یروشلم۔۔۔مدینہ۔۔۔قسطنطنیہ

1446

اوریا مقبول جان
استنبول جو پوری دنیا میں 1923ء تک قسطنطنیہ کہلاتا تھا۔ وہ نام جو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے بشارتوں والی احادیث میں ادا ہوا۔ کمال اتاترک اور اس کے سیکولر حواریوں کو اس نام سے اس قدر نفرت تھی کہ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد فوراً ہی اس کا یونانی زبان میں مستعمل نام استنبول رکھ دیا، جو دراصل ایک یونانی محاورے ’’ستنبولی‘‘ سے مختص ہے، جس کا مطلب ہے ’’شہر کے وسط‘‘ یا ’’شہر کی جانب‘‘۔
یہ شہر، مسیحی یورپ کے اتحاد کی آخری علامت، بازنطینی حکومت کا مرکز تھا جسے پورے یورپ میں “Constantinople” کہا جاتا تھا۔ اسے رومی سلطنت کے بادشاہ کانسٹنین نے 11 مئی 330 عیسوی میں اپنے مشرقی دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا۔ اسے شروع میں مشرقی روم بھی کہا جاتا رہا، لیکن پھر اس شہر کو کانسٹنین کے نام سے موسوم کردیا گیا۔ 1453 عیسوی میں جب اکیس سالہ سلطان محمد فاتح نے 53 دن کے محاصرے کے بعد 16 اپریل کو بادشاہ کانسٹنین دہم کو شکست دی تو خلافتِ عثمانیہ کا مرکز بھی ایڈرین شہر سے یہاں منتقل کردیاگیا۔ 470 سال یہ شہر امتِ مسلمہ کی مرکزیت کی علامت رہا۔ لیکن ان ٹھیک 470 برسوں میں پوری مغربی دنیا اس احساس سے کڑھتی رہی کہ ان کا تہذیبی، سیاسی اور مذہبی مرکز نہ صرف ان سے چھن چکا ہے، بلکہ اب اس کے باسی عشقِ رسولؐ میں ڈوبے ہوئے مسلمان بھی ہیں اور مسلم امہ کی مرکزیت کے علَم بردار بھی۔ جس شہر کے باسیوں نے اپنا مرکزِ نگاہ میزبانِ رسولؐ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو بنا لیا ہو اور ان کے مرقد کو ’’سلطان ایوب‘‘ کا مقام کہہ کر پکارا جاتا ہو، اب ایسے قسطنطنیہ پر دوبارہ قبضہ کرنا یورپ کے لیے ایک خواب تھا۔ قبضہ ہو بھی جاتا تو زمین ان کے ہاتھ آتی مگر لوگوں کے دل تو اب روم کے بجائے مدینہ میں دھڑکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگِ عظیم اوّل کا بنیادی ہدف خلافتِ عثمانیہ کو سیکولر قومی ریاستوں میں تقسیم کرکے امتِ مسلمہ کی وحدت کو تار تار کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہیں حجاز میں شریفِ مکہ میسر آیا جس کی لوگ آلِ رسولؐ ہونے کے ناتے عزت کرتے تھے۔ اس نے عرب پر ہاشمی ہونے کی وجہ سے اپنی قیادت کا دعویٰ کردیا۔ ترک سید الانبیاؐ سے محبت کرتے تھے، انہوں نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا: یہ سب تمہارا ہے، بس ہمیں اپنے آقا کے تبرکات بخش دو۔ حجاز کا ترک گورنر، وہ تبرکات ایک ٹرین پر اس احترام سے لے کر استنبول آیا کہ سارے راستے انجن پر کھڑا پہرہ دیتا رہا۔ آج استنبول کا سب سے بڑا سرمایہ توپ کاپی میں موجود رسولِ مقبولؐ کے تبرکات ہیں۔
