زندگی کا چکر

304

فریحہ مبارک
انتظار گاہ میں بیٹھی خواتین میں سے کچھ نماز عشاء ادا کررہی تھیں، کچھ قرآن پاک کی تلاوت اور ذکروتسبیحات میں مشغول تھیں۔ رات کا پہلا پہر دبے پاؤں بیت رہا تھا، اور ہم سب جمائیاں لیتے ہوئے نیند سے سرخ ہوتی آنکھوں سے آرام دہ صوفوں پر نیم دراز ہونے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ سب کے مریض اندر وارڈز میں تھے اور وقتاً فوقتاً انھیں دیکھ کر آتے اور تھکے ماندے وجود کے ساتھ صوفوں پر ڈھیر ہوجاتے، ایسے میں ایک خاتون کو اچھوتا خیال سوجھا، اور انھوں نے خواتین کو اپنی زندگی کے یادگار واقعات سنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ سب نے اس دلچسپ خواہش پر خوشی کا اظہار کیا اور خواتین میں تازگی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ایک خاتون اپنی بہو کے ساتھ یہاں اٹینڈنٹ تھیں، انھوں نے اپنی روشن خیالی کے کئی واقعات سنائے جن میں بہو کے لیے روزمرہ زندگی میں کشادگی ہمارے لیے حیران کن تھی۔ کچھ مزید خواتین نے بھی اپنی زندگی پر کھلے دل سے روشنی ڈالی۔ یہاں بے جھجک زندگی کے ورق الٹے جارہے تھے،کیوں کہ ہم ایک دوسرے کو جانتے نہیں تھے، نہ ہی جاننے کا تجسس تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ ہم کچھ گھنٹوں کے ساتھی ہیں۔ اس دوران ایک 60/65 سالہ خاتون نے اپنی زندگی کی سب سے چونکا دینے والی سبق آموز کہانی سنائی۔ نہایت سلجھی ہوئی خاتون، جن سے مل کر اور اُن کی دل چسپ گفتگو سن کر سب خوش ہورہے تھے۔ انھوں نے تمہید باندھی کہ آپ میرے چند گھنٹوں کے ساتھی ہیں، اس لیے آج میں زندگی میں پہلی بار اپنی حقیقی زندگی کی داستان آپ کے سامنے پیش کررہی ہوں، صرف اس لیے کہ شاید کوئی میری زندگی کے فیصلوں سے سبق سیکھے۔ گویا اُن کی گفتگو کا عنوان تھا ’’لمحوں کی خطا، صدیوں کی سزا‘‘۔ آئیے اُن کی کہانی انہی کی زبانی سنتے ہیں:
’’قدآدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر میں اپنے سراپے کو سارا دن گھر کے کاموں کے دوران آتے جاتے نظر بھر کر دیکھتی اور پھر میری پوری توجہ اس تل پر مرکوز ہوجاتی جو مجھے اُس وقت کی مشہور اداکارہ زیبا سے مماثل کرتا تھا۔ ابھی میں خودستائشی کیفیات میں گم ہوتی کہ تخت پر بیٹھی دادی کی کراری آواز مجھے چونکا دیتی، اور میری خوش گمانی کو مزید تقویت مل جاتی۔ دادی کھلکھلاتی آواز میں میری تعریف کرتیں ’’جلیکھا، اے جلیکھا(زلیخا) تُو تو سچ مچ بالکل جیبا (زیبا) کے جیسی دکھتی اے، یقین کر لے تجھے تو محمد علی جیسا ہیرو ہی ملے گا، تیرے بالوں کا اسٹائل بھی بالکل جیبا جیسا ہے‘‘۔ اور نادان محبت میں ڈوبے دادی کے یہ جملے سن کر میں آئینے کے سامنے خود فراموشی کے عالم میں خود کو دیکھتی رہ جاتی۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب محمد علی اور زیبا کی فلمی جوڑی مقبول ترین اور لازم و ملزوم تھی۔ رفتہ رفتہ میرے دل میں یہ بات گھر کر گئی اور میں اپنے سپنوں کے شہزادے کے انتظار میں ایک ایک کرکے کئی مناسب رشتوں کو ٹھکرانے لگی۔ میرے خیال میں جیسے ہر رات کے بعد سحر ہوتی ہے، اسی طرح میری قسمت کا اجالا بھی اب طلوع ہونے والا تھا۔ ہوا یہ کہ بہت انتظار کے بعد ایک رشتہ آیا۔ مجھے مہمانوں کے سامنے چائے پیش کرنے بھیجا گیا، میں شرماتی لجاتی ٹرے میز پر رکھ کر صوفے پر بیٹھ گئی، پھر بے خیالی میں نظر اٹھاکر جو دیکھا تو مارے حیرت کے میں پتھر کا بت بن گئی۔ زبان گنگ ہوچکی تھی۔ سامنے ہو بہو محمد علی بیٹھا ہوا تھا۔ آنکھیں اور دل یہ سب ماننے سے انکاری تھے، کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، ادھر دادی خوشی سے نہال تھیں اور ان کے پیر زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔
ان کی تو پیشن گوئی پوری ہوگئی تھی، اس سے پہلے کہ گھر والے مزید چھان بین کی بات کرتے، میں نے فوراً ہاں کردی، اوپر سے دادی کا دباؤ گھر والوں پر فوری جواب دینے کا تھا۔ گھر والوں کو تو گویا اجازت کا پروانہ مل گیا، انہیں اور کیا چاہیے تھا! وہ تو میرے روز کے انکار سے عاجز آئے ہوئے تھے، اچھے بھلے برسر روزگار پچاسیوں رشتوں کو کالا، بدصورت اور کم شکل ہونے کا طعنہ دے کر ٹھکرانے والی نے آخر نکلتی ہوئی عمر میں ایک نظر میں ہاں کردی تھی، سو چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کر میں سسرال جا پہنچی۔ چند دن ماحول کو سمجھنے میں گزر گئے، جلد ہی مجھ پر پوری طرح یہ منکشف ہوگیا کہ میرے سکون کے دن گزر گئے ہیں، اب تو امتحان کی ایک دنیا میری منتظر ہے۔ پہلا انکشاف یہ کہ میرے سپنوں کے شہزادے محمد علی کے ہم شکل کام پر تو جاتے ہی نہیں تھے، اور صدر کی الیکٹرانک مارکیٹ میں جس بزنس کا بتایا تھا وہاں ایک زمانے میں ان کے ابا بیٹھتے تھے، کچھ سال قبل انھیں ڈاکوؤں نے دکان لوٹتے ہوئے گولی مار دی تھی جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ اب دکان چچا کے حوالے ہے اور میرے شوہر یعنی ان کے بھتیجے کو بس آمدنی کا کچھ منافع گھر بیٹھے مل جاتا ہے، کیوں کہ وہ دکان پر نہیں بیٹھ سکتے۔
وہ دکان پر کیوں نہیں بیٹھ سکتے تھے؟ اس بات کا اندازہ مجھے مزید دو چار دن میں ہی ہوگیا۔ شادی کے بعد پہلی بار مجھے باورچی خانے کا راستہ بتایا اور چائے بنانے کی فرمائش کی… میں جلدی سے مزیدار دَم والی چائے لائی اور اہتمام سے پیش کی۔ دولہا صاحب بڑے اطمینان سے کہنے لگے ’’چائے ابھی میز پر رکھ دو، پہلے میں کھانا کھاؤں گا‘‘۔ میں چائے میز پر رکھ کر کھانا میز پر چننے بلکہ سجانے لگی اور باقاعدہ کھانا تناول فرمانے کی دعوت دی۔ کہنے لگے ’’ارے نہیں، میں تو پہلے پان کھاؤں گا… فٹا فٹ پان بنا کر لاؤ‘‘۔ جیسے تیسے زندگی میں پہلی بار پان بنایا، تو کھاتے ہی تھوک دیا اور سخت سست ہونے کا طعنہ دیا، جو میں سہہ گئی۔ میں نے کھانے کا یاد دلایا، فرمانے لگے ’’کھانا بعد میں کھاؤں گا، پہلے چائے پیوں گا‘‘۔ میں ٹھنڈی ہوتی چائے کی طرف دوڑی جو اب تک ٹھنڈی ٹھار ہوچکی تھی۔ جلدی سے چائے گرم کرکے پیش کی تو حیرت سے کہنے لگے ’’یہ دوبارہ گرم کیوں کی ہے! اسے پھینک کر دوسری چائے بناکر لاؤ‘‘۔ میں دوسری چائے لائی تو کہنے لگے ’’یہ رکھ دو۔ پہلے ٹھنڈا پانی لاؤ‘‘۔ اسی ورزش میں صبح 11 سے دوپہر 2 بج گئے۔ میں بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوچکی تھی۔
دوسرے دن ہی احکامات مل گئے کہ دونوں کمروں میں جو تین مسہریاں ہیں ان پر سفید چادریں بچھانی ہیں۔ پھر یہ معمول بھی بن گیا کہ ہر دوسرے دن یہ چادریں پان کی پیک کی پھواروں سے داغدار ہوتیں، اور میرا کام کئی گنا بڑھ جاتا۔ دوبارہ چادریں دھوکر بچھاتی اور ٹھندی آہیں بھر کر کہتی جاتی ’’ہائے میرے مولا! زندگی کا یہ کیسا گول چکر ہے جو آج تیس سال بعد بھی جاری ہے‘‘۔ گھر اور باہر کے سارے کام میرے ذمے ہیں۔ میاں کا نفسیاتی علاج بھی کروایا لیکن وقتی فائدہ ہوا۔ تین بیٹیوں کو پڑھایا لکھایا، چھوٹی عمروں میں شادیاں بھی کردیں۔ لیکن اس ساری صورت حال پر میں خود کو ہی قصوروار ٹھیراتی ہوں۔ میکے والوں کو کبھی خود سے ایک لفظ نہیں کہا۔ البتہ وہ خود جب بھی ملنے آتے بہت کچھ جان جاتے۔ ایک دفعہ میرا بھائی آیا تو میاں غصے میں آپے سے باہر تھے۔ بھائی نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر چلنے پر اصرار کیا، لیکن میں نے ہاتھ چھڑا کر جانے سے صاف انکار کردیا، کہ یہ تو میرا اپنا فیصلہ تھا، اس لیے مجھے ہی اسے جھیلنا ہے۔ نہ جانے مجھے کس کی آہ لگی تھی۔ آج کل بیمار میاں کی خدمت کرتی ہوں لیکن حُسنِ سلوک اور قدر کے دو بول سے آج بھی محروم ہوں، میری نصیحت ہے کہ آئیڈیل کے پیچھے پاگل بن کر صحیح عمر میں آنے والے مناسب رشتوں کو ہرگز نہ ٹھکرائیں، ورنہ قدرت بھی اپنا حساب کتاب پورا رکھتی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر ان خاتون نے اپنے دل کی کتاب بند کی اور آنکھوں سے چھلکتے آنسوؤں کو بہنے کا راستہ دے دیا، کیوں کہ بقول اُن کے تیس سال میں پہلی بار انھوں نے چند گھنٹوں کے ساتھیوں کے سامنے دل ہتھیلی پر رکھ دیا تھا۔ ہم سب کی آنکھیں نم تھیں اور رُواں رُواں ان کے لیے دعاگو تھا۔ سب کی زبانوں پر اُن کی جی بھر کر تعریف تھی، زندگی کو بھرپور انداز میں نبھانے پر اُن کی ہمت افزائی تھی۔ وہ حیرت سے رو پڑیں کہ آج میری زمانے بھر کی ساری تھکن اتر گئی۔ وہ چند گھنٹے بیت گئے اور چند گھنٹوں کے ساتھی بھی خزاں کے پتوں کی طرح بکھر کر نہ جانے معاشرے میں کہاں گم ہوگئے۔ میں وہ طلسمی لمحات آج بھی یاد کرتی ہوں…جب کھونے اور پانے کی کہانیوں میں ہم نے بہت کچھ پایا تھا۔

حصہ