بُری سے بُری جمہوریت

534

اوریا مقبول جان
سیکولر، لبرل اور جمہوریت پسند مسلمان اسکالرز کا کمال یہ ہے کہ انہیں شدت پسندی، دہشت گردی اور امن دشمنی صرف اور صرف مسلمان معاشروں میں نظر آتی ہے اور اس کی جڑیں بھی وہ کہیں نہ کہیں سے کھینچ کھانچ کر آمریت میں نکال لیتے ہیں۔ آمریت بھی وہ جس کا سربراہ اسلام کے نام کا استعمال کرتا ہو، ورنہ مصر کا جمال عبد الناصر ہو یا پاکستان کے ایوب خان اور مشرف، ان کے ادوار تو دراصل ان اسکالرز کے نزدیک شدت پسندی سے جنگ کرتے ہوئے گزرے۔ ان عظیم اور جدید مسلمان اسکالرز کے نزدیک جمہوریت ہی تمام دکھوں کا واحد علاج ہے۔
کس قدر غیر حقیقت پسندانہ فقرہ بولا جاتا ہے کہ ’’بری سے بری جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے۔‘‘ آمریت میں امن ہو، خوش حالی ہو، لوگ چین کی نیند سوتے ہوں، مذہبی آزادی ہو لیکن یہ سب کا سب اس لیے قابل مذمت ہے کہ ریاست کا سربراہ ایک مطلق العنان شخص ہے ووٹ کے بغیر برسر اقتدار آیا تھا۔ لیکن اگر ویسا ہی مطلق العنان شخص معاشرے میں موجود 51 فیصد شدت پسند اور متعصب افراد کے ووٹ لے کر ریاست کا سربراہ بن جائے تو اس کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں۔ وہ معتبر، معزز اور باعزت کہلایا جاتا ہے، اس کو گالی نہیں دی جاسکتی کیوں کہ اس کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہے۔ وہ بھتہ خور ہو، بددیانت، چور، قاتل ہو یا ڈاکوئوں کا سرپرست اور دہشت گردوں کو پناہ دینے والا ہی کیوں نہ ہو‘ وہ عوام کے ووٹ سے اس منصب پر پہنچا ہے اس لیے وہ دیوتا ہے۔
ایسے مغرب زدہ اسکالرز کی گزشتہ چند دنوں سے خاموشی دیدنی ہے۔ ان میں صرف مسلمان جدت پسند مذہبی اسکالرز ہی نہیں بلکہ وہ ملحد‘ جو ریاست کے کاروبار سے مذہب کو خارج سمجھتے ہیں‘ نام نہاد انسانیت جن کا مذہب، جمہوریت جن کا ایمان اور سیکولرزم جن کا یقین ہے، ان کے قلم بھی چپ، زبانیں گنگ اور چہرے حیرت کی تصویر ہیں۔
میں سوچتا ہوں کاش بھارت میں مسلمان اکثریت ہوتی اور کوئی شدت پسند مسلمان نریندر مودی کی جگہ الیکشن میں اکثریت حاصل کرکے اقتدار کی کرسی پر آتا، جیسے مصر میں 65 فیصد ووٹ لے کر مرسی برسراقتدار آیا تھا تو پھر ان دانش وروں کے منہ سے کیسے جھاگ نکل رہی ہوتی، آنکھیں غصے سے اُبل کر باہر آ جاتیں، عالمی طاقتوں کو پکارتے پھرتے کہ دیکھو اس طوفان کو روکو، ورنہ یہ دنیا کا امن تباہ و برباد کر دے گا۔ دیکھو ان کی صفوں میں شدت پسند اور دہشت گرد گھسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جمہوری لبادہ پہنا ہوا ہے، یہ عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ لیکن آج ان تمام منافقین کی زبانیں خاموش ہیں۔
چند روز قبل ہونے والے بھارتی انتخابات ایسے گزر گئے جیسے ایک معمول کا واقعہ تھا۔ حالانکہ یہ انتخابات اگلے آنے والے سالوں کا ایک متشدد رخ متعین کر چکے ہیں۔ شدت پسندی، نسلی تعصب اور امن دشمنی کی جمہوری ٹرین ابتدائی مشکل کھاٹیوں سے نکل کر کھلے میدانوں میں فراٹے بھر رہی ہے۔ اس نے سرکاری ڈبوں سے مسلمانوں کو نکال کر باہر پھینک دیا ہے۔ بیس فیصد سے زیادہ مسلمان اقلیت والے بھارت کے 545 کے ایوان میں صرف 24 ارکان ہیں اور برسراقتدار بی جے پی کے 303 ارکان میں سے ایک بھی مسلمان نہیں جبکہ جمہوریت اگر ایک نمائندہ نظام حکومت ہوتا تو مسلمانوں کی ایوان میں 109 سیٹیں ہونی چاہیے تھیں۔ لیکن جمہوریت کا تو خمیر ہی اکثریت کی آمریت سے اٹھا ہے۔ دس میں سے ایک شخص اگر سچ بول رہا ہو،حق کی بات کر رہا ہو مگر نو لوگ اس سچ اور حق کو اپنے ووٹ کی طاقت سے بد نام اور رسوا کر سکتے ہیں، اسے جھوٹا ثابت کر سکتے ہیں اور ایسی بری سے بری جمہوریت بھی ان ’’اسکالرز‘‘ کے نزدیک ہزار درجے اس آمریت سے بہتر ہے جو اس ایک فیصد حق اور سچ کا پرچم بزور گاڑ سکتی ہے۔
