دل پھینک

1875

ابنِ عباس
یہ دل بھی خوب ہے، جس نے سب کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے، یا شاید ہم نے اپنے آپ کوخود ہی اس کے حوالے کررکھا ہے… تبھی تو کسی کا دل نہ توڑو، میرے دل نے تجھے چاہا، دل کی آنکھوں سے دیکھو، تم دل میں رہتے ہو جیسے گانے بناکر دل کی اہمیت ایسی بڑھائی کہ وہ آپے سے باہر ہوتا چلا گیا… اور کیوں نہ ہوتا، میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہم نے خود کو اس کے حوالے کررکھا ہے تو ظاہر ہے کہ زندگی کے سارے فیصلے کرنے کا اختیار بھی اسی کے پاس ہے، جیسے کہ میرا دل کہہ رہا ہے: وہ ضرور آئے گی، یہاں دل نہیں لگ رہا کہیں اور چلتے ہیں، دل بہت اداس ہے، کام کرنے کو دل نہیں چاہ رہا، وغیرہ وغیرہ… اسی بنیاد پر دل نے انسان کو سست، کاہل، کام چور اور ہڈحرام تک بنا ڈالا۔
بندو بھائی تو اس کی کسی بھی بات پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ بتا رہے تھے کہ پچھلے دنوں رشید کہہ رہا تھا کہ زلیخا اس کے ’’دل‘‘ میں رہتی ہے، اس لیے شادی اس سے ہی کرے گا۔ اسی دن وہ گلی میں گھومتی نظر آئی، یعنی دل جھوٹ بھی ٹکا کے بولتا ہے۔ بھلا بتاؤ، گلی میں گھومتی پھرتی لڑکی کو اپنے آپ میں رکھنے کا چکر دے کر رشید کو باؤلا کررکھا ہے۔
ایک اور بات جس کے وہ چشم دید گواہ ہیں، سناتے ہوئے کچھ یوں گویا ہوئے: ’’محلے میں رہنے والے وارث عرف چغلی کو ’’چغلی‘‘ کھانے کی صفت کی وجہ سے کون نہیں جانتا! اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کا دل انتہائی کالا ہے، جب وہ مرا تو اتفاق سے پوسٹ مارٹم کے وقت میں بھی اسپتال میں ہی موجود تھا، میں نے خود دیکھا کہ اس کا دل لال ہی تھا، یہاں بھی اس نگوڑے دل نے ہی لوگوں کو ٹوپی کروائی۔‘‘
پھر بولے: ’’لوگوں کی طرح پہلے میں بھی اس کے چکر میں آجاتا تھا، ظاہر ہے جب بڑے بڑے ڈاکٹر اور سائنس دان بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو میں کس کھیت کی مولی ہوں! لیکن اللہ بھلا کرے اجمل سراج کا، جس نے اسے اوقات میں رکھنے کا ایسا نسخہ دیا جس کی وجہ سے سب چکر بازی بھول کر ایک طرف جا بیٹھا، مجال ہے ذرا بھی ٹس سے مس ہوسکے۔ وہ دن جائے آج کا آئے، جیسے ہی کسی قسم کی کوئی بھی حرکت یا گڑبڑ کرنے کی کوشش کرتا ہے میں فوراً ہی یہ شعرپڑھ کر اسے اس کی اوقات پر لے آتا ہوں:

میں نے اے دل تجھے سینے سے لگایا ہوا ہے
اور تُو ہے کہ میری جان کو آیا ہوا ہے

فوراً ہی اپنی حد میں ہوجاتا ہے۔ جانتا ہے کہ اجمل سراج نے اصل نبض پکڑ لی ہے اور دنیا کو بتادیا ہے کہ اس نے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا، بلکہ ہم نے اسے اپنے سینے میں رکھا ہوا ہے، ذرا سی ہیکڑی دکھانے پر اٹھا کے باہر بھی پھینکا جاسکتا ہے۔ بس اُس دن سے اپنی عزت بچائے چپ چاپ سینے میں ہی بیٹھا رہتا ہے، اب تو محلے والوں نے بھی مجھے بندو بھائی کے بجائے ’’دل پھینک‘‘ کہہ کر پکارنا شروع کردیا ہے، اس سے میری زندگی میں یہ مسئلہ تو ضرور پیدا ہوا ہے کہ اس لقب سے میری بیوی مجھ سے جلنے لگی ہے۔ سو دل کو جلانے اور سبق سکھانے کے مقابلے میں بیوی کا تپنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ظاہر ہے مجھے جتنی مرتبہ بھی ’’دل پھینک‘‘ کہہ کر پکارا جائے گا یہ دل اتنا ہی سہمے گا… اور پھر بیوی کا کیا ہے، اگر بات مزید بگڑی تو اجمل سراج کا یہ شعر سناکر سارے گلے شکوے دور کردوں گا:

کچھ اس کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں
ہم اس بات پر مسکرا سکتے ہیں

یہاں مسکرانے سے مجھے یاد آیا،دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مسکرا کے چل دیے، اسی گانے میں آگے چل کر،چاند بھی ہوگا تارے بھی ہوں گے پھول چمن میں سارے ہی ہوں گے لیکن ہمارا دل نہ لگے گا، اب ان صاحب سے کون پوچھے کہ دل لگانے کے لیے بھلا کونسی کھاد اور مٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ تو بس اتنا ہی کہہ دینے سے لگ جایا کرتا ہے کہ دل لگا لیا ہے میں نے تم سے پیار کرکے تم سے پیار کرکے، یعنی جو کام فقط دو جملے ادا کر دینے سے ہو جائے اس کے لئے سارے موسم گنوانے اور باغوں میں گھمانے کی کیا ضرورت؟
میں نے جو کہا ہے کہ اجمل سراج نے دل کی اس نبض کو پکڑ لیا ہے جس نے اسے حد میں کردیا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی شاعری میں دل کی تمام کیفیت سے نمٹنے کے خاصے گرموجود ہیں ایسانہیں کہ اجمل سراج فقط دل کو ڈرانے اور دھمکانیکا فن ہی جانتے ہیں بلکہ ان کی شاعری میں تو دل کی کیفیت کے مختلف رنگ موجود ہیں یہ دو اشعار ہی دیکھ لیجیے:

دل کو رکھتے ہیں ہم عزیز بہت
اور دل کو ہیں غم عزیز بہت

دل اپنا راستہ خود ڈھونڈتا ہے
تماشا دیکھتی رہتی ہیں آنکھیں

یہی وجہ ہے کہ اجمل سراج کی شاعری میں لفظی صنعت گری کے بجائے اظہار کی خوش سلیقگی اور برجستگی پائی جاتی ہے۔

حصہ