دورۂ قرآن اور اپنا محاسبہ

653

افروز عنایت
گزشتہ چند برسوں سے ایک خوش آئند بات ہمارے چاروں طرف نظر آرہی ہے جس میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے، اور وہ ہے دینی محافل، دورۂ قرآن، رمضان المبارک میں تراویح کا سلسلہ اور درسِ قرآن کا انعقاد، جس کا سلسلہ نہ صرف مساجد و مدارس میں، بلکہ گھروں میں بھی نظر آرہا ہے، سبحان اللہ… یعنی قرآنی و دینی علم تک سب کی رسائی ممکن ہوگئی ہے، الحمدللہ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چاروں طرف خواتین اور مرد حضرات ان محافل میں شوق سے شرکت کرتے ہیں اور مستفید بھی ہوتے ہیں۔ یقینا ایک مسلمان کے لیے دین کا علم جاننا، پھر اس پر عمل کرنا اور آگے پہنچانا فرض ہے۔ میری ناقص رائے میں ناممکن ہے کہ کوئی بندہ ان محافل سے جڑا ہو اور اس میں تبدیلی رونما نہ ہوسکے۔ بے شک آہستہ آہستہ ہی سہی، لیکن تبدیلی رونما ہونا لازمی امر ہے۔ ان محافل میں صرف شوقیہ حاضری لگانا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ ماشاء اللہ خصوصی طور پر اِس رمضان المبارک میں جگہ جگہ دورۂ قرآن کا سلسلہ جاری تھا جس میں بڑی تعداد میں خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ بڑے منظم طریقے اور نظم و ضبط کے ساتھ ان محافل کا انعقاد کیا گیا، جو کہ ان محافل کے لیے بے حد ضروری امر ہے۔
خاموشی اور دلجمعی سے تفسیر قرآن کو سننا، ذہن نشین کرنا، اور جہاں بات سمجھ میں نہ آئے اساتذہ کرام سے پوچھنا بھی لازمی ہے، لیکن اس طرح کہ بدمزگی یا بدنظمی کی فضا پیدا نہ ہو۔ بعد میں آنے والے خاموشی سے جہاں جگہ نظر آئے، بیٹھ جائیں۔ دوسروں کو ہٹا کر، یا دوسروں کی جگہ پر دھکے دے کر یا گھس کر بیٹھنا آدابِ محفل کے خلاف ہے۔
الحمدللہ میری یہ خوش نصیبی ہے کہ میں ایک ایسی جگہ (سوسائٹی) پر مقیم ہوں جہاں اس قسم کی محافل کا انعقاد باقاعدگی سے ہوتا ہے، ماشاء اللہ یہاں خواتین بڑے ذوق و شوق سے نہ صرف آتی ہیں بلکہ لیکچر کو سننے اور سمجھنے میں دلچسپی بھی لیتی ہیں، جہاں انہیں سمجھنے میں دقت ہوتی ہے بڑے سلیقے سے اساتذہ کرام سے سوال و جواب کرتی ہیں۔ اساتذہ کنیز فاطمہ اور فرحت انہیں مطمئن کرنے کے لیے جوابات سے نوازتی ہیں۔ ان محافل میں شرکت کرنے والی خواتین میں آنے والی واضح تبدیلی کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں۔
…٭…
اِس مرتبہ بھی رمضان سے پندرہ دن قبل ہی دورۂ قرآن کا آغاز کیا گیا جو پندرہ رمضان المبارک تک جاری رہا۔ ہر مرتبہ پڑھنے اور سننے سے اس کلام الٰہی کی تجلیاں ہم پر آشکارا ہوتی ہیں۔ اپنا محاسبہ کرنے سے بہت سی غلطیاں ہم پر عیاں ہوتی ہیں، اور گاہے بہ گاہے ہم ان غلطیوں کی اصلاح کرتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایسی محفلوں سے ناتا جڑا رہنا چاہیے اور اچھے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا چاہیے۔
جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہر مرتبہ اپنا محاسبہ کرنے اور غور کرنے پر ایک روشن پہلو آشکار ہوتا ہے کہ کہاں ہماری ذات یا عمل میں مزید اصلاح کی ضرورت ہے۔ اِس مرتبہ دعائے قرآن کے بعد میں نے اس پہلو پر غور کیا کہ بار بار اللہ تبارک وتعالیٰ قرآنِ پاک میں اپنے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے روک رہا ہے، نماز کی پابندی اور پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ میں نے اپنا محاسبہ کیا کہ کیا میں اللہ کے ان احکامات کی مکمل پابندی کررہی ہوں؟ میرے آس پاس بہت سے لوگ شرکِ خفی میں مبتلا ہیں، جب کہ ہم سب کا ایمان ہے کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ بے شک مسلمان کا یہی ایمان ہے اور ہونا بھی چاہیے، لیکن اکثر کہیں نہ کہیں اللہ کے کچھ بندے شرکِ خفی میں مبتلا ہیں، مثلاً دکھاوے کی عبادت وغیرہ، یا کوئی بھی نیک عمل اپنے آپ کو معتبر اور مقبول کرنے کے لیے کیا جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہم سب کو اس برائی سے دور رکھے، ہر نیک کام صرف رب العظیم کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہونا چاہیے۔
…٭…
