انسان دوست

287

محمد ضرغام حمید
میرے والد سرکاری دفتر میں ملازم تھے۔ساری عمر انھوں نے رزقِ حلال کمایا اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی پینشن پر ہمارا گزارہ ہو رہا تھا۔میں سیکنڈائیر کا طالب علم تھا۔مجھے صرف پانچ سوروپے ماہانہ جیب خرچ ملتا تھا اور یہ روپے تعلیمی ضرورتوں میں ہی ختم ہو جاتے تھے۔
میں اپنے والد صاحب کی مجبوریوں کو سمجھتا تھا۔اس لیے میں ان سے ہر ممکن تعاون کرتا تھا۔مجھے فخر تھا کہ میرے اباجی نے پاکیزہ زندگی بسر کی تھی۔میں اپنی عملی زندگی میں ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتا تھا۔
جب کالج میں امیر لڑکے بہت پیسے خرچ کرتے تو مجھے اپنے آپ پر ترس آنے لگتا۔
ایسے میں اگر میں اباجی سے شکایت بھی کرتا تو وہ مجھے پیارسے ایسے سمجھاتے تھے کہ قناعت پسندی انسانیت کی دلیل ہے۔
انسانیت یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کی جائے۔یہ سن کر میں تمام گلے شکوے بھول کر ان کے گلے سے لپٹ جایا کرتا تھا۔
ایک دن انھوں نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا تھا:’’اگر تمھارے سامنے میز پر پانی سے آدھا بھرا ہوا گلاس پڑا ہوتو تم یہ مت سوچو کہ آدھا گلاس خالی ہے یہ سوچو کہ آدھا گلاس تو پانی سے بھرا ہوا ہے۔‘‘
’’ابا جی!میں آپ کی بات سمجھ نہیں پایا۔
‘‘میں نے کہا۔
اباجی کچھ سوچتے رہے پھربولے:’’بیٹے !انسان کو انسان کا دوست ہونا چاہیے۔خود غرضی انسان سے انسانیت چھین لیتی ہے۔اتنا کہہ کر وہ اْٹھے اور کمرے سے نکل گئے۔میں ان کی بات پر غور کرنے لگا۔جب کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکاتو میں بھی باہر نکل گیا۔
میرا سالانہ امتحان قریب تھا اور میں بڑی لگن سے تیاری کررہا تھا۔مجھے ایک اچھے ہینڈبیگ کی ضرورت تھی۔
’’اباجی!مجھے ایک بیگ خریدنا ہے۔‘‘میں نے آہستہ سے کہا۔
وہ کچھ سوچنے لگے اور پھر خاموشی سے انھوں نے میرا جیب خرچ پانچ سوروپے دے دئیے۔
رات کا کھانا کھا کر میں حسبِ معمول چہل قدمی کے لیے پارک کی طرف نکل گیا۔فوارے کی منڈ یر پر بیٹھے ہوئے ایک بچے پر میری نظر پڑی،جو کچھ پڑھ رہا تھا۔میں اس لڑکے کی طرف بڑھ گیا اور پھر آہستہ سے اس کے پاس جا بیٹھا۔میں نے لڑکے کے ہاتھ میں موجود کاغذ کو غور سے دیکھا تو پہلی جماعت کا پھٹا ہوا صفحہ تھا۔
’’تم کیا کررہے ہو؟‘‘بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔
’’پڑھ رہا ہوں۔‘‘اس نے مختصر سا جواب دیا۔
’’لیکن یہ تو پھٹا ہوا کاغذ ہے۔‘‘میں نے کہا۔
’’تو کیا ہوا ؟‘‘اس نے بے نیازی سے جواب دیا اور میں لاجواب ہو گیا۔
’’تمھیں پڑھنے کا شوق ہے ؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’ہاں ہے۔‘‘اس نے آنکھیں جھپکا کر کہا۔
’’تو پھر تمھاری کتاب کہاں ہے ؟‘‘
’’کتاب نہیں ہے۔‘‘اس نے قدرے مایوسی سے بتایا۔
