جمعیت الفلاح کے زیر اہتمام عید ملن مشاعرہ

283

ڈاکٹر نثار احمد نثار
۔13جون 2019ء بروز جمعرات بوقت 8 بجے شب جمعیت الفلاح بلڈنگ کراچی میں عید ملن مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت اعجاز رحمانی نے کی۔ پروفیسر عنایت علی خان مہمان خصوصی تھے۔ نظر فاطمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے انہوں نے بہت عمدہ نظامت کی اور اپنے خوب صورت اور دلچسپ جملوں سے محفل کو گرمائے رکھا۔ انہوں نے مشاعرے کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا اور تقدیم و تاخیر کے مسائل بھی پیدا نہیںہوئے۔ اس تقریب کے پہلے حصے میں اقبال یوسف نے تلاوتِ کلامِ مجید کے ساتھ ساتھ عیدالفطر‘ حج کی اہمیت اور قرآن فہمی پر سیر حاصل گفتگو کی انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک بہت برکتوں کا مہینہ ہے ہم اس ماہ میں روزے رکھتے ہیں اور اللہ کی خوشنودی کے لیے صبر و رضا کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے بعد عیدالفطر عطا کی ہے جو کہ خوشیوں کا تہوار ہے لیکن عیدالاضحی کی اہمیت و فضیلت اپنی جگہ ہے کہ یہ بڑی عید کہلاتی ہے۔ مسلمانوں کو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔ یہ عبادت مسلمانوں کے جذبۂ ایثار و قربانی سے مزین ہے اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو حج کی سعادت نصیب فرمائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری نجات واحد ذریعہ یہ ہے کہ ہم قرآن وسنت پر عمل کریں دورِ حاضر کا تقاضا ہے کہ تمام مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں تاکہ ان کے مسائل حل ہوں اور ترقی کی راہیں کھلیں۔ صاحبِ صدر مشاعرہ نے کہا کہ مشاعرہ ایک اہم ادارہ ہے یہ ہماری روایات کا علمبردار ہے۔ زبان و ادب کی ترویج و اشاعت مشاعروں سے مشروط ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں مشاعروں کا بہت رواج تھا لیکن بوجوہ یہ ادارہ کمزور ہوتا گیا خدا کا شکر ہے کہ کراچی میں امن وامان کی بحالی کے ساتھ ساتھ اب ادبی پروگرام تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں باالفاظ دیگر ادبی فضا سازگار ہوگئی ہے اس وقت بہت سی تنظیمیں ادب کی خدمت کر رہی ہیں لیکن جمعیت الفلاح ادب کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی سربلندی کے لیے بھی کوشاں ہے‘ میں ان کے اراکین و عہدیداران کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ پروفیسر عنایت علی خان ناسازیٔ طبع کے باوجود تشریف لائے اور اپنے اشعار سنا کر خوب داد وصول کی ان کے اشعار میں معاشرے کی فلاح و بہبود کا پیغام ملتا ہے وہ معاشرے کے سلگتے ہوئے موضوعات کو نظم کرتے ہیں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحتِ کاملہ عطا فرمائے اور ہم ان سے استفادہ کرتے رہیں۔ جمعیت الفلاح کے سیکرٹری قمر محمد خان نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا‘ ان کا کہنا تھا کہ 1954ء سے جمعیت الفلاح زبان و ادب کی ترقی میں مصروف ہے ہم جانتے ہیں کہ قلم کاروں نے معاشرے کے عروج و زوال میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج بھی ہمیں ان کی اشد ضرورت ہے۔ یہ طبقہ بہت حساس ہوتا ہے ییہ معاشرے کے روّیوں کو سامنے لاتا ہے اور ہمیں آئینہ دکھاتا ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں۔ جمعیت الفلاح کے صدر قیصر خان نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے‘ ہمارے مشاعروں میں سامعین کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے جو کہ ہر اچھے شعر پر داد دیتی ہے‘ ہم ہر طبقۂ فکر کے شاعر کو دعوتِ کلام دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ جب بھی جمعیت الفلاح کے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں تو حکیم مجاہد برکاتی اور مظفر ہاشمی کی کمی محسوس کرتے ہیں لیکن ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اس لیے ہم رضائے الٰہی پر صبر کر لیتے ہیں‘ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا‘ ہم ان کے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں امید ہے کہ ہم آپ لوگوں کے تعاون سے کامیابیاں حاصل کرتے رہیں گے۔ انہوں نے تمام سامعین و شعرائے کرام کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے اپنی گوناں گوں مصروفیت سے وقت نکال کر محفل میں شرکت کی اس موقع پر شکیل خان نے مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کی اور امت مسلمہ کے لیے دعائے خیر کی۔ محفل میں اکرم رازی نے نعت رسولؐ پیش کی جب کہ اعجاز رحمانی‘ پروفیسر عنایت علی خان‘ سید آصف رضا رضوی‘ فیاض علی خان‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد نثار‘ عبدالمجید محور‘ صاحبزادہ عتیق الرحمن‘ سہیل ہاشمی‘ وقار زیدی‘ شائق شہاب‘ فیض عالم بابر‘ احمد سعید خان‘ عاشق شوکی‘ فخر اللہ شاد‘ الحاج نجمی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ محمود احمد غازی‘ نظر فاطمی‘ چاند علی چاند اور عبدالوہاب سحر نے بہاریہ کلام پیش کیا۔ مشاعرے کے بعد سامعین و شعرا کے لیے عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر بزم شعر و سخن کے صدر طارق جمیل نے کہا کہ جمعیت الفلاح کی ہر تقریب بہت منظم اور پُروقار ہوتی ہے اس لیے لوگ یہاں آتے ہیں‘ آج بھی بہت عمدہ شاعری سامنے آئی ہے اللہ تعالیٰ جمعیت الفلاح کو شاد و آباد رکھے اور ادب کا کام جاری و ساری رہے۔