دوسرا حکم نماز کی ادائیگی کے بارے میں ہے، ایسی نماز جو سنتِ رسولؐ کے مطابق ہو، خشوع و خضوع کے ساتھ۔ ہم اکثر نماز میں کئی غلطیوں اور کوتاہیوں کے مرتکب ہوتے ہیں، ہمارا دھیان اِدھر اُدھر کے دس کاموں میں اٹکا ہوتا ہے، ہم سب کو محاسبہ کرنا چاہیے کہ آیا ہماری نماز رب العزت کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ رکھتی ہے؟ اگر کوئی غلطی یا کوتاہی سرزد ہورہی ہے تو اس کی اصلاح لازمی ہے، اور نماز کی پابندی اپنے اوپر لازم و ملزوم بنالیں۔ دنیا کے کام ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان کاموں کی وجہ سے نماز سے غفلت اللہ سے دور لے جاتی ہے۔
نماز قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے، اللہ سے اپنی بات کرنے کا ذریعہ ہے، یہی نماز ہمیں بے حیائی اور تمام برائیوں سے بچانے کا سبب ہے، جس کے لیے قبر میں سب سے پہلا سوال ہوگا۔ نہ صرف خود بلکہ اپنی اولاد کو بھی نماز کی پابندی کی تقلین کرنا فرض ہے۔
تیسرا حکم اللہ کی راہ خرچ کرنے سے متعلق ہے۔ قرآن پاک میں بار بار اس حکم کی تکرار مجھے جھنجھوڑ رہی تھی کہ صرف زکوٰۃ نہیں بلکہ خیرات، صدقات، ہدیات ہر صورت میں راہِ خدا میں خرچ کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ ہم مسلمانوں میں سے تو اکثر زکوٰۃ میں بھی کوتاہی برتتے ہیں جو کہ ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر فرض ہے۔ اس مال کا کچھ حصہ نکال کر دکھ ہوتا ہے کہ بس بہت دے دیا۔ حالانکہ مال کا یہ حصہ ان مساکین اور غربا کے لیے ہمارے پاس اللہ کی طرف سے امانت ہے، اسے حق داروں تک صحیح نصاب کے مطابق پہنچانا فرض ہے، اس میں کوتاہی برتنا خیانت کے مترادف ہے۔ بار بار قرآن میں یہ جملہ پڑھ کر کہ ’’مال خرچ کرو اللہ کی راہ میں‘‘ مَیں نے اپنے گھر والوں سے کہا: کہیں ہم سے کوتاہی تو نہیں ہورہی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں؟ پوری کوشش کرکے زکوٰۃ کا حساب صاف کیا تو آگے صدقات، خیرات اور ہدیات کے بارے میں حکم مجھے جھنجھوڑ رہا ہے کہ آیا ہم اللہ کے اس حکم پر پورے اتر رہے ہیں!
…٭…
سبحان اللہ، دینِ اسلام کے احکامات تو ایسے ہیں جن پر عمل کرکے کوئی دکھی اور کوئی بھوکا نہیں رہ سکتا، اور دینے والے کے رزق میں کمی بھی نہیں ہوتی، اور برکت، فراوانی، کشادگی، اور سب سے بڑی بات دل کا سکون میسر ہوتا ہے، یعنی کر بھلا دوسروںکا، ہو بھلا اپنا… اور آخرت کے اجر کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے، سبحان اللہ… صرف اس ایک نیکی کی بدولت بندہ اپنا دامن دنیوی اور اخروی خوشیوں سے بھر لیتا ہے۔
آپ اپنے کسی عزیز کو کوئی چھوٹا سا تحفہ دیں تو اُس کے دل میں آپ کے لیے محبت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہدیے دینا، کسی کی مہمان نوازی کرنا رشتوں میں ایک خوب صورت تعلق استوار کرتا ہے، اس لیے خوشیوں کے موقع پر عزیز و اقارب کو یاد رکھنا چاہیے۔
امہات المومنین اپنے گھر سے کسی کو خالی ہاتھ لوٹانا پسند نہیں فرماتی تھیں، جو کچھ مال حاضر ہوتا، پیش کردیتیں۔ یہی خوبی صحابیاتؓ کی بھی تھی۔ اسلام میں ایک دوسرے کو ہدیہ دینے اور کھانا کھلانے کی تلقین کی گئی ہے، اس فعل کو پسند فرمایا گیا۔ اسی طرح دینی مدارس اور مساجد میں ہدیات پیش کرنا صرف اس نیت سے کہ مجھے رب کی رضا حاصل ہوگی، ایک بہترین فعل ہے۔ یہ قرضِ حسنہ ہے جس کے بدل سے اللہ ہی بندے کو نوازتا ہے۔ لہٰذا اپنے ہاتھ کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ روکیں۔
اِس مرتبہ کے دورہ قرآن کی اس ہدایت کو نہ صرف میں نے اپنی گرہ میں باندھ لیا بلکہ اپنے بچوں کو بھی ایسی ہی تلقین کی، اس کا چند ہی دنوں میں خاطر خواہ نتیجہ سامنے آیا، جس کا میں یہاں ذکر مناسب نہیں سمجھتی۔
…٭…
درج بالا بحث کا مقصد یہ ہے کہ ان محافل سے جڑے رہنے سے انسان میں مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں، صرف غور وفکر کی ضرورت ہے، اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا اللہ کے احکامات پر ہم پوری طرح کاربند ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو آج ہی اپنی اصلاح کے لیے پہلا قدم اٹھائیں۔ یقینا یہ رب الکریم کا وعدہ ہے کہ وہ آپ کو تھام لیتا ہے، سبحان اللہ۔

حصہ