روحانیت کا سفر

1816

اریبہ فاطمہ
’’روحانیت کی راہ پہ چلنا ہے تو دل سے کینہ، حسد، بغض، نفرت ،تکبر اور اٰنا کو نکالناپڑے گاکیونکہ عبادت کرنے سے پارسائی ملتے ہے اور نیکی کرنے سے رب ملتا ہے۔‘‘
روح ایک احساس کا نام ہے جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن چھوا نہیں جا سکتا ۔ روح کا رشتہ دو لوگوں سے استوار ہوتا ہے۔ ایک قدرت سے اور دوسرا انسان کے اپنے وجود سے۔ بہت سے لوگ اِس سفر میں نکلنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر وہ صرف خواہش ہی رکھتے ہیں ۔ کیونکہ اِس سفر میں جو دو رشتے ہوتے ہیں ،اُن میں سے ایک کو ہار کر دوسرے کو زندہ رکھنا ہوتا ہے ۔ جیسے اِس کائنات کو چلانے کے لئے ایک سوچ کی اور ایک ہی ذات کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اِسی طرح روح بھی ایک نظام ہے اور روحانیت کے اِس سفر میں آنے کے لیے ایک رشتے کو مار دینا ضروری امر ہے ۔ اگر وہ زندہ رہے گا تو روحانیت کا نظام تباہ ہو جائے گا ۔ وہ رشتہ ہے اپناآپ ۔اِس معاشرے کے پیچیدہ نظام میں ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ اپنا آپ کیا ہے؟
ہمیں دنیا کے ہر رشتے کو نیچا دکھانا ، ذلیل کرنا اور تعلق توڑنا آتا ہے لیکن اپنا آپ کیسے مارنا ہے؟ آج تک سمجھ ہی نہیں پائے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سمجھ ہی نہیں رہے کہ خدا کی عبادت سے بھی اگر ہمیں لطف اندوز ہونا ہے تو نفس کو مارنا ہو گا۔ سرزمینِ تونسہ میں اللہ کا ایک ولی تھا ۔ وہ کہتاتھا کہ ’’سب کو ’’میں ‘‘نے مارا ہے ‘‘ لوگوں نے سوال کیا ’’ یہ آپ کہہ رہے ہو ؟ ایسی بات پر آپ کو پھانسی ہو سکتی ہے۔ تو اُس نے جواب دیا کہ’’ یہاں ’’میں‘‘ سے مراد’’ میری ذات ‘‘نہیں بلکہ اٰنا ہے۔‘‘
دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ عبادت گزارتو ہیں لیکن نفس پر فتح حاصل نہ کرسکے۔ کبھی کبھار اگر دنیا اُن کی عبادت میں خلل ڈال دیتی یا کسی مشکل میں ہو اور اُن کو مدد کے لیے پکارے تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہو جاتے ہیں کہ ہماری عبادت میں رکاوٹ پیدا کر دی ۔ لیکن آج تک خدا کی عبادات کو تلاش کرنے پر میں اِس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ایک جگہ بیٹھ کر اُس کو عبادت گاہ بنا کرخود کو تنہا کر لینا یا خاموشی اختیار کر لینے سے روحانیت کا سفر طے نہیں ہوتا ۔ یہ سب تو اُس سفر کو زندگی بخشنے کی غذا ہے، اصل سفر تو قربانیاں ہیں ۔ ہر کام جو ہمارے لئے لطف اندوز ہو ،ہماری روح کی غذا ہو اور اگر مخلوق کے لیے اُن کی قربانی دینی پڑے ،کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنی پڑے تو خندہ پیشانی سے اپنا سب کچھ قربان کر دینا ،بغیر کسی عار کو محسوس کئے عبادت سمجھ کر اپنی جان مال پیش کر دینا ، یہ ہے اصل قربانی ۔
