پڑھا لکھا ہونا کافی نہیں

351

ناصر محمود بیگ
آج ارسلان کی زندگی کا سب سے قابل فخر دن تھا۔آج اسے اس کی چار سال کی محنت کا پھل ملنے والا تھا۔یونیورسٹی میں جلسہ تقسیم اسناد کی تقریب میں اس کواالیکٹریکل انجینئر نگ میں بی ایس کی ڈگری سے مل گئی۔خوشی خوشی گھر لوٹا اور اگلے دن سے روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا۔وہ جہاں بھی انٹرویو کے لئے جاتا اسے امیدواروں کی لمبی قطار آ گے نظر آتی۔ہر انٹرویو میں ایک ہی سوال ہوتا کہ آپ کا تجربہ کتنا ہے؟۔۔۔اس نے تو بچپن سے ایک ہی سبق پڑھا تھا کہ’’ پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب‘‘۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ صرف پڑھنے لکھنے سے،ڈگری لینے سے انسان کامیاب نہیں ہوتا۔دوران تعلیم جب اسے کہا جاتا کہ بیٹا گھر کا کوئی بجلی کا سوئچ ہی ٹھیک کر دو تو اس کا جواب نفی میں ہوتا۔۔۔اور خواب تھے اس کے الیکٹریکل انجینئر بننے کے۔۔۔!جب نوکری کی تلاش میںدر بدر کی ٹھوکریں کھائیں تو اسے سمجھ آئی کہ صرف پڑھنا لکھنا کافی نہیں۔۔۔مہارت ،صلاحیت،تجربہ اور قابلیت پیدا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔لہٰذا اس نے ایک چھوٹی سی فرم میں بطور الیکٹریشن کام کرنا شروع کر دیاتاکہ مطلوبہ تجربہ حاصل کیا جا سکے۔۔۔۔۔یہ کہانی ہر اس نوجوان کی ہے جو ایک تعلیمی ادارے سے فراغت حاصل کرتا ہے اورپھر اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے جاب مارکیٹ میں نکلتا ہے۔
بے شک تعلیم کسی بھی فرد یا معاشرے کی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے مگر میرا ماننا ہے کہ تربیت اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔جاپان میں سات سال تک بچے کو کچھ نہیں پڑھایا جاتاصرف اسے آداب زندگی سکھائے جاتے ہیں کہ سلام کیسے کرنا ہے، بات کیسے کرنی ہے ،کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا نیز زندگی کا ہر گر جو ایک بچہ سیکھ سکتا ہے اس سے بچے کو روشناس کرایا جاتا ہے۔پھر جا کے اس کو پڑھنے اور لکھنے کی طرف راغب کیا جاتا ہے ۔لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔ہمارے بچے کو سکھایا جاتا ہے کہ بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا افسر بننا ہے۔اس کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ پڑھ لکھ کر پہلے اچھا انسان بننا ہے بعد میں ایک ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہے۔جہاں صرف نمبروں اور ڈگریوں کی دوڑ ہو وہاں پھر بد عنوان سیاستدان،بے رحم ڈاکٹر ،غیر ذمہ دار انجینئر اور علم فروش سکالر پیدا نہ ہوں تو اور کیا ہو۔۔۔؟اور دوسرا قابل غور امر یہ کہ آج دنیا کو پڑھے لکھے لوگوں کی نہیں بلکہ’’ ایکسپرٹس‘‘ (ماہرین ) کی ضرورت ہے۔آج ہم جو بے روزگاری کا رونا روتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری جامعات دھڑا دھڑ ڈگریاں بانٹ رہی ہیں مگر ایکسپرٹ پیدا نہیں کر رہی۔
اللہ کریم نے اپنی لاریب کتاب میں بے عمل عالم کو گدھے سے تشبیہ دی ہے جس پر کتابیں لاد دی گئی ہوں ۔معروف دانشور اشفاق احمد کے مطابق تعلیمی سرٹیفکیٹس اور ڈگریاں تو صرف تعلیم پر ہونے والے اخراجات کی رسیدیں ہیں اصل علم تو وہ ہے جو انسان کے عمل سے ظاہر ہو ۔ آج ہمارا نظام تعلیم صرف مارکس اور ڈگریوں تک محدود ہے ۔ہمارا نو جوان یونیورسٹی کا امتحان تو اچھی جی پی اے میں پاس کر لیتا ہے مگر زندگی کے امتحان میں بری طرح فیل ہو جاتا ہے اوروجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کا مقصد صرف یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سے اچھا روزگار ملتا ہے جبکہ تعلیم کا اصل مقصد تربیت ہونا چا ہیے ۔ایک وقت تھا جب تعلیم برائے تربیت تھی بلکہ اسلام کی پہلی درسگاہ صفہ کو دیکھ لیں جہاں صرف تربیت ہی تربیت تھی پھر ہم نے تربیت کو تعلیم سے الگ کیا اور اب صرف تعلیم رہ گئی ہے اور تربیت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔یہ امتحانی نظام صرف بچے کے حافظے اور معلومات کو پرکھتا ہے جبکہ اس کی تخلیقی صلاحیتیں کہیں دب کر رہ جاتیں ہیں۔اب اساتذہ ،والدین اور اربابِ اختیار کو چاہیے کہ پڑھا لکھا پنجاب کا کھوکھلا نعرہ چھوڑ کر تربیت یافتہ پاکستان بنانے کا عزم کریں۔

حصہ