شاندار عید

481

عشرت زاہد
اس مرتبہ رمضان شروع ہونے سے کچھ دن پہلے تک ہم کافی فکرمند تھے کہ اتنی شدید گرمی میں روزہ رکھنا۔ اب تک تو ہم رمضان میں پندرہ بیس روزے رکھ لیتے تھے تھے جب کبھی اسپورٹس ڈے ہو یا کوئی اور پروگرام ہو یا سحری میں اٹھنے کا دل نہیں چاہا تو آرام سے روزہ چھوڑ دیتے تھے۔ لیکن اس مرتبہ بات ہی کچھ اور تھی۔
ایک تو یہ کہ ہم خیر سے بڑے یعنی پورے بارہ سال کے ہوگئے ہیں۔ اور ہماری کلاس میں تقریباً سارے ہی بچے یہی کہہ رہے تھے، کہ اس مرتبہ پورے روزے رکھیںگے۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ ہم نے سعد ماموں سے وعدہ جو کر لیا تھا۔ کہ اس مرتبہ ہم پوری بہادری کے ساتھ سخت گرمی کا مقابلہ کریںگے اور کوئی روزہ نہیں چھوڑیں گے۔ پھر جب ہم نے اسکول پہلی مئی سے بند ہونے کا سنا تو ہمارا ہمارا دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس مرتبہ روزہ رکھ کر اسکول نہیں جانا پڑے گا۔ساتھ ہی فجر کی نماز کے بعد تلاوت قرآن کر کے اطمینان سے لمبی تان کر سو سکیںگے۔
اللہ کے کرم سے رمضان شروع ہوئے۔ ہم گرمی سے جتنا ڈر رہے تھے اتنی گرمی پڑی ہی نہیں اور روزے آسانی سے گزرتے گئے۔ موسم کافی بہتر تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو عشرے بڑی تیزی سے گزر گئے۔ ہمارے گھر والے یعنی امی، ابو، بھائی جان، اور باجی ہماری خوب حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ اس لئے ہم بہت خوش تھے۔ جیسے ہی تیسرا عشرہ شروع ہوا تو گھر کا ماحول ایک دم بدل گیا تھا۔ گھر کا ہر فرد شب بیداری میں مصروف کوئی قرآن مجید پڑھ رہا ہوتا، تو کوئی نوافل پڑھ رہا ہوتا۔ کسی کے ہاتھ میں تسبیح ہے تو کوئی حدیث پڑھ رہا ہوتا۔ ابو جان روزا نہ ترجمان الحدیث سے کچھ احادیث سناتے اور ان کی تشریح بیان کرتے۔ چونکہ دن میں تو سب ہی مصروف ہوتے تھے، اس لیے رات میں سب اکٹھے بیٹھ کر کچھ وقت اسٹڈی سرکل میں گزارتے۔ ایسے میں باجی سب کے لئے لیے کبھی چائے تو کبھی لسی بنا کر لاتیں۔
بس اس طرح سے یہ آخری عشرہ گزر گیا اور چاند رات آپہنچی تھی۔ اللہ کا بہت احسان ہے کہ ہمارے روزے بہت آسانی کے ساتھ مکمل ہو چکے تھے۔
جیسے ہی چاند نظر آنے کا اعلان ہوا ہم نے لپک کر امی کا موبائل اٹھایا اور نانی کے گھر کا نمبر ڈائل کیا۔ نانی، خالہ سب کو مبارکباد دی سعد ماموں گھر پر نہیں تھے۔ اس لیے ہمارے جوش پر جیسے پانی پھر گیا پتا نہیں کہاں ہوں گے ماموں۔ یا تو محلے کے بچوں کے ساتھ عید کا کوئی پروگرام کرنے میں لگے ہوئے ہوں گے۔
ہم نے بے دلی سے اپنے اور ابو کے کپڑے نکال کر استری کئے اور ہینگر میں ٹانگ دئیے۔ اتنے میں میں عشاء کی اذان ہو گئی۔ امی نے کہا “بیٹا، عشاء کی نماز کے بعد کچھ نوافل پڑھ لینا۔ اللہ کا شکر ادا کرنا پہلی مرتبہ پورے روزے رکھے ہیں نا۔۔۔آج کی رات تو مزدور کو اس کی مزدوری ملتی ہے۔ سارے مہینے کی محنت کا اجر و ثواب ہمارے حصے میں خوب بڑھا چڑھا کر لکھ دیا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے نا” “جی امی ٹھیک ہے۔”