دوسری جانب عربوں کے مقابل ترک قومیت کا نعرہ بلند کرنے کے لیے یورپ کو یہودی النسل کمال اتاترک میسر آگیا، جس نے نہ صرف خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے پر مہرِ تصدیق ثبت کی بلکہ اسلام سے ہر تعلق ختم کرنے کے لیے عربی رسم الخط، یہاں تک کہ عربی میں اذان تک پر پابندی لگا دی۔ کمال اتاترک کا ترکی یورپ کے رنگ میں رنگ کر ان کا حصہ بننے کی آرزو میں تڑپنے لگا۔ سو سال کی محنت، جبہ و دستار کی جگہ پینٹ کوٹ، حجاب اور برقعے کی جگہ منی اسکرٹ، قہوہ خانوں کی جگہ شراب خانے… اتنا کچھ بدلا، یہاں تک کہ مغرب کی وہ تمام غلاظت جو اُن کے ساحلوں، نائٹ کلبوں اور فحش فلموں میں پائی جاتی تھی، ترکی بھی اسی غلاظت کے گڑھے میں ڈوب گیا۔ یورپ کا حصہ بننے اور اُن جیسا کہلانے کی اس ایک سو سالہ کوشش پر اس لمحے اوس پڑ گئی جب پوری یورپی یونین متحدہ طور پر ایک مسیحی یورپی یونین کے روپ میں سامنے آگئی۔ وہ قسطنطنیہ اور اس کے باسی جو کبھی ان کی قوت کا مرکز تھے، اب ان کے لیے قابلِ نفرت تھے، اس لیے کہ نسل، رنگ، زبان اور علاقے کے باوجود ان کی زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہوچکا تھا، اور ان کے نام عبداللہ اور عبدالرحمن جیسے تھے۔
مسیحی یورپی یونین کی نفرت اور ترکوں کی اسلام سے لازوال عقیدت کی روایت نے مل کر ترکی کو اسلامی شناخت کے ایک تناور درخت کی شکل دے دی ہے۔ نجم الدین اربکان سے طیب اردوان تک ترکی ایک بار پھر ملتِ اسلامیہ کا مرکزِ نگاہ بنا ہوا نظر آنے لگا۔ پورے ترکی میں اب اسلامی اخوت کو شکست دینا ممکن نہ تھا، اس لیے توجہ قسطنطنیہ یعنی استنبول پر مرکوز کردی گئی، جس کا اسلامی نام اتاترک اور اُس کے ساتھیوں کو گوارا نہ تھا۔ آج استنبول میں سیکولر اتحاد کی جمہوری گاڑی نے اردوان کی پارٹی پر فتح حاصل کرلی ہے۔ میرے سامنے اس وقت اسرائیل کا سب سے بڑا اخبار ہیرٹز (HAARETZ) ہے جس کی سرخی میں یہودیوں کی خوشی نظر آتی ہے :’’اردوان ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا۔ استنبول کا شکریہ۔ ترکی کی جمہوریت نے مقبول فتح حاصل کی۔‘‘
یہ تو ہونا تھا۔ ایسا کیوں ہونا تھا؟ میں گزشتہ سال دو دفعہ استنبول کی سڑکوں پر دیر تک گھوما، پورے ترکی میں اُن شہروں میں گیا جہاں شام کے مہاجرین آکر آباد ہوئے تھے۔ اردوان کے ریفرنڈم کے آخری جلسے میں مولانا روم کے مزار کے روبرو میں نے اس کی وہ تقریر بھی سنی جس پر لوگ وارفتہ اور اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ لیکن استنبول کی سڑکوں پر گھومتے، حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری دیتے، توپ کاپی میں آقائے دوجہاںؐ کے تبرکات کی زیارت کرتے اور اس زیارت گاہ کی کھڑکیوں سے دوسری جانب مغرب (جسے رسول اکرمؐ نے اہلِ روم کہا ہے) کا نظارہ کرتے ہوئے میرے ذہن سے اس شہر کے بارے میں رسول اکرمؐ کی وہ احادیث بار بار ٹکراتیں جو آپؐ نے اس شہر کے آخرالزمان کے بارے میں فرمائی ہیں، اور میں سوچ میں پڑ جاتا کہ دورِ فتن کی جو ترتیب اور ملحم الکبریٰ کا جو نقشہ مخبرِ صادق ؐ نے بتایا ہے، اُس کے مطابق تو یہ شہر اب اس اُمت کے پاس کچھ دیر کا مہمان ہے۔
