پردیس میں عید

663

ایمن طارق
بچپن والی عید مناتے مناتے جب بڑے ہوئے تو عید کا مزا تب بھی کم نہیں تھا۔ امی نے بچپن سے عید پر تحفے دینے کی روایت ڈالی تھی کہ جو سرپرائز ہوتے۔ پھر ننھیال، ددھیال کی عیدی، مہمانوں کا عید کے تین تک آنا جانا، امی کے ہاتھ کے کچے قیمے کے کباب، خالہ کے ہاتھ کا سویوں کا زردہ، نانی کا شیر خرما، پھوپھو کا پلاؤ اور بہت کچھ جو زبان پر، ذہن پر، دل پر، دماغ پر اثرات چھوڑ گیا۔ عید صرف عید کا دن نہیں ہوتا تھا، بلکہ اس کے رنگ ماحول میں آخری عشرے سے ہی بکھرنے شروع ہوجاتے۔
پھر جب دور دیس میں آکر اپنے بچوں کی اماں بنے تو اب اردگرد عید کا ماحول نہیں تھا، اور ان رنگوں کو بکھیرنے اور عید کی خوشی کو اپنے بچوں کے بچپن کی خوب صورت یاد بنانے کے لیے ہمیں محنت کرنی تھی۔ اب ان کے ذہن صاف سلیٹ کی طرح ہیں جن میں کسی کلچر کے نقش واضح نہیں، اسی لیے پاکستانی یا برٹش فیسٹول کلچر سے جوڑنے کے بجائے اسلامی تہوار کے کلچر اور سنتوں سے جوڑنا زیادہ آسان لگتا ہے۔ یہ بھی ایک دل فریب دور ہے۔ مسلم معاشرے میں رہتے ہوئے ہم نے ہمیشہ عید کلچر دیکھا، اور اس سے الگ کسی دنیا کا سوچا ہی نہیں۔ پر اتنے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان رہتے ہوئے عید واقعی ایک بہت ہی خاص اور مذہبی تہوار لگتی ہے۔ یہاں کے باشندے پورے سال کرسمس اور ایسٹر کا انتظار کرتے ہیں کہ فیملی سے ملیں گے، اسپیشل فوڈز، کرسمس سیل، فن فیئرز اور بہت کچھ۔ ہمارے بچے بھی یہ سب دیکھتے ہیں لیکن خاموشی سے ان کے ذہن اس حقیقت کو قبول کرچکے ہیں کہ یہ ہمارے تہوار نہیں، اور انہی کے درمیان جب رمضان، عید اور بقرعید آتی ہے تو بہت فخر اور اعتماد سے اپنی سیلیبریشن کو شیئر کرتے ہیں۔
گھروں کو سجانے کی روایت ہے اور ہمارے بچے بھی عید کے دن رات کو خوب جوش و خروش سے گھر سجاتے ہیں، دوست احباب اور فیملی کے لیے عید کارڈز بنائے جاتے ہیں۔ غبارے، لائٹس، بینرز اور بہت کچھ۔
ہم نے بھی اپنے بچوں کو عیدی کے ساتھ سرپرائز تحفوں کی عادت ڈالی ہے۔ رات میں چھپا دیے جاتے ہیں اور صبح اُٹھ کر ڈھونڈیں۔ مہنگے کھلونوں اور گیمز کے بجائے مختلف دلچسپ ضروری چیزیں تحفے میں دی جاتی ہیں۔
عید کی صبح یہاں بہت عام ہے کہ بیشتر فیملیز عید کی نماز پڑھنے ساتھ آتی ہیں… یعنی اماں، ابا، بچے سب تیار ہوکر۔ اکثر مرد و خواتین جن کو عید کے دن جاب سے چھٹی نہیں بھی ملتی وہ نماز پڑھنے کے لیے بریک لے کر آتے ہیں، کیوں کہ عید کی نماز سب ہی کے لیے خاص ہے۔ عید کے لیے بہت جگہوں پر پبلک پارکس میں انتظام ہوتا ہے۔ عید کی نماز کے دوران مقامی نومسلم، افریقن، ترک ، ایشین، ملائشین ہر طرح کے مسلمان نظر آتے ہیں۔ مختلف کلچر، مختلف رنگ۔ سب سے گلے ملنا، ایک امت سے وابستہ ہونے کا احساس اچھا لگتا ہے۔
ہمارے علاقے میں مسلمان بڑی تعداد میں ہیں تو عید اتنی اجنبی نہیں لگتی۔ عید کے بعد پارکس میں لگے فن فیئر ماحول بناتے ہیں۔ مغربی ملک میں رہتے ہوئے ایک دن بھول ہی جاتے ہیں کہ ہم کہیں اور ہیں، اور تھوڑی وقت کے لیے پردیس اپنا اپنا اور اسلامی اسلامی لگتا ہے۔
اسکولوں میں بچوں کو ایک چھٹی عید کے دن مل جاتی ہے۔ اگر عید ویک کے درمیان ہے تو ایک دن بھرپور انداز میں منائی جاتی ہے اور اگلے دن دوبارہ وہی نارمل معمولاتِ زندگی، اور پھر ویک اینڈ پر ہو تو زیادہ دن سیلیبریشن جاری رہتی ہے۔
عموماً ہمارے ہاں سب مل کر بڑے کمیونٹی سینٹر میں عید گیدرنگ رکھ لیتے ہیں اور عید کو بھرپور انداز میں منایا جاتا ہے۔ گھروں میں open house رکھے جاتے ہیں، خصوصاً بچوں کو مہمانوں کو ویلکم کہنا اور عید کی روایات سکھانے کی کوشش رہتی ہے۔
عید کی اسپیشل بات یہ ہے کہ پڑوس میں رہنے والے غیر مسلم، کولیگز، اسکول ٹیچرز، اسٹاف کے ساتھ بھی عیدکی treats شیئر کی جاتی ہیں اور بچے بڑے شوق سے یہ کام کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اُن کی طرف سے بچوں سے سوال بھی ہوتے ہیں کہ آپ کی عید میں آپ کا کیا معمول ہے؟ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے انگریز پڑوسی نے ہمارے بچوں کو ایک دفعہ عیدی بھی دی تھی۔
اسکول میں بڑے اہتمام سے مسلمان بچے خوبصورت عید باسکٹ بناکر کلاس فیلوز سے شیئر کرتے ہیں اور دیگر فیسٹولز کی طرح عید assemblies بھی ہوتی ہیں۔
عید پر اپنا بچپن، اپنی گلیاں، پرانی یادیں تو آتی ہیں، مگر ہمارے بچوں کے لیے اُن کی یادیں اسی ملٹی کلچرل سوسائٹی میں رہتے ہوئے اپنے تہوار کی خوشی دوسروں سے شیئر کرنے کا نام ہے، اور اُن کی عید ہماری بچپن کی گزری ہوئی عیدوں سے مختلف ضرور ہے، پر ہے یہ بھی خوب صورت۔ اور ہمارے لیے عید ہمارے بچوں کے چہرے پر بکھری ہوئی خوشیوں کا نام ہے۔ اپنی سی کوششیں کرتے ہوئے بچوں کے دلوں میں اپنے تہواروں، ان سے وابستہ سنتوں، اذکار اور معمولات کو سکھانے کا یہ سفر جاری ہے، اور اللہ سبحانہٗ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ ہماری کوششیں ہماری آنے والی نسلوں میں دین سے وابستگی اور دین کی خوب صورتی کو محسوس کرنے اور تقویت دینے میں اضافے کا سبب بنیں گی، ان شااللہ۔

حصہ