رہنما

429

سیدہ عنبرین عالم
شام کی ٹھنڈ بڑھ گئی تھی‘ ڈیزی نے کتاب بند کر دی‘ وہ جتنا جتنا اسلام کے متعلق کتابیں پڑھتا جا رہا تھا‘ اتنا ہی پریشان تھا ’’اتنے فرقے! اتنے اختلافات؟ کیا کروں؟‘‘ اس نے سوچا۔ ’’کل اسلاک سینٹر جاتا ہوں‘ وہاں سے صحیح رہنمائی ملے گی۔‘‘ آخر کار اس نے فیصلہ کیا اور پھر اطمینان سے باورچی خانے کی طرف اپنا کھانا بنانے کے لیے چل دیا۔
ڈیزی امریکا کے شہر کیلیفورنیا میں رہتا تھا‘ ماشاء اللہ خوش حال زندگی تھی‘ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا‘ تعلیم میں بھی بہت اچھا تھا‘ پھر ایک دن اس کی زندگی میں بھونچال آگیا ڈیزی کی والدہ نے نہ صرف اسلام قبول کر لیا بلکہ ڈیزی کے والد سے علیحدگی بھی اختیا رکرلی۔ انہوں نے بہت چھا کہ ڈیزی ان کی ساتھ چلے مگر ڈیزی اپنی والدہ کو ہی فیملی توڑنے کا ذمے دار سمجھا تھا اس لیے ناراض تھا۔ ڈیزی کی والدہ نے بہت چاہا کہ ان کا شوہر اور بیٹا بھی اسلام قبول کرلیں مگر جوزف جو ڈیزی کے والد تھے‘ ہرگز راضی نہ ہوئے بلکہ ہر قسم کے تعلق توڑ لیا اور آئندہ رابطہ کرنے سے بھی منع کردیا۔ اس دل شکن واقعے کے بعد جوزف صاحب جہاں اسلام اور مسلمانوں سے مزید خائف ہو گئے وہیں ڈیزی نے اپنی ماں کی کتابیں پڑھنا شروع کردیں اس کی ماں پہلی سے بھی اسے یہ کتابیں پڑھنے کہتی تھیں‘ خود بھی اسلام کے بارے میں بہت بتاتی تھیں‘ مگر ڈیزی نے کبھی توجہ نہ دی‘ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی ماں اسلام کی خاطر اسے چھوڑ جائے گی‘ وہ تو بس اسلام کو ماں کا شوق ہی سمجھتا رہا‘ اب وہ جاننا چاہتا تھا کہ سلام میں ایسا کیا ہے۔
اسلامک سینٹر کے امام صاحب: بیٹا! آپ نے پہلے اسلام کے متعلق کتابیں پڑھنا کیوں شروع کیں‘ آپ کو چاہیے تھا کہ پہلے قرآن پڑھتے جو کہ اسلام کی واحد الہامی کتاب ہے۔
ڈیزی: میں نے سنا تھا کہ قران خود پڑھو تو گمراہ ہونے کا ڈر ہوتا ہے‘ اس لیے کسی استاد سے پڑھنا بہتر ہے‘ استاد دستیاب نہیں تھا اس لیے جو کتابیں دستیاب تھیں وہی پڑھنے لگا۔
امام صاحب: (افسوس سے سر ہلاتے ہوئے) بیٹا! قرآن میں ایک سورۃ القمر ہے جس میں اللہ تعالیٰ بار بار بلاتے ہیں کہ کوئی ہے جو سوچے سمجھے‘ وہ یہ نہیں کہتے کہ صرف علما آکر پڑھ لیں‘ بلکہ وہ ہر بندے کو آواز دیتے ہیں کیوں کہ ہر انسان میرے رب کی مخلوق ہے‘ میرا رب چاہتا ہے کہ ہر انسان ہدایت حاصل کرے‘ قرآن میں صاف صاف لکھا ہے کہ اللہ رب العزت جسے ہدایت دینا چاہتا ہے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا‘ اور وہ جسے گمراہ کرنا چاہے‘ اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔
