بزمِ شعر و سخن کی شعری نشست

314

سیمان کی ڈائری
طارق بھائی سے میری پہلی ملاقات دوہزار کے اوائل میں اجمل بھائی کے توسط تشہیر کے آفس میں ہوئی۔ میں ان دنوں روزگار تھااور اجمل بھائی مجھے اپنے ساتھ تشہیر کے دفتر میں لے کر آئے کہ جب تک نوکری کا بندوبست نہ ہو جائے یہاں روز آؤ جاؤ،کتابیں پڑھو،لوگوں سے ملو جلو اور خاص کر یہاں جو کام یہاں ہو رہا ہے اسے دیکھو۔ تشہیر کا آفس میرے لیے نعمت سے کم نہیں تھا۔ میں وہاں روز جانے لگا تو معلوم ہوا کہ جس عمارت میں تشہیر کا یہ آفس عقب میں واقع ہے،اسی عمارت کی بالائی منزل پر طارق بھائی کی رہائش بھی ہے اور یہ دفتر بھی انھیں کافیض تھا۔ طارق بھائی اپنے کاروبارکے سلسلے میں وہیں ایک کمرے میں اپنے آفس میں بیٹھتے تھے۔ دوسرا حصہ تشہیر اور ادب کے لیے وقف تھا۔ صبح کے اوقات میں میری طارق بھائی سے ملاقات ہو جاتی تھی جب وہ تیار ہو کر اپنے دیگر کاموں کے لیے نیچے آفس میں تھوڑی دیر کو تشریف لاتے۔
شروع شروع میں مَیں بہت گھبرایا کہ اتنے شاندار آفس کے مالک اور ایک بڑی کاروباری شخصیت کا جاہ و جلال، اوپر سے میری کوئی حیثیت نہ ہونے کے برابر تو سامنا کرنا مجھے مشکل ہوتاتھا۔ جب تواترکے ساتھ ان سے ملاقاتیں ہونے لگیں تو جو میں ان کے بارے میں ظاہراً سمجھ رہا تھاکہ وہ صرف نظر کا دھوکاتھا۔ طارق بھائی نہایت رحم دل اور شفقت برتنے والی شخصیت ہیں ۔ ان کے نزدیک رشتوں اور خاص کر انسانوں کی بہت قدر وعزت ہے۔ کبھی یہ نہیں سمجھا کہ سامنے والا ان کے قد کے برابر ہے یا نہیںمگر اس کو اپنے سے بڑھ کر عزت دیتے۔ پہلی ملاقات میں اجمل بھائی نے جب ان کا تعارف کرایا تو اس میں بہ طور خاص اس بات کا ذکر تھا کہ طارق جمیل میرے بڑے بھائی ہیں اور میں ان کا نہایت احترام کرتا ہوں اور دوسری جانب طارق بھائی کے بھی یہی الفاظ تھے کہ وہ اجمل سراج کو دل و جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اوروہ بھی انھیں چھوٹے بھائیوں سے بڑھ کرچاہتے ہیں۔ اس تعلق میں اگرمحترم سید مہرو الدین افضل بھائی کا ذکر نہ ہو تو یہ بہت بڑی بددیانتی ہوگی۔ کیوں کہ مہربھائی جان طارق بھائی کے بہت ہی قریبی دوست ہیں اور ان ہی بہ دولت اجمل سراج اور طارق جمیل بھائی کے درمیان گہرا رشتہ ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیشہ ان تمام بھائیوں کے درمیان اس بھائی چارے اور والہانہ محبت کے رشتے کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ آمین! طارق بھائی میرے حالات و واقعات اور ملتان سے کراچی تک کے سفراور اجمل بھائی سے قریبی تعلق کو جاننے کے بعد میرا بے حد خیال رکھتے ۔صبح ان کے ساتھ ناشتہ کرنا اورکبھی کبھار تو طارق بھائی کے ساتھ دوپہر اور رات کا کھانا بھی ایک ساتھ ہونے لگا۔ یہ سب میرے لیے وہ نعمت تھی جو مجھے ابتدا ہی میں اللہ تعالی کے ان نیک بندوں کے وسیلے سے ملی اور یو ں میں بھی ان کے گھر کے فرد کی طرح سمجھا جانے لگا۔
