کعبے کے اَن دیکھے بُت

1152

سیدہ عنبرین عالم
اشرف صاحب ہمہ وقت اپنے بیٹے زکریا کو ڈانٹتے ہی رہتے تھے۔ ان کی علیحدہ رہائش تھی، جب کہ ان کے والدین ان کے چھوٹے بھائی احتشام کے ساتھ رہتے تھے۔ ایک دن احتشام صاحب اپنے بھائی کے گھر گئے تو اس دن بھی اشرف صاحب زکریا کو بری طرح ذلیل کررہے تھے، حتیٰ کہ کافر کا لقب بھی دے ڈالا۔ احتشام صاحب نرم دل آدمی تھے، فوراً زکریا کو کہا کہ سامان باندھو، اب تم میرے ساتھ رہو گے۔ اشرف صاحب نے کہا: لے جا تو رہے ہو، اس کے اسکول کا خرچا بھی تم اٹھائو گے۔ احتشام صاحب نے کہا کہ جہاں میرے چھ بچے پل رہے ہیں، یہ بھی پل جائے گا، مگر یہ روز روز کی تذلیل اسے نفسیاتی مریض بنا دے گی۔ وہ اسے اپنے گھر لے آئے جو دو گلی کے ہی فاصلے پر تھا اور اسے اپنے کمرے میں لے گئے۔
’’جی جناب! کیا کہا تھا آپ نے، جو آپ کے والد اتنا غصہ ہوئے؟‘‘ انہوں نے شفقت سے زکریا سے پوچھا، جو نویں جماعت کا طالب علم تھا۔
’’چھوڑیں چچا میاں، میرے سوالات کفر پر مبنی ہوتے ہیں، معلوم نہیں میں ایسا کیوں ہوں؟‘‘ وہ بولا۔
’’نہیں میرے بچے! تمہاری روح کو سچ کی طلب ہے، ان شاء اللہ میں تمہیں مطمئن کردوں گا۔‘‘ چچا میاں نے کہا۔
’’چچا میاں! میں نے پوچھا تھا کہ کعبہ بھی تو پتھر کا ہے، اسے سجدہ کرنا کیوں حلال ہے، جب کہ جو لوگ پتھر کے بتوں کی عبادت کرتے ہیں، انہیں کافر کہا جاتا ہے، ایک ہی تو بات ہے۔‘‘ زکریا نے کہا۔
’’چچا میاں مسکرائے ’’بیٹا! آپ کو یاد ہے کہ فتح مکہ کے بعد میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں رہنا گوارا نہ کیا۔ وہ مکہ جہاں وہ پیدا ہوئے، وہ مکہ جہاں کعبہ تھا… بلکہ وہ واپس مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں سے اسلامی ریاست کے قیام کا آغاز کیا۔ اب آپ بتایئے کہ کیا اللہ رب العزت اپنے پیارے رسول سے ناراض ہوا کہ میرا کعبہ چھوڑ کر مدینہ کیوں چلے گئے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’نہیں! البتہ جب حضرت مکتومؓ جو نابینا تھے، میرے نبیؐ کے پاس آئے اور پیارے نبیؐ ان پر توجہ نہ کرسکے تو میرا رب بہت ناراض ہوا اور آیات اتاریں جو قرآن میں موجود ہیں۔‘‘ زکریا نے کہا۔
’’درست! اب بتائو میرے رب کے نزدیک اہم کیا ہے؟ کعبہ یا مومن کا دل؟‘‘ چچا نے پوچھا۔
’’بے شک میرا رب مومن کا دل ٹوٹنے پر ناراض ہوتا ہے، کعبہ تو اس کا اپنا ہے، اس کی ذمے داری میرے رب کی ہے، ہماری ذمے داری یہ ہے کہ ہمارے سلوک سے کسی مومن کا دل نہ ٹوٹے۔‘‘ زکریا نے جواب دیا۔
’’بیٹا! میرے رب نے جس رسول کو بھیجا یعنی ہمارے نبیؐ، وہ زندگی میں صرف ایک حج کرتے ہیں۔ اس حج کے بعد وہ مسجد نمرہ میں بیٹھے تھے کہ صحابہؓ ایک ایک کرکے ان کے پاس آتے گئے اور بتاتے گئے کہ ہم سے حج میں یہ غلطی ہوئی، وہ غلطی ہوئی، مگر میرے نبیؐ ہر صحابیؓ کو کہتے کہ تمہارا حج قبول ہوا، تمہارا بھی حج قبول ہوا۔ صرف اُس شخص کا حج قبول نہیں ہوا جس نے اپنے ہاتھ یا زبان سے کسی مومن کو دُکھ پہنچایا۔ اب بتائو کیا اہم ہے؟ کعبہ یا مومن کا دل؟‘‘ چچا نے پھر پوچھا۔
