شریک مطالعہ، ڈاکٹر سید محمد انور کی تصنیف “میڈیا، اسلام اور ہم”۔

1444

نعیم الرحمن
ڈاکٹر سید محمد انورکی کتاب ’’میڈیا، اسلام اور ہم‘‘ بہت اہم موضوع پر اور بروقت کتاب ہے۔ میڈیا دور ِحاضرکی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ کتاب کا ایک ذیلی عنوان ’’اسلام کے نظریۂ سماع و ابلاغ کا مختصر‘‘ تعارف ہے۔ آج لوگوں کا رہن سہن، طرزِ گفتگو اور زندگی کا چلن میڈیا سے متاثر ہوتا ہے۔ بھارتی چینلز دیکھنے والوں کی گفتگو میں ہندی کے ایسے الفاظ جو ہمارے لیے نامانوس ہیں‘ عام استعمال کیے جاتے ہیں۔ بڑی بہن کو ’’دی‘‘ اور ماں کو ’’آئی‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ لباس اور فیشن بھی ٹی وی کے اداکاروں اور اینکرز کو دیکھ کر اختیار کیا جاتا ہے۔ ٹی وی کے علاوہ سوشل میڈیا جو اَب موبائل فون کی صورت میں ہر شخص کے ہاتھ میں ہر لمحہ موجود ہوتا ہے‘ رائے عامہ کو متاثر کرتا ہے۔ کوئی بھی فرد اپنے پاس آنے والے کمنٹس کو بلا سوچے سمجھے آگے بھیج دیتا ہے۔ یہ معاملہ مذہبی امور کے ساتھ بھی ہے، جہاں دین سے واقف علما اور دانش ور لوگوں کی درست رہنمائی کرتے ہیں وہیں کئی نام نہاد دانش ور اپنا ذاتی فہم اور رائے مستند علم کے طور پر بیان کردیتے ہیں۔ ان کے بہت سے ناظرین اسی غلط رائے کو درست جانتے ہوئے اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ ایمل پبلشرز کی عمدہ کتابت اور طباعت نے کتاب کو ظاہری حُسن سے بھی مالامال کیا ہے۔ ڈاکٹر سید محمد انور اس کتاب کی تحریر اور شاہد اعوان اسے شائع کرنے پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
حرفِ آغاز میں مصنف لکھتے ہیں کہ ’’میڈیا ہماری زندگی کی مجازی حقیقت ہے جو کہ ہماری زندگی پر اس دور میں سب سے زیادہ اثرانداز ہورہی ہے۔ یہ اثر مثبت بھی ہے اور منفی بھی۔ معلومات اور خبروں کی فراوانی، ان تک بآسانی رسائی، آپس کے تیز رفتار رابطے، یہ سب ایسے پہلو ہیں کہ ان کی افادیت سے انکار کیا جا سکتا ہے نہ اس سے مفر ممکن ہے۔ میڈیا ہماری زندگی کا جزو لاینفک بن چکا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ میڈیا میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کہ ہمارے مزاج یا ہمارے عقائد و نظریات سے متصادم ہوتی ہیں، ہمارے سیاسی نظریات کے خلاف ہوتی ہیں، ہمارے معاشی مفادات سے متصادم ہوتی ہیں، ہمارے معاشرتی نظام سے متصادم ہوسکتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس تصنیف کا ایک پہلو ان نظریات کو بیان کرنا ہے جو کہ میڈیا میں ہمارے دینِ اسلام کے خلاف نشر ہورہے ہیں۔ وہ باتیں جن کو بطور مسلمان سن کر، دیکھ کر یا پڑھ کر دکھ ہوتا ہے اور دل کڑھتا ہے، غصہ آتا ہے، بے بسی کا احساس ہوتا ہے۔ کبھی اسلام کے متعلق اپنے ہی لوگوں کے تبصرے سن کر ان لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، کبھی دشمنانِ اسلام کی کھلی سازش نظر آرہی ہوتی ہے، لیکن بے بسی کے سبب اپنا خون کھولانے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ کیفیت ہے جو اس کتاب کی تصنیف کا بنیادی محرک ہے، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ جو لوگ بھی مذکورہ بالا بیان کردہ ذہنی اور جذباتی کیفیت سے گزرتے ہیں، یہ ان کے لیے لکھی گئی ہے۔ میڈیا اتنی بڑی اور طاقتور حقیقت ہے کہ اس کو اپنی مرضی پر چلانا کسی کے اختیار میں نہیں۔ میڈیا کی دنیا ایک وسیع سمندر ہے جس پر قابو پانا تو ناممکن ہے لیکن ایسی کوشش کرنا بھی حماقتِ محض ہے۔ اس سمندر میں زندہ رہنے کے لیے، اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اولاً یہ لازمی ہے کہ ہمیں اس کی وسعت اور گہرائی کا صحیح اندازہ ہو۔ ہم اس کے ممکنہ خطرات سے واقف ہوں۔ کہاں کہاں، کیسی کیسی بلائیں اس میں پوشیدہ ہیں ان کا ہمیں ادراک ہو۔ اس میں چلنے کے راستے اور اپنی سمت درست رکھنے کا طریقہ ہمیں آتا ہو۔ اس کے مد و جزر پر ہماری نظر ہو۔ ان کے مضر اثرات سے بچنے کے طریقے ہمیں آتے ہوں اور ہمیں معلوم ہو کہ ان کو اپنے فائدے کے لیے کیسے استعمال کرنا ہے۔‘‘
