۔”ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا”۔

1250

اوریا مقبول جان
وہ سرزمین جہاں تاریخِ انسانی کے متکبر، جابر اور ظالم فراعینِ مصر کے روبرو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی آواز گونجی تھی، وہاں گزشتہ ایک سو سال سے ایک قافلۂ حق ہے جو شہادت کی مشعل کو اپنے خون سے روشن کیے ہوئے ہے۔ اخوان المسلمون کا قافلہ… جس نے ایک بار پھر محمد مرسی کے خون سے اس قندیل کی لو کو ضوفشانی بخشی۔ شہادتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جن پر آنسو بہاتے اور ان کی قربانیوں سے حوصلہ لیتے ہوئے زندگی کے پچاس سال بیت گئے۔
شاعری کی جس کتاب کو میں نے مدتوں اپنے دل کے بہت قریب پایا وہ نعیم صدیقی کی ’’پھر ایک کارواں لٹا‘‘ تھی، جو اخوان المسلمون کے شہیدوں کی یاد میں خونِ دل سے لکھی شاعری تھی۔ اس کتاب میں سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر جو نظم کہی گئی وہ آج تک یادوں کے دریچوں سے جھانکتی رہتی ہے:

میرے حضورؐ دیکھیے پھر آگیا مقامِ غم
بہ سایۂ صلیب پھر بھرے ہیں ہم نے جام غم
کنارِ نیل چھا گئی پھر ایک بار شام غم
پھر ایک حادثہ ہوا، پھر ایک کارواں لٹا
ہر اک صدی کے دشت میں ہمیشہ کارواں لٹا
بدستِ دشمناں نہیں بدستِ دوستاں لٹا

