قلعی گر کا لڑکا

475

(قسط نمبر4)
تیسرے دن اس نے شہزادے کو بہت موٹی موٹی زنجیروں سے جکڑدیا اور ان کے سِروں پر بڑے بڑے قفل لگادیئے۔ کمرے کا دروازہ بھی مقفل کردیا اور باہر کا صدر دروازے میں زنجیریں چڑھادیں اور خود جاکر امید واروں کی قطار میں جاکھڑا ہوا۔ اچانک اس کی نظر قطار کے آخری سرے پر کھڑے اپنے لونڈے پر پڑی جس نے حسب معمول اپنے منھ پر خوب کالک ملی ہوئی تھی۔ اسے تو چکر آنے لگے کہ آخر وہ یہاں تک کیسے پہنچا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ اس کے گھر سے روانہ ہوتے ہی شہزادے نے گھوڑے کے بال کو رگڑاتھا جس کی وجہ سے پری زاد گھوڑا حاضر ہوگیا تھا اور جس نے سارے تالے اور زنجیریں کھول دی تھیں۔ جونہی قلعی گر شہزادی کے قریب سے گزرا اور شہزادی نے اس کی جانب کوئی توجہ نہ دی تو وہ حسب سابق نتیجے کا اعلان سنے بغیر ہی اپنے گھر کی جانب لوٹ گیا۔ صدر دروازے کو اسی طرح زنجیروں میں مقفل پایا۔ کمرہ بھی مقفل ہی تھا لیکن جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو ساری زنجیریں اور تالے کھلے ہوئے تھے اور اس کا لونڈا وہاں موجود نہیں تھا۔ اچانک اس کی نظر ایک کاغذ پر پڑی جس پر بڑے ادب کے ساتھ تحریر تھا کہ میں آج جارہا ہوں۔ اگر شہزادی مجھے پسند کر لے گی تو نہ جانے میں زندہ بھی بچوں یا نہیں کیونکہ بادشاہ مجھے سخت ناپسند کرتا ہے ہے جبکہ شہزادی مجھے ایک مدت سے پسند کرتی چلی آئی ہے اور ہر روز وہ مجھے سونے کی دو اشرفیاں محض اس لئے دیا کرتی تھی کہ اپنا حلیہ ٹھیک کرکے محل میں آیا کروں لیکن میں اپنی حیثیت خوب پہچانتا تھا اور آپ کا وفادار رہنا چاہتا تھا۔ اب تک اشرفیوں کی صورت میں کئی کلو سونا جمع ہوچکا ہے جو میں نے نقشے کے مطابق جگہ پر چھپایا ہوا ہے۔ چند منٹ بعد یہ ساری تحریر اور نقشہ مٹ جائے گا اس لئے آپ اس کے مٹ جانے سے قبل ہی وہ جگہ تلاش کرلیں۔ میری جانب سے اجازت ہے کہ اسے آپ جس طرح چاہیں استعمال کریں۔
دوسری جانب جونہی شہزادہ شہزادی کے پاس سے گزرا، شہزادی نے پھر اسی کا ہاتھ تھام لیا۔ بادشاہ اور ملکہ نے سارے موجود افراد سے جانے کا کہا، شہزادی اور قلعی گر کے لونڈے کو تنہائی میں لے جاکر شہزادی سے کہا کہ کیا تم جانتی ہو کہ یہ کون ہے۔ یہ قلعی گرکا لونڈا ہے۔ کیا تم اپنے ہوش و حواس میں اسے اپنا شوہر بنانا چاہ رہی ہو۔ شہزادی نے اثبات میں سر ہلایا تو بادشاہ نے کہا کہ پھر یاد رکھو کہ میں نہ تو تم کو اور نہ ہی اس حقیر قلعی گر کے لونڈے کو اپنے محل میں رہنے دونگا۔ میں اپنی ساری جائیداد سے بھی تم کو عاق کرتا ہوں۔ نکاح کے بعد میرے سپاہی تم دونوں کو جنگل میں چھوڑ آئیں گے۔ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تم زندہ رہو یا کوئی درندہ تم دونوں کو کھا جائے۔ کیا اس شرط پر بھی تم اسی قلعی گر کے لونڈے سے شادی کرنا پسند کروگی؟۔ شہزادی کا جواب اب بھی وہی تھا جس پر ملکہ اور بادشاہ کو ہی حیرت نہیں تھی بلکہ پورے شاہی خاندان اور سارے غلاموں اور کنیزوں کو بھی حیرت تھی کہ آخر شہزادی کو اس قلعی گر کے لونڈے میں کونسے سرخاب کے پر نظر آرہے ہیں۔