آپ کیا چاہتے ہیں ؟ آپ کدھر ہیں ؟ آپ کس حال میں ہیں ؟ یہ سب ضروری نہیں۔ ضروری تو یہ ہے کہ آپ سے کوئی تنگ تو نہیں ۔ اِس سفر میں چھوٹوں کو ایسی عزت دی جاتی ہے جیسے کبھی اساتذہ کو دیا کرتے تھے ۔ سوچیں بڑوں کے احترام کا مقام کیا ہو گا؟ اجنبی ہو یا رشتے دار، چھوٹاہو یا بڑا سب کو خوش کر لینا، اپنے ہاتھ اور زبان کے شر سے دوسروں کو محفوظ کر لینا ،اپنی زبان اور ہاتھ کے خلاف ڈھال بن جانا ، نفس کو اپنا غلام بنا لینا نہ کہ خود نفس کا غلام بن جانا ۔ کیا کھویا ہے؟ کیاپایا ہے؟ اس کو بھول جانا اور مخلوقِ خدا کے لئے اپنا دل کشادہ کر لینا ،یہی روحانیت کا پہلا مرحلہ ہے۔ جب ہم نیتاََ اورعملاََ رب کی رضا کے لیے اُ؎س کی مخلوق کو خوش کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔لوگوں کی طرف سے آنے والی تنقید اور برے القابات کو خندہ پیشانی سے مسکراہٹوں کے ساتھ برداشت کرتے ہیں ۔
اِس کے بعد دوسرا مرحلہ آتا ہے مالک سے ملاقات کا ۔ جب مالک ہمارے پہلے مرحلے کی کوشش کو دیکھتا ہے تو اپنے آپ سے ملاقات کے مواقع عطا کرتا ہے ؛پھر انسان ہجوم میں بھی اُس کو یاد کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور تنہائی میں بھی۔اپنی زندگی کا ہر کام اس کی خاطر کرتا ہے ۔ اُس کی رضا و خوشنودی پانے کے لئے وہ قربان ہونے کو تیار ہو جاتا ہے اور وہ موت سے بھی نہیں ڈرتا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ روحانیت کے پہلے درجے میں مخلوق کی محبت کیوں ضروری ہے؟ یہ اِس لئے کہ انسان خدا سے ملاقات کا دوسرا مرحلہ کبھی بھی صحیح طور پر انجام نہیں دے سکتا جب تک اُس کے دل میں پاکیزگی نہ ہو۔ اس کا دل دنیاوی سوچوں سے پاک نہ ہو ۔ اور آپ جانتے ہیں کہ دل کی گندگی کس چیز سے منسلک ہے؟ لوگوں کے متعلق برے خیالات کا جنم لینا ، اُن سے شکوہ شکایت رکھنا ، لوگوں کے ساتھ برا ہونے پر خوش ہونا ، اُن کی ضرورت کے وقت مدد سے انکارکرنا اور مختصراََ ہر منفی سوچ ہمارے دل کو گندگی سے لبریز کر دیتی ہے اور دل کی یہ نجاست خدا سے ملاقات کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے کیونکہ رب تعالیٰ سے ملاقات کے لئے قلب کی پاکیزگی ایک ضروری امر ہے ۔ کیونکہ’’ اللہ پاک ہے اور پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔ ‘‘
قارئین کرام !اگر ہم اپنی منفی سوچ کو ختم کر کے اسی سوچ کو فائدے کے لئے استعمال کر لیں ۔ معاف کرنے ، صلح رحمی کرنے ، مدد کرنے ، خوشی اور غمی میں لوگوں کا ساتھ دینے کے لئے استعمال کر لیں تو یہی سوچ ہمیں مالک کے ساتھ تعلق میں مضبوطی کی وجہ بنتی ہے۔میں اپنی زندگی کے اِس سال میں اِس نتیجے پر پہنچی ہوں، اگر کبھی بھی آپ کو لگے کہ ہمیں خدا کی طرف مڑ جانا چاہئے تو پہلا کام اپنی سوچ میں مضبوطی کرنا اور مخلوق سے کیسے محبت پیدا کی جا سکتی ہے ،اِس کو دیکھنا ہے۔ اپنی نگاہ کو اپنے کردار پر کھولنا ہے۔ جس دن آپ کی آنکھ دوسروں کی بجائے خود پر کھل گئی تو پھر وہ وقت دور نہیں ہو گا کہ آپ پہلے مرحلے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مالک آپ کی قابلیت کو دیکھ کر آپ کو دوسرا مرحلہ خود بطور ہدیہ عطا کرے گا ۔ خدا کے لئے اپنا آپ قربان کر دینا ۔ مخلوقِ خدا کے لئے ہر وقت تیار رہنا،یہی خدا کو پانے کا اہم مرحلہ ہے اور دوسرا مرحلہ عبادت، یعنی پہلے مرحلے میں ہم اپنی (نفس کی)کی غلامی سے آزاد ہوکر دوسرے مرحلے میں خداکی غلامی میں آ جاتے ہیںاقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

یہ معاملے ہیں نازک جو تِری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی

حصہ