بے حسی تیرا ہی آسرا

625

زاہد عباس
ہماری زندگی میں کسی دن کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجاتا ہے جسے ہم مدتوں یاد رکھتے ہیں۔ اب کل ہی کی بات سن لیجیے، مجھے ایک ضروری کام کے سلسلے میں کورنگی کے مرکزی بازار جانا پڑ گیا۔ سڑک کنارے کھڑی کے الیکٹرک کی گاڑی دیکھ کر مجھ میں ایک اچھا شہری بننے کے جراثیم جاگ اٹھے۔ بس پھر کیا تھا، میں نے گاڑی میں سکون سے بیٹھے شخص کے پاس پہنچ کر کہا: ’’اگر بجلی چوری کی شکایت کرنی ہو تو کہاں کی جائے؟‘‘
وہ شخص بولا: ’’118پر‘‘۔
میں نے کہا: ’’اس نمبر پر تو کے الیکٹرک کے نمائندے سے بات نہیں ہو پاتی، متعدد مرتبہ کوشش کرچکا ہوں۔‘‘
اس نے جواب دیا:’’اپنی شکایت ویب سائٹ پر ڈال دو۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’شکایت ویب سائٹ پر ڈالنے سے بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی؟‘‘
وہ بولا :’’مجھے پتا نہیں۔‘‘
میں کہا: ’’پھر تو یہ اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہوگا۔‘‘
کہنے لگا :’’میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘
’’اچھا تو آپ کا کیا کام ہے؟ میرا مطلب ہے آپ کی کیا ذمہ داری ہے؟‘‘ میں نے ایک اور سوال کرڈالا
’’بجلی چوروں کو پکڑنا، اور بل جمع نہ کرانے والوں کو واجبات کی ادائیگی کا پابند کرنا۔‘‘
’’لو، بغل میں بچہ شہر میں ڈھنڈورا… پھر آپ ہی میرا مسئلہ حل کیوں نہیں کردیتے!‘‘ میں نے اپنی گزارشات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’کون سا مسئلہ؟‘‘ اُس نے بڑی حیرت سے پوچھا۔
’’وہی جو میں پہلے بتا چکا ہوں، بجلی چوروں کے خلاف کارروائی!‘‘
’’کون سے علاقے میں؟‘‘ وہ یک دم بولا۔
’’اسی سڑک پر تھوڑا آگے جاکر سیدھے ہاتھ کی جانب موڑ کے ساتھ والی آبادی میں کچھ گھر کنڈے پر چل رہے ہیں، ان ہی کے بارے میں عرض کررہا ہوں۔ میں چونکہ ہرماہ ایمان داری سے اپنے واجبات ادا کرتا ہوں، ایسی صورت میں انہیں پھوکٹ کی بجلی استعمال کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ان چوروں کے مقابلے میں ملک کے ادارے کا ساتھ دینا میرا فرض ہے، اور یہی میری حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے‘‘۔ یوں میں نے اپنی ساری بات کھول کر اُس کے سامنے رکھ دی۔ میری لمبی چوڑی تقریر پر اُس شخص نے اپنا چہرہ دوسری جانب گھماتے ہوئے فقط دو لفظوں میں ساری بات ہی سمیٹ دی ’’وہ میرا علاقہ نہیں۔‘‘
اُس کی جانب سے ادا کیے جانے والے اس جملے نے تو جیسے میرے دماغ کی بتی ہی گل کردی… اُس کی بات سنتے ہی میرا بلڈپریشر ہائی ہونے لگا، میں نے خود کو قابو میں رکھتے ہوئے کہا ’’یہ علاقہ ولاقہ کیا ہوتا ہے! تم سرکاری ملازم ہو، یہ تمہاری ڈیوٹی ہے۔ میں تو تمہارے ہی ادارے سے منسلک ایک ایسا کام بتا رہا ہوں جس کی تشہیری مہم خود کے الیکٹرک میڈیا پر لاکھوں روپے دے کر چلا رہا ہے، اس لیے ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا تمہاری ہی ذمہ داری ہے۔ جہاں تک علاقے کا تعلق ہے تم اِس وقت جہاں کھڑے ہو بالکل تمہارے پیچھے چند قدم کی دوری پر کورنگی کا مرکزی بازار ہے، وہاں ہر دوسری دکان کی بجلی کنڈے پر چل رہی ہے، چلو ان ہی کے خلاف اپنے جوہر دکھا دو، کوئی تو کارنامہ انجام دو‘‘۔
لیکن اتنا کچھ سننے کے باوجود بھی وہ شخص ٹس سے مس نہ ہوا، اُس کے چہرے پر ندامت کے کوئی آثار نمایاں نہ ہوئے۔ وہ اپنا لہجہ سخت کرتے ہوئے بولا :’’تم تو بجلی چوری نہیں کرتے؟‘‘
میں نے کہا: ’’خدا کی پناہ، اس قسم کے اقدام کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘
’’تم ہر ماہ ایمان داری سے اپنے واجبات ادا کرتے ہو؟‘‘
میں نے کہا ’’الحمدللہ۔‘‘