نکاح کے بعد ہی شاہی حکم کے تحت دونوں کو اگلی صبح ایک گھنے جنگل میں، جہاں ہر قسم کے خوفناک درندے اور موزی پائے جاتے تھے، وہاں چھوڑ دیا۔ جنگل کی پشت پر ایک بہت پڑا پہاڑ اور بلند پہاڑ بھی تھا۔ شہزادہ جو رات ہی بادشاہ کے ایک ویران حصے میں اپنے پری زاد گھوڑے کو طلب کرکے اپنی موجودہ صورت حال کے بارے میں آگاہ کرچکا تھا اس نے آکر اسے اطمنان دلادیا تھا کہ جو بھی آپ کے ساتھ ہورہا ہے یا ہونے والا ہے وہ سب آپ کی والدہ مرحومہ کی منشا کے مطابق ہے۔ آپ کو اب بھی اپنی حقیقت سب سے چھپا کر ہی رکھنی ہے۔ یہاں تک کہ اپنی ہونے والی بیوی کے سامنے بھی حقیقت نہیں کھولنی۔ مایوس نہیں ہونا ہے۔ جنگل کا کوئی موزی اور درندہ آپ دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا بلکہ یہ سب آپ کے محافظ ہونگے۔ جونہی بادشاہ کے محافظ آپ کو چھوڑ کر جائیں گے آپ دونوں پہاڑ کی جانب چلے آئیے گا۔ وہاں ایک عام سا غار ہوگا وہاں رہائش اختیار کر لیجئے گا۔ وہاں ایسا سکون ملے گا جو شہزادی نے کبھی محسوس نہیں کیا ہوگا۔ آپ کا فی الحال یہی کام ہوگا کہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں فروخت کریں اور حلیہ پہلے جیسا ہی رکھیں البتہ شہزادی کے سامنے بے شک صاف ستھرے بن کر رہ سکتے ہیں۔
بادشاہ کے سپاہی دونوں کو جنگل میں چھوڑ کر واپس چلے گئے تو شہزادی کا مارے خوف کے برا حال ہو گیا لیکن وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئی کہ قلعی گر کا لونڈا (شہزادہ) بہت خوش نظر آرہا تھا۔ چال میں ایسا مردانہ پن اس نے آج تک کسی میں نہ دیکھا تھا۔ اسے پہلی مرتبہ لگا کہ جیسے وہ کوئی شہزادہ ہو۔ یہ دیکھ کر اسکا خوف جیسے جاتا رہا۔ شہزادی نے کہا اب کیا ہوگا۔ ہم کہاں سر چھپائیں گے۔ شہزادے نے کہا کہ جب تک زندگی کی سانسیں مقدر میں ہیں انھیں کوئی نہیں چھین سکتا۔ تم مت گھبراؤ کوئی نہ کوئی ایسی جگہ ضرور مل جائے گی جہاں ہم رہ سکیں۔ قلعی گر کے لونڈے (شہزادے) کی باتیں سن کر اسے کافی تسلی ہوئی۔ شہزادہ پہاڑ کی جانب بڑھتا رہا۔ راستے میں خطرناک موزیوں اور درندوں کو دیکھ کر شہزادی کو ڈر لگا تو شہزادے نے کہا کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ ہماری ضرور حفاظت کریگا اور کوئی بھی موت سے پہلے ہمارا کچھ بگاڑ نہ پائے گا۔