زکریا کچھ پریشان سا ہوگیا ’’مگر ایسا کیوں ہے؟ کعبہ میں تو اللہ رہتا ہے، اللہ کا گھر ہے کعبہ، پھر میرے رب نے اور اس کے رسولؐ نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ اس نے جوابی سوال چچا میاں سے پوچھا۔
’’بیٹا! اس لیے کہ اللہ کعبے میں نہیں رہتا، مومن کے دل میں رہتا ہے، اس لیے میرے رب کے نزدیک کعبہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا کسی مومن کا دل۔ اس لیے مومنین طاغوت کے لیے اللہ کا عذاب اور آپس میں نرم ہیں، جو ابوبکرؓ بلالؓ کو ظلم سے آزاد کراتے ہیں، وہ اپنے بیٹے سے کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران اگر تم میرے سامنے آتے تو میں تمہیں نہ چھوڑتا۔ وجہ یہ کہ بلالؓ مومن ہیں اور ان کا بیٹا کافر تھا۔ یہ روح کے رشتے ناتے ہیں میرے بیٹے۔ اللہ فرماتا ہے کہ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا نیکی سمجھ لیا ہے؟ جب کہ اصل نیکی اپنے رب سے روحانی رشتے مضبوط کرنا ہے۔‘‘ چچا میاں نے سمجھایا۔
’’پھر چچا میاں، سب مسلمان کعبے کی عبادت کیوں کرتے ہیں، اللہ نے کیوں یہ حکم دیا؟‘‘ زکریا نے پوچھا۔
’’ہم کعبے کی عبادت نہیں کرتے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگر میرے نبیؐ نے حجر اسود کو بوسہ نہ دیا ہوتا تو میں کبھی اسے بوسہ نہ دیتا۔ بیٹا فرض کرو کہ ایک میاں بیوی ہیں اور ان کا نکاح نامہ کسی حادثے میں ضائع ہوجائے تو کیا وہ میاں بیوی نہیں رہیں گے؟‘‘ چچا میاں نے پوچھا۔
’’رہیں گے، کیوں نہیں رہیں گے…! اللہ رب العزت کے نام سے ان کا رشتہ باندھا گیا ہے۔‘‘ زکریا نے جواب دیا۔
’’تو پھر ہم کو یہ رشتہ ثابت کرنے کے لیے نکاح نامے کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟‘‘ چچا میاں نے پوچھا۔
’’یہ تو بس ایک کاغذی کارروائی ہے دنیا کے کام چلانے کے لیے، اصل تو میاں بیوی کی آپس کی محبت ہے جو اس رشتے کو کامیاب بناتی ہے، ورنہ نکاح نامہ کسی شادی کو کامیاب نہیں بنا سکتا۔‘‘ زکریا نے کہا۔
’’بالکل بیٹا…!‘‘ چچا میاں نے ہامی بھری۔ ’’اسی طرح کعبہ بھی دنیاوی عبادت کو ایک سمت عطا کرنے اور ایک مجسم شکل دینے کا ذریعہ ہے، اصل تعلق ہمارے رب سے ہی ہے، دل کی محبت کے بغیر دس حج بے کار، اور جو میرے رب سے محبت رکھتا ہے وہ اویس قرنی کی طرح دور بیٹھ کر بھی محبوب ہوجاتا ہے۔ کعبہ دنیا میں میرے رب کی نشانی ہے۔ اللہ کا حکم ہے کہ حج کرو، بس اور کچھ نہیں، جو مومن بندہ اللہ کے حکم پر جان دے سکتا ہے تو کیا وہ اللہ کے دیگر احکام نہیں مانے گا! صرف یہی بات ہے۔‘‘ چچا میاں نے کہا۔
’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ کعبہ کی حیثیت صرف اللہ رب العزت کی نشانی کی ہے، وہ اپنی ذات میں عبادت کے لائق نہیںہے، بس اللہ رب العزت کا حکمرانی کا دارالخلافہ سمجھ لیجیے۔‘‘ زکریا نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’بڑے پتے کی بات کی ہے تم نے۔‘‘ چچا میاں مسکرائے۔ ’’اللہ رب العزت کی حکمرانی اُس وقت قائم ہوتی ہے جب کعبے کے اندر 360 بت گرائے جاتے ہیں۔ کعبہ میرے اللہ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔‘‘ چچا میاں نے سمجھایا۔