قسطنطنیہ یعنی استنبول، جس کی پہلی فتح کی بشارتیں یوں ہیں: ’’میری اُمت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر چڑھائی کرے گا ان کو بخش دیا جائے گا‘‘ (بخاری)۔ عبداللہ ابن عمرؓ نے اللہ کے رسولؐ سے پوچھا کہ قسطنطنیہ اور روما میں کون سا شہر پہلے فتح ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا ’’ہرقل کا علاقہ قسطنطنیہ پہلے فتح ہوگا‘‘ (مسند احمد، مسندرک حاکم)۔ یہ فتح سلطان محمد فاتح کی فتح کی صورت میں مسلمانوں کی قسمت میں آچکی ہے، لیکن احادیث تو قسطنطنیہ کی ایک بار پھر فتح کی بشارت دیتی ہیں۔ فرمایا ’’ترک دو مرتبہ خروج کریں گے، اور جب وہ دوسری مرتبہ خروج کریں گے تو اپنے گھوڑے دریائے فرات پر باندھیں گے، اس کے بعد ترک نہیں رہیں گے‘‘ (کتاب الفتن)۔ دوسری دفعہ قسطنطنیہ کی فتح کی ترتیب رسول اکرمؐ نے انتہائی وضاحت سے بتائی۔ حضرت معاذؓ بن جبل کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بیت المقدس کی آبادی، مدینہ کی بربادی۔ مدینہ کی بربادی ہوئی تو جنگِ عظیم شروع ہوجائے گی، یہ معرکہ شروع ہوا تو پھر قسطنطنیہ فتح ہوجائے گا، اور جب قسطنطنیہ فتح ہوگا تو دجال کا خروج ہوگا۔‘‘ پھر آپ ؐ نے اپنا ہاتھ حضرت معاذؓ بن جبل کی ران پر مارا اور فرمایا ’’یہ ایسے ہی یقینی ہے جیسے تمہارا یہاں ہونا یا بیٹھنا یقینی ہے۔‘‘ (سنن ابی دائود)
مرکز ِدل و نگاہ مدینہ کی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے میرے آقاؐ نے بہت دل گیر نقشہ کھینچا ہے: ’’مدینہ کو عمدہ حالت میں چھوڑ دیا جائے گا، حتیٰ کہ نوبت یہ ہوجائے گی کہ کتا یا بھیڑیا مسجد میں داخل ہوگا اور کسی ستون یا منبر پر پیشاب کرے گا۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کی ’’اللہ کے رسولؐ یہ فرمایئے اس زمانے میں مدینے کے پھل کس کام آئیں گے؟‘‘ فرمایا ’’پرندے اور درندے ان پھلوں کو کھائیں گے‘‘ (مؤطاء، امام مالک، صحیح ابن حبان)۔ رسول اکرمؐکی اس پیش گوئی کے عین مطابق بیت المقدس کی آبادی کا آغاز اسرائیل کا اسے دارالحکومت بنانے کے اعلان اور امریکا کی حمایت سے ہوچکا، اور اب قسطنطنیہ کے عوام نے سیکولرازم اور لادینیت کے حق میں فیصلہ دے کر اس شہر کے اگلے مرحلے کا آغاز کردیا ہے۔ یاد رکھیں ہم اس دور میں زندہ ہیں جب حق و باطل کا آخری معرکہ برپا ہونے کو ہے، یہ معرکہ کن منزلوں سے گزرے گا؟ سرکارِ دوعالم ؐ نے اس بارے میں کیا پیش گوئی کی؟ آج کے دور میں یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