ڈیزی: بہتر! اب میں قرآن کا ترجمہ انگلش میں پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کروں گا‘ فی الحال آپ میرے بنیادی سوالات کا جواب دے دیں‘ بڑی مہربانی ہوگی۔
امام صاحب: بالکل بیٹا! ضرور آپ کی تسلی کی کوشش کروں گا‘ لیکن اسلام کو سمجھنا ہی مقصد ہونا چاہیے‘ کوئی منفی جذبات آپ کو نازیبا سوالات کرنے پر مجبور نہ کریں‘ آپ کا دل دُکھا ہوا ہے۔
ڈیزی: دل تو مکے کے لوگوں کے بھی دُکھے ہوئے تھے‘ بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا تھا‘ اولاد ماں باپ سے جدا ہوگئی تھی۔ اسلام ایسا ہی مذہب ہے۔
امام صاحب (مسکراتے ہوئے): بیٹا بلال حبشیؓ اور سلمان فارسیؓ کا نام سنا ہے؟ وہ غیر قوم کے لوگ تھے‘ مگر اسلام کی برکت عربوں کے بھائی بن گئے تھے‘ اسلام نے تو غیروں کو ایسے محبت کے رشتے میں باندھا کہ انصار مدینہ نے اپنی جائیدادیں تک مہاجرین سے بانٹ لیں‘ اس سے بڑھ کر محبت کہاں دیکھی ہے تم نے؟
ڈیزی: مگر اصل خون کے رشتے تو انہوں نے توڑ دیے تھے ناں؟
امام صاحب: میرے بیٹے‘ پیارے نبیؐ نے صلہ رحمی سے ہرگز منع نہیں کیا تھا‘ وہ اعتقادات کی اعتبار سے اللہ کے ناشکروں کے حامی نہیں تھے ‘ جو لوگ اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے رب کے احسان ناشناس تھے‘ وہ خون کے رشتوں کی کیا پاسداری کرتے‘ زیادہ تر مظالم مکے کے کافروں نے ہی مومنوں پر کیے تھے‘ جس کی وجہ سے مومنین کو ہجرت کرنی پڑی اور خون کے رشتے ٹوٹ گئے‘ اسلام تو صلہ رحمی کا سختی سے حکم دیتا ہے۔
ڈیزی (افسردگی سے): پھر میری مما مجھے چھوڑ کر کیوں گئیں؟
امام صاحب: بیٹا! ہر چیز کو مادّی نظر سے مت دکھو‘ روح زیادہ اہم ہے‘ جسمانی رشتے ہم اپنی مرضی سے منتخب نہیں کرسکتے‘ روحانی رشتے ہماری مرضی کے ہوتے ہیں‘ روشن روح کا روشن روح سے رشتہ ہوتا ہے‘ کئی دفعہ ہم اپنے رشتے داروں سے اپنے وہ راز نہیں کہہ سکتے جو اپنے دوستوں سے کہہ لیتے ہیں کیوں کہ دوست سے خون کا نہیں روح کا رشتہ ہوتا ہے۔ ابولہب سے میرے نبیؐ کا خون کا رشتہ تھا‘ مگر اس نے میرے نبی پر ہر ظلم کیا اور پیارے ابوبکرؓ غیر تھے‘ مگر انہوں نے ہر مشکل میں ساتھ نبھایا‘ اسی طرح مہاجرینِ مکہ کاانصارِ مدینہ سے روحانی رشتہ تھا‘ آپ کی والدہ بھی اپنے روحانی دوستوں کے پاس چلی گئیں اور آپ بھی جب اتنے ہی روشن روح کے مالک ہو جائو گے تو ان سے جا ملو گے۔
ڈیزی: درست! اللہ نظر ہی نہیں آتا‘ پھر ہم کیسے مان لیں کہ وہ وجود رکھتا ہے‘ پلیز یہ مت کہیے گا کہ میز ہی تو بڑھئی بھی ہوگا‘ گھر ہے تو مستر ہوگا‘ یہ باتیں لامتناہی ہیں‘ پھر اور سوال بھی ہوں گے۔
