آگ

318

مہوش آزاد
’’اری تجھے پتا ہے کریمن کی بیٹی کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘
’’نہیں، مجھے تو نہیں پتا، کیا ہوا ہے؟‘‘
’’لو، پورے علاقے میں خبر آگ کی طرح پھیل گئی اور تُو ہے کہ کچھ پتا ہی نہیں!‘‘
’’اب بتا بھی دے، یا پہیلیاں ہی بجھواتی رہے گی!‘‘
’’پتا ہے وہ کل رات کام سے واپس نہیں آئی، جب ڈھونڈوائی ہوئی تو بے چاری نکڑ والے پارک سے ملی، تقریباً بے ہوشی کی حالت میں، خاصی زخمی تھی، کسی نے کچھ ایسا ویسا کردیا ہے اس کے ساتھ۔‘‘
’’نہیں… سچ بتا…!‘‘
’’لو مجھے کیا ضرورت پڑی ہے جھوٹ بولنے کی! پورے علاقے میں کریمن کی تھو تھو ہورہی ہے۔‘‘
’’اری تھو تھو کیوں ہورہی ہے؟‘‘
’’ارے پیسے کی ہوس جو تھی اُسے، اتنی سی عمر میں بیٹی کو کمانے پر جو لگا دیا تھا۔‘‘
’’ناں، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ شوہر کس قدر بیمار ہے اس کا، چارپائی سے لگا ہوا ہے۔ خود بھی سارا دن گھر گھر کام کرتی ہے… نہیں ہوتا ہوگا گزارا، جبھی تو…‘‘
’’اچھا بس بس، زیادہ طرف داری نہ کر ان لوگوں کی۔‘‘
’’ناں ناں، بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں ناں…‘‘
…٭…
’’ماما! یہ دیکھیں، بھائی کے کمرے سے ملا ہے‘‘۔ فری نے سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر ماں کو دکھاتے ہوئے کہا۔
’’صحیح کہہ رہی ہو، وہیں سے ملا ہے یا کوئی بدلہ لیا جارہا ہے بھائی سے…؟ بابا کا تو نہیں ہے؟‘‘
’’ماما میں کیوں کروں گی ایسا…! ہماری نوک جھونک اپنی جگہ، لیکن سچ یہ ہے کہ یہ بھائی کے کمرے سے ہی ملا ہے۔‘‘
’’تم اس کے کمرے میں کیا کررہی تھیں؟‘‘
’’وہ میری کتاب نہیں مل رہی تھی، سوچا شاید بھائی نے لی ہو۔‘‘
’’اچھا…اچھا بس کرو، مجھے تو جیسے پتا ہی نہیں ہے کہ تم ویسے ہی بھائی کی دشمن ہو، بس اس کی انکوائری میں لگی رہتی ہو۔‘‘
’’نہیں ماما! ایسا مت کہیں۔ بھائی ہیں میرے، مجھے بھی فکر ہے اُن کی۔‘‘
’’ہاں بالکل بھائی ہے تمہارا، اور فکر بھی صرف اس لیے ہوتی ہے کہ باپ سے چغلیاں لگاکر ان کی چہیتی بنی رہو۔ اور سنو خبردار جو ہر بات اپنے بابا کو بتائی۔ میں خود پوچھ لوں گی اسد سے۔‘‘
فری کو ماں کے اس رویّے پر بہت دکھ ہوتا تھا کہ بجائے اسد سے بازپرس کرنے کے وہ الٹا اسی کو لتاڑ دیتی تھیں۔ اگر وہ اسد پر ذرا سختی کرتیں تو حالات یکسر مختلف ہوتے۔
…٭…
’’اسد… اسد… کہاں ہو تم؟‘‘ صفدر صاحب گھر میں گھستے ہی بیٹے کو غصے سے پکارنے لگے۔
