ہے دل کوچۂ حیرت سے گزر کر
اس نخلِ شناسائی میں تا دیر رکا میں
پایا تجھے پھر دشتِ وضاحت سے گزر کر
شمشیر دعا کر کے مصلے سے اٹھائی
پھر جنگ پہ نکلا میں عبادت سے گزر کر
اک زخم کے اندر بھی تو ہوتا ہے کہیں زخم
بھرتا جو نہیں کارِ جراحت سے گزر کر
اک قیدِ مسلسل ہے کہ ہر دن مری تنہائی
کمرے میں چلی آتی ہے خلقت سے گزر کر
دشمن کے تعاقب میں تھی مشکل بڑی در پیش
جانا تھا مجھے مالِ غنیمت سے گزر کر
منظر ، پس منظر میں چھپا ہے کہیں عریاں
تصویر میں پردے کی رعایت سے گزر کر
ہم نیند میں چل کر ہی اٹھا لائیں گے مہتاب
اس خواب کی بوسیدہ عمارت سے گزر کر
میں دیر سے پہنچا تھا سو بالوں میں لگا پھول
مرجھا ہی گیا لمس کی حسرت سے گزر کر
اس شوخ سے نادم ہے مری طاقتِ گفتار
ہر لفظ ادا ہوتا ہے لکنت سے گزر کر

فیصل محمود سید

بہت سوچتا ہوں جبھی چپ ہوں میں
لبالب بھرا ہوں جبھی چپ ہوں میں
ہیں الفاظ گونگے بہت شور ہے
میں سچ بولتا ہوں جبھی چپ ہوں میں
نظر دے کے بولا تو خاموش رہ
سو بس دیکھتا ہوں جبھی چپ ہوں میں
یہ احساس خوبی نہیں بوجھ ہے
مسلسل جلا ہوں جبھی چپ ہوں میں
مرے چار جانب صدائیں بہت
میں سب سے جدا ہوں جبھی چپ ہوں میں
جو اندر سجی ہے میں اس بزم میں
بہت بولتا ہوں جبھی چپ ہوں میں
جنوں سے مگر اپنے خائف بھی ہوں
کہ کیا بک گیا ہوں جبھی چپ ہوں میں
یہ آواز آخر کو تھکنے لگی
سبھی کہہ چکا ہوں جبھی چپ ہوں میں
بدلتا نہیں کچھ مرے شور سے
اب اکتا گیا ہوں جبھی چپ ہوں میں
غلط ہیں سبھی یا کہ میں ہوں غلط
نہیں جانتا ہوں جبھی چپ ہوں میں

حصہ