“کیا بات ہے؟ ہے میرے بیٹے کا منہ کیوں اترا ہوا ہے؟ امی وہ سعد ماموں پتا نہیں کہاں ہیں۔ فون کیا تو گھر پر نہیں تھے۔ اور موبائل بھی نہیں اٹھا رہے ہیں۔”
“اچھا تو یہ وجہ ہے۔۔۔۔چلو کوئی بات نہیں میں فون کرکے پتا کرتی ہوں۔ چلو تم نماز کی تیاری کر لو اور واپسی پر یہ سامان بھی لے آنا” امی نے لسٹ اور پیسے تھماتے ہوئے کہا۔
“ٹھیک ہے امی”
ہم اتنے دنوں سے تراویح پڑھ رہے تھے اس لئے آج ہمیں عشاء کی نماز بہت ہلکی محسوس ہوئی۔ الحمدللہ ہماری تمام نمازیں اس مرتبہ باجماعت ادا ہوئی تھیں اور تراویح بھی۔
اس مرتبہ واقعی ماہ رمضان بہت ہی اچھا گزرا تھا۔ ہم بہت خوش تھے۔
نماز کے بعد امی کا بتایا ہوا سامان لیا اور جلدی سے گھر پہنچے۔
تو سعد ماموں کے قہقہوں اور باتوں کی آواز باہر تک آ رہی تھی تھی۔ ہم نے بے تابی سے گیٹ کھولا اور برآمدے میں قدم رکھا ہی تھا کہ ہماری نظر نیلے رنگ کی نئی چمچماتی ہوئی سائیکل پر بڑی۔ اُف کس قدر خوب صورت سائیکل تھی۔ اس کے ہینڈل پر کچھ غبارے بھی لگے ھوئے تھے۔ جس کو دیکھ کر ہمیں تھوڑی سی شرم بھی آئی کہ ہم اب کوئی بچے تھوڑی ہیں۔ ہم نے فرط مسرت سے ایک زور دار نعرہ لگایا۔”ماموں زندہ باد” اتنی دیر میں سب گھر والے بھی باہر آ چکے تھے اور ہنستے ہوئے ہماری خوشی میں شریک ہو رہے تھے۔ ہم نے سائیکل کو قریب جاکر چھو کر دیکھا۔ اسٹیل کے چمکتے ہوئے ہینڈل کی ٹھنڈک کے احساس سے ہمارے دل میں بھی ٹھنڈک سی پڑ گئی۔ ہم پلٹے اور خوشی سے ماموں سے لپٹ گئے۔” ارے ارے بھانجے میاں ہاتھ میں جو سامان ہے وہ تو پہلے رکھ آو۔ پسند آیا عید کا تحفہ، ہمارے پیارے بھانجے کو؟”
“جی ماموں، بے حد پسند آیا۔ بہت شکریہ” بیٹا میں روزانہ آپ کی امی سے آپ کی دن بھر کی رپورٹ لیتا تھا اور الحمدللہ روزانہ اچھی ہی رپورٹ ملتی تھی۔ شاباش۔۔۔۔ اگر ذرا سی بھی گڑبڑ کرتے تو شاید… ماموں نے مسکراتے ہوئے جملہ ادھورا چھوڑا تھا۔ ابھی ہم سائیکل کو اچھی طرح دیکھ ہی رہے تھے۔ تو ابو نے کہا “عبد الرحمن بیٹا، اتنا پیارا تحفہ آپ نے وصول تو کر لیا مگر کیا اس کو چلانا بھی آتا ہے آپ کو؟؟”
” ابو میں نے دو تین بار دوست کی سائیکل لے کر کوشش کی تھی۔ لیکن سیکھ نہیں پایا۔ دو تین بار سائیکل سمیت گرنے سے سائیکل کا ہینڈل بھی ٹیڑھا ہوگیا تھا۔ تو دوست نے سائیکل دینے سے منع کردیا تھا۔ لیکن اب تو کوئی مسئلہ نہیں، ہماری اپنی سائیکل آگئی ہے۔ اب تو ہم سیکھ لیں گے اطمینان سے۔”
“اچھا تو جناب آپ کو ابھی سائیکل چلانی بھی نہیں آتی؟” سعد ماموں نے ایک ہاتھ کی مٹھی دوسرے ہاتھ پر مارتے ہوئے کہا۔ ” اب کیا کریں؟اب یہ کار خیر بھی مجھے ہی انجام دینا پڑیگا۔ چلو بھانجے، سکھا ہی دیتے ہیں آپ کو سائیکل”