بزمِ نگارِ ادب کا مشاعرہ

گزشتہ دنوں بزم نگارِ ادب پاکستان کا ایک اہم اجلاس جمیل ادیب سید کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ادارے کی تشکیل نو کے حوالے سے کچھ فیصلے کیے گئے۔ بزم کے چیئرمین سخاوت علی نادر نے تمام ممبران کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے نصیرالدین نصیر کے استعفے سے خالی ہونے والی نشست پر واحد رازی کو بزم نگارِ ادب کا صدر نامزد کیا۔ چاند علی کو جوائنٹ سیکرٹری اور تاج علی رانا کو ریجنل سینئر نائب صدر منتخب کیا نیز بزمِ نگار ادب پاکستان کے زیر اہتمام واحد حسین رازی کی دولت کدے پر فیروز ناطق خسرو کی صدارت میں مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں سراج الدین سراج مہمان خصوصی تھے۔ تاج علی رانا نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلامِ مجید کی سعادت حافظ سخاوت حسین ناصری نے حاصل کی واحد رازی نے نعت رسول مقبولؐ پیش کی۔ اس موقع پر بزمِ نگار ادب کی جانب سے یہ اعلان جاری کیا گیا کہ یہ تنظیم ستمبر 2019ء میں ایک عالمی مشاعرے کا اہتمام کرے گی۔ مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظمِ مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں چاند علی‘ وسیم احسن‘ واحد رازی‘ عادل شاہ جہاں پوری‘ سخاوت علی نادر‘ جمیل ادیب سید‘ سخاوت حسین ناصر شامل تھے۔ مشاعرے کے اختتام پر واحد حسین رازی نے محفل موسیقی سجائی اور ہارمونیم کی دھن پر اساتذہ کا کلام سنایا۔ وسیم احسن اور عادل شاہ جہاں پوری نے بھی غزلیں سنا کر خوب داد حاصل کی۔ صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ بزمِ نگار ادب اردو زبان و ادب کے فروغ میں مصروف کار ہے ان کے ادبی پروگرام بہت اچھے جا رہے ہیں۔ انہوں نے قلم کاروں کے لیے اپنی آواز بلند کی ہے جو کہ خوش آئند اقدام ہے۔ سخاوت علی نادرنے کہا کہ ان کی تنظیم اپنی مدد آپ کے اصول پر کاربند ہے ہمارے منشور میں شامل ہے کہ ہم فنونِ لطیفہ کی تمام شاخوں کو ترقی دیں اسی لیے ہم کبھی کبھی محفل ِ موسیقی بھی سجاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اس کی ترقی کے لیے ہمیں آگے آنا ہوگا۔ عدالتی فیصلے کے باوجود اردو سرکاری زبان نہیں بن پا رہی‘ اس کی راہ میں بہت سی دشواریاں حائل ہیں ہماری کوشش ہے کہ ہم نفاذِ اردو کے لیے بھی تحریک چلائیں‘ ہم بہت جلد ایک عالمی اردو کانفرنس اور مشاعرہ ترتیب دینے جارہے ہیں‘ میں تمام قلم کاروں سے تعاون کی اپیل کرتا ہوں۔

اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام مذاکرہ و مشاعرہ

ادکامی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو ایک عرصے سے اپنے ادارے میں ادبی سرگرمیوں کا محور ہیں‘ ان کے پروگرام میں کراچی کے اہم شعرا کے علاوہ مبتدی شعرا بھی شریک ہوتے ہیں باالفاظ دیگر یہ ادارہ نئے شعرا کی حوصلہ افزائی بھی کر رہا ہے کہ انہیں ایک پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے۔ 12 جون بوقت 11 بجے دوپہر اس ادارے کے دفتر میں ’’عید ملن‘‘ مشاعرہ منعقد ہوا۔ رحمن خاور نے صدارت کی‘ سرور جاوید اور راقم الحروف ڈاکٹر نثار مہمان خصوصی تھے۔ پروین حیدر مہمان اعزازی تھیں‘ قادر بخش سومرو نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم قلم کاروں کے مسائل حل کریں اور علاقائی زبانوں کو بھی ترقی دیں جب کہ اردو ہماری قومی زبان ہے ہم اس کی ترویج و اشاعت میں بھی سرگرم عمل ہیں انہوں نے مزید کہا کہ شعرائے کرام وقت کی پابندی کریں بصورت دیگر تاخیر سے آنے والوں کو مشاعرے میں شریک نہیں کیا جائے گا۔ اس موقع پر انہوں نے تمام حاظرین کو عید مبارک پیش کی اور مرحوم قلم کاروں کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ مذاکرے کا موضوع تھا ’’اردو ادب و شاعری میں انشائیہ۔‘‘ اس موقع پر مہمان خصوصی سرور جاوید نے کہا کہ انشائیہ اس صنف کا نام ہے جس میں انشاء نگار‘ اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیا یا مظاہرِ قدرت کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طرح گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آکر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ کئی انشائیہ نگاروں نے داخل سے خارج کا سفر اپنی بہترین تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے موضوعات پر بھی انشائیہ تحریر کیے جو روز مرہ زندگی کے حوالے سے بہت اہم تھے۔ راقم الحروف نے کہا کہ اردو ادب میں جب نئے خیالات کی وجہ سے اصنافِ سخن میں ہیئت کی تبدیلیاں رونما ہوئیں تو انشائیہ جیسی صنفِ ادب کا آغاز ہو گیا ہر چند کہ خیال کی نزاکت‘ زبان کی سلامت اور احساس کی بلاغت انشایے نے شاعری سے حاصل کی اور ظاہری خدوخال‘ رنگ و ادب‘ معنی و آفرینی‘ جزیات نگاری اور کہانی کے انداز میں کہنے کا ڈھنگ فکشن سے لیا تاہم انشائیہ فکشن اور شاعری سے دور رہا کیوں کہ اس کا اپنا اسلوب بہت جاندار ہے۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ انشائیے کا کام یہ ہے کہ وہ سوچ کے لیے غذا فراہم کرے‘ مخفی مفہوم کو سامنے‘ آفرینی کے عمل کو تحریک دے۔ انشائیہ میں تخلیق کار کی سوچ ذاتی نوعیت کی ہوتی ہے اور بنیادی طور پر معنی آفرینی ہی اجاگر ہوتی ہے آج کے نئے دور کا انسان اپنے سے باہر ہی اپنے اندر ایک زندگی بسر کر رہا ہے اندر کے انسان کی زندگی بھی اس کے تحفظ کی ضامن ہے جو اس زندگی کا فلسفہ بیان کرتی ہے اور آگاہی کے چراغ روشن کرتی ہے اس لیے فکری زندگی کی توانائی اور بقا کے لیے انشائیہ بھی آج کے دور کی ضرورت ہے اس پروگرام کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس میں رحمان خاور‘ سرور جاید‘ پروین حیدر‘ ڈاکٹر نثار‘ عبدالمجید محور‘ نصیر سومرو‘ اصغر خان‘ عارف شیخ عارف‘ دلشاد احمد دہلوی‘ حمیدہ کشش‘ عشرت حبیب‘ ڈاکٹر رحیم ہمراز‘ عاشق شوکی‘ تنویر سخن‘ افضل ہزاروی‘ مہتاب شاہ جی‘ اقبال سہوانی‘ ہدایت سائر‘ شگفتہ شفیق‘ شازیہ طارق‘ ارجمند خواجہ‘ زینب النساء زیبی‘ شہناز رضوی‘ فرح دیبا‘ قادر بخش سومرو‘ فرح کلثوم اور صدیق راز ایڈووکیٹ نے اپنا کلام سنایا۔

غزل

اشرف طالب

ہوا کا دامن دریدہ ہے …قدم نظر کا خمیدہ ہے
مرا بتا اِس میں تذکرہ…جو لب پہ تیرے قصیدہ ہے
جدائی کا دکھ مجھے ملا … تو کس لیے آب دیدہ ہے
میرے لیے ایسا ویسا کچھ … تیرے لیے چیدہ چیدہ ہے
اْسے بھی الفت سے رام کر … اگر کوئی سر کشیدہ ہے
پرندے کرتے ہیں احتجاج … شجر جو اک سر بریدہ ہے
اْسی کے نقش ِ قدم پہ چل … جو آدمی بر گزیدہ ہے
وہ رہتا پھر بھی ہنسی خوشی … اگرچہ وہ غم رسیدہ ہے
نہ جانے کیا بات ہوگئی … وہ مجھ سے کیوں کر رمیدہ ہے
نجات کا سودا میرے دوست… یہیں سے میں نے خریدا ہے
جسے تو گاتا ہے بار بار … وہ نغمہ طالب شنیدہ ہے

حصہ