’’اب تو بت نہیں ہیں کعبے میں، پھر میرے رب کی حکمرانی کیوں قائم نہیں ہوتی دنیا میں؟‘‘ زکریا نے سوال کیا۔
’’اگر یہ سوال تم نے اپنے والدِ محترم سے کیا ہوتا تو ایک زور دار طمانچہ پڑتا تمہارے چہرے پر، اور تمہارے والد صاحب کہتے کہ اللہ کے سوا کوئی حکمران نہیں، نہ ہے، نہ ہوگا، نہ کبھی تھا۔‘‘ چچا میاں نے مسکرا کر کہا۔
’’یہ کیسی حکمرانی ہے؟ دنیا کے کسی خطے پر میرے اللہ کا قانون نہیں چلتا۔‘‘ زکریا کے سوالات نہ ختم ہوتے۔
’’میرے بیٹے! کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے، کوئی خدا نہیں سوائے میرے اللہ کے، اس میں کوئی اختلا ف نہیں، مگر تم دنیا میں جہاں نظر گھمائو گے تمہیں شیطان کی حکمرانی نظر آئے گی۔ قانون وہ چلتا ہے جو شیطان کی خواہش ہے۔ کہیں مرد سے مرد کی شادی کا قانون جائز قرار پاتا ہے اور کہیں بے گناہ مار دیے جاتے ہیں مگر قانون ان قاتل، قانون کے محافظوں کا کچھ نہیں بگاڑ پاتا۔ بے حیائی کو زمانے کی ضرورت قرار دیا جاتا ہے، تو کہیں میانمر میں، فلسطین میں، کشمیر میں مومنوں کو میرے رب تعالیٰ کا نام لینے کے جرم میں زندہ درگور کردیا جاتا ہے۔ ہاں بس کعبے میں بت نہیں رہے، مگر اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ حکمرانی شیطانوں کی ہی پوری دنیا میں قائم ہے، اور میرے اللہ کے عاشقوں کو تو دہشت گرد قرار دے کر عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے‘ چاہے عافیہ صدیقی ہو، چاہے ضیا الحق۔‘‘ چچا میاں نے بتایا۔
’’تو اس وقت میرے اللہ کا کیا کردار ہے، وہ شیطان کو روکتا کیوں نہیں؟ وہ میرے نبیؐ کا مٹی کا کعبہ، گرد وغبار میں اَٹا ہوا، مگر دنیا کے فیصلے کعبے سے ہوتے تھے، آج کعبہ سونے کے دروازے اور سونے کی چادروں میں لپٹا ہوا، جدید ٹیکنالوجی سے مالامال حج، سہولتیں ہی سہولتیں، مگر کوئی نہیں جو کعبے سے حکم صادر کرے اور وہ تمام دنیا پر نافذ ہوجائے۔ کعبے میں بُت ہیں چچا میاں۔‘‘ زکریا نے افسردگی سے کہا۔
’’ہاں بیٹا! کعبے میں بُت ہیں، ہزاروں بت جو نظر بھی نہیں آتے۔ ان بتوں کو توڑنا ہے، مگر آج کوئی نہیں جو شمشیرِ محمد کو اٹھا سکے۔ شیطانیت ننگی ناچ رہی ہے، کوئی بلالؓ نہیں جو اپنی پیٹھ ادھڑوا کر اَحد اَحد کا نعرہ بلند کرسکے۔ آج کے بت زیادہ خطرناک ہیں جو لات و منات کی طرح شناخت نہیں رکھتے، جو وجود نہیں رکھتے اور جنہوں نے عرب کو ہی نہیں تمام دنیا کو غلام بنا رکھا ہے۔‘‘ چچا میاں نے تائید کی۔
’’کوئی مہدیؑ کیوں نہیں اترتا، کوئی عیسیٰؑ ابن مریم یہودیوں کے ہاتھ کیوں نہیں روکتا؟‘‘ زکریا نے پوچھا۔‘‘