امام صاحب: نہیں اللہ رب العزت خالق ہے‘ مخلوق نہیں۔ اس کا کوئی بنانے والا نہیں‘ میں یہ بات ثابت کر سکتا ہوں‘ بیٹا! صفر سے پہلے کچھ نہیں آتا تم کتنی ہی کج بحثی کرو‘ کہیں تمہیں رکنا پڑے گا کہ کوئی تو ایسا ہے کہ جو سب کا رب ہے‘ جس نے سب کو بنایا ہے اور اسے کسی نے نہیں بنایا۔ اللہ آپ سے آپ ہے‘ ورنہ پھر ار بھی خدا ہوتے‘ کوئی ہوتا جو میرے رب کا مقابلہ کرتا‘ کوئی ہوتا جو میرے رب کے بنائے ہوئے نظام میں خلل ڈالتا۔ یہ سوال تم نے ہی نہیں پوچھا یہ ہر جاہل اور کافر پوچھتا ہے‘ اس لیے سورۃ احد اتاری گئی‘ اب وہ یا ہے‘ کیسا ہے‘ کیسے سب کچھ بنایا‘ یہ ہماری عقل سے ماورا ہے‘ مگر خدا ہے جس نے ہمیں اوقات میںرکھا ہوا ہے ورمنہ ہر انسان فرعون بننا چاہتا ہے۔
ڈیزی: کیا آپ اللہ کو سائنس کے ذریعے ثابت کر سکتے ہیں؟
امام صاحب: تم اپنی ماں سے محبت کرتے ہو نا؟ سائنس کے ذریعے ثابت کرو؟
ڈیزی: محبت کو کیسے سائنس کے ذریعے ثابت کیا جاسکتا ہے‘ یہ تو روح کی بات ہے‘ سائنس تو صرف مادی اشیاء سے کام کرتی ہے‘ نفرت‘ محبت‘ خوشی‘ غم یہ تو سب روحانی کیفیات ہیں۔
امام صاحب: شاباش! میرے رب کو بھی مادّی ذریعوں سے ثابت نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ میرے رب سے میرا تعلق روح کا ہے‘ کیا تم روح کو ثابت کرسکتے ہو‘ تمہارے سامنے ایک شخص لیٹا ہوا ہے‘ کوئی تبدیلی نہیں‘ بس اس میں سے روح نکل گئی تو اسے جنازہ کہتے ہو‘ اب سائنس کیوں نہیں بتاتی کہ روح کہاں سے آئی‘کہاں گئی‘ تمہارے سامنے سے نکل گئی اور تم روک نہیں سکے‘ روح تو اللہ کی ایک تخلیق ہے‘ تم اسے سائنس سے ثابت نہیں کرسکتے تو میرے رب کے آگے سائنس کی کیا اوقات۔
ڈیزی: میں آپ سے متفق ہوں‘ اگر ہمارے رب سے ہمارا تعلق روح کا ہے تو اسلام کے سارے احکام جسمانی زندگانی کے متعلق کیوں ہیں‘ مادی زندگی اور مادی اشیا کے متعلق احکامات پر عمل کرنے سے ہماری روح کیسے مضبوط اور روشن ہو سکتی ہے؟
امام صاحب: بہت اچھا سوال ہے‘ بیٹا! جب آپ کی والدہ آپ کو چھوڑ کر گئیں تو آپ کی کیفیت تھی؟
ڈیزی: یقین ہی نہیں آتا تھا‘ پہلی بار مما سے جدا ہوا تھا‘ تین دن تک تو کھانا بھی نہ کزایا جاتا تھا‘ ابھی تک نیند صحیح نہیں آتی‘ ایسا لگتا ہے ابھی کسی کمرے سے مما نکل کر آجائیںگی‘ بہت روتا تھا میں‘ ڈیڈی اور میں آپس میں بات تک نہیں کر پاتے تھے‘ پھر میں نے اسلامی کتابیں پڑھنی شروع کیں۔
امام صاحب: بیٹا! آپ نے بتایا کہ محبت روحانی کیفیت ہے‘ پھر آپ کی جسمانی زندگی پر اتنا اثر کیوں ہوا؟
ڈیزی: ظاہر ہے روح میرے جسم میں ہی تو ہے‘ دونوں پر ایک دوسرے کا اثر تو ہوگا۔
