نور محمد کی چچی

650

سیدہ عنبرین عالم
نور محمد گائوں میں رہتا تھا‘ گائوں کا اسکول بس آٹھویں جماعت تک تھا‘ جب نور محمد نے آٹھویں پاس کر لی تو اس کے ابا نے اسے شہر میں چچا کے پاس رہنے بھیج دیا۔ نور محمد شہر پہنچا تو ایک اچھے اسکول میں اس کا داخلہ نویں جماعت میں کروا دیا گیا‘ رہنے کے لیے اس کا انتظام دادا کے کے کمرے میں کر دیا گیا۔ دادا شہر میں چچا کے ساتھ ہی رہتے تھے کیوں کہ ان کا دل کے اسپتال میں علاج چل رہا تھا‘ چچی امی بہت اچھی تھیں‘ کبھی نور محمد کو اپنے بچوں سے جدا نہ سمجھا‘ مگر گائوں کا ہونے کی وجہ سے نور محمد میں کچھ باتوں کی سمجھ نہیں تھی‘ تو چچی امی اسے سمجھاتی رہتی تھیں۔
چچی امی نے گھر کا ماحول ایسا بنا رکھا تھا کہ سنتوں پر سختی سے عمل ہوتا تھا‘ مٹی کی ہانڈی میں کھانا بناتیں اور مٹی کی پلیٹوں میں ہی کھایا جاتا‘ نور محمد حیران تھا کہ ہم گائوں میں بھی اسٹیل کے برتن استعمال کرتے ہیں اور یہ شہر میں بھی مٹی کے برتنوں میں کھانا پینا کرتے ہیں۔ چچی امی نے اپنی دونوں بیٹوں کو صرف شلوار قمیص پہننے کی عادت ڈالی تھی‘ پینٹ شرٹ ان کے پاس تھے ہی نہیں اور چوں کہ ہمارے نبیؐ ہر وقت سر ڈھانپ کر رہتے تھے‘ تو چچی امی کے دونوں بیٹے احمد اور عمر بھی ہر وقت ٹوپی پہنتے تھے۔ عشا سے پہلے کھانا ہو جاتا اور عشا پڑھ کر آتے ہی سب سو جاتے اور فجر میں اٹھ جاتے‘ ناشتے میں روز صرف جَو کا دلیہ ہوتا‘ کبھی میٹھا بناتیں اور پھل وغیرہ ڈال دیتیں‘ کبھی گوشت ڈال کر نمکین بناتیں اور کبھی سبزیاں ڈال دیتیں‘ ہاںاتوار کے روز ناشتے میں آلو کے پراٹھے بنا کرتے‘ جو دہی کے ساتھ کھانے ہوتے تھے۔ باہر کا کھانا کھانے کی بالکل اجازت نہیں تھی‘ ہر نماز مسجد جا کر پڑھنی پڑتی‘ ہر کام کی دعائیں بھی نور محمد کو یاد کرنی پڑیں‘ وہ بھی ترجمے کے ساتھ۔ فجر کے بعد چچی تینوں بچوں کو بٹھا کر قرآن کا ایک رکوع ترجمہ تفسیر کے ساتھ سکھاتی تھیں اور ایک حدیث بھی سمجھاتی تھیں۔ نور محمد نے ان سخت معمولات پر چچا سے شکایت کرنے کی بھی کوشش کی مگر چچا نے چچی امی کی کسی بات میں دخل دینے سے صاف انکار کر دیا۔ پڑھائی کے معاملے میں بھی چچی امی بہت سخت تھیں‘ شام کو 4 بجے تینوں بچوں کو پڑھانے بیٹھتی اور چھڑی سے بھی تواضع کر دیتیں۔ 6 بجے تک پڑھائی جاری رہتی۔ پھر وہ رات کا کھانا بنانے اٹھ جاتیں اور بچوں کو چھت پر کھیلنے بھیج دیتیں۔ ٹی وی دیکھنے یا باہر کھیلنے کی اجازت نہیں تھی‘ کھیل بھی صرف بھاگ دوڑ والے کھیلنے کا حکم تھا‘ بیٹھ کر کھیلنے والے کھیلوں کو وہ بے کار سمجھتی تھیں۔ نور محمد کے لیے یہ زندگی بہت ہی مشکل تھی‘ اس کا موبائل فون تک اس سے چھین لیا گیا تھا۔ کمپیوٹر پر صرف چچا کام کرتے تھے‘ کوئی پڑھائی کا معاملہ ہوتا تو چچی امی خود کمپیوٹر سے بیٹھ کر معاونت کراتیں۔ گائوں میں والدین سے بھی شکایت کی مگر ابا نے بری طرح جھڑک دیا اور گھر واپس بلانے سے انکار کر دیا۔