” نہیں نہیں کھانا بالکل تیار ہے پہلے کھانا کھا لو۔ پھر تم لوگ میدان چلے جانا” امی نے فورا” مداخلت کی۔
خوشی کے مارے ہماری تو جیسے بھوک ہی اڑ گئی تھی۔ جیسے تیسے دو چار نوالے منہ میں ڈالے۔
ہمارے گھر کے قریب ہی الفلاح مسجد ہے اور اس کے سامنے بڑا سا میدان ہے۔ جو الفلاح گراؤنڈ کہلاتا ہے۔ جیسے ہی میدان میں پہنچے ماموں نے کہا کے “بھانجے میاں ذرا جلدی سیکھنے کی کوشش کرنا۔ آج بس آدھا گھنٹہ دے سکتا ہوں۔ تمہیں تو پتا ہے گھر میں اور باہر بھی آج کے دن کتنے کام ہوتے ہیں۔ ابھی جاکر پردے بھی ٹانگنے ہیں۔ اور کچھ لڑکوں کے عید گفٹ پہنچانا باقی ہیں۔ میں تو بس آپ کا گفٹ پہنچانے آیا تھا۔ لیکن خیر۔۔۔۔
اب کچھ باتیں اچھی طرح سمجھ لو۔یوں تو سائیکل چلانا اور سیکھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مگر جس نے اس سے پہلے نہیں چلائی ہو اس کو شروع میں تھوڑا ڈر تو لگے گا۔ بس اسی طرح سوار ہو کر ایک پیڈل پر زور دینا ہے۔ تو دوسرا پیڈل خود ہی اوپر آجائیگا۔ پھر اس کو آگے کی طرف زور دے کر بڑھانا ہے۔ اسی طرح سے توازن قائم رہتا ہے۔ اور ہاں دونوں پیروں کو چلانے میں ایک تسلسل ایک، ردھم قائم رکھنا ہوتا ہے۔ سمجھ رہے ہو نا”
ہم کچھ سمجھے اور کچھ نہیں۔۔۔۔۔ مگر اثبات میں سر ہلا کر بتا دیا یا کہ سمجھ گئے۔
“ٹھیک ہے، اب بسم اللہ پڑھ کر سوار ہو جاؤ۔ میں نے پیچھے سے سے سیٹ کو پکڑا ہوا ہے۔ ان شاء اللہ جلدی سیکھ لو گے۔ اب تم برابر پیڈل مارتے جاؤ اور رکنا نہیں ہے۔ اس طرح سے ہنڈل کو اپنے قابو میں رکھنا۔ سامنے کوئی پتھر یا گڑھا آجائے تو دائیں یا بائیں موڑ کر بچنا ہے۔ اور جس طرف مڑنا ہو اس طرف ہینڈل موڑ دیتے ہیں”
“جی ماموں اتنا تو معلوم ہے مجھے”
“چلو پھر ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ ون، ٹو، تھری۔۔۔ اور ہماری سائیکل چل پڑی تھی۔ ماموں نے سائیکل کو پیچھے سے پکڑا ہوا تھا۔ جو بیلنس یعنی کا توازن قائم رکھنے میں کافی مددگار ثابت ہو رہا تھا۔ لیکن تھوڑی ہی دور جا کر ہماری سائیکل ٹکرا کر ایک طرف کو گر چکی تھی۔ اور ظاہر ہے ہے اس کے ساتھ ہم بھی۔
قصور سائیکل کا نہیں تھا وہ تو بہت ہی سبک رفتار اور ہلکی تھی۔ ہم خود ہی پیڈل مارنے کی رفتار برقرار نہیں رکھ سکے تھے۔ نتیجے میں گر پڑے تھے۔ اس طرف کی کہنی اور گھٹنے پر کچھ خراشیں آگئی تھیں۔ ہم تھوڑے رویوں سے ہو گئے تھے۔ ماموں کہنے لگے۔