’’پھر تم اچھے شہری ہو، دوسروں کے چکر میں پڑنے سے بہتر ہے اپنے گھر کی طرف دھیان دو، اگر کوئی بجلی چوری کررہا ہے تو اس سے تمہیں کیا! تم اپنا کام کرو، زیادہ اسمارٹ بننے کی کوشش نہ کرو، یہ ہمارا کام ہے، اس لیے تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔
یوں وہ شخص مجھے ایک اچھا شہری ہونے کا سرٹیفکیٹ دے کر چلتا بنا۔ اُس کے جانے کے بعد میں کر بھی کیا سکتا تھا سوائے خاموش رہ کر اپنے کام سے کام رکھنے کے! بات تو اُس کی بھی ٹھیک ہی تھی، جب مال کمانے کا چکر ہو تو باتوں میں تلخی آہی جایا کرتی ہے، اور پھر ادارے سے مخلص ہونے سے کہیں زیادہ اہم اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل ہے۔
خیر، بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کرنے پر مامور کراچی الیکٹرک کے ایک نڈر، مخلص، بااختیار اہلکار کا رویہ تو آپ نے ملاحظہ فرما ہی لیا۔ اب پینے کے صاف پانی کی بوند بوند کو ترستے شہر کراچی میں ٹینکر مافیا اور پانی چوروں کے ساتھ ملے واٹر بورڈ کے اربابِ اختیار کا کردار بھی ملاحظہ فرمائیے۔
کہتے ہیں: پانی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ پودے، جانور اور انسان سب کو زندہ رہنے کے لیے پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے، یا یوں کہیے کہ زندگی کا وجود ہی صاف پانی پر ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ انسانی زندگی تو کجا حیواناتی اور نباتاتی زندگی کے لیے بھی خطرناک ہوا کرتی ہے، خاص طور پر کیمیکل زدہ اور سیوریج ملا پانی تو زہرِ قاتل ثابت ہوتا ہے۔ ایسا زہریلا پانی حلق سے اترتے ہی آنتوں کو زخمی کرنے لگتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ زہر جسم کے ایک ایک عضو کو اپنی لپیٹ میں لے کر ناکارہ کردیتا ہے، جس کے باعث زندگی کی سانسیں ہمیشہ کے لیے رک جاتی ہیں۔
ارے ارے گھبرائیے مت، یہ باتیں پڑھ کر خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں… جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے۔ جی ہاں، یہی سچ ہے کہ جسے اللہ نے زندگی بخشی ہو، زہر بھی اُس لیے امرت بن جایا کرتا ہے۔ یہ جھوٹ نہیں، میں نے ایک ایسے ہی علاقے 36بی لانڈھی کا سروے کیا، جہاں کے مکین پینے کے صاف پانی کے نام پر نہ صرف سیوریج ملا انتہائی گندہ، بدبودار پانی پینے پر مجبور ہیں بلکہ مختلف قسم کے انتہائی زہریلے کیمیکل بھی اپنے جسم میں اتارتے جارہے ہیں۔ واٹر بورڈ کی جانب سے شہریوں کے لیے پینے کے صاف پانی کے بجائے سیوریج کے گندے پانی کی سپلائی نئی بات نہیں، لیکن اس علاقے میں انتہائی خطرناک کیمیکلز کی سپلائی تو ایک نیا ہی اقدام ہے جو ایگزیکٹو انجینئر واٹر بورڈ لانڈھی کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ ہم پینے کا پانی تو پہلے سے ہی خرید کر استعمال کررہے ہیں، اگر دس پندرہ دن میں گھریلو استعمال کے لیے تھوڑا بہت پانی مل جاتا ہے تو وہ بھی اب سیوریج اور کیمیکلز سے بھرپور ہوتا ہے، اس سلسلے میں متعدد بار لانڈھی واٹر بورڈ آفس پر شکایات بھی درج کروائی گئیں، خستہ حال لائنوں خصوصاً دس ہزار روڈ سے گزرتی لائن کی نشاندہی بھی کی گئی، لیکن سب بے سود۔ سیکٹر 36بی لانڈھی کے رہائشی وسیم صدیقی کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹو انجینئر لانڈھی نہ تو اپنے دفتر میں بیٹھتے ہیں اور نہ ہی فون پر ملتے ہیں، دفتری عملہ کچھ سننے کو تیار نہیں، عوامی نمائندے ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں، اس علاقے کا پانی بھاری رقم کے عوض ڈائینگ کمپنیوں کو فروخت کیا جارہا ہے، اعلیٰ افسران ہوں یا والومین، سب کے بھتے بندھے ہوئے ہیں، واٹر بورڈ عملے کی نااہلی اور بے حسی کے باعث دس ہزار روڈ سے گزرتی پینے کے صاف پانی کی لائن نہ صرف خستہ حال ہوچکی ہے بلکہ ڈائنگ کمپنیوں کے لیے نکاسیٔ آب یعنی سیوریج لائن بھی بن چکی ہے، ایسی صورت میں کوئی بھی سننے والا نہیں، عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ پانی کے حصول کے لیے علاقہ مکین مجبوراً زمینی بورنگ کروا رہے ہیں، پانی نہ ملنے کی وجہ سے لوگ اپنی ضروریات کے لیے زیر زمین پانی پر انحصار کررہے ہیں۔ لیکن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے زیر زمین پانی انسانی استعمال کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا جاچکا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق عام طور پر 500 ٹی ڈی ایس (ٹوٹل ڈزالو سالڈ) تک کا پانی انسانی استعمال کے قابل ہوتا ہے، لیکن کراچی کے زیر زمین پانی میں 3 ہزار سے 35 ہزار کے درمیان ٹی ڈی ایس پائے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں انسانی زندگی کے لیے ہوا، پانی اور آگ انتہائی ضروری ہیں۔ کے الیکٹرک کی جانب سے کی جانے والی بدترین لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پنکھے نہیں چلتے، اس لیے ہوا نہیں ہے۔ جبکہ پانی کراچی واٹر بورڈ نے بند کر رکھا ہے۔ رہی آگ، اس پر بھی سوئی سدرن گیس کمپنی کا قبضہ ہے۔ یوں ہوا، پانی اور آگ ملے بنا کراچی کے شہری معجزانہ طور پر زندہ ہیں۔
کراچی ہر آنے والے دن کے ساتھ مسائلستان بنتا جارہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قلتِ آب میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق شہر میں پینے کے پانی کی روزانہ ضروریات کا تخمینہ 918 ملین گیلن ہے، لیکن شہر کو مجموعی طور پر 580 ملین گیلن کے لگ بھگ یومیہ پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ جب کہ فراہمی کے بوسیدہ نظام کی وجہ سے فراہم کیے جانے والے پانی میں سے 174 ملین گیلن پانی ضائع ہوجاتا ہے، اور بہ مشکل 406 ملین گیلن پانی ہی شہریوں کو میسر آتا ہے، جو کہ شہر کی ضرورت کا محض 44 فیصد ہے۔ اس سلسلے میں یہاں کے باسیوں کو سبز باغ تو دکھائے جاتے ہیں لیکن انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کیے جاتے۔ اب کے فور منصوبے کو ہی لیجیے، جس کے ذریعے شہر کو مجموعی طور پر 650 ملین گیلن پانی یومیہ فراہم کیا جانا ہے۔ منصوبے کے مطابق پہلے اور دوسرے مرحلوں میں 260، جب کہ تیسرے مرحلے میں 130 ملین گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جائے گا، لیکن یہ منصوبہ کم از کم 11 سال سے تاخیر کا شکار چلا آرہا ہے، اور اس پر لاگت کا تخمینہ بھی 15 ارب روپے سے بڑھ کر 75 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ سست روی کا شکار اس منصوبے کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ کراچی کے شہریوں کے لیے اضافی پانی کی فراہمی کا یہ منصوبہ بھی فائلوں کی نذر ہونے کے قریب ہے۔ آبی امور کے ماہرین کے مطابق کراچی میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اضافی پانی کی فراہمی کے منصوبے کو جنگی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے، جب کہ پانی کی فراہمی کے بوسیدہ اور پرانے نظام میں بہتری لانے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، تاکہ شہر میں پانی کی منصفانہ تقسیم ممکن بنائی جا سکے۔ اس کے علاوہ شہریوں میں یہ شعور اجاگر کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ پانی کا استعمال اعتدال سے کیا جائے۔ ان امور پر عمل کرکے ہی کراچی جیسے میگا سٹی میں پانی کی شدید قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

حصہ