ایک روز تینوں بچے اسکول سے گھر آئے‘ نہانے دھونے کے بعد دستر خوان پر بیٹھے۔ چچا کے ہاں فرش پر بیٹھ کر ہاتھ سے کھانا کھانے کا رواج تھا۔ چمچ استعمال نہیں ہوتے تھے‘ کھانا لگا تو چچی امی نے توری کی سبزی کے ساتھ دہی کا رائتہ بنایا تھا اور ساتھ میں ابلے ہوئے چاول تھے۔ احمد اور عمر چپ چاپ کھانا کھانے لگے جب کہ نور محمد نے احتجاج شروع کر دیا:
’’چچی امی! آپ کم از کم ساتھ کباب ہی بنا لیتیں‘ ایسے بغیر گوشت کا کھانا کون کھائے گا اور سبزی میں بھی نہ تیل نہ مرچ‘ میں تو نہیں کھائوں گا ایسا بکواس کھانا‘ مجھے آپ نوڈلز بنا دیں۔‘‘ نور محمد نے کہا۔
چچی امی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ’’بیٹا! کھانا تو یہی ہے‘ اگر آپؒ کو پسند نہیں ہے تو آپ کی مرضی‘ آپ جا کر سو جائو‘ میں تین بجے آپ کو اٹھا دوں گی تاکہ آپ اپنے یونیفارم کو دھو سکو اور جوتے پالش کرلو‘ پھر چار بجے دودھ ملے گا اور پڑھائی شروع ہو جائے گی۔‘‘ انہوں نے کہا۔
نور محمد نے احمد اور عمر کی طرف جو سر جھکائے کھانا کھانے میں مصروف تھے اور ان کی طرف سے کسی احتجاج کی توقع رکھنا بے کار تھا۔ ’’میں تنگ آگیا ہو اس جیل کی زندگی سے‘ نہ اپنی مرضی سے کھا سکتے ہیں نہ سو سکتے ہیں‘ گھر میں اماں میرے کپڑے دھوتی تھیں‘ یہاں تو روز اپنے کپڑے بھی خود دھونے پڑتے ہیں‘ اب برداشت ختم ہوگئی۔‘‘ نور محمد نے چلا کر کہا۔
ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر پڑا ’’ہمارے گھر میں چیخنے چلانے کی اجازت نہیںہے‘ جو اصول ہیں وہ تبدیل نہیں کیے جاسکتے‘ آگے آپ سوچ لیں۔‘‘ چچی امی نے جواب دیا‘ دستر خوان سمیٹا‘ دونوں بیٹوں کے ساتھ نماز پڑھی اور تینوں ماں بیٹے سو گئے‘ کسی کو فکر ہی نہیں تھی کہ نور محمد نے کھانا نہیں کھایا حتیٰ کہ دادا نے بھی دیکھا کہ چچی امی نے اسے تھپڑ مارا ہے مگر وہ کچھ نہیں بولے۔
’’دادا! چچی امی نے مجھے مارا ہے‘ میں نہیں رہوں گا۔‘‘ نور محمد چلایا۔ دادا خاموشی سے اخبار پڑھتے رہے‘ پھر کہا ’’بدتمیزی تم نے کی تھی‘ اتنی گرمی ہے‘ بہو کیا تیل میں بھنے ہوئے مسالحے دار کھانا بنا دیتی‘ ایسی گرمی میں سادہ کھانا ہی کھاتے ہیں۔‘‘
’’آپ ڈرتے ہیں چچی امی سے‘ چچا بھی ڈرتے ہیں‘ انہوں نے گھر کو جیل بنا دیا۔‘‘ نور محمد بولا۔
’’بیٹا ایک وقت آئے گا کہ تم چچی امی کو دعا دو گے‘ ابھی تمہیں سمجھ نہیں ہے۔‘‘ دادا نے کہا۔