بھارتی اکثریت کی اس آمریت کا ایک منظر دیدنی ہے اور یہ منظر گزشتہ 27 سال سے مسلسل چلا آ رہا ہے، بابری مسجد کی شہادت سے اس منظر کا پردہ اٹھتا ہے اور گیروے رنگ میں ملبوس شدت پسند جمہوری ٹرین میں کودتے ہیں، 2002ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات میں مسلمان اقلیت کے لوگ عوامی اکثریت کے غصے کی آگ میں زندہ جلائے جاتے ہیں، چوکوں میں ان کی عورتوں کی اجتماعی آبرو ریزی ہوتی ہے اور اس قتل و غارت کی آگ سے نریندر مودی کا چہرہ جمہوریت کے ’’اگنی دیوتا‘‘ کی طرح نکھر کر سامنے آتا ہے۔ اس دوران پولیس ایک مسلمان جوڑے سہراب الدین شیخ اور اس کی بیوی کو دہشت گرد کہہ کر مار دیتی ہے۔ سپریم کورٹ اسے جعلی پولیس مقابلہ قرار دے کر پولیس والوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیتی ہے اور یہ واضح سچ جمہوریت کی کسوٹی پر اس وقت آتا ہے جب 2007ء کے ریاستی الیکشن کا جمہوری بازار سج چکا ہوتا ہے۔
نریندر مودی ان دنوں کے ہوم منسٹر اور آج بی جے پی کے سربراہ ، امیت شاہ کے ساتھ آخری بڑے الیکشن کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے آج جنتا بتائے کہ ہم سہراب الدین جیسے لوگوں کے ساتھ کیا کریں تو عوام کا جم غفیر‘ جس میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے ایک دم ایک ساتھ پکارتا ہے’’ماردو، ماردو‘‘ اور اس کے بعد مودی کی جمہوری ٹرین پر اس کی کامیابی کا پرچم لہرا جاتا ہے، سر بلند ہو جاتا ہے۔ وہ دوبارہ جیت جاتا ہے۔ ٹھیک بارہ سال بعد جمہوری کامیابی کا یہ سفر آج اپنی جیت کی بلندیوں پر ہے۔ ہر اقلیت اس کے پہیوں تلے آکر کچلی جا چکی ہے۔ ایسے میں جمہوریت کے زندہ پردۂ سیمیں پر ایک منظر ابھرتا ہے۔ یہ منظر نریندر مودی کی دلّی میں جیت کی ریلی سے خطاب سے زیادہ خوفناک ہے۔ یہ بھارت کے جمہوری سفر کی اگلی منزل کا پتا دیتا ہے۔ ایک 49 سالہ خاتون ،علامتی طور پر گیروے کپڑوں میں ملبوس ہوکر اپنی فتح کا جشن منانے بھوپال شہر میں جمع لاکھوں لوگوں کے ہجوم کے سامنے کھڑی ہے۔ اس نے اپنے مد مقابل سابق وزیراعلیٰ کو تین لاکھ چونسٹھ ہزار آٹھ سو بائیس (3,64,822) ووٹوں کی برتری سے ہرایا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے صرف چند لوگوں نے ہی اس کے مخالف کو ووٹ دیے ہوں گے۔ یہ خاتون پرگیا سنگھ ہے جسے ’’سادھو دی پرگیا‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
زمانہ طالب علمی میں سنگھ پریوار کے اسٹوڈنٹ ونگ کی سربراہ، پھر بجرنگ دَل کے خواتین ونگ درگا واہنی کی اہم رکن۔ یہ بھارت میں شاید واحد ہندو عورت ہے جس پر دہشت گردی کا مقدمہ درج ہے۔ مسلمانوں کی ایک بستی مالی گائوں میں 2008ء میں بم دھماکے کرنے کا مقدمہ ،جس میں آٹھ مسلمان شہید اور سو کے قریب زخمی ہوئے۔ یہ ان دھماکوں کی مرکزی مجرم ہے جس کے خلاف 400 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ جمع کروائی گئی ہے۔ مودی کے الیکشن میں اس کا چہرہ ایک علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک ایسی دیوی جو آئندہ بھارت کو ہندو راشٹریہ (ہندو ریاست) بنائے گی۔ ’’ابھیناوئو بھارت‘‘ وہ تنظیم ہے جو اپنے ارکان کو بھارت ماتا کی قسم دے کر حلف لیتی ہے کہ وہ اس دھرتی کو پلیچھ (ناپاک) مسلمانوں سے پاک کر دیں گے اور بھارت صرف ہندوئوں کا ہو جائے جہاں منوسمرتی کا قانون نافذ ہوگا۔
بی جے پی، سنگھ پریوار اور آر ایس ایس اس کے حلیف ہیں اور سادھوی پرگیا ان سب کا سیاسی چہرہ ہے اور اب یہ چہرہ بھارت کی ’’اکثریت کی آمریت‘‘ والی جمہوریت کا چہرہ بن چکا ہے۔ ایک شدت پسند، امن مخالف، اقلیت دشمن اور دہشت گرد چہرہ جسے ووٹ کا مکمل احترام حاصل ہے۔
یہ ہے وہ ’’بری سے بری جمہوریت‘‘ جس میں بسنے والی اقلیتیں ایک ایسے آمر کا خواب دیکھتی ہیں جو انہیں اس اکثریت کی آمریت سے نجات دلائے۔ یہ وہ جمہوریت یا آمریت ہے‘ ایسی بستی کو قرآن ’’قریہ ظالم‘‘ کہتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ تم ایسے قریہ میں بسنے والے مظلوموں کی مدد کو نکلو، خواہ مظلوم مسلمان ہو یا نہ ہوں۔ یہ ہے وہ بری سے بری جمہوریت جہاں مظلوم کسی مقامی آمر نہیں بلکہ بیرونی حملہ آوروں کے خواب دیکھا کرتے ہیں۔

حصہ