دوپہر سے پہلے وہ پہاڑ کے قریب پہنچ گئے۔ ذرا بلندی پر انھیں ایک غار دکھائی دے رہا تھا۔ قریب پہنچ کر انھوں نے دیکھا کہ غار باہر سے تو کافی چھوٹا نظر آرہا تھا لیکن اندر سے ایک کشادہ کمرے کے برابر بڑا تھا۔ شہزادی جونہی اندر داخل ہوئی اسے یوں لگا جیسے وہ کسی کے تحفظ میں آگئی ہو۔ سارا خوف جیسے دور ہوگیا ہو۔ اس کے سارے اعصاب پر سکون ہوگئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر جیسے اسے بڑی راحت مل گئی اور وہ غار میں موجود ایک مسہری سائز کے پتھر پر دراز ہو گئی۔ اس مسہری پر عجیب سی ریت تھی۔ ہلکے گلابی رنگ کی۔ بہت ملائم۔ اسے یوں لگا جیسے وہ آرام دہ گدا ہو۔ اس نے اٹھ کر اپنا جائزہ لیا تو اس کے لباس پر ریت یا مٹی کا کوئی ذرا سا بھی نشان نہیں تھا۔ اسے بہت حیرت ہوئی۔ قلعی گر کے لونڈے (شہزادے) نے شہزادی کو مطمئن دیکھا تو کہا کہ وہ باہر جاکر ماحول کا جائزہ لینا چاہتا ہے اور دوپہر کے ساتھ ساتھ شام کے کھانے کا اور پینے کے پانی کا انتظام بھی کرنا چاہتا ہے۔ کل کے متعلق کل سوچیں گے۔ یہ کہہ کر وہ باہر نکلا۔ کچھ ہی دور اس کو پانی کا ایک چشمہ بھی مل گیا۔ کچھ ایسے پتھر بھی مل گئے جن کو کوزوں کی طرح استعمال کیا جاسکتا تھا۔ غار کے قریب ہی ایسا گڑھابھی مل گیا جس میں کافی پانی اسٹور کیا جاسکتا تھا۔ سب سے پہلے اس نے پانی جمع کیا۔ پھر درختوں کی مختلف شاخوں کو توڑ کر بہت سے بھالے بنائے تاکہ کسی بھی خطرے کا مقابلہ کیا جاسکے۔ کمانیں بنائیں اور تیر بھی بنائے۔ پھر تیر کمان کے ذریعے تین چار بڑے پرندوں کا شکار کیا اور غار کی جانب لوٹا تو شہزادی کو غار میں مطمئن پاکر بہت خوش ہوا۔ دونوں نے مل کر پرندوں کو بھونا اور کھایا۔ ایک تو بھوک اور دوسری جانب ایسا قدرتی ماحول، شہزادی کو کھانے میں اتنا لطف آیا جو محل کے اعلیٰ سے اعلیٰ پکوان کھاکر بھی کبھی نہیں آیا تھا۔
دن گزرتے رہے۔ شہزادہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر جمع کرتا۔ ان کو فروخت کرنے شہرجاتا۔ جو رقم ملتی ان میں سے ضرورت کی کھانے پینے اور پہنے اوڑھنے کی اشیا بھی خریدتا اور کچھ رقم بچا بھی لیتا۔ کچھ دنوں بعد اس کے پاس اتنی رقم جمع ہو گئی کہ اس نے ایک گدھا گاڑی بھی خرید لی۔ گدھا گاڑی کی وجہ سے اسے شہر آنے جانے میں آسانی بھی ہو گئی اور آمدنی میں بھی اضافہ ہوگیا۔
شہزادی بھی اب جانوروں سے مانوس ہو گئی تھی۔ اسے حیرت تھی کہ جنگل کے سارے درندے اور پرندے ان کو نہ تو کچھ کہتے تھے اور نہ ہی ان کا رویہ غیر دوستانہ تھا۔ اسے ایسا بھی لگتا تھا جیسے دن رات وہ اس کی اور قلعی گر کے لونڈے (شہزادے) کی حفاظت کیا کرتے ہیں۔ وہ غار کے آس پاس اور بلند درختوں پر سپاہیوں کی طرح پہرہ دیتے محسوس ہوتے تھے۔ شہزادی کو یقین ہوچلا تھا کہ ایسا سب کچھ قلعی گر کے لونڈے (شہزادے) کی وجہ سے ہے۔ وہ بہادر اور نڈر اور بے حد محنتی انسان ہے اور شاید وہ کوئی شہزادہ بھی ہو۔ اس کا دل تو یہی کہتا تھا لیکن وہ جب بھی قلعی گر کے لونڈے (شہزادے) سے پوچھتی کہ آخر وہ کون ہے تو جواب میں ہمیشہ وہ یہی کہتا کہ میں وہی قلعی گر کا لونڈا ہوں جس کو تم دو اشرفیاں دیا کرتی تھیں۔
