ہم کیا کریں گے؟۔

439

صہیب جمال
دو سال میں چھہ نئے ٹائرز بدل چکا ہوں، عجیب تماشہ ہے ٹائر گھستے نہیں ہیں کٹ جاتے ہیں، کراچی میں چند مین روڈز کے علاوہ ایک اندرونی اور بیرونی سڑک نہیں جہاں آدھے کلومیٹر کے بعد گڑھا نہ آتا ہو، جہاں کچرا نہ پڑا ہو ، جہاں گٹر نہ اُبلتا ہو ، کئی مقامات تو ایسے ہیں کہ جہاں گٹر برسوں سے بہہ رہا ہے اب ہم اس کے عادی ہوچکے ہیں ہمیں پتا ہوتا ہے کہ یہاں گاڑی موٹر سائیکل ہلکی کرلینی ہے ، یہاں پیدل چلتے ہوئے پائنچے اُٹھا لینے ہیں ، کراچی شہر میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں عرصہ دس سال سے پانی ہی نہیں آیا وہاں لوگوں نے اپنے گھروں میں بورنگ کی ہوئی ہے اس وجہ سے اب کراچی میں سطح زمین سے ڈھائی سو اور تین سو فٹ نیچے جا چکا ہے۔
شہر کو سڑکوں کی تعمیر اور سائن بورڈ پر اشتہارات صاف نظر آنے کے نام پر دس سال پہلے ہی گنجا کر دیا گیا ، ضلع وسطی ، شمالی ، جنوبی کی سڑکوں کو سبزے سے خالی کردیا گیا تھا۔
کراچی کے مضافات میں ہاؤسنگ پروجیکٹس تو بن رہے ہیں مگر جنگلات نہیں اُگائے جا رہے ، کراچی کے تفریحی ساحل پر مینگروز کے جنگلات کاٹ کر ہاکس بے ہاؤسنگ سکیم بنائی گئی اور قبضہ مافیا نے جنگلات کاٹ کر بھرائی کرکے پلاٹ کاٹ لیے۔
کراچی کے بیسیوں زائد پارکس اور کھیل کے میدانوں پر قبضہ کرکے گھر تعمیر کر دیے گئے صرف ہمارے علاقے میں سات کے قریب بڑے بڑے پارکس پر پندرہ سال پہلے قبضہ کرکے عوام سے یہ سہولت بھی چھین لی گئی۔
آج سے چالیس سال پہلے نارتھ ناظم آباد اور اورنگی کی پہاڑیوں پر دوسرے شہروں سے آئے لوگوں کو بسایا گیا جنھوں نے پہاڑ کے دونوں طرف قبضہ کرکے اس قدرتی حسن کو ماند کردیا کراچی کے مضافات میں صرف قبضہ گروپ ہی پائے جاتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں شہر کے اطراف و مضافات میں جنگل اُگائے جاتے تھے۔
کراچی میں پرائمری و سیکنڈری اسکولز کتوں کے میٹرنٹی ہوم بن چکے ہیں ایک پی ٹی ٹیچر کی تنخواہ وہاں چالیس سے پچاس ہزار ہے عمارت کی مینٹینس کے کروڑوں روپے ہڑپ کرلیے جاتے ہیں سندھ گورنمنٹ اور کے ایم سی کے تحت چلنے والے اسکولز کروڑوں روپے ماہانہ کھا جاتے ہیں۔
ہسپتال چاہے وفاق کے تحت ہوں یا سندھ حکومت کے تحت انسان وہاں ایڑھی رگڑ رگڑ کر مر جاتا ہے، سہولیات ضائع کی جاچکی ہیں ، جدید ترین مشینریز کوتاہی کا شکار ہوکر برباد ہوچکی ہیں ڈسپینسریز کی دواؤں کا بجٹ ہضم کرلیا جاتا ہے۔
کے الیکٹرک کا تو اللہ ہی حافظ ہے جب چاہتے ہیں جس کو چاہتے ہیں چور کہہ کر لاکھ پچاس ہزار کا بل پکڑا دیتے ہیں ، پچھلے دنوں پانچ منٹ کی بارش ہوئی اور ایک گھنٹے کے لیے بیشتر شہر میں لائٹ چلی گئی ، کراچی میں کئی علاقوں میں کے الیکٹرک کے عملے اور افسران کی ملی بھگت سے بجلی چوری کی جاتی ہے وہاں سے ان کا ماہانہ بھتہ بندھا ہوا ہے۔
شہر میں مہنگائی میں جہاں حکومت کا کردار ہے وہاں ریٹیلر اپنی مرضی سے بھی من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں ، کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے حکومت جی ایس ٹی اور اس جیسے ان ڈائریکٹ ٹیکس کے لیے تو بے چین رہتی ہے مگر زائد قیمتوں پر کنٹرول کے لیے کچھ نہیں کرتی۔
کراچی کی تباہی میں پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم اور اب پی ٹی آئی بھی شامل ہے ، ہمارے علاقے کے ڈسٹرکٹ چیئرمین ، مقامی چییرمین کے ساتھ ساتھ قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران بھی اتحادی ہونے کے باوجود تلاش گمشدہ کی فہرست میں ہیں۔
ہم بہت جلد ایک وفد تشکیل دے کر جس میں علاقے کے پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی و عام شہری ان کو ان کی ذمہ داریوں کی یاد دلائیں گے ، اتفاق سے ممبر قومی اسمبلی نجیب ہارون صاحب تو ڈیفنس میں رہتے ہیں ان سے ملنا تو مشکل ہے ، عمران علی شاہ سے تو ملاقات ہو جائے گی اے او کلینک میں ان کو جا لیں گے۔
30 جون کو ’’کراچی کو عزت دو‘‘ مارچ میں بھرپور شرکت بھی کریں گے۔

حصہ