’’جی بابا!…‘‘ اسد حالات بھانپ کر فوراً ہی ایک آواز میں حاضر ہوگیا۔
’’تم نے نیا آئی فون لیا ہے؟‘‘
’’جی بابا! وہ میرا پرانا فون پرابلم کررہا تھا، اس لیے۔‘‘
’’تمہیں اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ باپ کو ہی بتادیتے، وہ تو کریڈٹ کارڈ کا بل آیا تو مجھے معلوم چلا۔ اور چلو لینا بھی تھا تو مناسب قیمت کا لے لیتے، اتنا مہنگا لینے کی کیا ضرورت تھی! پیسے درخت پر نہیں لگے ہوتے، محنت کرنی پڑتی ہے۔‘‘
’’بابا میرے سب دوستوں کے پاس اس سے بھی مہنگے فون ہیں، مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔‘‘
’’ایک تو تمہارے دوست… میں تنگ آگیا ہوں، نہ تم پڑھائی میں اچھے ہو، نہ میری کوئی مدد کرتے ہو… صرف دوست، دوست… اس کے علاوہ بھی کچھ ہے تمہاری زندگی میں…! اپنی بہن کو دیکھو، کتنی سمجھ دار ہے، صرف ایک سال چھوٹی ہے تم سے مگر ہر چیز میں تم سے آگے۔ کچھ شرم کرو۔‘‘
’’اب بس بھی کریں، بچے کی جان لیں گے کیا! کوئی بات نہیں اگر لے لیا، ہمارا سبھی کچھ اسی کا تو ہے‘‘۔ فرحت بیگم اب مزید برداشت نہ کرسکیں۔
’’تمہاری بے جا حمایت ہی کی وجہ سے یہ من مانیاں کرتا ہے، اگر یہی حالات رہے ناں تو ایک دن سر پکڑ کر روئو گی، کیوں کہ پوت کے پائوں پالنے میں نظر آجاتے ہیں… کچھ سمجھائو اسے، نہ کرو اس کی بے جا حمایت۔ میں کمرے میں جارہا ہوں، چائے بھجوائو میرے لیے۔‘‘ وہ شدید غصے میں اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’اسد بیٹا پلیز خیال کرو، دیکھو تمہاری وجہ سے مجھے بھی سننی پڑتی ہیں۔‘‘ فرحت بیگم بیٹے سے مخاطب ہوئیں۔
’’اچھا ناں ماما! اب پیچھا چھوڑ بھی دیں میرا… پہلے بابا نے لیکچر دیا، اب آپ… اچھا آج میں رات کو گھر نہیں آئوں گا، ہم سب دوست مل کر کمبائن اسٹڈی کریں گے۔‘‘
’’اسد پلیز آج نہیں، کسی اور دن سہی، بابا ناراض ہوں گے۔‘‘
’’فور گاڈ سیک ماما! بابا تب ناراض ہوں گے جب آپ انہیں بتائیں گی۔ پلیز میری پیاری ماما۔‘‘ اسد ماںکے گلے لگتے ہوئے بولا۔
’’اچھا اچھا… اب چھوڑو بھی مجھے، لیکن آئندہ تم سب کو بلا لینا، میں جانے نہیں دوں گی۔‘‘
’’او کے ماما…‘‘
…٭…
’’فرحت… فرحت! کہاں ہو تم…؟‘‘ صفدر صاحب خاصے بوکھلائے ہوئے تھے۔
’’جی جی…! یہاں ہوں میں، کیا ہوا، خیریت تو ہے…؟‘‘
’’نہیں خیریت نہیں ہے۔ امی کو ہارٹ اٹیک آیا ہے، ابھی حیدرآباد سے اطلاع آئی ہے، ہمیں فوراً پہنچنا ہوگا۔‘‘
’’اوہ! یہ تو واقعی بہت بری خبر ہے، آپ بتائیں کب نکلنا ہے؟‘‘