وہ پائوں پٹختا ہوا جا کر لیٹ گیا مگر بھوک کے مارے نیند بھی نہیں آرہی تھی‘ تین بجے کپڑے دھونے تھے‘ وہ بھی نہیں دھوئے‘ پڑھائی بھی نہیں کی یہاں تک کہ 7 بجے چچا دفتر سے گھر آگئے۔ نور محمد نے رو رو کر شکایتیں کیں۔ چچا نے چچی امی کو بلایا اور ’’بھئی کھانا دو میرے نور محمد کو۔‘‘
چچی نے وہی توری اور دہی کا رائتہ لاکر رکھ دیا۔ نور محمد تلملا کر رہ گیا مگر کھاتا نہ تو کیا کرتا۔ پھر دورے دن ہوم ورک نہ کرنے پر اسکول میں بھی بہت بے عزتی ہوئی‘ رفتہ رفتہ نور محمد سمجھ گیا کہ چچا کے ہاں رہنے کا مطلب ہے کہ چچی کی ہر بات مانی جائے‘ اسی میں بھلائی ہے۔
14 اگست آنے والی تھی‘ نور محمد نے چچا سے جھنڈیاں اور لائٹیں لگانے کے لیے پیسے مانگے۔ چچا نے کہا ’’ہمارے ہاں تو یہ سب آج تک نہیں ہوا‘ 14 اگست کے لیے پیسے آپ کی چچی امی کو دیتا ہوں‘ وہ احمد اور عمر کے دوستوں کی دعوت کرتی ہیں اور کچھ کتابیں خرید کر لاتی ہیں جو احمد اور عمر کے دوستوں میں تقسیم کردی جاتی ہیں‘ آپ چچی امی سے اجازت لے لیں‘ میں پیسے دے دوں گا۔‘‘
نور محمد نے قہقہہ لگایا ’’چچی امی تو اتنی کنجوس ہیں کہ کل انہوں نے بچی ہوئی روٹیاں اور بچے ہوئے سالن ساتھ ملا کر گھوٹ دیے اور کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے حلیم بنایا ہے‘ وہ تو کبھی ایک روپیہ خرچ کرنے کی بھی اجازت نہیں دیں گی۔ آپ ان سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
چچا کو نور محمد کی یہ بات بری لگی ’’بیٹا! کوئی ماں اپنی اولاد کے لیے برا نہیں سوچتی‘ میری ذمے داری جو ہے وہ میں پوری کرتا ہوں‘ البتہ آپ کے والد کے طرح میری زمینوں کی آمدنی نہیں ہے‘ نوکری پیشہ آدمی ہوں اور میری بیوی میری آمدنی میں بہت سلیقے سے گھر چلا رہی ہے‘ پھر بھی ہم 14 اگست ضرور منائیں گے‘ آپ اپنے دوستوں کو بلا لینا۔‘‘ چچا نے مختصر سا جواب دیا اور اٹھ گئے۔
14 اگست آئی‘ احمد‘ عمر اور نور محمد کے تقریباً 18 دوست گھر پر آئے‘ چچی امی نے دال گوشت اور پراٹھے بنائے‘ ساتھ میں لسی اور کیک کا بھی اہتمام کیا پھر چچی امی نے بیٹھ کر قائداعظم کی تقریریں سنائیں‘ علامہ اقبال کی شاعری سنائی اور اس کا مطلب سمجھایا‘ بچوں سے مختلف سوالات کیے۔ ’’نہ کوئی ہلا گلا‘ نہ ڈانس اور ترانے۔ کیا فائدہ ایسی 14 اگست کا۔‘‘ نور محمد سوچتا رہا اور ناخوش ہی رہا۔
دادا ہر اتوار کو تینوں بچوںکو کہیں نہ کہیں گھمانے لے جاتے تھے‘ کبھی لائبریری‘ کبھی میوزیم‘ کبھی چڑیا گھر تو کبھی کسی پارک‘ اب کہ سمندر پر جانے کا پروگرام بنا تھا‘ تو چچا اور چچی امی نے بھی کہہ دیا کہ ہم ساتھ چلیں گے‘ چچی امی نے احمد‘ عمر اور نور محمد کو کہا کہ کھانے پینے کا سارا انتظام تم لوگ کرو گے اور احمد کو 1,000 روپے دے دیے۔ نور محمد بضد تھا کہ دو بڑے پیزے منگا کر لے چلو جب کہ احمد نے ڈبل روٹیاں‘ انڈے‘ مایونز وغیرہ منگاکر سینڈوچ تیار کیے۔ پانی کی آدھے لیٹر والی خالی بوتلوں میں شربت بنا کر فریزر میں رکھ دیے تاکہ شربت جم جائے اور دیر تک ٹھنڈا رہے اور ہر ایک اپنی اپنی بوتل سے پیتا رہے‘ کیلے‘ بسکٹ‘ نمکو‘ چپس وغیرہ بھی رکھے گئے۔ یعنی اسی 1,000 میں کئی چیزیں آگئیں۔ دادا بہت خوش ہوئے اور اپنی طرف سے بھی 500 روپے دیے اور ان پیسوںسے احمد نے نور محمد کی خواہش بھی پوری کر دی جی ہاں آدھا کلو مرغی کا گوشت‘ کچھ سبزی اور میدہ لا کر امی سے پوچھ کر ان کی ترکیب سے پیزا بھی بنا دیا۔ چچی امی نے گھر کا بنا ہوا پنیر بھی پیزے میں ڈالنے کے لیے دے دیا‘ رات بھر تیاری ہوتی رہی‘ صبح سات بجے سب چچا کی گاڑی میں ہاکس بے کے لیے نکل پڑے۔ سب بے حد خوش تھے‘ ساحل پر چچی امی نے ابوجہل کے بیٹے کا واقعہ سنایا جو فتح مکہ پر مکے سے بھاگ گیا تھا مگر سمندر کو دیکھ کر اللہ رب العزت کی کبریائی کو پہچان گیا اور واپس مکے آکر ایمان لے آیا‘ شام کے 4 بجے وہ سب گھر پہنچے اور ایسے سوئے کہ پیر کی صبح اسکول جانے کے لیے ہی اٹھے۔ البتہ درمیان درمیان میں چچی امی نمازوں کے لیے اٹھاتی جاتیں۔
نور محمد کی عادات میں کافی بہتری آگئی تھی‘ اس نے اونچی آواز میں بولنا چھوڑ دیا تھا‘ اپنی چیزیں دل بڑا کرکے احمد اور عمر سے بانٹ لیا کرتا بلکہ اپنے گائوں سے آنے والے پیسوں سے گھر میں کبھی گوشت‘ کبھی دودھ‘ کبھی پھل لے آتا اور غریبوں کی بھی مدد کرنے لگا تھا۔ تفسیر قرآن اور احادیث میں اتنا طاق ہو گیا تھا کہ اکثر اپنے دوستوں کو آیات اور احادیث سمجھا دیتا۔ بات بے بات ضد اور لڑنا جھگڑنا اس نے چھوڑ دیا تھا‘ چچی امی کی بھی ہر بات ماننے لگا تھا۔ آخر کار چار سال گزر گئے‘ نور محمد نے انٹر انتہائی شاندار نمبروں سے پاس کر لیا تھا‘ بغیر کسی ٹیوشن کے‘ صرف چچی امی سے پڑھ کر اور اب اس کا انجینئرنگ یونیورسٹی میںداخلہ ہوگیا تھا‘ اور وہ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں منتقل ہو گیا تھا اور احمد CA کی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور عمر ابھی انٹر میں ہی تھا۔ ایک عید پر چچا نے سب کے ساتھ گائوں جانے کا پروگرام بنایا‘ نور محمد بھی اپنے والد کے گھر آیا‘ سب لوگ اس کے والد کے گھر ہی ٹھہرے۔ انہوں نے بڑا اہتمام کیا‘ دعوت کرکے سارے خاندان والوں کو بلایا روز طرح طرح کے پکوان اور میٹھے بنوائے جاتے‘ چچا کے سارے گھر والوں کے لیے عید کے تین تین جوڑے بنوائے‘ نور محمد کے والد بھی اس کا طرز عمل دیکھ کر حیران تھے‘ دھیمے دھیمے بولنا‘ ہر کام خود کرنا‘ جو دے دو چپ چاپ کھا لیتا‘ نہ ضد نہ بحث نہ حکم چلانا‘ وہ چچی امی کے مشکور تھے جنہوں نے ان کے بیٹے کی اتنی اچھی تربیت کی۔ انہوں نے چچی امی کو سونے کے سیٹ کا تحفہ دیا۔