ایک دن جب شہزادہ شہر سے لکڑیاں بیچ کرواپس آیا تو وہ کافی فکر مند فکر مند سا لگا۔ شہزادی نے وجہ معلوم کی تو اس نے کہا کہ شہر میں یہ خبر گرم تھی کہ تمہارے والد صاحب کسی عجیب بیماری کا شکار ہو گئے ہیں اور طبیب خاص نے کہا ہے کہ اگر ان کو کالے ہرن کا دل ایک ہفتے تک لگاتار نہیں کھلایا گیا تو ان کا زندہ رہنا ممکن نہ رہے گا۔ کل تمہارے سارے بہنوئی کالے ہرن کی تلاش میں اس جنگل میں آئیں گے اس لئے میں نے ایسا انتظام کردیا ہے کہ انھیں غار کا یہ دہانہ دکھائی ہی نہیں دے گا۔ تم بھی ان کے جانے سے پہلے باہر نہ نکلنا۔ شہزادی اپنے والد کی بیماری کا سن کر بہت پریشان ہو گئی۔ باہر نہ نکلنے کا بھی وعدہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ قلعی گر کے لونڈے (شہزادے) سے کہا کہ کیا تم میرے والد کیلئے کالے ہرن کا شکار نہیں کروگے۔ وہ پہلے تو خاموش رہا پھر کہا کہ میں نے بھی سوچا ہے کہ کچھ کروں اس لئے میں بہت صبح سے ہی کالے ہرنوں کی تلاش میں نکل جاؤں گا۔ تم پریشان نہیں ہونا اس لئے کہ رات بھی ہو سکتی ہے۔ ایک تو یہ دعا کرنا کہ میں کامیاب ہو جاؤں اور یہ دعا بھی کرنا کہ بادشاہ سلامت میرے محل میں جانے پر خفا ہوکر میری زندگی کے پیچھے ہی نہ پڑجائیں۔ پھر بھی میں جاونگا ضرور۔ شہزادی اس کی باتیں سن کر پریشان تو ہوئی اس لئے کہ بادشاہ صاف صاف کہہ چکا تھا کہ اول تو تم دونوں کو جنگلی جانور ہی نہ چھوڑیں گے لیکن اگر وہ زندہ بچ بھی گئے تو محل کی جانب واپس نہ آئیں۔ اگر ایسا کیا تو جلاد تمہاری گردنیں اڑا کر رکھ دیں گے۔
اگلی صبح شہزادہ جنگل میں بہت دور نکل گیا۔ گدھے کو ایسی جگہ چھپایا جہاں کسی کی نظر پہنچ ہی نہ سکے۔ جلدی سے پیر میں بندھاہوا گھوڑے کا بال کھول کر اسے ایک پتھر پر رگڑا تو پری زاد حاضر ہوگیا۔ شہزادے نے کہا کہ فوری طور پر ایک بہت ہی بڑا خیمہ لگایا جائے اور اس جنگل میں جتنے بھی کالے ہرن ہیں وہ اس خیمے میں لاکر جمع کردیئے ئیں۔ کوئی ایک ہرن بھی آس پاس کے جنگل میں نہیں رہ جانا چاہیے۔ ٹینٹ کے ارد گرد پہرے دار ہوں اور ساتھ ہی ساتھ ایک بڑا سا تخت (عام بیٹھنے والا) بچھا کر اس پر عام سی دری سجادی جائے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ آناً فاناً سارے کام ہوگئے تو پری زاد گھوڑے نے اجازت چاہی۔
(جاری ہے)

حصہ