’’کب کیا، بس فوراً… تم بچوں کو بلائو، میں بس ایک دو ضروری ای میلز چیک کرلوں…‘‘
’’جی جی ٹھیک ہے…‘‘
’’اوہ خدایا…!‘‘ صفدر صاحب کے منہ سے اچانک نکلا۔ ’’میں اپنا لیپ ٹاپ تو آفس میں ہی بھول آیا ہوں، ایسا کرو فری کا لیپ ٹاپ مجھے لا دو۔‘‘
’’فری کا تو خراب ہے…‘‘
’’اوہو تو اسد ہی کا لادو، اب یہ مت کہہ دینا کہ وہ بھی خراب ہے۔‘‘
’’نہیں… نہیں… میں ابھی لائی۔‘‘
صفدر صاحب نے جونہی لیپ ٹاپ آن کیا، گویا اُن کے پائوں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی… حد سے زیادہ بے ہودہ وال پیپر نے ان کو خوش آمدید کہا۔ وہ جوں جوں چیک کرتے رہے اُن کا چہرہ غصے سے لال ہوتا گیا۔
اس قدر بے ہودہ مواد، اس قدر بے ہودہ ویب سائٹ جو کہ وہ شادی کے بیس سال بعد بھی دیکھنے کا تصور نہیں کرسکتے وہ ان کے صاحب زادے کی ہر وقت دسترس میں تھیں جن سے وہ جب چاہے محظوظ ہوسکتا تھا۔
’’I.T کا دور ہے… I.T کا دور ہے…‘‘ یہ جملہ ان کے ہر طرف گونجنے لگا۔
انہیں بہت افسوس ہورہا تھا، نہ جانے کہاں ان سے کوتاہی ہوئی تھی جو کہ یہ سب دیکھنا پڑرہا تھا۔ ان کا ذہن جیسے مائوف سا ہوگیا تھا کہ اسی اثنا میں اسد گھر میں داخل ہوا۔ جیسے ہی اس کی نظر باپ کے ہاتھ میں اپنے لیپ ٹاپ پر پڑی گویا اسے کرنٹ سا لگ گیا۔
’’یہ یہ… میں… میرا لیپ ٹاپ…‘‘ الفاظ اس کے حلق میں اٹک گئے۔
’’ہاں تیرا لیپ ٹاپ…‘‘ صفدر صاحب نے زہر بھرے لہجے میں کہا۔
’’فرحت فرحت…!‘‘
’’جی… جی…‘‘ فرحت بیگم فوراً حاضر ہوگئیں۔
’’اس سے کہو دفع ہوجائے یہاں سے، ابھی تو میں جارہا ہوں، آکر اس کی خبر لوں گا… ایسی اولاد سے تو بہتر تھا اللہ مجھے بیٹا ہی نہ دیتا۔‘‘
فرحت بیگم کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں بیٹے کو بتانے لگیں کہ وہ اور اس کے پاپا اور فری حیدرآباد جا رہے ہیں اور وہ اکیلا گھر پر ہی رہے گا۔ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اسد کی پھر کوئی حرکت صفدر صاحب کو گراں گزری ہے… مگر کیا؟ اس کا علم نہ ہوسکا۔
فرحت بیگم نے تمام ملازمین کی چھٹی کردی اور جلدی سے اپنا سامان لے کر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ فری ان کے ساتھ تھی۔
اسد لیپ ٹاپ لیے وہیں صوفے پر ڈھیر ہوگیا اور ہسٹری میں دیکھ کر اندازہ کرنے لگا کہ اس کا کون سا کارنامہ باپ کی نظر سے گزرا ہے۔ اچانک ڈور بیل بجی…
’’کون… کون ہے؟‘‘ جواب نہ آیا۔ اس نے جونہی دروازہ کھولا سامنے کمسن ملازمہ کھڑی تھی۔
’’وہ صاحب جی، میں اپنا شاپر یہیں بھول گئی تھی۔‘‘

حصہ