قسطنطنیہ یعنی آج کے استنبول پر آزاد خیال، سیکولر اور لبرل میئر کی جیت کا جشن جہاں اس شہر کی سڑکوں پر شیمپین کی بوتلیں کھولنے اور رقص و سرود سے ہورہا تھا، وہیں دوسری جانب پورے اسرائیل میں اس فتح کی خوشی دیدنی تھی۔ دنیا بھر میں 57 سے زیادہ اسلامی ممالک میں زیادہ تر سیکولر اور لبرل حکمران مسلط ہیں اور وہاں روزانہ ہر بڑے شہر میں ایسے ہی میئر منتخب ہوتے ہیں، لیکن استنبول میں طیب اردوان کے نرم خو ’’جمہوری اسلام‘‘ کے ہارنے کی بھی یہودیوں کو مسرت تھی۔ خوابِ غفلت میں سوئے ہوئے مسلمانوں کے لیے یہ ایک معمول کا واقعہ ہوگا، لیکن وہ صہیونی جو 1896ء سے صہیونی پروٹوکولز کی تحریر سے لے کر اب تک اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک پل بھی آرام سے نہیں بیٹھے، ان کے لیے یہ امید کی ایک کرن ہے۔ 1916ء میں برطانیہ کے بالفور ڈیکلیریشن میں اسرائیل کو یہودیوں کا وطن منوانے کے بعد 1920ء میں انہوں نے یروشلم کی طرف ہجرت کا آغاز کیا۔ 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام تک اور اس کے بعد بھی آج تک وہ تمام یہودی جو یورپ اور امریکا میں اپنی پُرآسائش رہائش گاہیں چھوڑ کر حیفہ اور تل ابیب جیسے صحرائی ویرانوں میں دشمنوں کے درمیان آکر آباد ہوئے ہیں، وہ سب اپنی مذہبی کتابوں میں دی گئی پیشگوئیوں کی صداقت پر ایمان رکھتے تھے۔ یہ یہودی اسی یقین کی بنیاد پر اپنی پُرتعیش زندگی اور عیش و عشرت کا ماحول چھوڑ کر آئے تھے کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ ایک دن آلِ یعقوب یروشلم کے اجڑے ہوئے تختِ دائودی سے پوری دنیا پر حکومت کرے گی اور اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہوں گے۔
یہودیوں کو یہ بشارت اُس دور میں ملی تھی جب بابل کا حکمران بخت نصر انہیں غلام بناکر اپنے ملک لے گیا تھا۔ وہاں ان کے پیغمبر لیسعیاہ (Isaiah) نے آٹھویں صدی قبل مسیح انہیں یہ خبر دی تھی کہ ایک دن تمہیں اس غلامی سے نجات مل جائے گی اور تمہارے درمیان ایک مسیحا ایسا آئے گا جو حضرت دائودؑ اور سلیمانؑ کے تخت سے ایک عالمی حکومت قائم کرے گا۔ یہودی اپنے ہر آنے والے دن کی منصوبہ بندی، اپنے حالاتِ حاضرہ کا تجزیہ اور دنیا میں اپنے کردار کا تعین صرف اور صرف آج کے دور کے بارے میں اپنی کتابوں میں موجود پیشگوئیوں کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ استنبول کی سیکولر فتح سے صرف ایک ماہ پہلے اسرائیل نے اپنا ستّرہواں یوم تخلیق منایا۔ اس دن انہوں نے غلامی سے آزادی (Redemption) کے سلسلے کا دوسرا سکہ جاری کیا۔ پہلا سکہ 67 عیسوی میں جاری کیا گیا تھا جو دراصل رومیوں کے خلاف یہودیوں کی بغاوت کا اعلان تھا۔ ایک ہزار نو سو باون (1952) سال بعد ’’صہیون میں ہیکل‘‘ (Temple in Zion) جیسے اسرائیلی ادارے نے غلامی سے آزادی کا دوسرا سکہ جاری کیا ہے۔ پہلا سکہ بھی چاندی کا تھا اور یہ بھی چاندی کا ہے۔ اس پر لاگت پچاس ڈالر آئی ہے، لیکن یہ 170 ڈالر میں فروخت کیا جارہا ہے تاکہ جنگ کا سامان اکٹھا ہو۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس سکے کا نام سائرس ٹرمپ (Cyrus-Trump) سکہ رکھا گیا ہے اور اس پر امریکی صدر ٹرمپ اور ایرانی بادشاہ سائرس کی تصویریں ہیں۔
سائرس وہ ایرانی بادشاہ تھا جس نے یہودیوں کو بابل کی حکومت کی غلامی سے نجات دلائی تھی اور یروشلم میں دوبارہ آباد کیا تھا۔ سکے پر ایران کی وہ قدیم مہر موجود ہے جس میں ایک شیر ہاتھ میں تلوار پکڑے ہوئے ہے اور اس کے ساتھ سکے پر امریکا کا عقاب والا قومی نشان بھی موجود ہے۔ سکے کے نشانات بتاتے ہیں کہ دو ہزار سالہ یہودی تاریخ میں دو اہم واقعات ہیں اور دو ہی اہم مدد گار شخصیات، ایک ایرانی بادشاہ سائرس اور دوسرا ڈونلڈ ٹرمپ، ایک نے انہیں یروشلم واپس لاکر بٹھایا اور دوسرے نے یروشلم کو ان کا دارالحکومت تسلیم کیا۔ یہودی اپنے پیغمبروں کی بتائی گئی خوشخبریوں اور تنبیہوں پر اپنی داخلی اور خارجی پالیسیاں بناتے ہیں، لیکن یہ مسلمان امت اپنے مخبر صادق سید الانبیاءؐ کی آخر الزماں کی ترتیبِ زمانی کو فراموش کیے ہوئے ہے۔ ایسی ترتیب جو یروشلم کی آبادی سے مدینہ کی ویرانی، اور پھر دوبارہ قسطنطنیہ کی فتح کو بیان کرتی ہے۔ یروشلم کی آبادی کا آغاز ہوچکا ہے۔ جیسے ہی یہ شہر اس دنیا کا مرکزی مقام (Center stage) بنے گا، مدینہ کے باسی اسے چھوڑ جائیں گے، یہاں تک کہ امام مہدیؑ کے بارے میں جو روایت ملتی ہے وہ یہ ہے ’’ایک خلیفہ کی موت کے وقت لوگوں میں اختلاف ہوگا۔ اس دوران ایک آدمی مدینہ سے نکل کر مکے کی طرف بھاگے گا۔ پھر اس کے پاس اہلِ مکہ میں سے لوگ آئیں گے اور اسے خلافت کے لیے نکالیں گے، لیکن وہ اسے ناپسند کرتے ہوں گے، مگر لوگ ان کے ہاتھ پر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کرلیں گے (مسلم)۔ یعنی مدینہ سیدنا امام مہدیؑ کے لیے بھی جائے پناہ نہیں رہے گا۔ اس بیعت کے بعد اس جنگ کا آغاز ہوجائے گا جیسے ملحمۃ الکبریٰ کہا جاتا ہے۔ اس بڑی جنگ یعنی ملحمۃ الکبریٰ کا جو نقشہ اور ترتیب احادیث کی کتب میں میرے آقاؐ کی زبانِ مبارک سے بیان ہوئی ہے اس کا آخری بڑا معرکہ ترکی اور شام کے سرحدی علاقوں کا وہ میدان ہوگا جہاں دو شہر اعماق اور دابق واقع ہیں۔