چچا میاں نے ٹھنڈی آہ بھری ’’بیٹا! میرے اللہ نے شیطان کو کھلی اجازت دی تھی اور تمام انسان شیطان کے فرماں بردار ثابت ہوئے۔ جب انسانوں نے ہی شیطان کو حکمران مان لیا تو میرا رب کیا کرے! وہ زبردستی کا تو قائل نہیں۔ میرے رب نے انسانوں کو آزاد رکھا ہے کہ شیطان یا میرے اللہ میں سے کسی ایک کو چنیں۔ ہم نے شیطان کو چنا، نفس کی آسائش کو چنا، اپنے نبیؐ کا طریقہ چھوڑ دیا، تو پھر میرے رب کا کیا قصور! چلو مہدیؑ کو بھی بھیج کر دیکھ لیں گے۔ ہم سے تو اُس وقت تک آسائشوں کو نہیں چھوڑا جاتا جب تک امریکی جہاز سر پر بم نہ برسانے لگیں۔ کیا ہم مہدیؑ کی مشقتوں میں ان کا ساتھ دے سکیں گے؟ اکیلے تو محمدؐ بھی کچھ نہیں کرسکے تھے، کوئی ابوبکرؓہو، کوئی عمرؓ ہو، کوئی عثمانؓ و علیؓ ہو‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’زکریا بے قرار سا پہلو بدلتا رہا ’’کعبے کے بت تو اُس وقت ٹوٹیں گے ناں چچا میاں، جب خلقت کے دل کعبہ بن جائیں۔ جب تک دلوں میں رب نہ آبسے، جب تک حزب اللہ مکہ فتح کرنے کے لائق نہ ہوجائے، جب تک وہ وقت نہ آجائے کہ محمدؐ کعبے کے بت توڑیں اور ان کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہ ہو، بھلا کعبے کے بت کیسے گرائے جائیں گے! کم از کم 313 مومن تو ہوں، ورنہ بدر نہ ہوگی۔ بدر نہ ہوگی تو فتح مکہ نہ ہوگی۔ فتح مکہ جیسا جگر تو ہو، محمدؐ سا رہبر تو ہو جو بتوں کی پہچان کرائے۔‘‘ وہ تڑپ کر بولتا رہا۔
چچا میاں پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے ’’مومن دل جب فراوانی سے موجود ہوں گے تو محمدؐ کا ہر امتی محمد ہوگا۔ ہمارے دل مومن نہیں ہیں اس لیے ہم کعبے پر سونا تو لاد سکتے ہیں لیکن دنیا پر کعبے کی حکمرانی بحال نہیں کرسکتے۔ ہم میلاد النبی پر روشنیاں تو سجا سکتے ہیں مگر پورے کفارِِ مکہ کو معاف کرنے والے پیارے نبیؐ کی سنت پر عمل کرکے اپنے سگے بھائی کو معاف کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔ ہماری سنت جب تک داڑھیاں رکھنے اور پائنچے اونچے کرنے تک محدد رہے گی، کعبہ بتوں سے پاک نہ ہوگا۔ کیوں کہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کے لیے تلوار اٹھانے کی سنت پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ ہم کھجور کھانے کی سنت تو دل سے قبول کرتے ہیں، پیٹ پر پتھر باندھنے کی سنت ہمیں قبول نہیں۔‘‘ وہ چپ ہوگئے۔
زکریا دکھی دل سے سنتا رہا۔ ’’چچا میاں! مہدیؑ موعود کا کیا طریقہ کار ہوگا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’بیٹا! وہ پیارے نبیؐ کے امتی ہیں، ان کا طریقۂ کار ہمارے نبیؐ سے مختلف نہیں ہوگا، وہی قرآن اُن کی راہِ عمل ہوگی جو پیارے نبیؐ ہمیں دے کر گئے ہیں۔ اس وقت قرآن اللہ کے دین کی صورت میں دنیا کے کسی خطے پر نافذالعمل نہیں ہے، مہدیؑ کے کام کی ابتدا خلقت کے دل میں خدا کی محبت پیدا کرنے سے ہوگی۔ جب تک شیطان کا دعویٰ غلط نہ ثابت کیا جائے اور انسانوں کی اکثریت شیطان کے بجائے اللہ کی فرماں بردار نہ ہو جائے، مہدیؑ قرآن کو دنیا پر نافذ نہیں کر پائیں گے۔ دیکھنا بیٹا! چونکہ قیامت نزدیک ہے اور قیامت سے پہلے دنیا پر اسلام نافذ ہونا اللہ پاک کا وعدہ ہے، لہٰذا تمام مومنین کے ایمان کی حالت صحابہ کرامؓ کے ایمان سے بھی بلند ہوگی اور شیطان مکمل شکست کھائے گا۔‘‘ چچا میاں نے تفصیل سے بات کی۔
’’یعنی کعبہ سونے میں تربتر ہو نہ ہو، مومنین کے دل اللہ کا گھر بن جائیں گے۔‘‘ زکریا نے کہا۔