اخوان المسلمون کی شہادتوں پر لکھی گئی یہ نظم شہیدِ کربلا سیدنا امام حسینؓ کے فرزند سیدنا امام زین العابدین علی بن حسینؓ کی اس شاعری کی یاد دلاتی ہے جو انہوں نے سانحہ کربلا کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے لکھی تھی:
’’اے بادِ صبا، اگر تیرا گزر سرزمینِ حرم تک ہو تو میرا سلام اس روضہ کو پہنچانا جس میں نبیِ محترم تشریف فرما ہیں۔‘‘
نیل کے دریا نے بھی ابتدائے آفرینش سے حق و باطل کے لاتعداد معرکے دیکھے ہیں۔ زمین پر اکڑ کر چلنے والے فرعونوں کا کروفر اور بنی اسرائیل پر ادبار اور ظلم کی طویل رات، اسی سرزمین کا قصہ ہے۔ غلامی کی طویل تاریخ جس میں بنی اسرائیل کے بیٹے ذبح کردیے جاتے تھے اور بیٹیاں زندہ رکھی جاتیں۔ لیکن پھر اسی سرزمین نے ابوالہول اور اہرام مصر کے وارث رعمسیس کو سمندر کے شوریدہ پانی میں غرق ہوتے بھی دیکھا۔ وہ سرزمین جس کے حاکم مقوقس کے نام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مکتوب حضرت حاتبؓ بن ابی بلتعہ کے ہاتھ ارسال کیا۔ اس خط میں میرے آقاؐ نے فرمایا:’’اگر آپ نے اسلام قبول کرلیا تو اللہ آپ کو دہرا اجر عطا فرمائے گا‘‘۔ مقوقس بہت متاثر ہوا اور جوابی خط کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو کنیزیں حضرت ماریہؓ اور حضرت سیرینؓ روانہ کیں جو راستے میں حضرت حاتب کے اخلاق سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئیں۔ سیدہ ماریہ نے حرم نبویؐ میں داخل ہونے کا اعزاز پایا اور ان کے بطن سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے۔ آپؐ نے اسی مصر کے بارے میں فرمایا ’’جب تم ملک مصر فتح کرلو تو قطبی قوم کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔‘‘ (مسلم)
اسی مصر کے بارے میں فرمایا ’’مصر پر اہلِ روم (مغرب) کی طرف سے پابندیاں لگائی جائیں گی‘‘ (مسلم)۔پھر فرمایا ’’عرب اُس وقت تک خراب نہ ہوگا جب تک مصر خراب نہ ہوگا‘‘ (الفتن)۔ ایک اور جگہ فرمایا ’’سب سے پہلے فساد مصر اور عراق میں ہوگا۔‘‘ (کتاب الفتن)
یہ وہی سرزمین ہے جہاں سے امام بوصیری بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہوئے اور دربارِ رسولؐ میں بیٹھ کر مشہور قصیدہ تحریر کیا، جس کی پذیرائی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم رویا میں چادرِ مبارک عطا فرما کر کی، اور یہ رہتی دنیا تک ’’قصیدہ بردہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
سیدالانبیاء کی آخر زمانے سے متعلق احادیث کے مصداق جب اہلِِ روم نے مصر پر پابندیاں لگائیں، تو مارچ 1928ء میں ایک نئے قافلۂ حق کی بنیاد رکھنے کا اعزاز سید حسن البناء کو حاصل ہوا۔ وہ وقت جب قومی ریاستوں کے قیام سے دجالی نظام اپنی جڑیں پکڑ رہا تھا، حسن البناء کی اخوان المسلمون نے حق و صداقت کی مشعل اٹھائی۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد اِدھر جدید مغربی تہذیب کا طاغوت منظم ہوا اور اُدھر اخوان المسلمون کی دعوت مسلم دنیا میں پھیلنے لگی۔
1945ء میں مصر میں اخوان کے باضابطہ ارکان کی تعداد پانچ لاکھ تھی۔ اب برطانیہ کی ٹوڈی اور کاسہ لیس مصری حکومت نے اخوان پر کریک ڈائون شروع کیا۔ 8 دسمبر 1948ء کو ایک فوجی حکم سے اخوان پر پابندی لگائی گئی اور 12 فروری 1949ء کو حسن البنا کو شہید کردیا گیا۔ یہ شہادت خطے میں یہودی ریاست اسرائیل کے قیام سے صرف تین ماہ قبل ہوئی، اور پھر شہادتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس عظیم تحریک نے ایک عظیم المرتبت قائد، ایک سحرانگیز مفسرِ قرآن اور جدید مغربی تہذیب کے مقابل کھڑے ہونے والے مجاہد کو جنم دیا۔ سید محمد قطب، جن کی تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ آج کے جدید سیکولر، لبرل اور کمیونسٹ نظریات کا رد قرآن سے بیان کرتی ہے۔