اقتباس قدرے طویل ہوگیا لیکن کتاب کی مقصدیت واضح کرنے کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ ہماری نوجوان نسل کو میڈیا کے مضر اثرات سے محفوظ رکھتے ہوئے دورِ جدید کی اس اہم ترین ایجاد سے استفادہ کرنے کے لیے بھرپور معلومات دینا ضروری ہے، اور ’’میڈیا، اسلام اور ہم‘‘ کا مطالعہ ہر صاحبِ علم و فہم اور ہر طالب علم کو ضرور کرنا چاہیے۔ یہ کتاب صرف دردِ دل رکھنے والے عام مسلمانوں کے لیے اسلام کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔ مسلمانوں اور اسلام کو ہر دور میں مختلف فتنوں اور چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ دورِ حاضر اور مستقبل بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اسلام دشمن ہر دور میں نت نئے حربے اور طریقے اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جدید ترقی یافتہ دور میں دشمنان ِاسلام کے ہاتھ میں نئے، زیادہ دوررس، طاقت ور اور مہلک ہتھیار دے دیے گئے ہیں۔ دور جدید کے ان خطرناک ہتھیاروں میں میڈیا سب سے اہم اور مہلک ترین ہتھیار ہے جوکہ اس کتاب کا مرکزی موضوع ہے۔
دنیا میں ہونے والی کوئی بھی ایجاد بجائے خود غلط یا بری نہیں ہوتی۔ اس ایجاد کا استعمال غلط ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ریل گاڑی، لاؤڈ اسپیکر، تصویر، ٹی وی اور وی سی آر کو حرام قرار دیا گیا، پھر یہی حرام قرار دینے والے ان اشیا کو شہرت کے لیے استعمال کرنے میں آگے نظر آئے۔ مصنف نے بہت عمدگی سے اس کتاب میں میڈیا کے مثبت اور منفی پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ پوری کتاب میں ہر بات دلائل کے ساتھ کی گئی ہے اور ہر دلیل قرآن و حدیث سے پیش کی گئی ہے، جس سے اس کی افادیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
کتاب کے موضوعات کو واضح کرنے کے لیے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حصے کو ذیلی عنوانات سے مزید واضح کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ فی زمانہ میڈیا ہے کیا؟ اور میڈیا کے محرکات اور مضمرات کیا ہیں؟ پر بحث کرتا ہے۔ دوسرے حصے کے موضوعات ہیں: میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیسے استعمال ہورہا ہے؟ کیا یہ میڈیا پر اسلام دشمنی کے کوئی نئے طریقے ہیں؟ اور دینِ اسلام کے خلاف استعمال ہونے والے حربے اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟ تیسرا حصہ: قرآن کی نظر میں اسلام کا نظریہ سماع و ابلاغ کیا ہے؟ بطور سامع و ناظر ایک مسلمان کی ذمے داریاں کیا ہیں؟ بحث اور مکالمے کے اصول کیا ہیں؟ اور دعوت کے لیے میڈیا کے استعمال کے طریقے کیا ہیں؟ جب کہ چوتھا حصہ تیسرے حصے کی ہی توسیع ہے، جس میں قرآن کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں مصنف نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ میڈیا کی جدید دنیا میں ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جو ذرائع ابلاغ ہیں ان کے لیے کون سے اصول کس طرح کارفرما ہوں گے اور ہم ان مواقع سے کیا اور کس طرح استفادہ کرسکتے ہیں۔