’’ہاں بیٹا! دلوں میں جب منافقت، حرص، نفرت اور غرور کے بت ٹوٹیں گے تو کعبہ بھی بتوں سے پاک ہوجائے گا، پھر کعبہ سے حکم نکلے گا اور تمام دنیا پر نافذ ہوگا۔‘‘ چچا میاں نے کہا۔
زکریا کچھ سوچتے ہوئے بولا ’’مگر چچا میاں! میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی حکم کعبہ سے نہیں نکلتے تھے، احکامات مدینے سے دیے جاتے تھے اور تمام عرب پر نافذ ہوتے تھے۔ کعبہ عبادت کا مرکز ضرور تھا مگر حکومت کا مرکز تو مدینۃ النبی رہا۔‘‘
چچا میاں نے اثبات میں سر ہلایا ’’حاملینِ کعبہ کی نااہلی تو آج ہمیشہ سے بڑھ کر عیاں ہے، آلِ سعود سے بڑھ کر تو ترکی خلافت کا حق دار محسوس ہوتا ہے۔ امت کے مصائب پر آگے بڑھنا، امت کو جوڑ کر رکھنا، اور اغیار کی سازشوں سے نبرد آزما ہونا تو ترکوں کا شیوہ ہے۔‘‘ وہ بولے۔
’’اس طرح تو ترکوں اور عربوں میں خونریز اختلافات شروع ہوجائیں گے۔‘‘ زکریا نے کہا۔
’’بیٹا! ان سب باتوں کا دارومداراس پر ہے کہ مہدیؑ کس قوم سے نمودار ہوتے ہیں۔ ہمیں تو بس اُن کی اطاعت و اعانت میں جان دینی ہے، آگے اللہ کے فیصلے، اللہ جانے۔‘‘ چچا میاں بولے۔
’’صحیح…‘‘ زکریا نے تائید کی۔ ’’آپ کیا سمجھتے ہیں مہدیؑ کو امت آسانی سے قبول کرلے گی؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’چچا میاں مسکرانے لگے۔ ’’بیٹا! امت تو ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا مودودی اور ذاکر نائیک جیسوں پر بھی کفر کا فتویٰ لگا دیتی ہے، اور مہدیؑ جب ہزاروں سال کی پالی ہوئی بدعتوں پر ضرب لگائیں گے تو چیخیں نکلیں گی۔ مگر بات یہ ہے کہ یہ شیطان اور اللہ کی آخری جنگ ہے۔ اس جنگ کا نام آمیگیڈون ہے۔ اب اللہ کوئی لحاظ نہیں کرے گا، اب اتنا وقت ہی نہیں بچا کہ لحاظ کیا جائے یا مہلت دی جائے۔ قیامت آنے والی ہے، لہٰذا جو مہدیؑ کے راستے کی رکاوٹ بنے گا، وہ جڑ سے مٹا دیا جائے گا، اور مسلمانوں کی تو زیادہ پوچھ ہوگی، کیوں کہ مہدیؑ پیارے نبیؐ کے امتی ہیں اور ان کے ساتھ کی ذمے داری زیادہ تر امتِ محمدیہ کی ہے۔‘‘ انہوں نے تفصیل سے سمجھایا۔
زکریا بھی مسکرانے لگا ’’مگر ہمارے گھروں میں مہدیؑ کی آمد کی کچھ تیاری ہی نہیں ہے، قیامت کی سب نشانیاں پوری ہوگئیں، مہدیؑ کی آمد آمد ہے، آرمیگیڈون جنگ شروع ہوچکی ہے، کئی مسلم ملکوں کو راکھ کا ڈھیر بنایا جا چکا ہے، گریٹر اسرائیل تکمیل کے قریب ہے، تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر شروع ہوچکی ہے۔ اب بھی ہم اپنے بچوں کو مہدیؑ کے بارے میں نہیں بتاتے۔ ان بچوں کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوگا تو یہ مہدیؑ کو کیسے پہچانیں گے اور کیسے ان کا ساتھ دیں گے؟ ہماری خواتین ہی کچھ نہیں جانتیں، بچوں کو کیا بتائیں گی؟‘‘ اس نے فکرمندی سے کہا۔
’’اللہ سے اچھی امید رکھو، جب سورج نکلتا ہے تو سب پہچان لیتے ہیں۔ کوئی سورج کو نہیں جھٹلا سکتا۔ مہدیؑ بھی اس شان سے آئیں گے کہ خدا کی خدائی نافذ کردیں گے۔‘‘ چچا میاں نے کہا۔
’’ان شاء اللہ…‘‘ زکریا نے پُرسکون لہجے میں جواب دیا۔

حصہ