کیرن آرمسٹرانگ کے مطابق 1951ء میں جب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریریں مصر میں شائع ہونا شروع ہوئیں تو انہوں نے اخوان المسلمون کی قیادت کو متاثر کیا۔ یہ قیادت محمد عبدہ اور سید قطب تھے، جنہوں نے جہاد کو جدید مغربی تہذیب کی ’’جاہلیت‘‘ سے جنگ کا نام دیا، یہ جاہلیت جو مسلم تہذیب پر حملہ آور تھی۔ سید قطب اور ان کے ساتھیوں پر جیل کی صعوبتیں، جو مغرب نواز حکومت نے شروع کی تھیں، جمال عبدالناصر کے روس نواز فوجی انقلاب کے بعد مزید بڑھ گئیں۔ خاتون مجاہدہ زینب الغزالی کی رودادِ قفس پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لیکن اب سید قطب کے نظریات نے اس بات کا اعلان کردیا تھا کہ سیکولر اور مذہبی لوگ ایک معاشرے میں امن سے نہیں رہ سکتے۔ وہ جدید سیکولر مغربی تہذیب کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
’’دورِ حاضر میں انسانیت ایک بہت بڑے چکلے میں جی رہی ہے۔ اس کا ثبوت اخبارات، فلموں، فیشن شوز، حسن کے مقابلوں، رقص گاہوں، میخانوں اور نشریاتی اسٹیشنوں پر صرف ایک نگاہ ڈال کر مل سکتا ہے۔ یا عریاں جسموں کی مجنونانہ نمائش، ہیجان انگیز جسمانی زاویوں کے مشاہدے، ادب و فنون اور ابلاغِ عامہ میں مریضانہ اشارے… سب سے بڑھ کر سود کا نظام، جس نے انسان میں دولت کی ہوس کو فزوں تر کردیا ہے۔‘‘
اس نظام کے مقابلے میں اخوان المسلمون کے دو نعرے تھے اللہ غایتنا (اللہ ہمارا مقصد)، اور والرسول زعیمنا (رسول ہمارا قائد)، یہ نعرے باطل اور طاغوت کے دل میں تیر بن کر اترتے تھے۔ جمال عبدالناصر کی سوشلسٹ فوجی حکومت نے سید قطب پر مقدمہ چلایا، فوجی عدالت میں بغاوت کا مقدمہ، طاغوت کے مقابلے میں شریعت کی سربلندی کا مقدمہ۔ 29 اگست 1966ء کو فجر کے وقت انہیں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔
نعیم صدیقی نے اسی شہادت کا نوحہ لکھتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا ذکر کیا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ الفاظ جو آپؐ نے ایک صحابیؓ کو قبر میں اتارنے والے اصحاب سے کہے ’’ادبا من اخاکما‘‘ (اپنے بھائی کا ادب کرو)۔ نعیم صدیقی نے سید قطب کی شہادت پر اس حدیث کے حوالے سے لکھا تھا ’’ادب سے اس نعش کو اتار دو، رسن کا حلقہ ادب سے کھولو۔‘‘
آج محمد مرسی اسی پرچم کو تھامے، اسی حق کے راستے کی مشعل اٹھائے شہیدوں کے قافلے میں شامل ہوچکا ہے، لیکن شاید کوئی نعیم صدیقی جیسا نوحہ نہ لکھ سکے۔ کیا مرسی ایک آمر تھا؟ نہیں، وہ 65 فیصد ووٹ لے کر آیا تھا۔ کیا وہ دہشت گرد تھا؟ نہیں، وہ تو ایک منتخب حکمران تھا۔ وہ جو 2000ء سے پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوتا چلا آرہا تھا، جس نے دنیا بھر میں پُرامن جدوجہد کے ذریعے انقلاب کی تاریخ التحریر اسکوائر کے مشہور دھرنے سے رقم کی تھی۔ لیکن جدید دنیا کے کسی جمہوری، سیکولر اور لبرل شخص یا جمہوریت کی ٹھیکیدار حکومت کو ہرگز قابلِ قبول نہ تھا۔ اس لیے کہ اس کی جمہوریت میں مصر کو جدید تہذیب کے بڑے چکلے کی صورت میں نہیں ڈھالا جاسکتا تھا۔
مرسی کا مصر اہرام، فرعون اور رعمسیس کا ترجمان نہیں بن سکتا تھا۔ اسی لیے مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کو بزور قوت ہٹا دیا گیا اور وہ بھی ایک سیکولر فوجی ڈکٹیٹر کے ذریعے۔ دنیا بھر کی جمہوریتیں اور مسلمان بادشاہتیں اس کے خلاف تھیں۔ لیکن اللہ کی قسم وہ کامیاب ہوگیا۔ یقینا اس پر سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وہ آخری الفاظ صادق آتے ہیں جو انہوں نے محراب مسجد میں ابن ملجم کی تلوار کا وار کھانے کے بعد کہے تھے: ’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔‘‘
اخوان‘ جن کا نعرہ ’’اللہ غایتنا‘‘ ہو اُن کے ہاں کامیابی کا معیار آخرت کی سرخروئی ہوتی ہے۔ دنیا کی کامیابی اللہ کے ہاں سرخروئی کی علامت نہیں۔ روزِ حشر اللہ کے حضور ہزاروں پیغمبر ایسے ہوں گے جن کے پیچھے ایک بھی امتی نہیں ہوگا۔ کیا وہ ناکام ہوگئے؟ نہیں، ان سے زیادہ کامیاب کون ہے! ۔

حصہ