تشہیر کے آفس میں مجھے سب سے بڑی تقویت جس چیز سے ملی وہ وہاں موجود کتابوں سے بھری الماریاں تھیں ۔جنھیں میں فرصت کے لمحات پڑھتا رہتا اور بعض اوقات رات میں بھی وہیں قیام کر لیا کرتا۔ آفس کے دوسرے کمرے میں کتابوں کی کمپوزنگ اور ایڈورٹائزنگ ،ڈیزائنگ کے سسٹم لگے ہوئے تھے جہاں ایک اور بہت اچھے دوست،شاعر عبید الرحمان بھائی سے میری ملاقات ہوئی اور ان سے کمپیوٹر کی بابت بہت کچھ سیکھا۔ عقیل عباس جعفری کی کتاب کرونیکل پاکستان بھی وہیں انھی دنوںکمپوز ہو رہی تھی۔ کتابوں کے ساتھ ساتھ وہاں آنے والی شخصیات جن میں خاص کر شاعر ادیب شامل تھے ان سے ملاقاتیں رہیں۔جن میں ذکاالرحمان(مرحوم) شاہد رسام، خواجہ رضی حیدر اور عرفان ستارقابل ذکر ہیں۔ وہ زمانہ میرا کراچی میں سخت محنت کا زمانہ تھا ۔لوگوں سے شناسائی ایک مشکل مرحلہ تھا۔ ایسے میں یہ سب نہ ہوتا توآج میں اس مقام پر نہ ہوتا جس کی میں نے تمنا کی تھی۔وہیں سے جسارت کے سنڈے میگزین میں سیمان کی ڈائری کی شروعات ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ سب رنگ ڈائجسٹ اور مختلف ٹی وی چینلز پر بہ طور صحافی کام کرنے کا موقع ملا۔
طارق جمیل بھائی سے ملاقات سے متعلق سچائی پر مبنی یہ تمہید باندھنا میرے لیے ضروری تھا۔بہت سی باتوں پر آگے چل کر کچھ اختلافات ہوئے جو کسی غلط فہمی کا نتیجہ تھے اور یہ بات جلد آشکار ہوئی کہ طارق بھائی بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے ہیں تو ان سے کسی بھی طرح کی ناراضی کی کوئی معانی نہیں رکھتی ۔انھی دنوں اجمل بھائی نے اپنا ادبی ادارہ ’ادب سرا‘ کا نام بھی متعارف کرایا اور یہ بھی بتایا کہ طارق جمیل بھائی اس ادارے کے اہم رکن ہیں اور اب تم بھی اس ادارے کا حصہ ہو۔ادب سرا کے زیراہتمام طارق بھائی کے دولت کدے پر یادگار مشاعرے بھی ہوئے۔وقت گزرا اور طارق بھائی نے بزم ِ شعروسخن کی نوید سنائی۔ بزمِ شعروسخن کے معزز اراکین سے میری اتنی شناسائی نہ تھی ۔لیکن دیکھتے ہی دیکھتے طارق بھائی کی سربراہی میں اس بزم نے چھوٹے بڑے مشاعرے، کتابوں کی تعارفی تقریبات کروا کر جلد ہی شہر کراچی میں اپنی ایک شناخت قائم کی اور یہ بزم جاری و ساری ہے۔ پچھلے دنوںطارق بھائی کا محبت بھرا فون آیا اور اپنے ہاں عید کے تیسرے دن دوستوں کی بزم میں شرکت کی دعوت دی جسے عید ملن پارٹی کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس دعوت میں طارق بھائی نے اپنے نہایت قریبی دوستوں کودعوت دی تھی اور خاکسار کو بھی شامل رکھا۔ مقرر وقت پر میں اپنے بڑے صاحبزادے کو لے کرطارق بھائی کے دولت کدے پہنچا جہاں اجمل بھائی اور نجیب ایوبی بھائی بھی مدعو تھے۔ طارق بھائی نے اپنے دوستوں خاص کر ڈاکٹر ماجد صدیقی صاحب اور دیگر احباب سے ہمارا تعارف کرایا۔ ایک ایسی محفل کہ جس میں میری بہت کم ان اکابرین سے ملاقات رہی لیکن ان تمام دوستوں سے ملکر نہایت خوشی ہوئی۔ مختلف موضوعات پر احباب نے گفتگو کی۔ اس کے بعد دوپہر کے کھانے کا پر تکلف اہتمام کیا گیا۔ کھانے کے بعد بزم میں موجود شعرا ئے کرام اجمل سراج،نجیب ایوبی،خاکسار کے علاوہ بزم ِ شعرو سخن کے جنرل سیکریٹری خالد میرنے اپنے اشعار سنائے۔

حصہ