” ارے کوئی بات نہیں میرے شیر۔۔۔ گرتے ہیں سائیکل سوار ہی میدان الفلاح میں۔۔ کوئی بات نہیں تم کوئی ننھے بچے تھوڑی ہو۔ تم تو میرے بہادر بھانجے ہو۔ چلو شاباش دوبارہ کوشش کرو ہم فورا” کھڑے ہوگئے اور دوبارہ شیر سواری او۔۔۔ معاف کیجیے، سائیکل سواری شروع کردی۔ اس مرتبہ کافی دور تک آرام سے چلاتے رہے ہمارے پیر اور پیڈل دونوں کافی حد تک رواں ہو چکے تھے۔ میدان کا آدھا چکر تو ہم نے لگا ہی لیا تھا۔ لیکن پھر شومئی قسمت، سامنے والے پہیے کے نیچے پتھر آگیا اور اچانک ہینڈل مڑ گیا اور ہم پھر زمین بوس ہوچکے تھے۔ اس بار ماموں نے سہارا دیا اور اٹھایا وہ بیچارے بھی ہمارے ساتھ بھاگتے ہوئے ہانپ رہے تھے۔
” واہ تم نے تو بہت جلدی ترقی کرلی۔ بہت اچھی طرح چلائی ہے اس بار۔ چلو بس اب آخری بار۔ میرے موبائل پر مسلسل میسجز آ رہے ہیں۔ مجھے جلدی پہنچنا ہے۔ چلو اب پورا چکر مکمل کرنا ہے”
لو جی ہم نے پھر سے اپنے حواس اور حوصلے جمع کئے اور بسم اللہ کہتے ہوئے سائیکل پر سوار ہو گئے۔
ماموں پھر ہمارے ساتھ ساتھ دوڑ رہے تھے۔ اب ہمیں اچھی طرح سے سمجھ میں آگیا تھا کہ توازن کس طرح سے قائم رکھتے ہیں۔ ہم اپنی دھن میں مگن خوب اچھی طرح پیڈل مار رہے تھے اور تقریبا پورا چکر مکمل کر لیا اور شاباشی لینے کے لئے ماموں کی طرف دیکھا ،مگر یہ کیا ماموں کا دور دور تک پتا ہی نہیں تھا۔
اور یہی وہ لمحہ تھا ہم جب تیسری مرتبہ دھڑام سے گر پڑے تھے۔
ماموں دور سے دوڑتے ہوئے آئے اور وہ خوب ہنس رہے تھے۔ شاباش عبدالرحمان، میرے پیارے بھانجے۔ مبارک ہو۔۔ تم نے ایک ہی دن میں، نہیں، نہیں۔ ایک ہی گھنٹے میں بہت اچھی سائیکل چلانا سیکھ لی ہے۔ ویری گڈ۔ تم نے تو میرا دل خوش کردیا۔ چلو اب کچھ باتیں اور سمجھ لو”
ماموں جب بہت خوش ہوتے تو ہمارا پورا نام لیتے۔۔۔ عبدالرحمن۔۔۔ جب رفتار ہلکی کرنا ہو تو تو پیڈل ہلکے ماریں گے۔ اور جب رکنا ہو تو بریک لگاتے ہیں۔ الٹے ہاتھ والا بریک دبانے سے پیچھے والا پہیہ رک جاتا ہے اور زیادہ تر یہی بریک استعمال کیا جاتا ہے۔ سیدھے ہاتھ والے بریک دبانے سے سامنے والا پہیہ رکتا ہے۔ مگر احتیاط ضروری ہے۔ اگر رفتار تیز ہو گئی تو سیدھے ہاتھ والا بریک نہیں دبانا۔ اس سے سائیکل الٹ جاتی ہے اور چوٹ لگ سکتی ہے۔الٹے ہاتھ کا بریک لگا کر ایک طرف کو جھک جاؤ تو پاؤں آسانی سے زمین پر ٹک جائے گا اور پھر آرام سے سائیکل سے اتر جانا۔ ٹھیک ہے نا اور ہاں صرف میدان میں ہی چلانا اور ریس وغیرہ لگانے سے بچنا۔ اور روڈ پر چلانا ہو تو ہمیشہ بائیں طرف رہنا۔ رفتار مناسب رکھو تو چوٹ نہیں لگتی۔ ضروری نہیں کہ بڑی گاڑیوں کا ہی ایکسیڈنٹ یعنی حادثہ ہو ، سائیکل سے گر کر بھی چوٹ لگ سکتی ہے۔ بس احتیاط کرنا ہے۔ ہمیشہ دعا پڑھ کر سوار ہونا۔ سواری کی دعا پڑھ لینا۔ چلو اب اپنی سواری پر گھر پہنچوں جو میں پیچھے پیچھے آ رہا ہوں”
اور ہم اپنی ذاتی سواری پر بغیر لڑھکے آرام سے گھر پہنچ گئے۔ یوں ہم نے سائیکل چلانا بھی سیکھ لی۔
” شکریہ ماموں ، آپ نے وعدہ پورا کیا۔یہ چاند رات اور عید ہماری زندگی کی یادگار عید ہوگی کیونکہ اس بار سائیکل کی وجہ سے یہ عید شاندار گزرے گی ان شاء اللہ۔

حصہ