امام صاحب: اسلام کا بھی یہی نظریہ ہے‘ تمام احکامات جسمانی زندگانی پر نافذ کرنی سے روح کی آلودگی دور ہو جائے گی اور روح انتہائی شفاف حالت میں قیامت کے روز اللہ کے حضور پیش ہوگی۔
ڈیزی: ماشاء اللہ امام صاحب اب تک تو ساری باتیں مجھے سمجھ میں آگئی ہیں یہ بتایئے کہ اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کو ہی اپنا پیغمبر کیوں بنایا؟
امام صاحب: بیٹے جی! میرا رب جسے بھی منتخب کرتا‘ آپ یہی سوال کرتے‘ کسی کو تو پیغمبر بنائے گا‘ ہر انسان کا الگ الگ امتحان ہوتا ہے‘ میرے نبی محمدؐ کا امتحان پیغمبر ہونا تھا‘ ان کی اللہ نے اسی اعتبار سے روحانی تربیت کی‘ اور امتحان کے میدان میں لا اتارا۔ ماشاء اللہ وہ کامیاب ہوئے۔
ڈیزی: اچھا یہ بتایئے کہ آپ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ نے بچپن ہی سے اتنی سختیاں کیوں ڈالیں؟
امام صاحب: آپ اپنی مما کے جانے سے پہلے الامی کتب می طرف راغب کیوں نہیں ہوئے؟
ڈیزی: کبھی خیال ہی نہیں آیا‘ مما کہتی بھی تھیں‘ مگر میں بھاگ جاتا تھا۔
امام صاحب: بیٹا! سخت حالات سے انسان کا دل نرم ہو جاتا ہے اور رب کا نور نرم دلوں پر ہی اترتا ہے‘ آپ دیکھیے کہ انبیا اکثر تنہا پڑ جاتے ہیں‘ پھر وہ محاورہ صادق آتا ہے کہ جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا خدا ہوتا ہے‘ یعنی جب انسان سے کوئی محبت کرنے والا نہیں ہوتا تو وہ اپنے رب سے دل لگا لیتا ہے‘ انبیا کے لیے یہ کیفیت بہت اہم ہے کیوں کہ انبیا کو اللہ سے بے انتہا مضبوط رابطہ رکھنا ہوتا ہے تاکہ احکامات کی ترسیل جاری رہے۔
ڈیزی: یعنی اللہ کی طرف سے تکالیف کا آنا‘ اللہ کی ناراضی کی علامت نہیں ہے؟
امام صاحب: نہیں بیٹا یتیم ہونا تو بہت بڑی سعادت ہے‘ میرے نبیؐ یتیم تھے‘ حضرت عیسیٰؑ یتیم تھے‘ حضر ابراہیمؑ نے بھی باپ کی عداوت دیکھی‘ حضرت موسیٰؑ بغیر باپ کے فرعون کے ہاں سخت حالات میں پرورش پاتے رہے‘ حضرت یوسف علیہ السلام نے باپ سے دور بہت سختی کاٹی‘ رب کے پیاروں پر تو سختی ہی آتی ہے‘ فرعون‘ نمرود تو نعمتوں میں کھیلتے ہیں‘ تمہاری ماں کی دوری بھی تمہیں راہِ راست پر لانے کا سبب بنے گی انشاء اللہ۔
ڈیزی: صحابہ کرامؓ بھی کافی تکلیفیوں میں رہے‘ مگر ایمان پر ثابت قدم رہے۔
امام صاحب: بیٹا! ہم دنیا دار لوگوں کی نظر میں یہ تکلیفیں ہیں‘ درحقیقت تربیت ہے جو لوگ آرام دہ زندگی گزارتے ہیں‘ ان کا دماغ کام کر بند کر دیتا ہے کیوں کہ کوئی مشکل ہی نہیں پڑتی جس پر سوچ بچر کریں۔ دماغ کو کام کی عادت ہی نہیں رہتی جب کہ مشکلات میں رہنے والے لوگوں کو مسلسل دماغ چلانا پڑتا ہے تاکہ مشکلات کا حل تلاش کرسکیں‘ اس طرح ذہنی ورزش ان لوگوں کے دماغ کو ایسا پکا کر دیتی ہے کہ یہ لوگ جو کچھ سوچ سکتے ہیں وہ عام خوش حال انسان نہیں سوچ سوچ سکتا‘ یہی وہ حکمت ہے جس کے سببب اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو مشکلات میں رکھا‘ یہ سزا نہیں تھی تربیت تھی‘ انہی لوگوں نے آگے چل کر بڑی بڑی سلطنتیں فتح کیں۔
