رب کا دربار!!۔

479

ہادیہ امین
میں اپنی بالکونی میں کھڑاچائے پی رہا تھا۔ موسم سہانا تھا۔ سڑکوں پہ ٹریفک رواں دواں تھا۔ اتنے میں طاہر اپنے گھر سے نکلا۔ گیٹ سے قریب چھوٹے کمرے کا دروازہ زور سے کھولا۔ یکدم ہی ساری بتیاں جلا دیں۔ شاید بہت ہی غصے میں تھا۔۔
“ابا! آپ پھر سو گئے۔ بچے لیٹ ہو جاتے ہیں اسکول سے۔۔ منع کیا ہے مت سویا کریں”
طاہر کی آواز تیز تھی سو مجھے آگئی۔ ماجد بھائی بس طاہر کو دیکھ رہے تھے۔ بولے کچھ نہیں۔ ان کے بولنے کی آواز تو پہلے بھی نہیں آتی تھی مگر آج وہ واقعی کچھ نہ بولے تھے۔ طاہر جا چکا تھا۔ ماجد بھائی آنکھیں صاف کر رہے تھے اور کچھ دیر بعد پوتا پوتی چھوڑنے جا رہے تھے۔ لفظی ہیر پھیر کے ساتھ روزانہ کی طاہر کی ڈانٹ ماجد بھائی کا روز کا معمول تھا۔۔۔
بے شک تربیت اولاد کے معاملے میں لوگ بے بس ہوتے ہیں۔ اولاد کی اچھی تربیت محض اللہ کا انعام ہوتی ہے۔۔۔
مگر جب ہم چھوٹے تھے تو بڑے یہ بھی کہا کرتے تھے کہ آج جو سلوک اپنی اولاد کو کرنا سکھائو گے، کل۔ کو وہی سلوک اولاد تمہارے ساتھ کرے گی۔ اپنی کی ہوئی تربیت اپنے ہی آگے آتی ہے۔ مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے، سارا محلہ طاہر کی بدتمیزیوں سے پریشان رہتا تھا، لوگوں کی چیزوں کو نقصان پہنچانا، بچوں کی آپس میں لڑائی کرانا اور بہت سی خراب عادتیں طاہر کے لئے عام سی بات تھی۔۔ جیسے آج ماجد بھائی اٹھے ہیں، بالکل اسی طرح ابا ایک دفعہ ہڑبڑا کر اٹھے تھے جب طاہر زور زور سے گھنٹی بجا کر بھاگا تھا۔ ابا نے ماجد بھائی سے کہا سو وہ سن کر مسکرائے جیسے بیٹے کی شرارت سے خوب لطف اٹھایا ہو، پھر کہنے لگے،”جی شیطان ہو گیا بہت!!”
“اپنی اولاد کو شیطان نہیں کہنا چاہیے۔۔ بس آپ اسکو سمجھا دیجئے گا”
ماجد بھائی پھر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔۔ آج جو الفاظ وہ ماجد بھائی کو کہا کرتا تھا، وہ کچھ مختلف نہ تھے۔ وہ وہی الفاظ تھے جو وہ ماجد بھائی کے سامنے ان لوگوں کو کہا کرتا جو اس پہ روک ٹوک کرتے تھے یا جن سے خود ماجد بھائی کہ کچھ نوک جھونک تھی۔۔ عمر کے ساتھ ساتھ طاہر کی شرارتیں بد تمیزیوں اور تخریب کاریوں میں تبدیل ہوتی گئیں اور سب تنگ ہونے کے باوجود کچھ نہ کر سکتے تھے۔۔
لوگ کہتے ہیں ماجد اپنے والد کو پسند نہیں کرتا تھا۔ لوگوں سے ان کی شکایت کرتا، ان پابندیوں کے رونے روتا جو خود اس کے بھلے کے لیے اس کے والد نے اس پر لگائیں تھیں۔ ہر وقت گھر کے لوگوں کی شکایتیں کرنے والے اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔ سب ماجد بھائی کی باتوں کو کہانیوں کی طرح سنتے اور گزر جاتے۔کسی کے مسائل سے کسی کو کیا غرض۔۔ مگر جو رویہ طاہر کا تھا، ماجد بھائی ویسا اپنے والد کے ساتھ کبھی نہیں کرسکتے تھے۔
مگر مجھے جو سبق ملا وہ یہی تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں دس دس دفعہ خوشخطی کرنے کے باوجود بھی یہ بات اب جاکر سمجھ آئی تھی کہ “جو بئوو گے، وہی کاٹو گے”۔۔
“پاپا! دادا کہہ رہے ہیں ان کے ساتھ واک پہ چلے چلیں”
میرے بیٹے نے آکر کہا۔۔
“اچھا بیٹا آیا”
“پاپا آپ کی چائے؟”
“کوئی بات نہیں بیٹا! ٹھنڈی پی لینگے۔۔ دادا کی بات ڈیلے تو نہیں کرسکتے نا۔۔ دادا تو دادا ہیں۔ میرے پاپا۔۔ جیسے میں آپ کا پاپا”۔۔۔
میں نے مسکراتے ہوئے بیٹے سے کہا۔۔مجھے بہت اچھا بیج بونا تھا تاکہ کل کو اچھی فصل کاٹ سکوں۔ تربیت اولاد دعائوں کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ سب کے بچوں کو نیک، فرمانبردار اور والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے آمین۔۔

حصہ