’’میڈیا کیا ہے؟‘‘ میں مصنف نے بتایا ہے کہ ’’مختصر ترین طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں تک کوئی بھی خبر یا معلومات پہنچانے کا طریقہ میڈیا کہلاتا ہے۔ یہ معلومات یا خبر روزمرہ رونما ہونے والے واقعات زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہوسکتے ہیں۔ یہ معلومات یا خبریں لوگوں تک پہنچانے کے لیے کئی طریقہ کار استعمال میں لائے جاسکتے ہیں جیسے پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات، جرائد اور کتب وغیرہ کا ذریعہ، یا الیکٹرانک میـڈیا یعنی ٹی وی، ریڈیو وغیرہ کا ذریعہ، اور اب جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع یعنی انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز وغیرہ کا استعمال شامل ہے۔‘‘
میڈیا میں آنے والی کوئی بھی بات جنگل کی آگ کی طرح آناً فاناً پھیل جاتی ہے، لیکن یہ آگ جلانے کے ساتھ ساتھ روشنی بھی پھیلاتی ہے، یعنی میڈیا کے برے اثرات بھی ہوتے ہیں اور اچھے بھی۔ میڈیا اچھی اور بری خبروں کے ساتھ عوام کو تفریح بھی فراہم کرتا ہے۔ اب یہ اس سے استفادہ کرنے والوں پر ہے کہ وہ اسے فروغِ علم کا ذریعہ بنانے اور تفریح حاصل کرتے ہیں یا مضر اور جھوٹی اطلاعات کو پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ میڈیا کو مفید یا ضرر رساں بنانے کا دار و مدار اسے کنٹرول کرنے والے افراد پر ہوتا ہے۔ جس طرح آگ اگر نادان کے ہاتھ آجائے تو نقصان پہنچاتی ہے، جب کہ سمجھ دار لوگ اس سے روشنی پھیلانے اور دیگر کارآمد کام لیتے ہیں، اسی طرح میڈیا بھی کم علم، جاہل اور ناسمجھ افراد کے ہاتھ میں آکر قوم، ملک اور مذہب کو اپنی لاعلمی اور کج فہمی سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔ اس لیے اس شعبے میں قابل، اہل اور اسے ہر اعتبار سے سمجھنے والے لوگوں کو ہی چلانے کا موقع دینا چاہیے۔
عام طور پر میڈیا حکومت یا کاروباری ادارے چلاتے ہیں۔ کاروباری اغراض سے میڈیا ہاؤسز چلانے والوں کا واحد مقصد ہر صورت منافع کمانا ہوتا ہے۔ یہ مالکان منافع کمانے کے لیے ہر سچ جھوٹ اور دھوکے بازی کو جائز سمجھتے ہیں۔ حکومتی یا نظریاتی بنیاد پر قائم ذرائع ابلاغ اپنے مخصوص سیاسی، مذہبی نظریے کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی یہ اغراض مخفی بھی ہوتی ہیں اور ظاہری بھی۔ ایسے میڈیائی ادارے اپنے درست اور غلط نظریات اور خیالات پھیلانے کے لیے ہر کوشش کرتے ہیں کہ ان کا نظریہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے، ساتھ ہی وہ اپنے مخالف نظریات کے سدباب کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اپناتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے میڈیا کا اثر اور اہمیت بہت زیادہ بڑھا دی ہے۔ میڈیا بجائے خود اچھا یا برا نہیں ہے، اس کی اپنی خامیاں اورخوبیاں ہیں۔ اسے چلانے والے اپنی اغراض کے مطابق اسے مفید یا مضر بنادیتے ہیں۔
مسلمانوں کا عام خیال ہے کہ میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منظم انداز میں استعمال ہورہا ہے۔ انٹرنیٹ پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مواد کی بھرمار ہوتی ہے۔ ٹی وی نشریات میں بھی ان کی جھلک نظرآتی ہے۔ اس میں اسلام کی کھل کر مخالفت بھی ہوتی ہے اور مخفی طور پر بلا واسطہ بھی۔ اس میں بلا واسطہ طریقہ زیادہ ضرر رساں ہے، اس کو سمجھنا ازحد ضروری ہے تاکہ ہم اسے بہ خوبی سمجھ کر اس سے متاثر نہ ہوں۔ ڈاکٹر سید محمد انور کتاب کے دوسرے باب ’’دین اسلام اور میڈیا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’میڈیا پر اسلام مخالف الزامات اور حربوں کا مقصد صرف اور صرف ایک ہے کہ اسلام کا اصل پیغام لوگوں تک نہ پہنچ سکے، حق کی آواز جتنی ہوسکے دب جائے، لوگ دینِ حق کے قریب نہ جائیں اور اسلام لوگوں کے ذہنوں میں ایک عجیب و غریب نظریہ بن کر رہ جائے۔ اس صورت حال کو قرآن حکیم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے (ترجمہ): وہ اس پر ایمان نہیں لایا کرتے۔ قدیم سے اس قماش کے لوگوں کا یہی طریقہ چلا آرہا ہے۔