شام کے شہروں ادلب سے لے کرکوبانی تک، اور ترکی کے شہروں ریحان علی سے لے کر عرفہ تک، یہ وہ علاقہ ہے جہاں اس وقت شام کے مہاجرین بھی آباد ہیں اور جنگ بھی جاری ہے۔ انہی شہروں کے درمیان دریائے فرات بہتا ہے جو رسول اکرم ؐ کے بقول ترکوں کی دوسری جنگ کا ٹھکانہ ہوگا۔ احادیث کے مطابق جنگ کا آغاز عراق میں فرات کے کنارے سونے کا پہاڑ نکلنے سے ہوگا، مصر خراب ہوگا اور پھر فرمایا ’’جب اہلِ شام میں خرابی پیدا ہوگئی تو تم میں کوئی خیر و بھلائی نہ ہوگی‘‘ (ترمذی)۔ یہ تمام پیشگوئیاں تو دنیا پر روزِ روشن کی طرح واضح ہوچکی ہیں اور وہ منکرین، جو ان احادیث کو من گھڑت کہا کرتے تھے، ان کے منہ پر طمانچے کی صورت ثبت ہیں۔ مصر، فلسطین، شام، عراق، یمن، حجاز اور ترکی کا جنوبی حصہ… وہ خطے ہیں جو اس بڑی جنگ کا میدان ہیں اور اس وقت یہ تمام علاقے اس عالمی جنگ کا میدان بن چکے ہیں۔ لیکن یہ بڑی جنگ سیدنا امام مہدیؑ کے ظہور کے بعد برپا ہوگی، جس کا آخری معرکہ آج کے اس شام اور ترکی کے سرحدی علاقے میں لڑا جائے گا۔ اس کی تفصیل یوں ہے ’’اہلِ روم اعماق یا دابق کے مقام پر پہنچ جائیں گے، ان کی طرف ایک لشکر مدینہ سے پیش قدمی کرے گا جو اس زمانے کے بہترین لوگ ہوں گے۔ رومی کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائو، جو ہمارے لوگ تم قید کرکے لائے ہو ہم انہی سے جنگ کریں گے۔ جس پر مسلمان کہیں گے کہ ہم ہرگز تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔ مسلمان ان سے جنگ کریں گے۔ ایک تہائی بھاگ جائیں گے جن کی توبہ اللہ قبول نہیں کرے گا، ایک تہائی شہید ہوں گے اور ایک تہائی فتح یاب۔ اس کے بعد یہ لوگ قسطنطنیہ فتح کریں گے (مسلم)۔ اس جنگ کے بارے میں اہلِ روم (مغرب) کی تیاری کا عالم دیکھیں ’’پھر رومی اپنے بادشاہ سے کہیں گے کہ ہم اہلِ عرب کے لیے آپ کی جانب سے کافی ہیں، وہ جنگ عظیم کے لیے اکٹھے ہوں گے اور اسی جھنڈوں کے تحت آئیں گے، اور ہر جھنڈے کے تحت بارہ ہزار سپاہی ہوں گے‘‘ (مستدرک حاکم، ابن حبان)۔ یعنی اس جنگ میں مغرب یا اہلِ روم کے نو لاکھ ساٹھ ہزار سپاہی شریک ہوں گے۔ یہ جدید دور کی جنگوں کی شاید سب سے بڑی اور کئی گنا زیادہ تعداد ہوگی۔ کالموں میں بار بار اس دورِ فتن کا تذکرہ کرنا اور ہر نئے واقعے کو سید الانبیاءؐ کی بتائی گئی ترتیبِ زمانی اور پیش گوئی کے مطابق دیکھنے، جانچنے اور بیان کرنے کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے جو خود رسول اکرمؐ نے فرمایا۔ حذیفہ بن یمانؓ نے فرمایا: لوگ رسول اللہؐ سے خیر کے بارے میں سوال کرتے اور میں شر کے بارے میں پوچھتا، اس خوف سے کہ کہیں شر مجھے پکڑ نہ لے‘‘ (بخاری، مسلم)۔ انہی حذیفہ بن یمانؓ سے روایت ہے ’’یہ فتنے ایسے لمبے ہوجائیں گے جیسے گائے کی زبان لمبی ہوتی ہے۔ ان فتنوں میں اکثر لوگ تباہ ہوجائیں گے۔ البتہ وہ رہیں گے جو پہلے سے ان فتنوں کو پہچانتے ہوں گے‘‘ (کتاب الفتن)۔ استنبول پر سیکولر لبرل طبقے کی فتح ایک علامت ہے، یہ وارننگ ہے، ایک انتباہ ہے۔ فتنوں کے اس دور میں جو ایسی تنبیہوں اور وارننگوں کو پسِ پشت ڈالے گا جن کی اطلاع سید الانبیاءؐ نے دی تھی تو تباہی اس کے گھر کو خود ڈھونڈ نکالے گی۔

حصہ