پانچ سال اور گزر گئے‘ نور محمد انجینئرنگ مکمل کر چکا تھا اور اسے ایک اچھے ادارے میں نوکری مل گئی تھی‘ آج اسے پہلی تنخواہ ملی تھی جسے لے کر وہ چچی امی کے گھر پہنچا‘ چچی امی نے اسے بہت مبارک باد دی اور اس کی تنخواہ میں سے صرف ایک ہزار کا نوٹ رکھ لیا تاکہ مٹھائی منگوائی جاسکے۔ انہوں نے نور محمد سے کھانے کا پوچھا تو اس نے کھانا کھانے کی ہامی بھر لی۔ چچی امی کھانا لائیں تو توری کی سبزی‘ دہی کا رائتہ‘ ابلے ہوئے چاول ہاں ساتھ میں شامی کباب بھی تھے‘ نور محمد مسکرا اٹھا‘ وہی مٹی کی پلیٹیں اسے بچپن کی یاد دلا رہی تھیں‘ اس نے مٹی کے آب خورے میں پانی پیا اورکھانا شروع کردیا‘ البتہ کباب اس نے نہیں کھائے‘ سادہ کھانا ہی بہت مزا دے رہا تھا۔
’’بیٹا! سوچ سمجھ کر شادی کرنا‘ ایسی لڑکی ہو جو تمہاری نسلوں کو سنوار دے‘ صرف شکل صورت اور پیسہ دیکھ کر شادی مت کر لینا۔‘‘ چچی امی نے نور محمد سے کہا۔
’’جی چچی امی! جیسے آپ نے ریاضی میں ماسٹرز کیا‘ چاہتیں تو کسی بھی بینک میں لاکھوں کی نوکری مل جاتی‘ مگر آپ نے اپنا سارا علم اپنے بچوں میں منتقل کیا۔ کوئی ٹیوشن والا ہمیں اتنی توجہ اور محنت سے نہیں پڑھا سکتا تھا جیسے آپ نے پڑھایا‘ پھر ماشا اللہ دین کی سمجھ اور عشق کا فہم بھی آپ نے ہماری روحوں میں جذب کر دیا‘ کھانا ہم نے ہمیشہ سادہ کھایا مگر کردار ایک نمبر پایا۔‘‘ نور محمد بولا۔
چچی امی مسکرا دیں ’’میرا تھپڑ تو یاد ہے نا یا بھول گئے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’جی چچی امی! اسی ایک تھپڑ نے تو زندگی بدل دی‘ کیسے بھول سکتا ہوں۔‘‘ نور محمد بولا۔
’’بیٹا! یہ ایک مشن ہے‘ مجھے اللہ نے اپنے چند بندے تربیت کے لیے دیے تو میں نی انہیں اللہ کی راہ پر لگا دیا‘ اب جو بندے اللہ تمہیں تربیت کے لیے دے انہیں تم اللہ کی راہ پرلگا دینا‘ بیٹا! ہم تو اتنے وسائل نہیں رکھتے تھے مگر تم کسی یتیم بچی کو ضرور پالنا‘ اچھی تعلیم و تربیت کے بعد اچھی طرح رخصت کر دینا۔‘‘ چچی امی نے سمجھایا۔
’’بالکل اچھی امی! آپ کا حکم سر آنکھوں پر‘ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یتیم تھے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا بہت مقبول ہے۔‘‘ نور محمد نے جواب دیا۔
چچی امی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ’’میرا رب تمہیں دنیا اور آخرت کی کامیابی دے۔‘‘ انہوں نے نور محمد دل سے دعا دی۔
تمہارا کوئی بھی عمل تمہارے رب سے پوشیدہ نہیں ہے
نیت بھی دیکھتا ہے خدا‘ صرف عمل پر فیصلہ ہوتا نہیں ہے

حصہ