صلہ

688

جاوید بسام
ایک دفعہ، ایک آدمی جنگل سے گزر رہا تھا کہ راستہ بھٹک گیا۔ وہ پریشان چلا جارہا تھا۔ اسے ہر درخت ہر جھاڑی اور ہر راستہ ایک جیسا لگ رہا تھا۔ وہ بہت دیر تک بھٹکتا رہا، مگر راستہ نہ ملا، آخر تھک کر ایک ٹیلے پر بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی۔
ایک لومڑی خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ جھجکتے ہوئے قریب چلی آئی اور بولی۔’’کیوں پریشان ہو؟‘‘
آدمی نے کہا۔ ’’بی لومڑی! میں راستہ بھول گیا ہوں۔ میری مدد کرو۔‘‘
لومڑی نے دم ہلائی اور اسے راستہ بتانے لگی۔ آدمی نے اٹھ کر شکریہ ادا کیا اور لومڑی کے بتائے ہوئے راستے پر چل دیا۔ کچھ دیر بعد اس نے دیکھا کہ وہ گھوم کر اسی جگہ پر آگیا ہے جہاں سے چلا تھا۔ وہ سر پکڑ کر ٹیلے پر بیٹھ گیا۔
کچھ دیر بعد لومڑی بھی وہاں آگئی اور بولی۔ ’’لگتا ہے راستہ نہیں ملا؟‘‘
’’ میں تمہارے بتائے ہوئے راستے پر چلا تھا مگر واپس یہاں پہنچ گیا۔‘‘ آدمی بولا
’’تم سے غلطی ہوئی ہے۔ اچھا ایسا کرو یہاں سے سیدھے جائو۔ دو کوس چل کر شمال کی طرف مڑ جانا۔‘‘
آدمی نے پھر ہمت کی اور اللہ کا نام لے کر چل دیا۔ اس نے ویسا ہی کیا جیسا لومڑی نے کہا تھا مگر اسے محسوس ہوا کہ وہ ٹھیک راستے پر نہیں جارہا۔ جب دیر تک راستہ نہ ملا تو وہ تھک کر ایک درخت سے ٹیک لگاکر سستانے لگا۔ اسے لومڑی پر غصہ آرہا تھا۔
سہ پہر ہوگئی تھی درختوں کے سائے لمبے ہورہے تھے۔ وہ پریشان تھا کہ کچھ دیر بعد جنگل میں اندھیرا ہوجائے گا۔ کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ اسے دور جھاڑیوں میں لومڑی کی موٹی بالوں بھری دم ہلتی نظر آئی۔ وہ اسی طرح زمین سونگھتی بھاگی چلی آرہی تھی۔ قریب آکر وہ اپنے پچھلے پیروں پر بیٹھ گئی اور سانس درست کرتے ہوئے بولی۔ ’’لگتا ہے تم پھر غلط سمت میں چلے گئے۔‘‘
آدمی بولا۔ ’’تم نے جیسا کہا تھا میں نے ویسا ہی کیا۔ مجھے لگتا ہے تم غلط راستہ بتا رہی ہو۔‘‘
لومڑی خاموش رہی۔
’’تم مجھے خود بھی تو جنگل کے کنارے لے جاکر چھوڑ سکتی ہو ؟‘‘ آدمی چونک کر بولا۔
’’ہاں میں ایسا کرسکتی ہوں۔‘‘ لومڑی نے کہا۔
’’بس تو مجھے جنگل سے باہر پہنچا دو، تمہارا احسان ہو گا‘‘ آدمی جلدی سے بولا۔
’’ لیکن اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟‘‘ لومڑی چالاکی سے بولی۔
آدمی سمجھ گیا لومڑی اپنی خدمت کا صلہ چاہتی ہے مگر اس کے پاس لومڑی کو دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔ وہ بولا۔ ’’اس وقت تو میں خالی ہاتھ ہوں کبھی موقع ملا تو تمہاری ضرور خدمت کروں گا۔‘‘
لومڑی اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’تم ایک صحت مند آدمی ہو اور میں بہت بھوکی ہوں۔‘‘
’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘ آدمی حیرت سے چلایا۔
’’میں بھوکی ہوں اگر تم اپنی پنڈلی کا گوشت کھلانے کا وعدہ کرو تو میں تمھیں جنگل سے باہر پہنچادوں گی۔‘‘
آدمی اس کی بات سن کر اچھل پڑا اور حیرت سے اسے تکنے لگا۔
لومڑی آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولی۔ ’’اگر تم راضی ہو توبولو ورنہ میں چلتی ہوں۔‘‘
’’چلو…. ٹھیک ہے میں تمھیں اپنی داہنی پنڈلی کا گوشت کھلائوں گا۔‘‘ آدمی نے کچھ سوچ کر کہا۔
لومڑی خوش ہوکر بولی۔ ’’بس ہم میں یہ طے پایا کی میں تمھیں جنگل سے باہر پہچائوں گی اور تم مجھے اپنی داہنی پنڈلی کا گوشت کھلائو گے۔‘‘
’’ ٹھیک ہے۔‘‘ آدمی نے کہا۔
’’ آئو… میرے پیچھے چلے آئو۔‘‘ لومڑی جلدی سے بولی۔
آدمی اس کے پیچھے چل دیا۔ وہ اپنی دم ہلاتی اور زمین سونگھتی دوڑی جا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ جنگل کے باہر جا پہنچے۔ آدمی نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
لومڑی بولی ’’اپنا وعدہ پورا کرو۔‘‘
آدمی ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گیا۔ اور کپڑا ہٹا کر ٹانگ آگے کردی۔ لومڑی کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھی اور اپنا منہ پنڈلی پر مارا، اچانک وہ چیخ مار کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس کے دانتوں میں درد ہونے لگا تھا۔
’’ یہ کیا ہے ؟ ‘‘ وہ مشکل سے بولی۔
’’ یہ میری پنڈلی ہے جس کو کھلانے کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا۔‘‘
’’ تم نے مجھے دھوکا دیا ہے۔‘‘ لومڑی کراہتے ہوئے بولی۔
’’ نہیں، میں اپنی بات پر قائم ہوں۔ تم دوبارہ کوشش کرسکتی ہو۔‘‘
لیکن لومڑی آگے نہیں بڑھی، دراصل آدمی کی ٹانگ مصنوعی تھی۔ وہ بولا۔ ’’بی لومڑی! نیکی کسی صلے میں نہیں کی جاتی۔ نیکی کا بدلہ اللہ ہی دیتا ہے ہوسکتا ہے تم جنگل میں جائو اور تمھیں شکار مل جائے۔‘‘ لومڑی سر جھکائی واپس پلٹ گئی اور آدمی، اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی راہ پر ہولیا۔

حصہ