’’کیا مطلب ؟‘‘میں چونکا۔
’’بھائی جان! میرے ابا مجھے پڑھنے نہیں دیتے۔وہ روزانہ کہیں مزدوری کرنے جاتے ہیں اور شام کو آتے ہیں۔انھوں نے مجھے درزی کی دکان پر کام سیکھنے کے لیے بٹھادیا ہے مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے۔جب بھی کوئی کاغذ نظر آتا ہے میں اسے پڑھنے کی کوشش کرنے لگتا ہوں۔
‘‘وہ بولتا چلا گیا۔
’’تمھارا نام کیا ہے ؟‘‘میں نے اسے بہ غور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’حماد ‘‘اس نے فوارے کی جانب دیکھتے ہوئے بتایا۔
’’اچھا حماد!ایک بات تو بتاؤ تم کو درزی کی دکان سے کچھ ملتا ہے یا نہیں؟‘‘کچھ سوچتے ہوئے ایک اور سوال کیا۔
’’نہیں۔‘‘اس نے بتایا۔
’’اچھا تم پڑھنا چاہتے ہو؟‘‘میں نے آخر اپنے دل کی بات کہہ ہی دی۔
’’ہاں پڑھنا تو چاہتا ہوں ،لیکن ابا کتابوں کے پیسے نہیں دیں گے ،بلکہ مجھے بہت ڈانٹیں گے۔‘‘وہ بڑی بے چارگی سے بولا۔
’’پیسوں کی تم فکر نہ کرو۔‘‘تمھارے لیے کتابیں میں لے کر آؤں گا۔‘‘
’’سچ بھائی جان!‘‘میری بات سن کر جیسے اسے یقین نہ آیا ہو۔
’’بالکل سچ۔بس آج سے تم میرے شاگرد ہو۔کل سے تم یہاں اسی وقت آجایا کرنا میں تمھیں پڑھایا کروں گا اور پھر کسی نائٹ اسکول میں تم کو داخل بھی کرادوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں سمجھ گیا۔‘‘اس نے کہا۔
’’اب تم کل مجھ سے یہاں ملنا۔میں تمھاری کتابیں لے کر آؤں گا۔‘‘میں نے مسرت سے بھر پور لہجے میں کہا۔کچھ دیر اس سے مزید باتیں کیں اور واپس چلاآیا۔
دوسرے دن کالج سے واپسی پر میں نے بک اسٹال کا رْخ کیا۔
میری جیب میں اس وقت وہی پانچ سوروپے تھے جو ابو نے مجھے دئیے تھے۔میں نے حماد کے لیے کتابیں اور دوسری چیزیں خریدیں اور اپنے لیے ایک معمولی سابیگ لیا۔
دوسرے دن حماد اپنی کتابیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔میں نے اسے سبق پڑھایا اور اس کے ابا سے ملنے کا ارادہ کرکے گھر واپس آگیا۔
گھر پہنچاتو اباجی نے پوچھا:’’تم نے بیگ نہیں خریدا؟‘‘
جواب میں،میں نے حماد سے ملنے کا سب قصہ بیان کر دیا اور کہا:’’اباجی!میں حماد کے لیے کتابیں لے آیا ہوں۔‘‘
یہ بات سن کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
انھوں نے کہا:’’بیٹے! تمھارے اس عمل سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔میں نے ایک بار تم سے کہا تھا کہ انسان کو قناعت پسند ہو نا چاہیے۔آج تم نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے۔تمھیں بیگ کی ضرورت تھی ،لیکن حماد کی مدد کرکے تم نے انسان دوستی کاثبوت دیا۔آج مجھے اس بات پر فخر محسوس ہورہا ہے کہ میرے بیٹے میں انسانیت موجود ہے۔کل میں تمھارے ساتھ حماد کے ابا کے پاس جاؤں گا۔‘‘
’’سچ اباجی!‘‘میں صرف اتنا ہی کہہ سکااور پھر میں اباجی کے گلے لگ گیا۔

حصہ