ڈیزی: جی بالکل! اور انہی فاتحین کی اگلی نسلیں جو سہولتوں میں پروان چڑھی تھیں‘ انتہائی نااہل ثابت ہوئیں‘ آہستہ آہستہ مسلم امت پر زوال کا سبب بنیں۔
امام صاحب: علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ امت کو طوفان سے آشنا کر دے کہ اس کہ لہروں میں اضطراب نہیں… آج جو سختی امت پر نمایاں ہے اس میں یہی کیفیت ہے‘ امت کو جھنجھوڑا جارہا ہے تاکہ خوابِ غفلت سے جاگ جائے‘ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اسلام خطرے میں ہے‘ اسلام تو میرے رب کا کلمہ ہے‘ اسلام کو شکست نہیں ہو سکتی‘ ان شاء اللہ جلد ہی ہمیں مہدیؑ کی صورت میں رہبر ملے گا اور اسلام دنیا پر نافذ ہو جائے گا‘ امت میں مایوسی پھیلانا شیطان صفت لوگوں کا کام ہے۔
ڈیزی: اگر میں اسلام قبول کروں تو کس فرقے کا انتخاب بہتر رہے گا؟
امام صاحب: آپ قرآن پڑھو اور اس کے احکامات پر عمل کرو‘ کسی فرقے میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں‘ احادیث کی بھی کتابیں موجود ہیں ہمارے سینٹر میں‘ نماز بھی آپ کو سینٹر میں سکھا دی جائے گی‘ کسی کی باتوں میں نہ آنا‘ اپنا رابطہ اللہ رب العزت سے رکھو‘ چاہو تو تمام فرقوں کی کتابیں پڑھو مگر صرف و قرآن و حدیث پر کاربند رہو۔
ڈیزی: موت کیاہے؟ اسلام کے نقطۂ نظر سے بتایئے؟
امام صاحب (مسکراتے ہوئے): موت میرے رب کی پناہ میں واپس جانے کا نام ہے‘ وہ مہربان اور شفیق رب جس نے مجھے پیدا کیا اور کیا تم اپنی ماں کے پاس واپس جانے سے ڈرتے ہو؟
ڈیزی: اتنی آسان بات نہیں ہے‘ میری ماں نے جہنم تیار کرکے نہیں رکھا ہے میرے لیے۔
امام صاحب: تو تم گندے بچے نہ بنو‘ نا فرمان اولاد کو تو ماں بھی بہت مارتی ہے اور اچھے بچے تو ماں کا کہنا مانتے ہیں کیوں کہ ماں بچوں کا بھلا چاہتی ہے‘ بلاوجہ تو تنگ نہیں کرتی۔ اسی طرح اللہ میاں کے سارے احکام ہمارے بھلے کے لیے ہیں‘ ہم نہ مانیں تو ہم خود ہی دنیا کو جہنم بنا لیتے ہیں۔ آج جو سیارہ زمین کی حالت ہے کیا یہ جہنم نہیں ہے اور اس کی یہ حالت کرنے والوں کو کیا زمین کا خلق جہنم نہیں بھیجے گا؟ تم اپنی ماں کے گھر پر بلڈوزر چلا دو گے تو وہ تمہیں پیار تو نہیں کرے گی‘ اپنی غلطی مانو‘ اپنے ہی بندوں کو جہنم میں پھینک کر میرے رب کا کیا فائدہ‘ ایسا ہی تھا تو وہ پے در پے پیغمبر کیوں اتارتا رہا؟
ڈیزی: درست فرمایا آپ نے‘ بہت بہت شکریہ۔

حصہ