میڈیا مثبت بھی ہے اور منفی بھی۔ اب رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر بہت کچھ اچھا بھی ہورہا ہے اور بہت سی غلط باتیں بھی فروغ پا رہی ہیں۔ ہمیں صحیح اور غلط میں تمیزکرنا ہوگی۔ لیکن عموماً عوام منفی پروپیگنڈے، فیشن اور ڈراموں کے موضوعات سے متاثر ہوجاتے ہیں اور ان میں چھپے منفی پہلوئوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ ہر نبی اور پیغمبر کی اُس کے دور میں مخالفت کی گئی، اس کا مذاق اڑایا گیا، اسے جادوگر قرار دیا گیا۔ اسی طرح اسلام، مسلمانوں، ان کی تہذیب اور اقدار کا تمسخر بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ ہوا ہے اور ہوتا آرہا ہے۔ میڈیا ایک مؤثر آلہ اور ذریعہ ہے۔ اس پر دیا گیا کوئی بھی پیغام لوگوں کے ذہنوں میں بس جاتا ہے۔ اسے سمجھنے اور اس کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے، اور کتاب ’’میڈیا، اسلام اور ہم‘‘ اس ضرورت کو بہت خوبی اور عمدگی سے پیش کرتی ہے۔ مصنف نے بہت سادہ اور عام فہم انداز میں ہر پہلو کو واضح کیا ہے اور اس کے لیے دلائل قرآن و حدیث سے دیے گئے ہیں، جیسے انبیاء کا تمسخر اڑانے کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ پیش کیا گیا ہے (ترجمہ): اے محمدؐ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے، مگر اُن مذاق اڑانے والوں پر آخرکار وہی حقیقت مسلط ہوکر رہی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔‘‘
میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں پر ایک الزام جو عام طور پر لگتا ہے وہ یہ کہ اس مذہب کے ماننے والے برین واش ہوتے ہیں، ان کے ذہن بند ہوتے ہیں، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس مفروضے کو بنیاد بنا کر ایک کلیہ بنایا جاتا ہے کہ دینی مدارس لوگوں کو برین واش کررہے ہیں۔ یہ الزام مختلف لوگوں کے ذریعے مختلف انداز میں بار بار دہرایا جاتا ہے اور اکثر یہ جملہ بھی اپنی کم علمی چھپانے کے لیے ان کے منہ سے نکلتا ہے کہ ’’علماء دین کے ٹھیکیدار تو نہیں کہ ہم ان کے خلاف کوئی رائے نہیں دے سکتے‘‘۔ یہ وہی بات ہے کہ الٹا چورکوتوال کو ڈانٹے، یعنی خود دین کا کچھ علم نہیں اور دین کی ٹھیکیداری کا الزام ان علماء پر ہے جو دین کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔
دورِ جدید کا میڈیا روشن خیالی کو اسلام کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ روشن خیالی کے پرچارک افراد کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مادی ترقی ’’اسلام دشمنی‘‘ میں نہیں بلکہ محنت اور معاملات میں ایمان داری میں ہے۔ کتاب کے باب ’’دین ِ اسلام اور میڈیا‘‘ میں اسلام کے خلاف وہ حرکات جو ہمیں میڈیا میں روزانہ دکھائی اور سنائی دیتی ہیں، کی دس اقسام بیان کی گئی ہیں جو کوئی نئی نہیں بلکہ صدیوں پرانی ہیں۔ صرف میڈیا میں ان کی اصل صورت ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ ان سب اقسام اور رویوں کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ہر عنوان کے تحت اسلام کے خلاف ہونے والی جس کارستانی کا ذکر کیا گیا ہے اس میں ان حرکات کی وجوہ بھی بیان کی گئی ہیں، لیکن ان کے تدارک کے طریقے نہیں بتائے گئے، کیوں کہ ان سازشوں کے درست ادراک ہی سے ان کا تدارک ممکن ہے، یہ وہ باتیں یا طریقے ہیں جن سے اسلام کے پیغام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے‘ ان میں یہ امور شامل ہے:
دینِ اسلام، تعلیماتِ اسلام، مبلغین اور مسلمانوں کا تمسخر یا استہزا۔ مسلمانوں کو کسی طرح سحر زدہ ثابت کرنا، اسلامی تعلیم اور مدارسِ دینیہ کے خلاف مہم۔ اکابرِ اسلام اور مختلف مکاتب ِفکر کے علما پر الزامات، تاکہ ان کی باتوں کے اثرات زائل کیے جاسکیں۔ دینِ کامل کو محض عبادات تک محدود کرنے کی کاوش، دین اور دنیا کو الگ کرنے کا مطالبہ۔ میڈیا میں اغیار کی نمائندگی اور اس کی وجہ اور ان کا طریقہ کار۔ اسلام کی غلط تشریحات، بعید از قیاس تاویلات کو فروغ دینے کی کوشش، تاکہ اس کی شباہت مسخ کی جا سکے۔ لوگوں کو کھیل تماشے اور ناچ گانے میں الجھائے رکھنا۔ اسلام دشمنی کو روشن خیالی کے نام پر فروغ دینا۔ اسلام کے سوا دیگر نظریات کو متبادل کے طور پر فروغ دینا اور اعتدال پسندی کے نام پر اسلامی تعلیمات کے خلاف زہر افشانی کرنا۔
کتاب کا چوتھا باب ’’اسلام کا نظریہ سماع و ابلاغ‘‘ ہے۔ اس میں میڈیا کیا ہے؟ اسے کون کون کیسے اور کس غرض سے چلا رہا ہے؟ میڈیا کا وجود کسی بھی معاشرے کے لیے کتنا اہم اور مؤثر ہے؟ اور اس کی پہنچ کہاں تک ہے؟ اور میڈیا کس طرح اسلام کے خلاف اور کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ اس باب میں ذرائع ابلاغ کی ہیجانی دنیا میں اپنا قبلہ درست رکھنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ یہ معلومات کی دنیا ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں، جس میں ہر پل، ہر لمحہ معلومات کی یلغار جاری ہے جو ہر جانب سے ہورہی ہے۔ اخبارات، ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، سب معلومات کے ذرائع ہیں جن سے مفر ممکن نہیں ہے۔ یہ معلومات ہر موضوع پر جاری رہتی ہیں جن میں خبریں، تبصرے، مکالمے، ڈرامے، افواہیں، علم و دانائی کی باتیں، لغو و فضول بکواس ہر وقت، ہر لمحہ ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ معلومات کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے کچھ قوانین، اصول اور ضوابط وضع کیے ہیں جن کو سمجھنے اور ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس باب میں ہمیں اسلام کا میڈیا کے بارے میں نظریہ اور خبر کی اس دنیا میں ہمیں جینے کا طریقہ سمجھایا گیا ہے۔ کتاب کے اس حصے میں اسلام کے اس نظریے کو قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ اگر ان تمام احکامات کو جمع کرلیا جائے تو اس کے تجزیے سے علم ہوگا کہ اسلام ہم پر جو ذمے داریاں ڈالتا ہے ان کو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا: وہ ذمے داریاں جو ہم پر بطور سامع یعنی کسی خبر یا معلومات کے وصول کنندہ کے طور پرعائد ہوتی ہیں۔ دوسرا: وہ ذمے داریاں جو ہم پر بطور خبر گر یا بطور ناشر عائد ہوتی ہیں۔
اس طرح مجموعی طور پر یہ بہت معلومات افزا کتاب ہے جس سے قاری کو میڈیا اور اس کے حوالے سے ہم سب پر عائد ہونے والی ذمے داریوں سے آگاہ کیا گیا ہے۔ میڈیا ایک بہت بڑی طاقت ہے، اسے کسی ایک زاویے سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہ اسلام کے خلاف کس طرح استعمال ہورہا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، اورجو افراد اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں انہیں بھی یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ کتاب میں یہی کوشش کی گئی ہے کہ اس میں وہ ممکنہ عوامل اور ان کی وجوہ بتائی گئی ہیں جن کے کرنے یا نہ کرنے سے ہم میڈیا کے اسلام دشمن اور مسلم کش اثرات سے بچ سکتے ہیں، خصوصاً ہماری نئی نسل کے لیے یہ آگاہی بہت ضروری ہے۔ یہ دورِ جدیدکے حوالے سے مفیدکتاب ہے جس کا مطالعہ ہرشخص کوکرنا چاہیے۔

حصہ